صوفیانہ شاعری میں کفر،اسلام اور محبت کی تعبیر
کفر کافر را و دیں دیندار را
حضرت فرید الدین عطار کے اس مصرع پر جب نظر پڑتی ہے تو ایک لمحے کے لیے Shockلگتا ہے، لیکن اگلے ہی لمحے یہ خیال گزرتا ہے کہ شاید حضرت عطار نے آیت ربانی: لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَ لِيَ دِيْنِ(الکافرون:۶) کا ایک بلیغ شعری پیکر تراشا ہے لیکن جب ہمارے سامنے شعر کا دوسرا مصرع آتا ہے:
ذرۂ در دت دل عطار را
تو تشویش بڑھ جاتی ہے اور عصر حاضر کے مولویانہ ذہن پر، جو شعر وادب اور ذوق تصوف کا آشنا نہیں رہا ، کئی ایک سوالات جنم لینے لگتے ہیں ۔مثلا
(۱) کیا حضرت عطار کو دین کی ضرورت نہیں تھی؟
(۲)کیا وہ دین دار نہیں تھے ؟ کیا وہ فسق و فجور میں ڈوبے ہوئے تھے ؟ یا انہیں تقویٰ اور دین داری عزیز نہیں تھی؟
(۳) کیا دین سے برگشتہ ہو کر صرف درد و محبت میں ڈوبے رہنا اسلام یا تصوف ہے؟
(۴) کیا عطار کا شماربے دین اور باطل پرست صوفیہ میں ہوتاہے؟
(۵) اور سب سے آخری بات یہ کہ آخر صوفیہ ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کے اندربظاہر دین کی خفت یا اسلام کی اہانت کا پہلو نکلتا ہے؟
مذکورہ بالا سوالات اس وقت مزید اضافات کے ساتھ مستحکم ہو جاتے ہیں جب دیگر اکابر صوفی شعراکے یہاں یہی مضمون مختلف اسالیب میں ملتاہے۔ مثلا
عمر خیام کہتے ہیں:
رندے دیدم نشستہ بر خنگ زمیں
نہ کفر و نہ اسلام و نہ دنیا و نہ دیں
نہ حق نہ حقیقت نہ شریعت نہ یقیں
اندر دو جہاں کرا بود زہرہ ایں
)خاک زمین پر ایک دیوانے کو میں نے بیٹھا ہو ادیکھا ،جس کے اندر نہ کفر ہے نہ اسلام ہے ، نہ دنیا ہے اور نہ دین ہے ،نہ حق ہے اور نہ حقیقت ہے اور نہ ہی ایمان و شریعت ہے ،پھر میں غورکرنے لگا کہ دو جہاں کے اندر یہ پھول پھر کس کا ہے؟)
سوال پیدا ہوتاہے کہ اس کے اندر نہ دین ہے نہ دنیا ہے،پھر کیا ہے ؟نہ کفر ہے نہ اسلام ہے،بھلایہ کیوں کر ممکن ہے؟
مولائے روم کہتے ہیں:
چوں دلم بتکدہ شد آزرگوبت متراش
چوں سرم معصرہ شد خانۂ خمار مگیر
کفر و اسلام کنوں آمد و عشق از ازلست
کافرے را کہ کشد عشق نہ کفار مگیر
(جب خود میرا دل بت کدہ ہو گیا اب آزر کو بت تراشی سے منع کرد و، میرا سر خود ہی شراب کی بھٹی بن گیا اس لیے اب شراب خانے کو چھوڑ دو۔کفر واسلام آج کی پیداوار ہیں جب کہ عشق ازل سے ہے ،جو کافر کو قتل کر رہا ہے وہ کفار سے عشق نہ چھین لے۔)
سوال یہ ہے کہ کیا اسلام سے ہٹ کر بھی کوئی ایسا عشق ہے جو محمود ہے ،جو ازل سے ہے ؟ اور کیایہ عشق کا فروں میں بھی ہوتاہے اور اگر ہوتاہے تو وہ محمود کیوں ہوتاہے ؟ اسے تو مذموم ہونا چاہیے۔
شیخ سعدی شیرازی فرماتے ہیں:
صلحست میان کفر و اسلام
با ما تو ہنوز در نہ بندی
(کفر و اسلام کے درمیان بھی صلح موجود ہے ،لیکن اس کے باوجود تو میرے ساتھ کوئی تعلق استوار نہیں کرتا۔)
سوال یہ ہے کہ کفر و اسلام کے درمیان صلح کہاں سےآگئی؟ اور ایسی صلح آئی بھی تو یہ تو مذموم ہے ،سعدی اس کا حوالہ کیوں دے رہے ہیں؟
کفر و اسلام کا مضمون حضرت امیر خسرو کو بھی بہت عزیز ہے ،فرماتے ہیں:
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آرے آرے می کنم با خلق مارا کار نیست
(میں کافرعشق ہوں، مجھے اسلام کی کوئی حاجت نہیں اور اب مجھے زنار کی حاجت بھی نہ رہی ،کیوں کہ میری ہر رگ، زنار کا دھاگہ بن چکی ہے۔لوگ اب یہ کہنے لگے کہ خسرو بت پرست ہوگیا، ہاں ہاں میں بت پرست ہوگیا، مجھے لوگوں سے کیا مطلب!)
سوال ہے کہ اسلام اور مسلمانیت سے منزہ ہو کر ، کافر عشق بن کر، جسم کے رگ رگ کو بطور زنار استعمال کر کے ،خسرو کہاں جا رہے ہیں؟ یہ کون سا دین ہے؟ یہ کون سا تصوف ہے؟؟اور انتہا یہ ہوگئی کہ فخریہ طور پر اپنی بت پرستی کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔آگے خسرودو قدم اور بڑھ گئے:
ما و عشق یار اکر در قبلہ و در بت کدہ
عاشقان دوست را با کفر و ایماں کار نیست
یک قدم بر جان خود نہ یک قدم بر دو جہاں
زیں نکوتر رہروان عشق را رفتار نیست
(عشق محبوب کی دولت کعبہ یہ بت کدہ جہاں مل جائے، ہمارے لیے غنیمت ہے، محبوب کے عاشقوں کو کفرو ایمان سے کیا غرض؟ دو قدم آگے بڑھو اور اپنی جان اور دونوں جہان سے گزر جاؤ۔رہ روان راہ محبت کے لیے اس سے بہتر رفتار اور کیا ہوسکتی ہے۔)
سوال یہ ہے کہ کفرو ایمان سے الگ رہنے والے یہ عشاق کون ہیں جن کو صرف عشق سے غرض ہے؟وہ اس کے لیے کعبہ و بت خانے کی تمیز بھی نہیں کرتے۔جو تلاش عشق کے سفر میں خود کو بھی فنا کردیتے ہیں اور دونوں جہان کو بھی اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے گزر جاتےہیں؟ اور کیا ایسے اسلام بیز ار لوگ صوفی اور متقی ہو سکتے ہیں؟ یہ تصو ف ہے یا زندقہ ہے؟
عہد وسطی کے معروف عالم و زاہد اور عصر جدید کی بیشتر چشتی و قادری مشائخ کے مقتداحضرت میر عبدالواحد بلگرامی لکھتے ہیں:
’’جب عشاق کا رنگ صبغۃ اللہ (اللہ کا رنگ) ہے تو وہ جس طرح بھی ہو ،و من احسن من اللہ صبغۃ (کون ہے اللہ سے بہتر رنگ میں ) کا جلوہ دیکھتا ہے ۔
شرف در عشق او گشت آن قلندر
کہ ہفتاد و دو ملت یار دارد
(اے شرف ! اس کے عشق میں وہی قلندر ہوا ،جو بہتروں فرقوں کو دوست رکھتاہے۔)
عظمت والے رب کی قسم! میں ابھی یہیں پر تھا کہ ایک بھائی کا خط پہنچا اور اس کے بعد اس شعر نے بہت ذوق دیا :
کافرم گر کفر را دارم قبیح
مشرکم گر آورم ایماں صریح
(میں کافر ہو جاؤں ،اگر کفر کو براجانوں اور مشرک ہوجاؤں ،اگر صراحۃ ایمان کا دعویٰ کروں۔)
یا در رکھو کہ ہر کفر میں ایک ایمان ہے اور ہر ایمان میں ایک کفر۔
درون ہربتے جانیست پنہاں
بزیر کفر ایمانیست پنہاں
(ہر بت میں ایک جان پوشیدہ ہے اور کفر کے اندر ایمان چھپا ہوا ہے ۔)
(سبع سنابل ،ص :۱۶۳،مکتبہ قادریہ لاہور، ۱۹۸۲ء)
سوال یہ ہے کہ ۷۲؍ فرقوں کو عزیزرکھنے والے اس قلندر کا عقیدہ کیسا ہے ،وہ ہدایت میں مبتلا ہے یا ضلالت میں؟ کفر کو پسند کرنے والا اور ایمان صریح سے بھاگنے والا یہ شخص کون ہے ، جس کے ذکر سے میر عبد الواحد بلگرامی ذوق پا رہے ہیں او رمحظوظ ہو رہے ؟وہ کون ساایمان ہے جو کفر کے اندر پوشیدہ ہے؟ اور جو لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں ان کو پیشوا او رمقتدا بنانے والوں کا حکم شرعی کیاہے؟؟
اودھ کے ایک اور نامور صوفی شاعر آئین خسرو ی کے پرستار منشی عزیز اللہ صفی پوری نغمہ زن ہیں:
ندانم کہ ایماں چہ و کفر چیست
گر ایں بود در آں فدائے تو شد
مومن پاک است محمد پرست
کفر مکن بندۂ یزداں مباش
(مجھے نہیں خبر کہ ایمان کیا ہے اور کفر کیا ہے؟ جو کچھ بھی ہو تیرے قدموں پر نثار ہو جائے ۔جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرستارہی صحیح معنوں میں مومن ہے ، اللہ کا بندہ بن کر کافر مت ہو جاؤ۔)
اعلیٰ حضرت مولانا شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی کا تصور کفر و ایمان بھی دیکھیے:
مکن اے زاہد خشک اعتراضے
چہ دانی سر توحید خدا را
اگر گوئی مرا تو بت پرستے
بگویم در بتاں دیدم خدا را
کفر و اسلامم بزلف و روئے او وابستہ شد
مذہبم گبرو مسلماں ہر دو شانم شد چہ شد
