شاہِ ولایتِ اودھ قطب العالم شیخ محمدبن قطب معروف بہ مخدوم شاہ مینا لکھنوی قَدَّسَ اللهُ سِرَّه کا سلسلۂ نسب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔
آپ کا عرفی نام ’’مینا‘‘ حاجی الحرمین مخدوم شیخ قوام الدین نے رکھا۔([1])
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہٗ اللہ تعالیٰ آپ کے احوال میں لکھتے ہیں:
’’وی صاحبِ ولایتِ دیارِ لکھنؤ است... از صغر سن در سایۂ تربیت و عنایت شیخ قوام الدین پرورش یافتہ، بعد ازان مریدِ شیخ سارنگ گشتہ۔‘‘ ([2])
(آپ دیارِ لکھنؤ کے صاحبِ ولایت ہیں، بچپن ہی سے حضرت شیخ قوام الدین کے سایۂ تربیت و عنایت میں رہے۔ ان کے وصال کے بعد (ان کے مرید ومجاز) مخدوم شیخ سارنگ کے مرید ہوئے۔ )
پانچ سال کی عمر میں جب مکتب پہنچے تو استاذ نے کہا: بولو: الف، تو آپ نے فرمایا:الف، جب معلم نے کہا: بے، آپ نے فرمایا:’’ دوجا کہ؟‘‘ (دوسراکون؟) اس کے بعد آپ نے لفظ ’’الف‘‘ کے بارے میں ایسے حقائق ومعارف بیان فرمائے کہ آپ کے استاذ اور دیگر حاضرین بے خود ہوگئے۔ چوں کہ استاذ کو یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ یہ بچہ پیدائشی ولی ہے، اس لیےوہ آپ کی تعلیم کے سلسلے میں زیادہ کوشش نہیں کرتے اور مکتب میں آپ کی آمد کو ہی اپنے لیے غنیمت سمجھتے۔ آپ جب مکتب پہنچ جاتےتو اس وقت سے مستقل آنکھیں بند کیے ذکر میں مشغول رہتے۔ چھٹی کے وقت دیگربچوں کے شورو شغف سے آپ کو ہوش آتا اور پھر استاذ کو سلام عرض کرکےگھر چلے جاتے۔
دس سال تک حضرت شاہ قوام الدین کے سایۂ تربیت اورظل عاطفت میں رہے، اس کے بعد حضرت سید راجو قتال کے بعض خدام سے تلقین ذکر حاصل کیا اور اس پر عامل رہے۔ شیخ اعظم ثانی جو اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے، ان سےدرس کے دوران شرح وقایہ کی عبارتوں میں ایسے دقائق و نکات بیان فرمائے کہ شیخ اعظم اپنے تمام فضل وکمال کے باوجود انتہائی ادب کے ساتھ ان کے سامنے بیٹھے رہے اور ہر مسئلہ میں نئے نکات حاصل کیے۔ عبادات کی بحث مکمل ہونے کےبعد شیخ مینا نے فرمایا کہ مجھے دوسرا معاملہ درپیش ہے،اس لیے معاملات کی بحث سےمجھے کوئی سروکار نہیں۔ آپ نےعوارف المعارف پوری پڑھی ، بالآخر کم وقت میں آپ اس مقام پر فائز ہو گئے کہ بڑے بڑے علمائے زمانہ علوم عقلیہ ونقلیہ کے اکثر مقامات کی تحقیق آپ سے کراتے۔
جب آپ کی عمر شریف بارہ سال کی ہوئی تو قطبیت کے مقام پر فائزہوگئے۔ آپ کی قطبیت حضرت شاہ بدیع الدین مدار کے مرید قاضی شہاب الدین آتش پرکالہ ساکن چتلائی نے ظاہرکی۔
