بہ ہر شئے تو مشہود لاریب فیہ توئ توئی موجود لاریب فیہ چوں خواہی بہ لحظے جہاں محو شد چناں کہ ایں نابود لاریب فیہ توئی بود و ہست و بود تو فقط تو مسجودومعبود لاریب فیہ بعید از گماں فضلِ ربِ جہاں کرم غیر محدود لاریب فیہ مع العسر یسرا بخوان و بداں خدا را ایں فرمود لاریب فیہ سر آید غمِ دہر بالکلیہ غمِ دین افزود لاریب فیہ مریضِ محبت را تریاقیت بود زہرآلود لاریب فیہ فریبِ نظر ہست رنگِ جہاں وفا ہست مفقود لاریب فیہ من عمر گرانمایہ کردم...
او احمد او محمود لاریب فیہاو مطلوب و مقصود لاریب فیہ ہماں مظہرِ ذاتِ رب العلیٰاو شاہد او مشہود لاریب فیہ جہاں در ولائے حبیبِ خداہمہ خاک آلود لاریب فیہ انا سیدالناس یوم الجزاءنبی خود ایں فرمود لاریب فیہ دلِ سوختہ ام او شمعِ فروزبتدریج افزود لاریب فیہ لقد جائکم چونکہ فرمود رباو را ذکرِ مولود لاریب فیہ !سراجا منیرا ،اے خورشیدِ ماشوی مخزنِ جود لاریب فیہ بعہدِ وفائے رسولِ حشمہمہ فضل معہود لاریب فیہ چوں خوشنودیِ مصطفیٰ یافتیخدا از تو خوشنود لاریب فیہ گرفتارِ گستاخیِ مصطفیٰز سر تا پا مردود لاریب فیہ نماند اگر عشقِ شہ، اے سحرؔشود زہد...
نگاہِ یار نے لوٹا بڑے قرینے سے رہا نہ واسطہ مرنے سے اور جینے سے تڑپ رہاہے مرا دل، تڑپ رہی ہے جاں لگالے یار مجھےآج اپنے سینے سے جو تونے کی ہے کرم کی نظر، جزاک اللہ وگر نہ بات بھی کوئی کرے کمینے سے خدائے پاک کا احساں ہے یہ وجود ترا کہ ایک دنیا ہے آباد اس خزینے سے !چڑھا دیا ہے جہاں تو نے، مجھکو اے رہبر نہ پھیرنا کبھی ان قربتوں کے زینے سے رہا نہ شوق مجھے بادہ نوشی کا پیارے سکوں ملے گا نظر سے تمہاری پینے سے تمہاری کشتی ہے پیارے نجات کا ذریعہ اتارنا نہ مجھے اپنے اس سفینے سے !مرے وجود کو تو پاک کردے اے صفوی ہراک طرح کی کدورت سے اور کینے سے میں میکشی کا ہوں یوں منتظر پیارے، خود کہ جیسے جام چھلکـتا ہے آبگینے سے مری طویل شبِ غم کی بھی سحؔر آئے مرقع ہو مری انگشتری نگینے سے ذرا ذرا سی عنایات سے گزر کر اب سحؔر بھی خوب ہی پائے ترے خزینے سے
(درشان مولائے کائنات علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم منقبت کے اکیس اشعار بہ نسبت تاریخِ شہادت) جدھر دیکھو جلوہ ہے مولیٰ علی کاانوکھا تجلا ہے مولیٰ علی کا رہِ عقبیٰ رستہ ہےمولیٰ علی کاعدو بھٹکا پھرتا ہے مولیٰ علی کا گدا گرچہ تنہا ہے مولیٰ علی کاولیکن سہارا ہے مولیٰ علی کا مرے سایےسے بھی بلا کیوں نہ بھاگےمرے سر پہ سایہ ہے مولیٰ علی کا فلک محوِ حیرت ہے . ہے کون اونچاہوں میں یا کہ تلوا ہےمولیٰ علی کا خدا کا وہی ہے نبی کا وہی ہےجو مولیٰ علی کا ہے مولیٰ علی کا مع المرتضیٰ حق. من المرتضیٰ حقزحق ربط گہرا ہے...