کلمۂ کفر اولم کرد چو تعلیم شیخ
کفر شد ایمان من سینہ پر انوار شد
(اے زاہد خشک! اعتراض مت کرو، تم اسرار توحید سے بے خبر ہو۔ اگر تم مجھے بت پرست کہتے ہو تو میں کہتا ہوں کہ مجھے بتوں کے اندر ہی خدا نظر آتا ہے۔ میرا کفر واسلام محبوب کے زلف و رخ سے وابستہ ہے، اس لیے میں نے اسلام و بت پرستی دونوں کو ہی اختیار کرلیا ہے۔میرے شیخ و مرشد نے جب سب سے پہلے کلمۂ کفر کی تلقین فرمائی اس وقت کفرمیرا ایمان بن گیا اور میرا سینہ انوار کا گنجینہ بن گیا۔ )
یہ وہ مقامات ہیں کہ اونٹ کی طرح آسمان کو دیکھنے سے ان کی نزاکتوں کا پردہ نہیں کھل سکتا۔ ہمیں بہت سنجیدگی سے یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ صوفیہ کی اصطلاح میں بتوں کے اندر خدا کی موجودگی کا مطلب کیا ہے؟ ان کا مذہب بت پرستی کیا ہے؟ اور وہ کون سا کفر ہے جس کے بعد ان کا سینہ انوار کا گنجینہ بن جاتا ہے؟؟
یہاں مجھے عصرحاضر کے معروف ناقد ومحقق مولانا ڈاکٹر فضل الرحما ن شرر مصباحی کی ایک بات یاد آتی ہےکہ’’ آج کل مدرسوں میں تکفیر وتضلیل کا جو بازار عام گرم ہے ، اس کے بہت سے اسباب میں ایک سبب قدیم فارسی شاعری سے ناواقفیت بھی ہے ۔‘‘ بہرکیف! اس مسئلے پر توضیح و تاویل کے حوالے سے کچھ لکھنے سے قبل چند اردو شعرا کے کلام بھی ملاحظہ فرمائیں:
بت خانہ و کعبہ کچھ نہ جانا
کہاں جائیں خلاف کفر و دیں ہم
اتنے بت خانوں میں سجدے ایک کعبے کے عوض
کفر تو اسلام سے بڑھ کر ترا گرویدہ ہے
(آسی غازی پوری)
پبت پرستی ،کفر ،یاں دل کی گرفتاری ہے درد
چاہنے جس کو لگے ،اس کو صنم کہنے لگے
(درد دہلوی)
غرض کفر سے کچھ نہ ایماں سے مطلب
تماشائے دیرو حرم دیکھتے ہیں
(سودا)
پنہ کافر ہوں ،نہ مومن ہوں،نہ عصیاں ہے نہ طاعت ہے
غلام شاہ خادم ہوں مرا مذہب محبت ہے
(شاہ عزیز صفی پوری)
پآشنائے کفر ودیں عاشق نہیں ہوتے ہیں میر
جانتے ہیں طور میرے سب چنانچہ خرد وپیر
(میر تقی میر)
پہے تنزل کے زمانے نے ترقی کی ہے
کفر وہ کفر اب اسلام وہ اسلام نہیں
(صفی لکھنوی)
پاگر ہو عشق تو ہےکفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافرو زندیق
(علامہ اقبال)
پمطلب نہ کفر و دیں سے نہ دیرو حرم سے ہے
کرتا ہے دل طواف عذاروطواف زلف
(بہادر شاہ ظفر)
پان کی باہوں کے حلقے میں عشق بنا ہے پیر طریق
اب ایسے میں بتاؤ یارو کس جا کفر کدھر ایمان
(ابن صفی)
پاسلام و کفر سے تو یہاں کچھ نہیں حصول
ہم کو نہیں ہے کافرو دیں دار سے غرض
(مسکین شاہ)
پاے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قیدرسم نے جسے ایماں بنا دیا
(اصغر گونڈوی)
پایمان وکفر اور نہ دنیا ودیں رہے
اے عشق شاد باش کے تنہا ہمیں رہے
(جگر مرادآبادی)
پعشق وہ کفر کے ایمان ہے دل والوں کا
عقل مجبور وہ کافر جو مسلماں ہو جائے
( فانی بدایونی)
پکہاں ایمان ، کس کاکفر اور دیر وحرم کیسے
ترے ہوتے ہوئے اے جاں خیال دو جہاں کیوں ہو
(بیدم شاہ وارثی)
پچھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کو پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
مرزا غالب
پکافر عشق دلربا کفر سے رکھے عار کیوں
مذہب و دیں یہی ہے گر کرے نہ اختیار کیوں
اس عشق نے آزاد کیا دونوں جہاں سے
کافر ہوں نہ مسلم ہوں ادھر ہوں نہ ادھر ہوں
(اشرفی میاں)
اصول خمسہ
(۱) علم بیان کا ابتدائی طالب علم یہ جانتا ہے کہ الفاظ کے دو معنی ہوتے ہیں؛ (۱) معنی حقیقی اور(۲) معنی مجازی۔ لفظ دونوں معنی میں بولا جاتا ہے ۔ جب وہ اپنے معنی حقیقی میں استعمال ہو تو اسے حقیقت کہتے ہیں اور اگر غیر حقیقی معنی میں استعمال ہو تو اسے مجاز کہتے ہیں۔
(۲) الفاظ کے استعمال میں اصل یہ ہے کہ وہ اپنے معنی حقیقی میں مستعمل ہو ،گو یا حقیقت اصل ہے اور مجاز فرع ہے۔ فقہا نے اسی لیے یہ قاعدہ بنایا ہے کہ جب تک لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر محمو ل کرنامتروک،مشکل یامتعذر نہ ہو جائے ، اس وقت تک وہاں معنی حقیقی ہی مراد ہوگا۔ہاں !جب معنی حقیقی مراد لینا ، کسی وجہ ، کسی قرینے کے سبب ممکن نہ رہے تو اس لفظ کو معنی مجازی کی طرف پھیر دیا جائے گا۔گویا اصل یہ ہے کہ لفظ حقیقت ہو اور اپنے معنی حقیقی میں مستعمل ہو ، مجاز ہونے کے لیے کوئی قرینہ چاہیے۔ جب تک کوئی ایسا قرینہ نہ ہو جس سے یہ واضح ہو کہ یہاں معنی حقیقی مراد نہیں ہے بلکہ معنی مجازی مراد ہے، اس وقت تک لفظ کو اس کے حقیقی ظاہری معنی سے مجازی معنی کی طر ف نہیں پھیرا جائے گا ۔ اہل بیان کا فیصلہ ہے کہ قرینہ ہی لفظ کو حقیقت سے مجاز کی طرف پھیرتاہے ،کیوںکہ قرینہ کےبغیر کوئی لفظ بالذات معنی مجازی پر دلالت نہیں کرتا۔
فالقرینۃ ھی المانعۃ عن الحقیقۃ الی المجاز،اذا للفظ لا یدل علی المعنی المجازی بنفسہ دون قرینۃ۔
( الکافی فی البلاغۃ ،ص:۱۲۲،دارالتوفیقیہ،قاہرہ،۲۰۱۱ء)
(۳) وہ قرائن جن کے سبب لفظ اپنی حقیقت سے مجاز کی طرف پھیراجاتاہے ،ان میں ایک قرینہ متکلم کی حالت بھی ہے۔ بسا اوقات متکلم کے احوال یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اس مقام پر لفظ اپنے مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے ،حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔ مثلا علم البیان کےعلما نے بالعموم یہ مثال پیش کی ہے کہ
أنبت الربیع البقل(موسم بہار نے سبزہ اگایا)
اگریہ جملہ کوئی منکر خدا کہے تب تو لفظ کامعنی حقیقی مراد لیاجائے گا لیکن اگر اس کا قائل کوئی موحد ہو ،تو اس کا عقیدۂ توحید یہ واضح کرے گا کہ سبزہ اگانے کی نسبت بہار کی طرف حقیقی نہیںمجازی ہے ۔کیوں کہ قائل ہر فعل کا فاعل اور ہرخلق کا خالق اللہ کی ذات کو تسلیم کرنے والا ہے، البتہ موسم بہار سبزہ و شادابی کا ظاہری سبب ہے،اس لیے سبزہ اگانے کی نسبت مجازی طور پر اس نے موسم بہار کی طرف کر دی ہے ۔پہلی صورت میں وہی جملہ ، جملۂ کفر تھا ، کیوں کہ موسم بہار کو سبزہ اگانے والا مانا گیا ہے ،جب کہ دوسری صورت میں وہی جملہ جملۂ ایمان ہے ،کیوں کہ اگر چہ بظاہر سبزہ اگانے کی نسبت بہار کی طرف کی گئی ہے ،لیکن قائل چوں کہ موحد و مومن ہے ،اور اس فعل کا حقیقی فاعل اللہ کی ذات کومانتا ہے ،وہ صرف مجازاً سبزہ اگانے کی نسبت بہار کی طرف کررہاہے،لہٰذا اس کا جملہ معنی حقیقی میں مستعمل نہیں ہے،اس لیے وہ جملہ، جملۂ ایمان ہے نہ کہ جملۂ کفر۔اور اس پر دلیل قائل کی حالت ایمان و توحید ہے۔
(۴) اصطلاحات کو لغت سے نہیں، مخصوص فن سے سمجھناچاہیے جس سے ان کا تعلق ہو، یہ ایک حقیقت ہے کہ لکل عمل رجال (ہر کام کے کچھ خاص مرد ان کا ر ہوتے ہیں)اور لکل قوم مقال (ہر قوم اور ہر فن کی خاص اصطلاح ہوتی ہے۔) اس اصطلاح کولغت کی کتابوں سےیادیگر فنون کی اصطلاحات سے سمجھنے ولاسخت گمراہیوں میں مبتلا ہو جاتاہے۔
