نوجوان عالم دین مولانا امام الدین سعیدی سے مختلف مسائل پر تفصیلی گفتگو
خوش گفتاری، خوش رفتاری، خوش فکری، خوش علمی، خوش اخلاقی جیسے خوش نما عناصر کے ذریعے چند ہی برسوں میں شخص سے شخصیت، فرد سے فردیت کے میدان میں قدم رکھنے والے مولانا امام الدین سعیدی دورِ حاضر میں علم وفضل کے حوالے سے نسلِ نو کے نمائندہ علما میں شمار کیے جاتے ہیں۔آپ کی ولادت ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء میں نیپال کے ایک دین دار اور روحانی خانوادے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم جد محترم حضرت صوفی شاہ یار محمد قادری علیہ الرحمہ (خانقاہ قادریہ رضوانیہ، روضہ شریف) سے حاصل کرنے کے بعد بر صغیر کی عظیم درس گاہ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کا رخ کیا اور وہاں سے فضیلت تک کی تعلیم حاصل کی۔ مولانا آزاد یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے کی تکمیل کی۔ ۲۰۰۵ء سے خانقاہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں مقیم ہیں اور جامعہ عارفیہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ ہی کے توسط سے خانقاہ میں صاحبانِ علم ومعرفت کی آمد ورفت بڑھی اور اس وقت یہاں اربابِ علم وفن کا ایک کارواں آباد ہے۔۲۰۱۳ء میں نیپال کی سرزمین پر ’’الاحسان آرگنائزیشن‘‘ نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جو ملکی سطح پر عظیم خدمات انجام دے رہی ہے۔ لوح وقلم سے زمانۂ طلب علمی ہی سے کافی مضبوط رشتہ رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب تک آپ کے زر نگار قلم سے سیکڑوں مقالات ومضامین نکل کر ملک کے متعدد اخبار ورسائل میں شائع ہوکر خراجِ تحسین وصول کرچکے ہیں۔جب بھی لکھتے ہیں دلوں پر ایک روشن اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ آپ کا عظیم کارنامہ ’’القمر المنیر فی علوم التفسیر‘‘ کی تصنیف اور ’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ ایک باوقار کہنہ مشق شاعر بھی ہیں، درجنوں نعت ومناقب اور غزلیں لکھ چکے ہیں۔مقالات ومضامین میں ’’شطحات صوفیہ: شبہات وازالہ، وحدۃ الوجود: ایک علمی مطالعہ، تفسیر اشاری: ایک تحقیقی مطالعہ، علم لدنی: ایک مطالعہ، التاویلات النجمیۃ: ایک تعارف‘‘ کافی نمایاں اور اہم تصور کیے جاتے ہیں۔(شاہد رضا نجمی)
شاہد رضا نجمی:-
چند برس قبل آپ نے نیپال کی سرزمین پر ’’الاحسان آرگنائزیشن‘‘ نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ’’جمیعۃ علمائے نیپال‘‘ جیسی دوسری تنظیموں کے ہوتے ہوئے آخر اس نئی تنظیم کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کے اغراض ومقاصد کیا ہیں اور یہ ان میں کس حد تک کامیاب ہے؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
پہلی بات تو یہ واضح کردوں کہ عمومی طورپر مملکت نیپال میںاعلی سطح کے منظم ادارے وتحریکات کی واضح کمی ہے ،خصوصی طور سےمسلم کمیونٹی میں تنظیمی یا تحریکی شعور ہی کا فقدان نظر آتا ہے ۔دوسری بات یہ کہ ابھی تک جو بھی تنظیم قائم ہوئی وہ یا تو کالعدم ہو گئی یا معطل و جامد صورت میں موجود ہے ،ان کی سرگرمیاں بہت نمایاں نہیں ہیں، اس کےکئی وجوہات تھےجس میں ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ اس کی قیادت و سرپرستی ایسے افراد کے ہاتھوں میں رہی جن کا رویہ قوم وملت کے حق میں انتہائی افسوناک رہا ہے۔