یہ باب حرم ہے باب حرم، یہ روح بشر کی جنت ہے احرامِ یقیں ہے زاد سفر، تعلیم یہاں کی محبت ہے تعلیم، جنوں کی ہوتی ہے، یہ مکتب ہے ہشیاروں کا اصلاحِ زمانہ مقصد ہے، یہ مذہب ہے مے خواروں کا مضبوط یقین وعمل پیہم، یہ مسکن ہے ابراروں کا یاں قلب ونظر کی جنگ نہیں، یہ مشرب ہے سرشاروں کا تنہا یاں شریعت ناقص ہے، تنہا یاں حرام طریقت ہے یہ باب حرم ہے باب حرم، یہ روح بشر کی جنت ہے اسلام کا پیکر بن جاؤ، ایمان سے دل کو گرماؤ اسلاف کی سیرت...
उस मालिक के सिवा जगत में नहीं कोई दूजा करतार नबी रसूल मुहम्मद साहब जगतगुरु अंतिम अवतार वाहिद एक वही करतार अहद अकेला सर्जन हार उसकी कु़दरत अपरंपार पूज उसी को पूज गंवार उस मालिक के सिवा जगत में नहीं कोई दूजा करतार नबी रसूल मुहम्मद साहब जगतगुरु अंतिम अवतार फूल में जैसे बास बसत है हर दम हर पल साथ रहत है नैन से नाहीं देख परत है हर घट में मौजूद रहत है उस मालिक के सिवा जगत में नहीं कोई दूजा करतार नबी रसूल मुहम्मद साहब जगतगुरु अंतिम अवतार उसी की काया उसी की माया...
नबियन के सुल्तान मुहम्मदआप हैं आलिशान मुहम्मदएक नजर हम दुखियारण परआप हैं किरपा निधान मुहम्मदबांह गहे की लाज तुम्हीं कोमैं हूँ बहुत नादान मुहम्मदतन मन धन और जोबन से हूँआप पे मैं क़ुर्बान मुहम्मदजब से भई सतगुरु की किरपाहिर्दय बीच समान मुहम्मदहे रे सखी सतगुरु की सूरतजैसे आनुमान मुहम्मदरूप अनूप से जान परत हैआप ही हैं क़ुरान मुहम्मदकहत सईदा सीस नवा केतोरी बड़ी है शान मुहम्मद
الف سے اللہ اسمِ ذات ہے با سے باقی اس کی صفات ہے تا سے توبہ کر دنیا سے ثا سے ثابت رہ مولیٰ سے جیم سے جنت تیرا گھر ہے حا سے حق کی چاہ اگر ہے خا سے خدمت کر مرشد کی خدا نما ہے اس کی ہستی دال سے دل اللہ کا گھر ہے ذال سے ذاکر قلب اگر ہے را سے ریاضت کا پھل توڑو زا سے زہدِ نفس نہ چھوڑو سین سے سجدے میں کھو جاؤ شین سے شرک و دوئی مٹاؤ صاد سے صوفی صافی ہو جا...
دعائیہ حمد اے خالق و مالک جگ داتا گُن گان ہے تیری وحدت کا کس طرح تجھے دیکھوں میں بھلا تو رنگ اور روپ سے ہے نیارا ہر آن ہے تیری شان جدا اے خالق و مالک جگ داتا اے خالق و مالک جگ داتا گُن گان ہے تیری وحدت کا کس طرح کروں تری حمد و ثنا تو سب سے الگ تو سب سے جدا تو سب سے غنی تو سب سے بڑا اے خالق و مالک جگ داتا اے خالق و مالک جگ داتا گُن گان ہے تیری وحدت کا اوّل بھی توہی...