(۵) تصوف صرف ایک حال نہیں، ایک فن بھی ہے۔شیخ ابوطالب مکی،ابوبکر کلاباذی،امام قشیری، امام غزالی اور مختلف علما نے اس پر فنی گفتگو کی اور فقہ و کلام کی طرح اسے بھی مدون کیا۔اگر چہ اس کے اندر اب تک اصول فقہ اور اصول حدیث کی طرح فنیت اپنے کمال تک نہیں پہنچی ہے تاہم اس کی فنی حیثیت سے کسی ذی علم کو انکار نہیں ۔بطور خاص تصوف جب ایران و سندھ سے ہوتا ہوا ہندوستان پہنچا، تو اس کی مخصوص اصطلاحات و ضع ہوئیں۔ خصوصاً فارسی شاعری کا غالب حصہ تصوف کے رنگ میں رنگاہواہے۔ صوفیہ نے شاعری کو اپنا ذریعۂ اظہار (Medium)بنایااور نہ صرف اپنے مافی الضمیر کو شاعری کی زبان میں پیش کیا ،بلکہ قدیم لفظوں کو اپنے مخصوص احوال و مقامات اور معانی و مفاہیم کے لیے استعمال کیا ۔ پھر بعد کے صوفیہ نے اس شاعری کو سمجھنے کے لیے اصطلاحات کی تفسیر و تشریح کی اور صوفیہ کی خاص لفظیات کی تحقیق و تفہیم کے لیے اصطلاحات تصوف کی مختلف کتابیں تصنیف کیں ۔ اب صوفیہ کی مخصوص لفظیات کو سمجھنے کے لیے ان کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور کسی صوفی کے شعر پر کفرو ضلالت کے فتوے ٹھونکنے سے قبل یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ صوفیہ اس قسم کے الفاظ و تعبیرات کن معانی ومفاہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عہد وسطیٰ کا مسلم ہندوستان مکمل طور سے صوفی رنگ میں رنگا ہوا تھا ۔ جسے یقین نہ آئے، اس زمانے کے علما اور شعرا کے احوال پڑھ لے ، ہر شخص کسی سلسلے میں بندھا ہوااور کسی صوفی کا غلام ملے گا۔ اس وقت صوفیانہ کلام ذوق ولذت کے لیے پڑھاجاتھا اوربالعموم کسی کو مجال دم زدن نہیں ہوتا۔ہندوستان میں جب وہابیت آئی تو اس کے سبب جہاں بہت نئے مسائل و مباحث پیدا ہوئے ،وہیں صوفیہ اور صوفیانہ شاعری پر اعتراضات کا ایک غیر متناہی سلسلہ چل پڑا۔ علمائے اسلام نے اپنے عہد میں ان اعتراضات کے جواب بھی دیے، لیکن رفتہ رفتہ تصوف اور صوفیانہ شاعری کی درس و تدریس ان مدارس میں بھی بندہوگئی جو تصوف نواز اور مشرب صوفیہ کے علم بردار سمجھے جاتے ہیں۔ نتیجے میں اب اس حلقے سے بھی اعتراضات شروع ہونے لگے ہیں۔ ان اعتراضات کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ مدارس میں تصوف اور صوفیانہ شاعری کو پھر سے داخل درس کیا جائے ،اس سے تشدد اورتکفیر و تضلیل کا بازار یقینی طور پر ٹھنڈا ہوگا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ تصوف اور صوفیہ پر ہونے والے اعتراضات کا علمی تصفیہ ہو ، علمی مقالات لکھے جائیں اور عرفا کے مقام ، ان کی زبان،ان کے مسلک و منہاج اور ان کے احوال عالیہ سے عامۃ المسلمین کو واقف کرایاجائے۔
اسی طرح صوفیہ کی اصطلاحات کو سمجھنا بھی بہت ضروری ہے۔ لوگ لغت اور فلسفہ و کلام کی اصطلاحات کےسبب تصوف کی تفہیم میں مغالطوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ حضرت مخدوم سمناں سید اشرف جہاں گیر کچھوچھوی اپنے شیخ حضرت عبدالرزاق کاشانی کے حوالے سے فرماتے ہیں:
جب تک طالب طریقت اور سالک راہ معرفت اس فن کی اصطلاحات کی باریکیوں اور حقائق سے کما حقہ آگاہ نہیں ہوجاتا اور ان کی حقیقت اس کے ذہن نشیں نہیں ہوجاتی اس وقت تک وہ کلمات صوفیہ کی باریکیوں اور اس طائفہ علیہ کے مقامات تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کا تعارض دور کرسکتا ہے جو تصوف کی حقیقت کے سلسلہ میں آیات اور احادیث [میں]وارد ہوئی ہیں اور نہ وہ کلمات مشائخ کو ان کے محل راسخ پرصرف کر سکتا ہے۔
(لطائف اشرفی، ۱/۳۰۵،کراچی ، ۱۹۹۹ء)
حضرت مخدوم آگے فرماتے ہیں :
اسی طرح بعض رسائل کابھی سمجھنا مصطلحات تصوف سےواقفیت کے بغیر ناممکن ہے ۔ جیسے بشارت الاخوان ، ارشاد الاخوان ، فوائد الاشرف،اشرف الفوائد یا وہ رسالہ جو وحدۃالوجود کی بحث میں اصطلاح تصوف کے مطابق سرزمین روم میں میںنے لکھا تھا۔جب میں واپس سرزمین بنگال میں پہنچا تو اس سرزمین کے لوگوں نے اس کو پسند نہیں کیا۔ جس کا باعث یہ تھا کہ تصوف کی اصطلاحات کے دقائق اس وقت تک اس سرزمین میں نہیں پہنچے تھے۔ پس اس واقفیت کے باعث لوگوں نے اس سے انکار کیااور اس کی مباحث پر اعتراضات کیے کما تضرع ریاح الورد بالجعل (جس طرح گلاب کی خوشبو جعل نامی کیڑے کو مضطرب کر دیتی ہے)حسود گر نتواند شنید عیب نیست(حاسد اگر نہ سن سکے تو کوئی حرج نہیں ہے)جعل بود متنفر ز نکہت گل(گوبر کا کیڑہ خوشبو سے نفرت کرتاہے۔) (ایضا، ص:۳۰۶ )
اسلام، کفر اور محبت کا صوفیانہ مفہوم
’’ اسلام و کفر کی حدود سے نکل کر محبت کی وادیوں کی سیر کرنے کی تمنا صوفیانہ شاعری کا بڑا محبوب و مقبول مضمون ہے۔ یہ بات بظاہر کفر ہے اور جو لوگ صوفیانہ اسرار و رموز سے واقف نہیں ہوتے وہ فتوے کا تیر چلانے میں دریغ بھی نہیں کرتے۔وہابی تحریک کے وابستہ گان اور اس سے متاثرین کے یہاں یہ رویہ بالعموم پایاجاتاہے۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ صوفیہ کی فکر بہت اعلیٰ اور ان کے رموز بڑے دقیق ہوتے ہیں ۔ مثلاً جب وہ اسلام سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں تو معاذ اللہ ان کا مقصود دین محمدی سے بیزاری نہیں ہوتا،بھلایہ کب ممکن ہے ،یہی جماعت تو در حقیقت دین محمدی کے حاملین کا ملین کی ہے ، ان کا مقصود یہ ہوتاہے کہ وہ یقین کے بغیر بظاہر منافقانہ احکام کی بجا آوری سے بیزار ی کا اظہار کرتے ہیں؛کیوں کہ ایسا اسلام مفتی کی نظر میں اور عام لوگوں کی نظر میں تو اسلام ہے ،حقیقت میں وہ سرے سےاسلام ہی نہیں ہے، نفاق ہے۔ یہ وہی اسلام ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاقُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ (الحجرات: ۱۴) (گنواروں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ،آپ ان سے کہہ دیں کہ تم ایمان نہیں لے آئے، بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے، ابھی توایمان تمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔)اب بظاہر جس اسلام کی مذمت اور اس سے براءت کا اظہار قرآن کریم کررہاہے، صوفیہ کریں تو اس میں حیرت کیاہے؟
علمائے سو کے مجادلات ،تکفیرات اور تضلیلات جس کی روشنی میں سب ایک دوسرے کےمزعومہ اسلام کی روشنی میں کافر و فاسق ٹھہرتے ہیں ،بسا اوقات جب صوفیہ اپنی شاعری میں اسلام سے براءت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کی مراد وہی علمائے سو کامزعومہ اسلام ہوتاہے ،جس کے مطابق روئے زمین پر کوئی مسلمان ہی نظرنہیں آتا، صوفیہ کرام کے یہاں اس قسم کے اور معانی ہیں جن کووہ بہتر سمجھتے ہیں،اس لیے ان کے ظاہری کلام سے دھوکہ نہیں کھاناچاہیے۔
