نگاہِ یار نے لوٹا بڑے قرینے سے
رہا نہ واسطہ مرنے سے اور جینے سے
تڑپ رہاہے مرا دل، تڑپ رہی ہے جاں
لگالے یار مجھےآج اپنے سینے سے
جو تونے کی ہے کرم کی نظر، جزاک اللہ
وگر نہ بات بھی کوئی کرے کمینے سے
خدائے پاک کا احساں ہے یہ وجود ترا
کہ ایک دنیا ہے آباد اس خزینے سے
!چڑھا دیا ہے جہاں تو نے، مجھکو اے رہبر
نہ پھیرنا کبھی ان قربتوں کے زینے سے
رہا نہ شوق مجھے بادہ نوشی کا پیارے
سکوں ملے گا نظر سے تمہاری پینے سے
تمہاری کشتی ہے پیارے نجات کا ذریعہ
اتارنا نہ مجھے اپنے اس سفینے سے
!مرے وجود کو تو پاک کردے اے صفوی
ہراک طرح کی کدورت سے اور کینے سے
میں میکشی کا ہوں یوں منتظر پیارے، خود
کہ جیسے جام چھلکـتا ہے آبگینے سے
مری طویل شبِ غم کی بھی سحؔر آئے
مرقع ہو مری انگشتری نگینے سے
ذرا ذرا سی عنایات سے گزر کر اب
سحؔر بھی خوب ہی پائے ترے خزینے سے
Leave your comment