میرے آقا مرے سرکار مدینے والےآپ پہ صدقہ ہے گھر بار مدینے والے سر بسر احمد مختار مدینے والےآپ ہیں نبیوں کے سردار مدینے والے پنجتن پاک کا آیا ہوں وسیلہ لے کرتیری سرکار میں سرکار مدینے والے بس یہی ایک تمنا ہے کہ مرتے دم تکمیں رہوں آپ کا بیمار مدینے والے من راٰنی کے اشارے سے یہ معلوم ہوادیدِ حق ہے ترا دیدار مدینے والے کون سمجھے گا حقیقت میں سوا ذاتِ خدامرتبہ آپ کا سرکار مدینے والے آپ کے نام کے صدقے ہے ابھی تک زندہ بو سعیدؔ آپ کا سرکار مدینے والے وردِ جاں ہے سعیدؔ اب...
یہی ہے مری آرزو یا الٰہیکہ دیکھوں تجھے چار سو یا الٰہی یہی اِک تمنا ہے روزِ ازل سےکہ دل میں ہو بس تو ہی تو یا الٰہی ترا آئینہ ہیں ترے خاص بندےزمیں پر ہیں یہ تیری بو یا الٰہی وہ کیوں کر نہ کھو جائے جلوؤں میں تیرےکرے جو تری جستجو یا الٰہی جدھر دیکھتا ہوں جہاں دیکھتا ہوںنظرمیں ہے بس تو ہی تو یا الٰہی کدھر جاؤں میں چھوڑ کر تیرے در کوکہ مولیٰ ہے بس میرا تو یا الٰہی سعیدؔ اللہ اللہ کس سے کہوں میںکہ ہے میرے پردے میں تو یا الٰہی سعیدؔ آئینہ خانۂ...
حقیقت میں تیرے سوا یا الٰہینہیں ہے کوئی دوسرا یا الٰہی ترے لائق حمد و ثنا یا الٰہیزباں سے ہو کیسے ادا یا الٰہی کوئی تجھ کو سمجھے تو کس طرح سمجھےخرد سے ہے تو ماوریٰ یا الٰہی تری ذاتِ اقدس کو تیرے علاوہ کوئی بھی سمجھ نہ سکا یا الٰہی خیال و قیاس و گماں سے ہے باہرتری ذاتِ ربِّ عُلا یا الٰہی بایں شانِ تنزیہ و تقدیس مولیٰیہ دل ہے ترا آئینہ یا الٰہی سعیدؔ اللہ اللہ ہر سمت و ہر سو تو ہی تو ہے جلوہ نما یا الٰہی
کس قدر مشک اور عنبر میں نہائی ہوئی ہےصبحِ میلاد بھی کس شان سے آئی ہوئی ہے! کس قدر فرحت و نکہت کی فضا چھائی ہےجیسے اس خاک پہ جنت سی اتر آئی ہے لیکن اس حال میں اس دل کا ہے کچھ حال براکچھ تمنائیں ہیں دل میں تو زباں پر شکوہ پہلا موقع ہے قلم مدح پیمبر میں چلاپہلا موقع ہے کہ فریاد میں رونا آیا نعت کیا لکھوں کہ مجبور ہوں لاچار ہوں میںبارِ عصیاں غمِ دوراں سے بھی دوچار ہوں میں ذات جب خود ہی محمد ہے تو مدحت کیسی؟روشنی کی بھلا خورشید کو حاجت کیسی؟ مصطفیٰ امتِ بے کس کی یہ فریاد سنونالۂ درد فغان دل ناشاد سنو اک طرف کفر کی آندھی ہے کہ رکتی ہی نہیںموجِ طوفانِ بلا ایسی کہ تھمتی ہی نہیں آتشِ کفر جلاتی ہے مرے خرمن کونارِ الحاد نے برباد کیا گلشن کو دوسری سمت مسلماں ہے مسلماں کے خلافگویا ایماں ہی کھڑا ہوگیا ایماں کے خلاف فرقہ بندی کا دھواں اٹھتا ہے اپنے گھر سےتیر تکفیر کا چلتا ہے یہاں اندر سے کہیں اسلام نہیں ہے کہیں ایمان نہیںکیا مسلمان کے اندر بھی مسلمان نہیں؟ بھیڑیا کفر کا بھوکا مرے دروازے پراژدہا غیظ کا تکفیر کا کاشانے پر جل گیا میرا فلسطین عراق وافغانجل رہا ہے مرا کشمیر، مرا ہندوستان اب بھی برما کے سمندر سے دھواں اٹھتا ہےاب بھی خاکسترِ گجرات میں کچھ جلتا ہے اب بھی بنگال میں کچھ لوگ ہیں بے گھر، بے دراب بھی کچھ لوگ بنے پھرتے ہیں دریوزہ گر موب لنچنگ نے کیے ہیں مرے اوسان خطااب تو انساں نظر آتا ہے درندہ جیسا وطنِ ہند پہ اب وحشت و ظلمت چھائیگنگا میلی ہوئی، جمنا بھی مری گدلائی رحمتِ عالمیاں! ہند پہ احساں کیجےپھر سے انسانوں کو آقا مرے انساں کیجے یک نظر چشم کرم مصطفیٰ فرمائیے پھرمصطفیٰ امتِ بے کس پہ رحم کھائیے پھر مصطفیٰ بارِ غمِ دل کو کچھ ہلکا کیجےمصطفیٰ جبر کی چکی سے نکلوائیے پھر مصطفیٰ آپ کی امت ہے بھنور کی زد میںمصطفیٰ ساحلِ راحت پہ پہنچوائیے پھر مصطفیٰ غم سے پھٹا جاتا ہے سینہ میراکچھ دوائے دلِ مضطر ہمیں بتلائیے پھر لوٹی اٹھلاتی ہوئی باد صبا میری طرفلائی پر کیف یہ پیغام، صبا میری طرف کیوں پریشان ہے بے چین ہے مضطر ہے تو؟جان کونین ہے رشک مہ و اختر ہے تو تو عروس حرف کن بھی ہے اے سروچمنتیرے ہی واسطے وارد ہوا ہے لا تحزن بات کچھ بھی تو نہیں تو نہ پریشاں ہوناتجھ پہ لازم اے مسلمان! مسلماں ہونا میری تصدیق کرو شرحِ معانی چھوڑوتھام لو حبلِ محمد کو کہانی چھوڑو چھوڑو ہر فسق کو اور کفر کی ہر نسبت کوفرقہ بندی کو بھی تفریق کی ہر لعنت کو چاہتے ہو اگر اسلام کا اونچا ہو علَمسر نگوں کفر ہو، الحاد کی گردن ہو قلم مجھ کو مانے جو کوئی اس کو مسلماں جانواپنے باغی کو نہ تم باغی ایماں جانو بعد ازاں نقش کف پائے محمد پہ چلوصبغۃاللہ میں رنگ جاؤ مسلمان بنو درس اقرأ کا پڑھو پیکر اخلاق بنوینفع الناس پڑھو نائب خلاق بنو تشنگی ختم ہے گر ہاتھ میں ہے بادہ و جامہر مسلمان سلامت ہے بشرطِ اسلام نتیجۂ فکر: ذیشان احمد مصباحی
بخدمت عالی گرامی مرتبت ، لائق صد احترام ، عارف باللہ، داعی اسلام حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی زیب سجادہ : خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواں شریف ، الٰہ آباد بموقع جشن یوم غزالی ، منعقدہ ۲۷ ، مارچ ۲۰۱۱ ء /اتوار قدم زمیں پہ نشاں آسماں پہ رکھتا ہے مکاں میں رہ کے نظر لا مکاں پہ رکھتا ہے روایتوں کا امیں ہے وہ پاسبان سلف مگر وہ ہاتھ بھی اپنا سناں پہ رکھتا ہے کسی بھی شخص کی وہ نبض دیکھتا ہی نہیں شفا کا ہاتھ ہی...