اسی طرح بسااوقات صوفیہ کفر کی مذمت کرتے ہیں اور بسااوقات کفر کی مدح و ثنا بھی کرتے ہیں، پہلی شق توواضح ہوتی ہے، لیکن دوسری صورت بہتوں کے لیے باعث الجھن بن جاتی ہے۔صوفیہ جب کفر کی مدح کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت کفر سے ان کی مراد وہ حقائق ہیں جن کا یقین کرنا عین ایمان ہے ،لیکن اظہار کفر ، مثلا اللہ رب العزت کو خالق شر کہنا کفر ہے ، لیکن واقعہ یہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ خالق الخیر والشر کہنا کفر نہیں ہے ۔ والقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جاتاہے ،کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے ،سب کا فاعل صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے ،لیکن بہت سے امور ایسے ہیں جن کی نسبت براہ راست اللہ کی ذات کی طرف کرنا کفر ہے۔حلول واتحاد سے پاک عینیت کا عقیدہ رکھنا صوفیہ کے یہاں فرض ہے، وہ اس فرض کو بھی اپنی اصطلاح میں کفر کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی اصطلاح ہے۔ اس لیے ہر مسئلے کو اور ہر بات کو لغت اور علم کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے،ورنہ صوفیہ کے فیوض و برکات سے محرومی یقینی ہے۔واضح رہے کہ کفر کا مشہور و متعارف معنی علم کلام کی خاص اصطلاح ہے، ورنہ لغوی طور پر اس کے معنی اور بھی آتے ہیں۔خود قرآن پاک میں یہ لفظ متعددمعنی میں استعمال ہوا ہے۔مثلاً فاذکرونی اذکرکم واشکرولی ولاتکفرون(بقرۃ:۱۵۳) میں کفر ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔وما یفعلوا من خیر فلن یکفروہ(آل عمران : ۱۱۵)اس آیت میں کفر حق مارنے کے معنی میں ہےاور ان الانسان لظلوم کفار (ابراہیم : ۳۴)میں کفار ناشکرے کے معنی میں ہے ۔قالوا آمنا باللّٰہ وحدہ وکفرنا بما کنا بہ مشرکین(غافر :۸۴) میں کفر شرک سے انکار کے معنی میں ہے اور یہ معنی محمود ہے۔لکفرنا عنھم سیئآتھم (مائدۃ : ۶۵)اس میں تکفیر گناہوں کے مٹانے کے معنی میں ہے جو کہ محمود معنی ہے اور اسی طرح فمن تصدق بہ فھوکفارۃ لہ(مائدۃ:۴۵)میں کفارہ گناہوں کو مٹانے والے عمل کے معنی میں ہےاور یہ بھی محمود معنی ہے۔لیکن کفر کے معانی میں سے ایک معنی متکلمین کی اصطلاح ہے جس معنی میں لفظ کفر بالعموم استعمال ہوتا ہے۔یعنی رسالت محمدی کا انکار اور یہ کفر کا قبیح ترین معنی ہے۔اسی طرح صوفیہ کی اپنی اصطلاح ہے جس سے آگہی کے بغیر صوفیانہ کلام کی تفہیم ناممکن ہے۔کفر وشرک کو صوفیہ کس طرح سے محمود معنی میں استعمال کرتے ہیں اس کی ایک جھلک حضرت میر عبدالواحد بلگرامی کے اس اقتباس میں دیکھیے:
وہ ایمان جو کفر میں پوشیدہ ہے ایک یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حق کی تسبیح میں مصروف ہے :
ہمیشہ کفر در تسبیح حق است
وان من شئی گفت ایں جا چہ دق است
کفر ہمیشہ حق کی تسبیح میں مصرو ف ہے اور اس میں کسی کو پریشانی کیا ہو سکتی ہے جبکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحہم (کائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد و تسبیح نہ کرتی ہو،لیکن تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں پاتے ۔)
دوسرے یہ کہ خلقت روحانی، کسی حکمت کے تحت ہی ہے ورنہ اس کی پیدائش عبث ٹھہرے۔
تیسرے یہ کہ اس کی پیدائش حق تعالیٰ کے آثارو افعال سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر فعل میں اپنی حمد فرمائی۔اللہ المحمود فی کل افعالہ (اللہ تعالیٰ اپنے سارے افعال میں محمود ہے۔)
جو شخص ترقی کر کے اس مقام تک پہنچ جاتا ہے تو کفر قبیح کی قباحت اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور اسے ناچار کہنا پڑتا ہے کہ کافرم گر کفر را دارم قبیح اور جس نے یہ کہا کہ مشرکم گر آورم ایماں صریح ،اس بنا پر کہا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے لہٰذا ایمان کی نسبت اپنے فعل واختیار کی جانب کرنا طریقت میں شرک ہے۔
(سبع سنابل،ص:۱۶۳، ۱۶۴ مکتبہ قادریہ،لاہور۱۹۸۲ء )
رہی بات عشق و محبت کی مدح و ثنا کی تو یہ تو صوفیہ کا عین مقصود ہے ۔صوفیہ کرام ان آیات کا مظہر ہوتے ہیں۔
يُّحِبُّهُمْ وَ يُحِبُّوْنَهٗ(المائدہ:۵۴ )(اللہ ان سے محبت کرتاہے اور وہ اللہ سے ۔) وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ (البقرہ:۱۶۵ ) (مومنین کاملین اللہ کے عاشق زار ہوتے ہیں۔)
بقول مولانا روم
درنہ گنجد عشق در گفت و شنید
عشق دریائیست قعرش ناپدید
حضرت مولانا نظامی گنجوی قدس سرہ السامی کا شعر یاد آگیا جو موجودہ منکرین تصوف کے لیے کوہ گراں سے کم نہیں
اللہ طلبی، رو بہ رہ عشق نظامی
العشق ھواللہ ھواللہ واللہ
اسلام و کفر او رمحبت کے حوالے سے کتب اصطلاحات کے چند حوالے ملاحظہ کیجیے۔
لفظ اسلام کا صوفی مفہوم
سید شریف علی جرجانی التعریفات میں اسلام کی تعریف میں فرماتے ہیں:
’’اسلام،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو تسلیم کرنے اور ان کا احترام کرنے کا نام ہے ۔کشاف میں ہے: قلب کی موافقت کے بغیر جو زبانی اقرار ہے،وہ اسلام ہے اور جس میں دل اور زبان ساتھ ساتھ ہو جائیں،وہ ایمان ہے ۔میں کہتاہوں کہ یہ شافعی مذہب ہے،امام ابو حنیفہ کے مذہب میں اسلام وایمان میں کوئی فرق نہیں۔‘‘
(ص:۲۸، دارالمعرفۃ،لبنان،۲۰۱۳ء)
اس تشریح کی روشنی میں صوفیہ جس اسلام کی مدح کرتے ہیں ،یہ امام ابو حنیفہ کی اصطلاح والا اسلام ہے اور جب وہ مذمت کرتے ہیں تو ان کی مراد وہ اسلام ہے،جو شافعی مسلک کے اصطلاح کے مطابق اسلام ہے ۔ الحاصل وہ ہر ایسے اسلام سے بری ہیں ،جس میں یقین کی دولت نہ ہو، کیوں کہ ایسا اسلام اہل دنیا کی نظر میں مقبول ہے ،لیکن یہ نفاق کل قیامت کے روز دو کوڑی کا بھی نہ ہوگا۔
چراغ دہلی خواجہ نصیرالدین محمود کے محبوب و منظور مرید و خلیفہ شیخ محمد ابو جعفر مکی اپنی تصنیف بحر المعانی میں رقم طراز ہیں:
’’اہل کمال کے نزدیک ایمان کا چھوٹے سے چھوٹا درجہ دل کی تصدیق ہے اور اکثر ا س کی انتہا نہیں ہوتی‘‘
(ص: ۴۳، مکتوب اول ،مطبوعہ خانقاہ کاکوری،۲۰۱۰ء)
سالکین راہ طریقت تمام قیل و قال سے ماوریٰ ہو کر ایمان کے اسی چھوٹے سے چھوٹے درجے کے حصول کے لیے مضطرب و بیتاب ہو تے ہیں اورکبھی عالم مستی میں ان علمائے سو کے دین پر جملے کس جاتے ہیںجن کا مقصود دل کی آبادی کی جگہ فقط دنیوی عزت و شہرت تک محدود ہوتاہے۔
حضرت شاہ تراب علی قلندر کاکوروی فرماتے ہیں:
’’اسلام، مجازی ممکن اورواجب کوایک دوسرے سے غیر سمجھنے کو کہتے ہیں۔‘‘
(مطالب رشیدی، ص:۳۶۴، خانقاہ کاکوری ،۲۰۱۲ء)
الحذر!یہ وہ نادر و نازک مقام ہے جس کے ادراک سے عقول متوسطہ ہی نہیں بسا اوقات عقول عالیہ بھی عاجز و در ماندہ رہ جاتی ہیں اور نتیجے کے طور پر جماعت صوفیہ صافیہ پر اعتراضات قائم کر کے لوگ اپنا نامۂ اعمال سیاہ کر لیتے ہیں۔اسی مقام کا ایک منظر وہ ہےجسے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان نے ایک نعتیہ شعر میں اظہار کیاہے:
ممکن میں یہ قدرت کہاں واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
صوفیہ کا نظر یہ وحدۃ الوجود جب تک سمجھ نہ آجائے یہ لقمہ گلے سے نیچے نہیں اترسکتا۔ اس مقام پر پہنچ کر بسا اوقات صوفیہ اپنے وجود کی نفی کر جاتے ہیں ۔حضرت شاہ کاظم قلندر کاکوروی کا یہ شعر اسی تناظر میں ہے:
گھر باہر اب وہی ہیں کاظم
ہم ناہیں ہم ناہیں ناہیں