اس کا واقعہ یہ ہےکہ ایک مرتبہ قاضی شہاب الدین اپنے پیر کی قدم بوسی کی نیت سے نکلے، جب لکھنؤ پہنچے تو اکثر لوگ اپنی حاجتیں لے کر ان کی خدمت میں آئے۔ قاضی صاحب نےان سب حاجتوں کو لکھ لیااورروانہ ہوگئے۔چلتے وقت ان تمام حاجتوں کو اپنے پیر کی خدمت میں پیش کیاتو انہوں نے فرمایاکہ ان حاجت مندوں سے کہیں کہ وہ لوگ شیخ مینا کی بارگاہ میں رجوع کریں، کیوں کہ قطبیت ان کے حوالے ہو گئی ہے۔ اس وقت ان کی عمربہت کم ہے، بارہ یا تیرہ سال کے ہیں۔ انہوں نے آپ کا پورا حلیہ مبارک بیان کر دیااور بولے:ان کو معلوم ہےکہ وہ قطب ہیں لیکن وہاں کے لوگ اس بات سے ناواقف ہیں۔ تم جاکر میری طرف سے ان کو سلام پیش کرنا اور حاجت مندوں کی سفارش کرنا۔ ایک اونی مصلّٰے ان کو دیا کہ اسے میری طرف سے بطور ہدیہ ان کی خدمت میں نذر کردینا۔چنانچہ وہ مصلّٰے ابھی بھی حضرت مخدوم شیخ الہدیہ کی اولاد میں موجود ہے۔
قاضی صاحب وہاں سے روانہ ہوئے ،پھر واپس لکھنؤپہنچے، حاجت مندوں کو اپنے ساتھ لے کر قطب العالم شیخ مینا کی خدمت میںحاضر ہوئے، اپنے پیر کی طرف سے آپ کی خدمت میں تحفۂ سلام پیش کیا اورمصلّٰے ہدیہ کیا۔ حضرت قطب العالم شیخ مینا نے سب کو تعویذ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ صرف ایک شخص رہ گیا، اس نے اپنے لڑکے کی شفایابی کے لیے درخواست کی تھی، وہ اسی طرح کھڑا رہا، تھوڑی دیربعد جب اس نے پھرعرضی لگائی تو فرمایا: باباجاؤ صبرکرو، تمہارے لڑکے کی شفایابی کےلیے بارگاہ الٰہی میں بہت دعا کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوااور حکم ربانی آیا ہےکہ اس کی عمر اتنی ہی ہے اور پھر آپ نے ایک دوہا پڑھا جس کا فارسی مفہوم یہ ہے :
رسن گسستہ ز بالا نمی توانم بست
کہ دوست دشمنی انگیخت دوستی بشکست
ترجمہ: اوپر سے کاٹی ہوئی رسی کو میں باندھ نہیں سکتا، کیوں کہ دوست نے دشمنی کا اظہار کیا اور دوستی توڑدی۔([3])
ریاضت و مجاہدہ
آپ کا حال یوں ہی روز فزوں رہا یہاں تک کہ پندرہ سال کی عمر میں حضرت مخدوم شیخ سارنگ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوگئےاور وہبی ولایت کے باوجود ایسی پر مشقت ریاضتیں کیں جوانسان کے بس کے باہر ہیں۔ حضرت مخدوم شیخ سعد قدس سرہ لکھتے ہیں :
’’اگر جاڑے کی راتوں میں پیر دستگیر قطب العالم مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ پر نیند کاغلبہ ہوتا تو کبھی اپنے کپڑے کو اور کبھی اپنی کلاہ کو ٹھنڈے پانی میں بھگوکر پہنتےاور حضرت شاہ قوام الدین کی خانقاہ کے صحن میں جا کربیٹھتے یہاں تک کہ سردی کی شدت اور ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سےآپ کی نیند ختم ہو جاتی اور پھر پوری رات ذکر الٰہی میں لگے رہتے۔ بعض اوقات وضو کے لیے پانی گرم کرتے، اگر آگ کی گرمی سے نفس کو تھوڑا سکون ملتا یا اس کے اندر سستی پیدا ہوتی تو فوراً ہی اٹھ جاتے ،گرم پانی چھوڑ کررات میں ہی ٹھنڈے پانی سے غسل واجب نہ ہونے کے باوجود غسل فرماتے اور کئی کئی راتیں صلاۃ معکوس میں مشغول رہتے۔ کبھی زمین پر کنکڑیاں بچھاکر بیٹھ کر اذکارو اشغال میں لگے رہتے یہاں تک کہ اگر نیند کاغلبہ ہوتا تو اسی پر لیٹ جاتے اور پھراس خوف سے اٹھ جاتے کہ کیا پتا کنکڑیوں پر ہی نیند آجائے، کبھی کبھی کئی کئی راتیں اونچی دیوار پر بیٹھتے تاکہ گرنے کے خوف سے نیند دور ہو جائے۔ اکثر صوم طی رکھتے، چلے میں بیٹھتے، جب چلہ مکمل ہونے کے قریب ہوتا اورکوئی دوست یا مسافر آپ سےکھانے کےلیے اصرار کرتا تو اس کی دلجوئی کے لیے آپ روزہ توڑ دیتےاور اس کو یہ نہ بتاتے کہ میں روزے سے ہوں، اس لیے کہ آپ کا مقصد شہرت کا حصول نہیں تھا،اس کے بعد آپ پھر سے نیا چلہ شروع کردیتے اوراسی طرح زمانے تک یہ سلسلہ چلتارہتالیکن آپ چلہ مکمل ہونے کی پرواہ نہ کرتےتاکہ نفس اس کی وجہ سےمغرور و متکبر نہ ہو۔ اکثر اوقات کھڑاؤں پہنتے،اپنے پیر کی زیارت کے لیےپیدل گیارہ- بارہ کوس (۳۵ - ۳۶ کلومیٹر) چل کر جاتے اور اس طریقے سے نفس کو مشقت و تکلیف میں ڈالتے۔ اس طرح سے آپ کا مل و مکمل ہوئےاور نور حقیقت تک رسائی ہوئی۔
مرداں بہ سعی و رنج بجائے رسیدہ اند
تو بے خبر کجا رسی از نفس پروری
(لوگ تکلیف و مشقت اٹھاکراور مجاہدہ وریاضت کے ذریعےکسی مقام تک پہنچے ہیں،تم بے خبر انسان نفس پروری کرتے ہوئے کسی مقام تک کیسے پہنچوگے؟([4])
حلم و بردباری
آپ کا عفو وکرم اور حلم وبردباری مشہور و معروف ہے۔چنانچہ ایک روزشراب کے نشے میں مخمور ایک حجام آپ کوگالی دینے لگا،آپ نے اس کو کچھ دے کر مکمل لطف و نرمی کے ساتھ واپس کیا اور اس سے معذرت خواہی کی۔
اگر کسی شخص سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچتی تو معاف فرمادیتےاور مکمل خندہ پیشانی کے ساتھ اس کو دعا دیتےاور یہ اشعار اپنی زبان مبارک سے پڑھتے:
ہر کہ مارا یار نبو د ایزد او ر ا یار باد
ہر کہ مارا رنج دادہ راحتش بسیار باد
ہر کہ اندر راہ ما خارے نہد از دشمنی
ہر گلے کز باغ عمرش بشفگد بے خار باد
(جو میرا دوست نہ ہوحق تعالیٰ اس کا یار و مددگار ہو، جس نے مجھ کو تکلیف پہنچائی اس کو بہت راحت و سکون ملے۔
جو میرے راستے میں دشمنی کی وجہ کانٹے بچھائےاس کے باغ زندگانی میں جو پھول کھلےاس میں کانٹے نہ آئیں([5])
احوال و اطوار
حضرت مخدوم شیخ سعد الدین قدس سرہٗ آپ کے احوال میں مزید رقم طراز ہیں:
’’ حضرت قطب عالم مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ کی صحبت میں میں بیس سال رہا، کبھی بھی پاؤں پھیلا کر یا پاؤں کھڑا کرکےبیٹھا ہوا نہیں پایا ، آپ ہمیشہ قبلہ رو ہوکر نماز کی ہیئت میں بیٹھتے، کبھی بھی سمت قبلہ سے ہٹ کر نہ جوتیاں رکھتے اور نہ ہی اتارتے، ہمیشہ جوتیاں قبلہ رو رکھتے تھے ، اسی سمت اتارتے اور اسی سمت سے پہنتے۔اسی طرح آپ نے اپنے لیے کبھی کوئی کھانا اپنی طلب سے نہیں کھایا اور نہ اپنی خواہش سے کوئی کپڑا سلوایا۔آپ ارشاد فرماتے کہ جو صوفی اپنی خواہش سے کھانا پینا کھاتا ہے یا اپنی پسند کا کپڑا پہنتا ہے وہ ہرگز ہرگز صوفی نہیں ہے، بلکہ حضرت مصطفیٰ ﷺ کے دین کا رہزن ہے۔