’’الاحسان آرگنائزیشن، نیپال‘‘ ابھی تک اپنی نوعیت کا پہلا آرگنائزیشن ہے، یہ نوجوان علما کا قائم کردہ ایک ملی و رفاہی ادارہ ہے۔ تقریبا ۶؍سالوں سے سرگرم عمل ہے اورالحمد للہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنی نمایاں خدمات کی وجہ سےاچھے اثرات مرتب کررہاہے ۔یہ ایک قومی سطح کا غیر سرکا ری رجسٹرڈ ادارہ ہے ۔اس کے تین بنیادی نکات ہیں:تعلیم ،رفاہ عامہ،اصلاح معاشرہ ۔جو بھی منصوبے بنتے ہیں انہیں نکات میں سے کسی ایک پر مرتکز ہو تے ہیں ۔سردست تعلیم کے حوالہ سے زیادہ فعال ہے،جیسے مختلف اداروں کی تعلیمی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان کا مالی تعاون کرنا ،تعلیم و تدریس کے لیے ضروری وسائل مہیاکرانا اور وقتا فوقتا دورافتادہ علاقوں میں تعلیمی بیداری کی مہم چلانا ، الگ الگ مقامات پر اجلاس و کیمپ کا نعقاد کرنا ۔نادار و معذور طلبہ کے لیےاسکالر شپ کا اہتمام وغیرہ۔رفاہی وسماجی خدمات کے حوالہ سے جو بھی پروجیکٹ ہے وہ بلا تفریق مذہب و ملت سب کے لیے مفید ہوتا ہے ،جیسے صحت و حفظان صحت کے لیے مفت علاج و دوا کی سہولت فراہم کرنا ،یتیم و غریب بچیوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام۔مختلف مواقع سے محتاج و معذور افرادمیں کپڑے و غذائی اجناس تقسیم کرنا،ناگہانی آفتوں میں متاثرین کی امدادکرنا۔ دعوتی و اصلاحی پروگرامز کے ذریعہ مختلف مذاہب و مکاتب فکر کے لو گوںمیں معاشرتی و سماجی ہم آہنگی پیدا کرنا، ماحول کو پرامن رکھنے کے لیے اسلام کے پیغامِ امن ومحبت کو دوسروں تک پہنچانا وغیرہ۔ الحمد للہ تنظیم اپنے منصوبے میں بہت حد تک کامیاب ہے، اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی ٹیم مخلص اور پرجوش ہے ۔قومی سطح پر مسلم نمائندگی کے معاملہ میں یہ پہلا متحرک ادارہ ثابت ہو رہا ہے ۔
شاہد رضا نجمی:-
ہندوستانی مدارس میں تفسیر کی جو تعلیم دی جاتی ہے اسے آپ کس حد تک قابلِ اطمینان سمجھتے ہیں؟ وہ کون سے تفسیری مناہج ہیں جن پر ہمارے یہاں بہت کم یا بالکل ہی توجہ نہیں دی جاتی ہے؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
بات صرف فن تفسیر ہی کی نہیں بلکہ میں مجموعی طورپر پورےنصاب سے مطمئن نہیں ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ نصاب میں غیر ضروری مواد کی شمولیت اور ضروری مضامین میں داخل اجزا کی ناقصیت ہے۔ حد تو یہ ہےکہ بعض مدارس میں ابھی تک اسی فرسودہ نصاب کا التزام ہے جس کادو تہائی مواد قدیم فلسفہ و منطق کے بھول بھلیوںوالے مباحث پر مشتمل ہے۔
تفسیر کی تعلیم وتدریس کے تعلق سے ہمارے یہاں سب سے پہلی کمی یہی ہے کہ اس کے لیے کوئی مستحکم نظم نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی غیر معمولی اقدام کیا جاتا ہے، الا ماشاء اللہ۔ یہ بڑاالمیہ ہے کہ جو فن سارے اسلامی علوم وفنون کو محیط ہے اس پر بحیثیت فن ہمارے یہاں بہت کم توجہ ہے ۔ واضح رہے کہ تفسیر الگ شیٔ ہے اور اس کی فنی حیثیت الگ موضوع ہے۔ بلاشبہ مدارس میں تفسیرتو کئی سالوں تک پڑھائی جاتی ہے مگر اس کے فنی مباحث سے حد درجہ صرف نظر کیا جاتا ہے ۔میرے خیال سے تفسیر کی تدریس کا جو ایک جامع منہج ممکن ہے وہ یہ ہے کہ اولاً تفسیر و علوم قرآن کے ضمن میں کم ازکم ان مبادیات واصول سے واقف کرایا جائے جو تفسیر کی ضرورت وحیثیت اورمناہج واسالیب کی معرفت میں معاون ہوں، پھر منقول تفاسیر کی طرف توجہ دلائی جائے، اس کے بعد علمی و اشاری تفسیر میں جتنے رجحانات ابھی تک پیدا ہو ئےہیں ان سب سے واقف کرایا جائے، نیز ان کی علمی حیثیت ومعنویت سے آگاہ کیا جائے، تفسیری ذخائر میں منہج کا بھی ادراک ضروری ہے۔ طالبِ علم پانچ سالوں تک مختلف تفاسیر کی کتابیں پڑھتا ہے مگر ان کے فنی منہج ومعیار سے ناآشنا ہی رہتا ہے۔ نیز اس فن کے تحقیقی مباحث و جزئیات کی معرفت کے لیے ایک مستقل تخصص کا شعبہ لازمی ہے جیساکہ بعض جامعات میں قائم ہے ۔محض چند سالوں میں اس فن کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ علومِ قرآن کے صرف کسی ایک گوشے کی تحقیق و توضیح میں پوری پوری عمر ناکافی ثابت ہورہی ہو، گفتنی کے چند سال کیا معنیٰ رکھتے ہیں۔
شاہد رضا نجمی:-
مسلمانوں میں موجودہ علمی انحطاط کے پیچھے آپ کن اسباب کو کارفرما مانتے ہیں؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
مسلمانوں کا علمی انحطاط اسی عہد سے شروع ہو چکا تھا جب اس نے اپنے قیمتی اوقات کو بے کا ر قسم کے مباحث میں لگانا شروع کر دیا تھا اور جو ان کی علمی روش تھی وہ بھو ل گیے اس لیے پچھلے کئی سالوں میں کو ئی عبقری علمی شخصیت دیکھنے کو نہیں ملی ۔روایت پسندی و فکری جمود پر قانع ہو گئے اور جو بھی علمی تحقیق کا مزاج تھا اس سے صرف نظر کر لیا ۔بے بصیرت و کو تاہ بین افراد کو علمی قیادت سونپ دی گئی اور نا اہلوں کی قدر و عزت ہو نے لگی۔ ہماری علمی پسماندگی کے بہت سارے وجوہات ہیں۔ دو اہم ترین سبب کا ذکر مناسب سمجھتا ہو ں ۔
(۱) جدید عصری علوم کے تعلق سے منفی رویہ :ہمارے یہاں ان علوم کی طرف کوئی توجہ نہیں جن کے بل بوتے پر آج مغرب نے ہمیں غلام بنالیا ہے ۔جب کہ عصری تقاضے شدت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ کررہے ہیں ،اور مطلع صاف ہے کہ آج کے زمانہ میں علمی تفوق وبرتری کا حصول عصری علوم میں کمال و مہار ت کےبغیر ممکن نہیں ۔اگر اس منفی روش کو ختم نہیں کیا گیا توہمارے لیے زندگی کے رواں دواں قافلہ سے بچھڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔خصوصی طور سے علوم طبعیہ میں جو سائنس کے علمی انقلابات ہیں ان کے مقابلہ میں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ہم ابھی بھی زمین پر بیٹھ کر فلکیات و عنصریات کی تحقیق میں سقراط وفیثا وغورث کے فرسودہ نظریات میں محصور ہیں جب کہ دنیاکہکشائوں میں سیر کر کے سیاروں کے حجم و وسعت ناپ رہی ہے۔ آخرہم کواس طرز فکر سے کیوں چڑ ہے جوہمارے لیے ترقی کی شاہراہیں کھو لتی ہے؟ہاں ہم ٰیہ ضرور کہتے ہیں کسی بھی علمی سفر کےلیےدین وایمان کی سرپرستی ناگزیرہے۔
(۲) جمود وکاہلی: علم بے زاری کی وبا عام ہے اگر چہ مدارس و مکاتب کی تعدادروز افزوں بڑھ رہی ہے کیونکہ عمومی طورسے لو گ ڈگریاں اور اسناد حاصل کرنے کے لیے تعلیم گاہوں کا رخ کرتے ہیں انہیں شوق علم بہت کم کھینچ کر یہاں لاتاہے ۔نہ وہ طلب علم کے لیے آبلہ پائی کا شوق ہے نہ ہی صحرا پیمائی کی آرزو۔مزید یہ کہ علم ودانش کے نام پر جو درسگاہیں قائم ہیں وہاں مقلدانہ روش کا بول بالا ہے، وہاں علم کے نام پر ذہنوں کو مقفل کردیا جاتا ہے، علمی مسائل ومباحث میں شخصی رائے کی اجارہ داری چل رہی ہے، اس سےیک سر مو انحراف گمرہی و گستاخی پر محمول کی جاتی ہے، میرے خیال سے علمی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے،کیا وجہ ہے کہ سائنسی علوم حیرت انگیز طور پر بلندیوں کو چھورہے ہیں اور ساری دنیا کو مرعوب کررہے ہیں؟ در اصل علمی دنیا میں سائنس کی اس ترقی کے پیچھے یہی راز ہے کہ اس کے کسی بھی نظریہ میں جمود نہیں، وہ کسی بھی شخصی انکشاف و دریافت کو حرف آخر نہیں کہتا اور حقیقت واقعہ بھی یہی ہے کہ صدیوں تک ایک دریافت کو بطور حقیقت تسلیم کی جاتی رہی مگر جیسے ہی اس کے بالمقابل کسی نے نئی دریافت پیش کی تو عرصۂ دراز تک تسلیم کی جانے والی وہ حقیقت محض فسانہ ثابت ہوئی ۔ یہ جان لیں کہ علم وتحقیق کے میدان میں حرف آخر یہی ہے کہ یہاں کسی بھی صاحبِ علم وتحقیق کی بات حرف آخر نہیں ۔
شاہد رضا نجمی:-
تصوف کی مستند ومقبول کتاب ’’اسر التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘ کا اردو ترجمہ آپ کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور معنویت کے تعلق سے کچھ بتانا پسند کریں گے؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
تصوف شروع ہی سے میرا سب سے محبوب ترین موضوع رہا ہے۔ میں ان کتابوں کے مطالعہ میں بڑی دلچسپی رکھتا ہو ں جو تصوف یا صوفیہ کے احوال و مقامات سے معنون ہیں ۔’’اسرار التوحید فی مقامات ابی سعید‘‘ تصوف کی چند مستند کتابوں میں سے ایک ہے ۔یہ چار سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، زبان فارسی ہے،اسلوب قدیم ادبی فارسی کا ہے، اس کے مؤلف خواجہ ابوسعید ابوالخیر کے پڑپوتے محمد بن منور میہنی ہیں ۔ یہ کتاب دوباب پر مشتمل ہے اور ہر باب کئی فصلوں پر مشتمل ہے ۔باب اول میں شیخ ابو سعید کے ابتدائی احوال واسفار کا بیان ہے۔ باب دوم شیخ کے درمیانی و آخری زندگی کے مراحل و واقعات پر مشتمل ہے ۔مجموعی طور سے یہ کتاب سلطان طریقت ،برہان حقیقت خواجہ ابوسعید ابو الخیر (متوفی۴۴۰) کی سوانح ہے، مگر ضمنی طور سے بہت سارے اکابرین مشایخ وعلما کا ذکر ہے، مثلا شیخ بو علی دقاق ،شیخ ابوالقاسم گرگانی ،خواجہ ابوالحسن خرقانی ،امام ابوالقام قشیری ،مشہور محدث امام الحرمین ابوالمعالی جوینی ،امام صابونی،مشہور فلسفی بو علی سینا وغیرہم ۔اپنے شیخ حضور داعی اسلام دام ظلہ کے حسب اشارہ جب میں نے اس کا ترجمہ کرنا شروع کیا تو بعض مقامات پر دشواری ضرور آئی مگر وہ زیادہ پریشان کن نہیں تھی ،مشائخ کی مد د بہر حال شامل رہی اور بہت ہی کم عرصہ میں حیرت انگریز طور پر اس کا ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ۔اس دوران میں عجیب وغریب سوز وساز سے محظوظ بھی ہو تا رہا ۔بعض مقامات اس قدر رقت خیز ہیں کہ توجہ سے پڑھنے والا کچھ دیر ہی سہی دنیا و مافیہا سےبے خبر ہو جاتا ہے اور حضور و شہود کی وجدانی کیفیت پاتا ہے ۔یہ کتاب چونکہ احوال ومقامات ،واردات وحکایات پر مشتمل ہے اس لیے اس میںبعض غلبۂ حال کی مستثنیٰ کیفیات بھی ملتی ہیں ۔مجموعی طور سے اس میں سالکین و طالبین کے لیے جذب و شوق ،درس وعبرت ،ارشاد وموعظت کے خوبصورت جواہر پارے ہیں ۔فارسی و عربی اشعار بھی بھر پور ہیں ۔لطائف و امثال کا بھی ایک حصہ ہے ۔یہ اپنے آپ میں تصوف کا معجون ہے ۔
شاہد رضا نجمی:-
خانقاہ عارفیہ کے حوالے سے آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ ہی کے توسط سے خانقاہ میں صاحبانِ علم وفن اور اربابِ لوح وقلم کی آمد ورفت بڑھی۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس پر کچھ تاریخی روشنی ڈالیں گے؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