لیکن یہ نفی ان کی مخصوص اصطلاح کی مطابق ہوتی ہے۔ یہاں لغت میں مکتوب نفی مراد نہیں ہوتی، سفاہت میں ڈوبے ہوئے لوگ جس کا حوالہ دے کرعرفا پر سب سے بڑی سفاہت کفر کا فتویٰ دے ڈالتے ہیں۔صوفیہ اپنا کمند ستاروں سے بھی آگے ڈالتے ہیں۔یہ جماعت اپنے دشت جنوں میں جبریل امین تک رسائی کو بھی زبوں صیدے سے تعبیر کرتی ہے۔ان کے کمند عرفان میں جب تک ذات بحت کا اجالانہیں ہوجاتاوہ اپنے کو اسلام سے دور اور کفر میں غلطاں وپیچاں تصور کرتے ہیں۔ اس مقام سے نیچے کا جو اسلام ہے ان کی نظر میں وہ مطلوب اسلام نہیں ہے۔وہ ایسے اسلام کو اسلام مجازی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس لیے بسااوقات اس کے حوالے سے ان کے لہجے میں یک گونہ کرختگی پائی جاتی ہے۔وہ اسلام حقیقی کے طالب ہوتے ہیں جس میں غیریت کے تمام تصورات فنا ہو جاتے ہیں۔ المختصر! صوفیہ کا اسلام وہ اعلیٰ ترین اسلام ہے جو مقام وحدۃ الوجود کے عرفان کے بعد کھلتاہے ،جولوگ اس کی کامل تفہیم چاہتے ہیں وہ پہلے کتابوں کی مدد اور پھر کسی مرد دانا کی قربت میں رہ کر وحدۃ الوجود کا عرفان حاصل کریں۔
اصطلاحات تصوف میں اردو زبان میں معروف و مقبول کتاب سر دلبراں میں سید شاہ محمد ذوقی نے بھی شاہ تراب علی قلند ر کا کوروی کی موافقت کی ہے ۔ص:۴۷پرمرقوم ہے:
’’اسلام حقیقی سے صوفیہ کے نزدیک مراد یہ ہوتی ہے کہ ممکن اور واجب میں غیریت نہ پائی جائے۔
اسلام مجازی سے صوفیہ کے نزدیک مراد یہ ہوتی ہے کہ ممکن اور واجب میں غیریت کا امتیاز کیاجائے،‘‘
(ص:۴۷،ادبی دنیا، مٹیا محل، دہلی ۲۰۰۶ء)
صوفیہ کے کلام میں جہاں کہیں اسلام سے بیزاری کاعنصر نظر آتاہے وہاں یہی تاویل کرنی چاہے کہ ان کا نشانہ اسلام مجازی ہے، نہ کہ اسلام حقیقی، لیکن یہ بات ان کو نہیں سمجھ آسکتی جو ہر مسئلے کو لغت کی کتابوں سے حل کرتے ہیں اور جن کے یہاں حقیقت ومجاز،کنایہ واستعارہ اور تشبیہ و تاویل کا گزر نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ادب اور بلاغت سے ناآشنامولوی محض عام شاعروں کے کلام کو نہیں سمجھ سکتا،چہ جائیکہ صوفی شعرا کا کلام سمجھے، جو در حقیقت امام الکلام ہے۔
خانقاہ کاظمیہ کاکوری کے ہی ایک جواں سال عالم جناب مولانا حافظ شبیب انور علوی ،اسلام کے صوفیانہ مفہوم پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلام یہ تسلیم و رضا سے ہے ، یعنی انبیاعلیہم السلام کی مکمل پیروی کرنا ، اس کی دو قسمیں ہیں، اسلام شرعی اور اسلام طریقی، اسلام شرعی یعنی نماز، روزہ ،حج ،زکوٰہ وغیرہ ،شریعت مکرمہ کے احکام بجالانا۔ اسلام طریقی یعنی ریاضت شاقہ ، کسب ،نفس کشی ،ذکر و شغل اور مراقبہ وغیرہ کرنا۔ بعضوں نے مزید دو قسمیں کی ہیں۔اسلام مجازی اور اسلام حقیقی۔ اسلام مجازی ممکن اور واجب کو غیر جاننا یعنی ایک کو دوسرے سے الگ کرنا ہے اور اسلام حقیقی ممکن کو واجب سے غیر نہ جانناہے‘‘۔(اصطلاحات تصوف،ص: ۲۵، خانقاہ کاکوری ، ۲۰۰۷ء)
صوفیہ بسااوقات اسلام شرعی سے اسلام طریقی کی طرف یا اسلام مجازی سے اسلام حقیقی تک پہنچنے کی دعوت دیتے ہیں،جسے تقشف زدہ فقیہ سمجھ نہیں پاتااور ایک عارف پر اسلام سے بغاوت وارتداد کا فتویٰ جڑ دیتاہے ۔ صوفیہ ایسے فتویٰ بکف مولویوں کو زبان حال سے جواب دیتے ہیں:
تو و طوبیٰ، و ما و قامت یار
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
ایسے فقیہوں کےسرمایۂ تحقیق پر کسی شاعر کا یہ ریمارک بھی پڑھنے کے قابل ہے:
خواجہ پندارد کہ دارم حاصلے
حاصل خواجہ بجز پندار نیست
لفظ کفر کا صوفی مفہوم
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی کے الفاظ میں کفر تاریکی عالم اور تفرقہ کو کہتے ہیں،جبکہ کافر صاحب اعمال کو کہتے ہیں۔(لطائف اشرفی:۱/۶۹۵،کراچی ،۱۹۹۹ء)ظاہر ہے جس کے اسلام کا سرمایہ یقین کے بغیر صرف چند ظاہری اعمال ہوں اس کے کفر میں کس کافر کو شک ہو سکتا ہےیاجو شخص عمل کر کے فخر ومباہات اورانانیت میں ڈوبا ہوا ہے یاجو اپنے عمل پر ہی تکیہ کیے بیٹھا ہے ابھی وہ یک گونہ کفر وشرک کے مرض میں مبتلا ہے ۔اسی طرح اگر کوئی شخص ایسا ہے جو ایمان تو لایا ہے لیکن اس پر لافاعل الا اللہ اور لا حاکم الا اللہ کا راز پورے طور پر منکشف نہیں ہوا ہے ،ایسا شخص عالم تفرقہ میں ہے۔ ابھی اس پر توحید کے اسرارپورے طور پر نہیں کھلے ہیں۔ صوفیہ اس مقام کو بھی اپنے مقام عالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے مقا م کفروشرک سے تعبیر کرتے ہیں۔شیخ سعدی فرماتے ہیں :
دریں نوع از شرک پوشیدہ است
کہ زیدم بیازرد وامرم بخست
(اس مقا م میں بھی یک گونہ شرک پوشیدہ ہے اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے زید نے تکلیف پہنچائی اور عمر نے زخمی کیا )
صاحب بحر المعانی کا شف اسرار یزدانی حضرت شیخ محمد ابو جعفر حسینی مکی خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ چراغ دہلی کے مجموعۂ مکاتیب بحرالمعانی کے دو مکتوب ۱۸، ۱۹ کفر کے موضوع پر ہیں ۔ اٹھارہویں مکتوب کو شیخ نے فارسی اشعار سے شروع کیاہے ،ان میں ایک شعر یہ بھی ہے:
ہرچند پرستیدن بت مایۂ کفر است
ما کافر عشقیم ازیں بت نہ پرستیم
اس کے بعد رقم طراز ہیں:
’’جانو! کہ عشق اور عاشقی میں سوائے ملامت اور کفر کی سیاہی کے کچھ نہیں ہے، اس سبب سے کہ سیاہی سفید ی کی مظہر ہے ،اے محبوب!جب تک زلف احدیت کی سیاہی کی خلعت نہ پہنوگے واللہ ہر گز جام احدیت کی سفیدی نہ نوش کروگے ۔کیا سمجھتے ہو کہ اس حضرت کی زلف کیا ہے اور کون ہے ،جانوکہ اس حضرت کی زلف محمد مختار ہے، کیا خوب سیاہی کہ اس نے سفیدی میں جلوہ دکھایا ہے ۔‘‘(بحر المعانی ، ص: ۲۵۹، خانقاہ کاکوری ، ۲۰۱۰ء)
اگلے صفحہ پر رقم طراز ہیں:
’’بیچارہ اہل ظواہر کا معدہ شیر خواروں کے معدے جیسا ہے جو حلوااور بھنے ہوئے پکوان ہضم نہیں کر سکتا، جب گزک ہی برداشت نہیں کر سکتے تو شراب خالص کیا برداشت کریں گے ،کیا جانیں کہ کیا کہتاہوں، اے محبوب! کفر تین طرح پر ہے۔ ایک کو جلال دوسرے کو جمال کہتے ہیں اور تیسرے کفر کو الٰہی کہتے ہیں۔ کفر الٰہی کو توجہ سے سنواور پیش نظر رکھو تاکہ کفر جلال کا مشاہدہ کر و،راہ چلو تاکہ ایمان ہاتھ آئے ،پھر جان دے دو تاکہ دوسرے اور تیسرے کفر کو دیکھو پھر جان کو کھو دوتاکہ اس کے بعد چوتھے کفر تک پہنچو جو بحر المعانی میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ دقائق المعانی میں چاروں کی مفصل شرح کروں گا۔ جب پیر فقیر کی بدولت چاروں کفر وں کا مشاہدہ کروگے تب مومن ہوگے۔ دیکھو کہ حضرت جلت قدرتہ نے خود اس مقام کو مفصل بیان کیا ہے۔ وَ مَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ ( ۱۰۲ / ۱۲)ترجمہ :اور ان میں سے بہت سے لوگ ایمان نہیں لائے اور وہ مشرک ہیں۔جب مومن ہوگے تو تمہاری خود ی اس کی خودی میں محو ہو جائے گی یہاں تک کہ تم پوری طرح ’’وہ ‘‘ ہو جاؤگے۔تم الفقر (فقر اختتام کو پہنچ گیا) عدم میں معدوم ہو جائے گا۔ مقام الفقر ھوا للہ (فقر اللہ ہے) کی ابدی سلطنت مسلم ہو جائے گی ۔ جیسا کہ خواجہ عالم علیہ السلام نے فرمایا:کادالفقر أن یکون کفرا(فقر قریب ہے کہ کفر ہو جائے) خواجہ عالم علیہ السلام نے اس مقام کو پورا فرمادیا اور خلائق سمجھتےہیں کہ اس حدیث کے عام معنی ہیں۔ اے محبوب کوئی نہیں جس سے کہوں ،اللہ تعالیٰ آپ کو میرا جیسا کر دے ۔ تاکہ خدائی علوم کو جو نبی اور علی سے متجلی ہو کر اس فقیر کا کشف حال ہوتے ہیں بیان کروں تاکہ اہل کمال کا فیض آپ کی بدولت قیامت تک جاری رہے۔
واللہ کفرت بدین اللہ والکفر واجب لی وعند المسلمین الظاہرین قبیح (خدا کی قسم میں نے کفرکیااللہ کے دین کے ساتھ اور کفر میرے لیے واجب ہے او رظاہری مسلمانوں کے نزدیک براہے۔)