آپ کایہ بھی معمول تھا کہ باوضو ہونے کے باوجود ایک دو گھنٹے کے بعد تجدید وضو فرماتے اور دو رکعت تحیت الوضو ادا فرماتے،وضو سے فارغ ہو کر اگلے وضو کی نیت سے وضو کے برتن میں پانی بھرکر رکھ دیتے،کھانا تناول کرتےوقت اور کھانے سے فارغ ہو کر از سر نو وضو کرتے اور فرماتے کہ جو کھانا باوضو ہو کر کھایا جاتا ہے وہ کھاناباطن میں تسبیح میں مشغول ہوتا ہےاور کھانے کے بعد کی گرانی کو دور کر دیتا ہےاور نور میں اضافہ کرتا ہے۔ آپ نے نہ کبھی بے وضو گفتگو فرمائی اور نہ کبھی بے وضوسو ئے، جب سو جاتے تو کبھی بھی وضواور دو رکعت نماز ادا کیے بغیر پہلو نہ بدلتے، نیند سے بیدار ہوتے ہی تیمم فرماتے اس کے بعد وضو کی تیاری کرتے اور فرماتے کہ انسان کی تخلیق کی اصل پانی اورمٹی ہے ان ہی دونوں چیزوں سے طلب دنیا کی آگ بجھائی جائےگی،بہت امید ہے کہ آخرت کی آگ بھی اسی سے بجھ جائے۔‘‘ ([6])
مرشد سے تعلق
آپ کے مرشد گرامی حضرت مخدوم شیخ سارنگ نے آپ کو ایک بار کسی شہر کی جانب کسی اہم کام کے لیے بھیجا، آپ وہاں گئےاور اس کام کو انجام دینے کے بعد لوٹ کر حضرت کی خدمت میں پہنچےتو حضرت مخدوم نے فرمایا: وہاں ایک عارف تھے، ان سے تم نے ملاقات کی؟آپ نے عرض کیا: نہیں! شیخ نے فرمایا: جس شہر میں جاؤ اگر وہاں کوئی درویش ہو تو ان سے ملاقات کرنا چاہیے۔یہ سنتے ہی بے اختیار آپ کی زبان مبارک پر یہ شعر جاری ہو گیا:
ہمہ شہر پر زِ خوباں منم و خیال ماہے
چہ کنم کہ چشم بد خو نکند بہ کس نگاہے
(ترجمہ:پورا شہر حسینوں سے بھرا ہے لیکن میں ایک پری پیکر کے ہی خیال میں مگن ہوں، کیا کروں کہ میری بد خصلت نگاہ کسی کی جانب دیکھتی ہی نہیں۔)
میرے لیے اپنے شیخ کی محبت کافی ہے،اب میں دوسروں سے محبت نہیں کر سکتا۔ تب شیخ نے آپ کو خرقۂ خلافت سے نواز کر رخصت کیا کہ اپنے مقام پر جا کر مشغول ہو جاؤ۔([7])
بیعت کے فوائد
ایک شخص سفر کی حالت میں فوت ہوگیا، اس کا سر جنبش کر رہا تھا، کسی صورت سکون نہیں ہوتاتھا۔اس کا تابوت دوران سفر جہاں بھی پہنچا وہاں کے علما و مشائخ سے اس عجیب و غریب واقعے کے بارے میں لوگوں نےاستفسار کیالیکن تشفی بخش جواب نہیں مل سکا۔ جب وہ لوگ لکھنؤ پہنچےتو حضرت قطب عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا راز جاننا چاہا تو آپ نے جواباً ارشادفرمایا کہ یہ شخص کسی کا مرید نہیں ہے،یہ کلاہ اور شجرہ طلب کررہاہے۔پھر آپ نے اپنے سر مبارک سے کلاہ اتار کر اس کے سر پر رکھ دی اور شجرہ لکھ کر عنایت فرمایاکہ اس کے سینے پر رکھ دیں، جیسے ہی کلاہ اس مردے کے سرپہ پہنچی فوراً اس کے سر کی حرکت بند ہوگئی ۔آپ نے فرمایاکہ اس کا سر بظاہر جنبش میں تھا لیکن باطنی جنبش تمام سروں میں ہوتی ہے،پیروں کی کلاہ کے بغیر چین و سکون نہیں ہے۔([8])