یہ ۲۰۰۵ کی بات ہے جب مرشدی و آقائی حضور داعی اسلام نے مجھ جیسے بے مایہ و کمتر کو قبلۂ اصفیاخانقاہ عالیہ عارفیہ کی مقدس آغوش میں تدریسی خدمت کے لیے مامور فرمایا اور تعلیمی سرگرمیوں کی ذمہ داری عطافرمائی۔ ۲۰۰۶ء میں دہلی جانا ہوا وہاں دیرینہ احباب خصوصا مولانا ذیشان احمد مصباحی، مولانا ضیاءالرحمان علیمی، مولانا ارشاد نعمانی اور مولانا رفعت رضا نوری صاحبان سے ملاقات ہوئی۔ دہلی سے واپسی کے بعد میں اس کشمکش کا شکار رہا کہ احباب کو کس طرح اس وادیِ علم وعرفان کی سیر کرائی جائے جہاں ہر لمحہ ع-- نیا طور نئی برق تجلی۔کا احساس قلب ونظر کو جلا بخشتا رہتا ہے۔ احباب کے مزاج ومذاق سے بخوبی واقف تھا۔ بڑے غور وفکر کے بعد خیال آیاکہ کیوں نہ کسی تقریب کے بہانے مدعو کیا جائے۔ حضور مرشد گرامی قبلہ کی منظوری واجازت کے بعد میں نے اس خاص تقریب کو ’’جشنِ یومِ غزالی‘‘ کا نام دیا اور اس میں طلبہ کے درمیان تقریری وتحریری مسابقہ بھی رکھ دیا۔ اسی میں طلبہ کی تنظیم ’’جمعیۃ الطلبہ‘‘ کا بھی قیام عمل میں آیا۔ اس پورے کام میں حضرت مخدوم گرامی صاحب زادہ حسن سعید صفوی صاحب میرے سب سے بڑے معاون رہے ۔ بس اس کے بعد ہی سے احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ رفتہ رفتہ احباب کی تعداد بھی بڑھتی رہی اور جامعہ کا تعلیمی معیار بھی بلند ہوتا گیا۔ گویا وہ اک لاگ کی آگ تھی جو ایک سینہ سے دوسرے سینہ میں پہنچتی رہی اوردیکھتے دیکھتے جامعہ عارفیہ کی علمی وعرفانی تحریک کے لیے یاران سینہ صاف کی ایک بڑی جماعت تیار ہوگئی، جس کا ہر کارنامہ تاریخی انقلاب ثابت ہورہا ہے۔
شاہد رضا نجمی:-
طلبۂ مدارس کے لیے کوئی اہم پیغام؟
مولانا امام الدین سعیدی:-
طلبہ کے لیے سب سے اہم بات یہی ہے کہ وہ جس کام میں لگے ہیں اس میں پوری جاں فشانی اور شوق ولگن کے ساتھ مشغول رہیں۔عہد طالب علمی کے اوقات کیریئرکی تشکیل میں بہت اہم ہوتے ہیں، لہذا اپنے ایک ایک لمحہ کی بھی قدر کریں ۔اللہ نے جو فطری استعداد ان کے اندر ودیعت کی ہے اس کو نکھارنے اور سنوارنے میں لگے رہیں ۔کسی بھی شعبہ میںکمال ومہارت پیدا کرنے کے لیے جنون کی حد تک لگنا پڑتا ہے۔ لہذا جتنا بھی حاصل کریں اسے اپنے لیے کم جانیں، مزید سے مزید کی جستجو کو برقرار رکھیں ۔دوسری بات یہ کہ علم کا جو مقصود ہے اسے ہر لمحہ ملحوظ رکھیں۔ کبھی بھی علم کاا ستعمال حصولِ جاہ ومنصب ودنیاوی مفادکے لیے نہ کریں بلکہ جو بھی سرمایۂ علم ہو اسے خدمت دین متین میں لگائیں،جس قدر علم میں اضافہ ہو اسی قدر اپنے رب سے ہدایت پر استقامت کی دعابھی مانگتے رہیں؛ بہت سے صاحبان علم اپنے علم کی وجہ سے مفتون ہوئے اور گمرہی کے شکار ہوگئے۔ایک آخری اور اہم بات یہ ہے کہ صوفیہ کرام سے گہری وابستگی پیدا کریں اور ان کے منہج وطریق پر عملی طور سے گامزن رہیں؛ کیوں کہ یہی وہ جماعت ہے
جس نے احیائے دین وعلومِ دین دونوں کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان کی صحبت میں وہ علوم ومعارف حاصل ہوتے ہیں جو درسگاہوں اور کتابوں سے نہیں حاصل ہوسکتے ،ان کے فیضانِ نظر سے وہ سعادتیں نصیب ہو تی ہیں جو بڑی بڑی ریاضتوں ومجاہدات سےنہیں ملتیں ۔
گر ہو تیرے پاس علمِ موسوی
جستجو کر پھر بھی خضرِ وقت کی
Salman Raza
Tesitng the comment, please remove once you see it
Leave your comment