ماہ رویا عشق تو گر کافری است
زیں چنیں صد کافری دین من است
(ص: ۳۶۰- ۳۶۱)
مجھے معلوم ہے کہ بادۂ توہب میں سرشارحضرات میری اس تحریر کے سبب مزید الجھنوں کا شکار ہو جائیں گے،ان شاء اللہ ان کے ازالے کے لیے کبھی دوسرے موقع پر خامہ فرسائی کی جائے گی۔ اس وقت مقصود صرف ان مدعیان تصوف کو دعوت فکر دینا ہے جو جنید و شبلی ، غزالی و رومی اور غوث و خواجہ کے بلند بانگ نعرے بھی لگاتے ہیں، ان کے سلسلوں میں بیعت بھی ہوتے ہیں، ان کے مزارات پر تبرک و توسل کے لیے حاضری بھی دیتے ہیں، مگر اس کے باوجود ہر وقت فتویٰ بکف ہوتے ہیں، صوفیہ کی زبان و حال سے ناآشنااور ان کے اشعار و واردات پر معترض ہوتے ہیں، حضرت سید جعفر مکی کے مذکورہ بالا اقتباسات پڑھ کر ان کے طوطے ضرور اڑیں گے، لیکن شخصیت اتنی بڑی ہے کہ فتویٰ کا تیر چلانے سے پہلے یہ حضرات یقیناًسو بار سوچیں گے ،میرا مقصود صرف یہ ہے کہ مسلک و مشرب اور زبان وبیان کی فہم کے حوالے سے ان کے اندر ایک تجسس پیداہواور وہ اپنے مرشدین و مربین کی بارگاہ میں حاضر ہو کر ان معانی و حقائق کو سمجھنے کی کوشش کریں،تاکہ صوفیہ کی طرف ان کا انتساب فقط لفظی و رسمی نہ رہ جائے، حقیقی اور معنوی ہو جائے۔
صوفیہ اپنی شاعری میں کفر کی مدحت کیوں کرتے ہیں اور مذمت کیوں کرتے ہیں، حضرت سیدجعفر مکی کے مذکورہ دونوں اقتباس کو سامنے رکھیے تو اس کا جواب واضح طور پر مل جائے گا۔کفر کی مذمت وہ عام معنوں میں کرتے ہیں جسے ہر شخص سمجھتاہے ، لیکن وہ جس کفر کی مدحت کرتے ہیں وہ کس قدر اعلیٰ ہے کہ حضرت جعفر مکی اپنے لیے اسے واجب کہہ رہے ہیں، اہل علم جانتے ہیں کہ کفر کے معنی ظلمت اور حجاب کے ہیں،جب کہ صوفیہ کفر سے مراد زلف احدیت کی سیاہی لیتے ہیں اور زلف احدیت کی سیاہی سے ان کی مراد محمد عربی کا جمال ہوتا ہے، بھلاپھر اس کی عظمت و وجوب میں کیا شبہہ ہو سکتاہے ۔لیکن یہ زبان ایسی ہے جسے نہ زاہد خشک سمجھ سکتاہے اور نہ فقیہ شہرکو اس کی ہوا لگ سکتی ہے۔ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخان فاضل بریلوی ایک مقام پر اہل اللہ کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وہم کرنے والاا صطلاح قوم سے ناواقفی کے باعث کمال عظمت کو معاذ اللہ موجب اہانت گمان کرتاہے اور اہل ظاہر پر انکار کلمات اہل اللہ میں اکثر بلا اسی دروازے سے آتی ہے ،ان کی اصطلاح کو اپنے مفہوم پر حمل کرتے اور خطا میں گرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ
ہندیاں را اصطلاح ہند مدح
سندیاں را اصطلاح سند مدح
در حق او مدح در حق تو ذم
در حق او شہد و در حق تو سم
در حق او ورد و در حق تو خار
در حق او نور و در حق تو نار
توچہ دانی زبان مرغاں را
کہ نہ دیدی گہے سلیماں را
محمد شاہ بادشاہ دہلی کے حضور مجمع علما تھا ۔ بعض کلمات منسوبہ بااولیا پر رائے زنی ہو رہی تھی ، ہر ایک اپنی سی کہتا، اور اعتراض کرتا، ایک صاحب کہ اس جماعت میں سب سے اعلم تھےخاموش تھے ، بادشاہ نے عرض کی آپ کچھ نہیں فرماتے ؟ فرمایا یہ سب صاحب میرے ایک سوال کا جواب دیں تو میں کچھ کہوں ۔سب ان کی طرف متوجہ ہوئے۔انہوں نے فرمایا آپ حضرات بولی کتے کی سمجھتے ہیں ؟ سب نے کہا :نہ !کہا بلی کی ؟ کہا: نہ! کہا سبحان اللہ تم مقر ہو کہ ارذل خلق اللہ کی بولی تم نہیں سمجھتے ، اولیا کہ افضل خلق اللہ ہیں ان کا کلام کیوںکر سمجھ لوگے۔
(فتاویٰ رضویہ :۳۰ / ۸۸ پور بندر ، ۲۰۰۵ء)
حضرت مولانا شاہ تراب علی قلندر کاکوروی کبرو کفر کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’ اس سے عالم ملکوت و عالم لاہوت مراد ہیں۔‘‘ (مطالب رشیدی،ص:۳۶۶)
ظاہر ہے کہ جب کفر کا مفہوم اس قدر اعلیٰ ہے تو یقیناً سالک عارف جو عالم ملکوت و لاہوت کا مسافر ہو تاہے ،وہ کفر کی آرزو کرے گا اور نتیجے کے طورپر آخرت میں توفیق الٰہی سے سرفراز بھی ہوگااور دنیا میں اگر اس کی یہ آرزولفظوں کے پرستار کسی شیخ حرم تک پہنچ گئی تو اس کے کفر وارتداد کے فتوے بھی عام کر دیے جائیں گے اور اگر بالفرض علمائے سو نے اس پر کنٹرول پالیا تو اسے بھی منصور حلاج کی طرح دارورسن کے پھندے چومنے پڑ سکتے ہیں۔
یہی عالم عارف شیخ تراب علی قلندر کاکوری ایک دوسرے مقام پر کافر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کافر اس کو کہتے ہیں جو صفات و اسماء وافعال کے مرتبہ سے گزر گیا ہو اور حق کو تعینات و تکثرات کے پردہ میں دیکھتاہو۔‘‘(مطالب رشیدی، ص ۳۶۹)
اسی تناظر میں کسی عارف نے کہا ہے :
خود را نہ پرستیدۂ عرفاں چہ شناسی
کافر نہ شدی لذت ایماں چہ شناسی
جس سے ملک سلیمان سے ناواقف حضرات کچھ نہیں سمجھتے اور نہ سمجھنےکی کوشش کرتے ہیں۔ اللھم ھدیۃ الحق۔
شاہ تراب علی قلندر نے کفر کا جو اعلیٰ مفہوم بیان کیا ہے ،اس کے علاوہ صوفیہ کے یہاں کفر کا ایک اور مفہوم ہے ،کفر کا یہ دوسرا مفہوم ہم عام مسلمانوں کے لیے عزت و عظمت کا سامان ہے مگر عرفا اسے اپنے لیے پستی اور کم ہمتی تصور کرتے ہیں۔مطالب رشیدی ص:۳۷۷پر رقم طراز ہیں:
’’کفر عالم تفرقہ کی ظلمت کو کہتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے عالم تفرقہ میں قدم راسخ ہونااور اللہ ذات وصفات اور خالقیت ورزاقیت پر کامل ایمان ہونا ہم عام مسلمانوں کے لیے معراج سےکم نہیں، لیکن صوفیہ اسے پستی اور ظلمت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس مقام پر پہنچ کر بھی خود کو مومن نہیں سمجھتے ، اس سے اوپر اٹھتے اور عالم جمع اور جمع الجمع تک رسائی کے لیے بے تاب ہوتے ہیں۔ اس مقام تک رسائی کو وہ عین ایمان سمجھتے ہیں،اس سے نیچے توان کی اصطلاح میں’’ ہنوز اند کے شرک پوشیدہ است‘‘ ۔
اب مقام جمع و فرق کیا ہے ، تھوڑی سی اس کی وضاحت بھی دیکھ لیں تاکہ یہ اندازہ کیاجاسکے کہ کفر جسے صوفیہ عالم تفرقہ کی ظلمت کہتے ہیں وہ بالذات کس قدر بلند و رفیع ہے۔ امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں:
’’لفظ الجمع والتفرقۃ یجری فی کلامھم کثیرا، وکان الأستاذ أبو علی الدقاق یقول: الفرق مانسب الیک والجمع ما سلب عنک، ومعناہ أن ما یکون کسبا للعبد من إقامۃ العبودیۃ وما یلیق بأحوال البشریۃ فھو فرق وما یکون من قبل الحق من إبداء معان وإسداء لطف ٘٘وإ٘٘٘حسان فھو جمع، ھذا أد نی أحوالھم فی الجمع والفرق، لأنہ من شہود الأفعال، فمن أشہدہ الحق سبحانہ أفعالہ من طاعتہ ومخالفاتہ فھو عبد بوصف التفرقۃ ومن أشہدہ الحق سبحانہ ما یؤلیہ من أفعال نفسہ سبحانہ فہو عبد یشاہد الجمع، فاثبات الخلق من باب التفرقۃ واثبات الحق من نعت الجمع، ولا بد للعبد من الجمع والفرق ، فان من لا تفرقۃ لہ لاعبودیۃ لہ ومن لا جمع لہ لا معرفۃ لہ ، فقولہ: إیاک نعبد اشارۃ إلی الفرق، وقولہ :وإیاک نستعین إشارۃ إلی الجمع۔‘‘
(الرسالۃ القشیریۃ، ص:۳۸، مصطفی بابی، مصر، ۱۹۵۹)