تعلیمات وارشادات
حضرت مخدوم شاہ مینا کے ملفوظات ان کے مرید و خلیفۂ اعظم مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی (۹۲۲ھ / ۱۵۱۶ء) نے مجمع السلوک والفوائد (شرح رسالہ مکیہ) میں درج فرمائے ہیں۔ مجمع السلوک شریف (سنہ تالیف ۸۹۰ھ) سے ہی ماخوذ آپ کے ملفوظات کے دو مجموعے مرتب ہوئے:
(۱) ملفوظات حضرت مخدوم شاہ مینا: مرتبہ میر سیدمحیی الدین بن حسین رضوی حسینی امیٹھوی، سنہ تالیف ۱۰۱۱ھ۔
(۲) فوائد سعدیہ: مؤلفہ افضل العلماء قاضی محمد ارتضا علی صفوی گوپاموی، سنہ تالیف ۱۲۴۲ھ ۔
ذیل میں ہم آپ کے چند ارشادات مجمع السلوک شریف سے نقل کرتے ہیں:
ارشاد فرمایا: اگرکسی کودیکھو کہ وہ پانی پرچلتاہے، ہوا میں اڑتاہے اور اس کے ساتھ وہ حدود شریعت کی پامالی اوران میں کوتاہی کرتاہے توجان لوکہ وہ جادو گر ، جھوٹا ، گم راہ اورگم راہ گرہے۔
ارشاد فرمایا: مرید کو چاہیے کہ غیر کو اپنی نظرمیں نہ لائے اور مخلوق کی مدح وذم سے اپنے آپ کو بے نیاز کر لے، جو بھی عمل کرے اچھی نیت اورصدق واخلاص کے ساتھ کرے،لوگوں کی باتوں سے اپنے آپ کو پراگندہ خاطرنہ کرے اور ان کے نیک و بدکہنے کی پروانہ کرے؛کیوںکہ لوگوں کی زبان سے بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔
ارشاد فرمایا : رب تعالیٰ کی محبت تمام درجات واحوال میں سب سے بلند درجہ ہے ۔
ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ سے صرف اسی کی ذات کے لیے محبت رکھے، کوئی اور چیز طلب نہ کرے۔
ارشاد فرمایا :مریدکوچاہیے کہ وہ ہمیشہ شیخ کی باتوں کے انتظارمیں دل سے حاضر رہے ،تاکہ شیخ کے کلام کے فوائدومنافع سے محروم نہ رہے۔
ارشاد فرمایا :شیخ کادل صیقل شدہ آئینے کی طرح ہے، اس پر حضرت رب العزت کا فیض اترتارہتاہے، وہ ذات، صفات،اسما اورافعال کی تجلیات سے متجلی ہوتا ہےاور اس طرح شیخ ہرلمحہ غیبی لطائف سے آراستہ ہوتا رہتا ہے۔جب مرید صادق مکمل ارادت کے ساتھ اپنے دل کوایسے آئینے کے سامنے لاتاہے توشیخ کادل مریدکے دل پر عکس تجلی ڈالتا ہے اور تمام کمالات بغیرکسی کسب اور محنت ومشقت کے اس مرید کے دل میں اترجاتے ہیں،شرط یہ ہے کہ اس کا دل غیر یت کی کدورت سے پاک اور طبیعت کے زنگ سے صاف ہو۔
ارشاد فرمایا: مولانا عمدہ بدایونی جوایک صاحبِ علم اور عزت و حیثیت والے شخص تھے، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے زمانے میں سالہا سال تک سیاحت میں مشغول رہے۔ایک دن عنایت ازلی شامل حال ہوئی اورسب کچھ ترک کرکے ملامت کی راہ اختیار کرلی۔ زنانہ لباس پہن کرایک رخسار سیاہ اوردوسراسرخ کرکے حضرت شیخ کی خدمت میں آئےاوران کے زانوسے زانو ملاکر بیٹھ گئے ۔ کہنے لگے : مولانا نظام الدین ! تم یہ کر سکتے ہو جومیں نے کیاہے؟ ہمیشہ سجادۂ تکبرپرمسند رعونت لگائے بیٹھے رہتے ہو اور اپنے آپ کوطالبین وسالکین اور صادقین میں سے کہتے ہو! حضرت شیخ خاموش رہے یہاںتک کہ مولاناعمدہ نے دو تین بار یہی بات کہی اور پھر کہا: مولانا! جواب کیوں نہیں دیتے ؟ حضرت شیخ نے فرمایا:جوکام تم نے کیاہے وہ آسان ہے، یہ توبیوہ عورتوں اورمخنثوں کا کام ہے۔مردان الٰہی کاکام دوسراہے۔ مولانا عمدہ کوتعجب ہوا، پوچھا: وہ کام کیا ہے؟ حضرت شیخ نے جواب دیاکہ مردان الٰہی کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ دردعشق الٰہی میں جلتے رہتے ہیں،دل کی پاسبانی کرتے ہیں اور غیر کے خطرہ وخیال کو بھی اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔
ارشاد فرمایا: بعض جاہل، داڑھی منڈوانے کو ایک بزرگ کی پیروی سمجھتے ہیں جنہوں نے غلبۂ حال میں ایک دن کہاکہ یہ داڑھی میرے کس کام کی ہے،یہ کہہ کر انھوں نے اپناہاتھ داڑھی پر پھیرا اور تمام بالوںکوالگ کرکے زمین پرڈال دیا۔ بعد میں بعض خدام اوراحباب نے کہاکہ لوگ عیب لگارہے ہیں کہ آپ سنت مصطفوی کے تارک ہوگئے،آپ نے داڑھی منڈوالی۔ انہوں نے کہا: میری داڑھی تومیرے چہرے پر موجود ہے،یہ کہہ کرانہوں نے اپنا ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرا تو فوراً داڑھی جیسی تھی ویسی ہی ہوگئی۔ پھر ایک دن انہوں نے غلبۂ حال میں کہاکہ یہ داڑھی میرے کس کام کی ہے؟ پھرانھوں نے اپناہاتھ داڑھی پر رکھا اور داڑھی کے سارے بال الگ کرکے زمین پرڈال دیے۔ ان بزرگ کایہ عمل داڑھی ترشوانانہیں ہوا،اس طرح کے افعال جوکسی سے غلبۂ حال میں صادر ہوں ان کی پیروی نہیں کی جائے گی۔ اس طرح کے افعال کوانھیں بزرگوں پرچھوڑدیاجائے گا۔
خلفا
آپ نے صرف دو حضرات کو خلافت دی: مخدوم شیخ قطب الدین لکھنوی (برادرزادہ وجانشین ) اور مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی([9]) ۔
وصال
قطب العالم مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ کا وصال ۲۳؍صفر۸۸۴ھ/ ۱۶؍ مئی ۱۴۷۹ء کو ہوا۔ ([10]) آپ کا مزار مبارک لکھنؤمیں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ کسی بزرگ نے کہا ہے؎
ہر کہ خواہد چشم را بینا کند
سرمۂ خاکِ درِ مینا کند
( جو اپنی آنکھوں کو پر نور بنانا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ شیخ مینا کے در کی خاک کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگائے۔ )
مرشد گرامی مد ظلہٗ مصرع اوّل کی قرات اس طرح بھی فرماتے ہیں: ع
ہرکہ خواہد چشم و دل بینا کند (جو چاہتا ہے کہ اپنی آنکھیں اور دل روشن کرے)
Leave your comment