’’لفظ جمع وفرق صوفیہ کے کلام میں بہت زیادہ مستعمل ہے۔استاذ ابوعلی دقاق فرماتے تھے:جو کچھ تمھاری طرف منسوب ہو وہ فرق ہے اور جس کی تم سے نفی ہو وہ جمع ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کا کسب مثلا بندگی اور دیگر افعال بشریت، فرق ہے اور جو کچھ حق تعالی کی طرف سے ہو، مثلا معانی کا اظہاراور لطف واحسان کی عطا،وہ جمع ہے۔ جمع و فرق کے تعلق سے صوفیہ کی یہ معمولی حالت ہے۔چوں کہ یہ افعال کے شہود سے ہے، جسے حق تعالیٰ اس کی اپنی اطاعت و معصیت دکھاتا ہے وہ بندہ وصف تفرقہ سے متصف ہوتا ہے اور جسے حق تعالی اس کے خود کے افعال دکھاتا ہے وہ حالت تفرقہ میں ہےاور جسے حق تعالیٰ اپنا فعل دکھاتا ہے وہ حالت جمع کا مشاہدہ کرتا ہے۔ گویا خلق کا اثبات باب تفرقہ سے ہے اور حق کا اثبات باب جمع سے ہے۔ لہٰذا بندے کو جمع وفرق دونوں کی ضرورت ہے۔ جس کے اندر فرق نہ ہو اس میں عبودیت نہیں اور جس میں جمع نہ ہو اس کے اندر معرفت نہیں۔ قول باری ایاک نعبد حالت فرق کی طرف اشارہ ہے اور ایاک نستعین جمع کی طرف اشارہ ہے۔ ‘‘
ظاہر ہے کہ حالت تفرقہ ایک محمود حالت ہے، نہ کہ مذموم حالت، لیکن اس کے باوجود بعض صوفیہ کا اسے کفر کہنا اس کی مذمت کے لیے نہیں بلکہ اس سے اعلیٰ حالت جمع کی تلاش و جستجو کے لیے ہے۔
کفر و کافر کے تعلق سے اب ذرا سید محمد ذوقی شاہ کی تشریحات بھی ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں:
’’کفر : ظلمت تفرقہ ، کثرت کا وحدت میں پوشیدہ کردینا، بحر احدیت جس میں کثرات وتعینات فنا ہو جاتے ہیں، ہر چیز حتی کہ اپنی ذات تک کو ذات الٰہی میں گم کردینا ، اسمائے جلالی کے تحت میں آجانا :
لب دریا ہمہ کفر است و دریا جملہ دینداری
ولیکن گوہر دریا ورائے کفر و دیں باشد
کفر حقیقی: سالک کا ذات کو عین صفات اور صفات کو عین ذات جاننا، ذات حق کو ہر جگہ دیکھنا ، بجز ذات حق کے کسی چیز کو موجود نہ جاننا ، وحدت میں یک رنگ ہو کر ماسوی سے پاک ہوجانا۔
کفر مجازی : ناشکری ذات حق اور گمراہی
کافر: صاحب اعمال جو مرتبۂ اسماء وصفات وافعال سے بلند نہ ہو ا ہو اور حق کو تعینات و تکثرات میں پوشیدہ رکھتاہو، کبھی اسے بھی کافر کہہ دیتے ہیں جوشہود ذات بحت تک پہنچ گیا ہو یا جو حقیقت کا مجاز میں مشاہد ہ کر تاہو۔
کافربچہ : عالم وحدت میں جس نے یک رنگی حاصل کر لی ہو جو ماسوی سے روگرداں ہو کر سواد ہستی میں جا گزیں ہو گیا ہو اسے گبر بھی کہتے ہیں۔‘‘ (سر دلبراں، ص:۲۹۰، ۲۹۱)
یہاں پر اب یہ نکتہ محتاج بیان نہیں رہاکہ صوفیانہ شاعری میں جب کفر کی مذمت ہوتی ہے تو یہاں صوفیہ اور متکلمین ایک جگہ کھڑے ہو تےہیں ،لیکن یہ کفر مذمومہ صوفیہ کی اصطلاح میں کفر مجازی ہے، اس کے بر عکس جب صوفیہ کفر کی مدح کرتے ہیں، اس وقت کفر محمود و مطلوب معنی میں ہوتاہے، صوفیہ اسے کفر حقیقی کہتے ہیں اور اس کے حصول کے بعد ہی ایمان کی تکمیل سمجھتے ہیں۔ لیکن جن کا ذہن متکلمین کی خاص اصطلاح سے لبریز ہوچکاہواور مزید اس میں کسی سمائی کی گنجائش نہ ہو ، انہیں ہمیشہ صوفی سے شکایت رہتی ہے، لیکن ایسے قابل رحم تنگ دماغوں سے کیا شکایت کرنا جنہوں نے عرفان کی دنیا کا نہ کبھی نظارہ کیا اور نہ صاحبان عرفان سے صحیح معنوں میں محبت کی ، محبت کی ہوتی تو کچھ تو ضرور جانتے اورکم از کم زبان بندرکھتے تاکہ اہل عرفان اور صاحبان حق کا فیض انہیں ملتا رہتا۔
حافظ شاہ شبیب انور علوی نے کفر کے مفہوم کو مزید کھولا ہے ،ملاحظہ کیجیے:
’’کفر :یہ ناشکری کے معنی میں ہے،اصطلاحااس کی دو قسمیں ہیں کفر مجازی اور کفر حقیقی ،کفرمجازی وہ ہے جو کفار و مشرکین میں ہے ، جس میں شرک اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہے ،کفر حقیقی یہ ہے کہ ذات محض کو اس طرح ظاہر کرے کہ سالک ذات حق کو عین صفات اور صفات کو عین ذات جانے جیساکہ ہے ،ذات حق کو ہرجگہ دیکھے اور سوائے ذات حق کے کسی کو موجود نہ جانے ۔ یہ حقیقت میں توحیدو ایمان ہے، اگر چہ عوام کو کفر معلوم ہوتاہے۔ بعض صوفیا نے لکھا ہے کہ کافر اور گمراہ وہ شخص ہے جو وحدت میں یک رنگ ہو کر ماسوی اللہ سے پاک ہو گیا، بہر حال دونوں معنوں کامرجع ایک ہے ۔کفر کے معنی ظلمت کے بھی ہیں کیوں کہ نور سے ظہور اور ظلمت سے پوشیدگی ہے۔ ‘‘
(اصطلاحات تصوف، ص : ۱۵۷)
صوفیہ کے مفہوم کو سمجھنے میں اگر اب بھی کسی کو ژولیدگی کا سامنا ہے تو اب مزید ہم اس کی تفہیم سے قاصر ہیں، ایسے شخص کے حق میں صرف دعاہی کی جاسکتی ہے۔اللھم ! اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین أنعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضٓالین۔
لفظ محبت کا صوفی مفہوم
شیخ ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں:
’’محبت دل وارفتہ کے میلان مسلسل کا نام ہے ، ایک قول یہ ہے کہ تمام دوستوں پر محبوب کو ترجیح دینے کا نام محبت ہے ۔ایک قول کے مطابق حضور و غیبت ہر حال میںمحبوب کی موافقت کا نام محبت ہے ، کسی نے کہا محب کا اپنی تمام صفات کو مٹادینے اور محبوب کی ذات کو باقی رکھنے کا نام محبت ہے ،کسی نے کہا محبت رب کی مرضی میں دل کی موافقت کرنا ہے اور کسی نے کہا اطاعت کرتے رہنے اور بے ادبی سے ڈرتے رہنے کا نام محبت ہے ۔شیخ بایزید بسطامی نے کہا: اپنی کثیر چیزوں کو کم جاننا اور محبوب کی قلیل چیزوں کو زیادہ جاننا محبت ہے۔ حضرت سہل کا قول ہے: محبت اطاعت سے ہم آغوش رہنا اور مخالفت سے دور رہنا ہے ۔حضرت جنید بغدادی سے محبت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:محب کے اوصاف کی جگہ محبوب کے اوصاف کا آجانا محبت ہے۔ حضرت جنید کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ محبوب کا ذکر غالب آجائے یہاں تک کہ محب کےقلب پرمحبوب کے اوصاف کا ذکر غالب رہے اور اپنے اوصات سے بلکہ ان کے احساس سے بالکلیہ تغافل ہو۔ شیخ ابوعلی رودباری نے کہا: محبت موافقت کا نام ہے ۔شیخ ابو عبداللہ القرشی نےکہا کہ حقیقت محبت یہ ہے کہ تم اپنے محبوب کو اپنا سب کچھ دے دو ،یہاں تک کہ تمہارے لیے کچھ بھی تمہارانہ ہو۔حضرت شبلی نے فرمایاکہ محبت کو محبت اس لیے کہاجاتاہے کہ یہ دل سے ماسوی المحبوب کو مٹادیتی ہے۔ (رسالۂ قشیریہ، ص: ۱۸۵، ۱۸۶)
شیخ ابو بکر کلاباذی فرماتے ہیں :
’’بعض مشائخ کا فرمان ہے ،محبت کی دو قسمیں ہیں، محبت اقرار ،یہ خاص و عام سب کے لیے ہے، صحیح طریقے سے محبتِ وجد ، اس میں نفس و خلق سے نظر اٹھ جاتی ہے حتی کہ اسباب و اقوال بھی نظر نہیں آتے، سالک ان امور کے مشاہدے میں غرق ہو تاہے جو اللہ کے لیے ہیں یا اس کی طرف سے ہیں۔‘‘
(التعرف لمذہب اہل التصوف، ص : ۱۰۴، دارالمقطم،مصر، ۲۰۰۹ء)
یہ عشق ومحبت کیابلا ہے ،ایک عاشق زار سے سنیے،شیخ ابو جعفر مکی بحرالمعانی کے اندر مذکور اپنے ساتویں مکتوب کو اس طرح شروع کرتے ہیں:
’’عشق اندر فضل و علم و دفتر واوراق نیست
ہر چہ گفت و گوئے باشد آں رہ عشاق نیست
شاخ عشق اندر ازل واں بیخ عشق اندرابد
کیں شجر را تکیہ بر عرش و ثری و ساق نیست
اے محبوب! میں مست ہوں ، ہر چند چاہتاہوں کہ عشق سے احتراز کروں لیکن عشق مجھے پریشان اور سرگرداں رکھتا ہے اور حضرت خواجہ علیہ ا لسلام نے فرمایا: من عشق وکتم و عف و مات مات شہیدا (جس نے عشق کیا اور اسے چھپایااور پاک باز رہا اور مر گیا وہ شہید مرا) زہے بر خورداری کی دولت وعفت ؎
کارم اندر عشق مشکل می شود
نام و ننگم در سر دل می شود
من ہمی خواہم کہ بگریزم ز عشق
عشق پیش از من بہ منزل می شود‘‘
(بحر المعانی ، ص : ۱۰۰، ۱۰۱)
حضرت مخدو م سمناں سلطان اشرف جہانگیر سمنانی فرماتے ہیں:
محبت :حق سبحانہ وتعالی سے بغیر کسی سبب اورعلاقہ کے اور بغیر کسی متحرک کے دوستی ۔(لطائف اشرفی:۱/۶۹۲)
درد: اس حالت کا نا م ہے جو محبت سے محب پر طاری ہو جاتی ہے اور اس کے برداشت کرنے کی محب میں طاقت نہیں ہوتی۔(ایضا:۶۹۴)
عشق: محبت مفرط کا نام
معشوق: حق تعالیٰ جب اس کی طلب حد کما ل پر پہنچ جائے،اس اعتبار و یقین کے ساتھ کہ من جمیع الوجوہ وہی مستحق دوستی ہے۔
عاشق: حق کا متلاشی (ایضا:۶۹۷)
شاہ تراب علی قلندر کاکوروی عاشق کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’ایسا شخص مراد ہے جولواحق (تعلقات) دنیا سے گزر گیا ہو اور معشوق حقیقی ہی کو دیکھتاہو اور رنج ومحنت پر راضی و شاکر رہتاہو۔‘‘(مطالب رشیدی، ص : ۳۶۵)
حضرت کے بقول یہ اصطلاح حافظ کی ہے ۔عطار ، عراقی، مغربی، بو علی شاہ قلندر اور رومی کی مصطلحات کے مطابق عشق ، عاشق اور معشوق کی تعریف میں لکھتے ہیں:
’’عشق: ذات حق کو کہتے ہیں اور اس کو عالم لاہوت بھی کہتے ہیں۔
معشوق :صفات حق کوکہتے ہیں اور اسی کو عالم جبروت اور وحدت اور تعین اول اور برزخ کبریٰ اور ام الکتاب اور روح اعظم اور حقیقت محمدی بھی کہتےہیں۔
عاشق : اسمائے حق کو کہتے ہیں اور اس کو واحدیت اور مرتبۂ آدم اور تجلی ثانی اور عالم شہادت اور منشائے کثرت اور عالم ملکوت اور عالم ماسوا اور عالم معانی بھی سمجھتے ہیں۔‘‘(حوالہ سابق، ص ۳۶۷)
یہی شاہ تراب علی قلندر ،خواجہ محمد پارسا کی اصطلاح کے مطابق عاشق و معشوق کی تعریف یوں لکھتے ہیں:
’’عاشق: جمال و جلال الٰہی کے شیفتہ کو کہتے ہیں جو طلب اور جد(کوشش )کے بعد حاصل ہو۔
معشوق: حق کو کہتے ہیں جو طلب میں پوری کوشش کرنے کے بعد نصیب ہو، اس لیے کہ مستحق دوستی وہی ہے اور بس۔‘‘(ایضا، ص ۳۷۳)
مخدوم اشرف کچھوچھوی اورحضرت شاہ تراب علی کاکوروی کی مذکورہ بالا تشریحات کے بعد اب یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ آخرکیا وجہ ہے کہ صوفیہ ذرۂ درد محبت پر ہمہ دم کفر و ایمان بلکہ دونوں جہان کونچھاور کرنے کو تیار نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جسے اس کا وصال ہو جائے اسے دونوں جہان ہی کیا کروڑوں جہان کی کیا غرض ،صادقین عرفا کی جماعت کو نہ جہنم کا خوف ہوتاہے اور نہ جنت کی لالچ، یہ ہمہ دم خالق جہنم اور مالک جنت کے طالب ہوتے ہیں، اس کی یاد ،اس کی فکر اور اسی کے وصال میں کائنات کو اور خود اپنی ذات کو محو کیے رہتے ہیں۔
صاحب سر دلبراں سید شاہ محمد ذوقی نے عشق ومحبت اور درد عشق پر طویل اور دلچسپ گفتگو کی ہے ،ہم اس سے صرف دو اقتباس نقل کرتے ہیں:
’’جو عشق کہ حضرت انسان کو عطا فرمایاگیا ہے اس میں درد ہے ، تڑپ ہے، سوز ہے ،وہ عشق ایک آتش ہے جو عشاق کوجلاتی رہتی ہے ۔ آتش دوزخ بیگانوں کوجلاتی ہے اور آتش عشق یگانوں کو ، یہ عشق ہی ہے کہ ایمان اس کے بغیر کامل نہیں ہوتا، عبادت اس کے بغیر ناقص رہتی ہے ،عبادت بغیر عشق کے بے کار اور عشق بغیر عبادت کے ناتمام۔جو طاعت محبت سے کی جاوے وہ اس طاعت سے بہتر ہے جو خوف کی وجہ سے کی جاوے،عبادت بلا عشق زہد خشک ہے اور زہدخشک سے بد تر دنیا میں کوئی آزار نہیں، عشق دنیا وآخرت کے غموں سے فارغ کر دینے والی چیز ہے ۔سلوک کا دارومدار اسی عشق پر ہے۔بغیر اس عشق کے انسان بے لطف او رمزدوروں کی زندگی بسر کرتاہے ؎
مرحبا اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ علت ہائے ما
اے دوائے نخوت و ناموس ما
اے تو افلاطون و جالینوس ما
جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوہ در رقص آمد و چالاک شد
عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
در نگنجد عشق در گفت و شنید
عشق دریائیست قعرش ناپدید
شرح عشق ار من بگویم بر دوام
صد قیامت بگذرد آں ناتمام
عاشقی پیداست از زاری دل
نیست بیماری، چوں بیماری دل
ملت عشق از ہمہ دینہا جداست
عاشقاں را مذہب و ملت خداست
مگر یہ عشق وہی ہے جس میں درد کی چاشنی ہو، انسان کے لیے درد وعشق باہم لازم و ملزوم ہیں، موجب ترقی درد ہے ۔عشق بدوں درد موصل بہ مطلوب نہیں، موصل بہ مطلوب جو چیز ہے وہ درد ہے ۔
درد حاصل کن کہ در ما درد تست
در دو عالم داروئے جاں درد تست
ذرۂ دردت دہ اے درمان من
زانکہ بے دردت بمیرد جان من
کفر کافر را و دیں دیندار را
ذرۂ دردت دل عطار را‘‘
(سر دلبراں،ص: ۲۵۹)
شاہ محمد ذوقی ’’عشق کی صوفیانہ تعریف‘‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’جب وجود حقیقی ایک ہے اور کائنات میں سب کچھ اسی کی کسی نہ کسی صفت کا پرتو ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ
حسن خویش از روئے خوباں آشکارا کر دۂ
پس بچشم عاشقاں خود را تماشا کردۂ
جب خود بینی و خودنمائی کے تیر ایک ہی ترکش سے نکل رہے ہیں،جب کہ نظرو منظور،شاہد و مشہود ،طالب و مطلوب کی اصل ایک ہے توتصوف کی زبان میں عشق و محبت کی تعریف یہ ہوگی کہ جمیل حقیقی کا جمعاً اور تفصیلا ًاپنے کمال کی جناب میلان۔‘‘(سر دلبراں، ص : ۲۶)
آگے بڑھنے سے پہلے عشق کے مضمون پر چند ابیات حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کے بھی ملاحظہ کرتے چلیں۔فرماتے ہیں:
عشق جذب و شوق کی بنیاد ہے
عشق سے سیر و سلوک آباد ہے
عشق کے مکتب کا ملاّ عشق ہے
درسِ ابجد کا خلاصہ عشق ہے
عشق سے بڑھ کر نہیں کوئی عظیم
عشق ہے بر حق صراطِ مستقیم
در حقیقت عشق ہے میروں کا میر
بے محابا عشق ہے پیروں کا پیر
عشق ہو جاتاہے جب بڑھ کر جواں
کفر بن جاتا ہے ایماں بے گماں
عشق کی گفتار ہے گفتارِ حق
عشق کی رفتار ہے رفتارِ حق
عاشقانِ حق کا یہ فرمان ہے
جس پہ ہر پیر و جواں قربان ہے
عشق ہی خود دین اور ایمان ہے
عشق ہی خود مصحفِ قرآن ہے
عشق ہی مسجد ہے اور عشق ہی اذاں
عشق ہی سجدہ سجودِ پنجگاں
عشق مستیِ فنا فی اﷲ ہے
عشق ہستیِ بقا باﷲ ہے
عشق ہے نورِ ظہورِ کبریا
عشق ہے وجہ نمودِ مصطفی
بالیقیںجو صورتِ رحمٰن ہے
بے محابا جلوۂ سبحان ہے
عشق کے صوفیانہ مفہوم میں کتنی وسعت ،پہنائی اور گہرائی ہےاس کی ایک جھلک مذکورہ بالا اشعارو تشریحات میں دیکھی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی بہت خوب صورتی سے اس بے کرانی کوسمیٹتے ہوئے لکھاہے:
عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
صوفیہ صافیہ اسی عشق کے بحرناپیداکنار کے شناور ہوتے ہیں، زاہد تنگ نظر اپنے مزعومہ ایمان و اسلام کے تنگنائےمیں جب ان نفوس قدسیہ کو نہیں پاتےتونتیجۃً وہ اپنی تنگ نظری کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان نفوس قدسی صفات پر دائرہ ایمان سے خروج کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ یہاں خطا ان فتویٰ بکف مولویوں کی نہیں ہے،خطا اس تربیتی نظام کی ہے جہاں ان مجاہدین کو گولیاں چلانے کی تربیت تو دی جاتے ہے، ملک فتح کرنے اور بچانے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ ان کے دلوںکو جوش فراواں سے سرشار تو کر دیا جاتا ہے مگر ذہن کی کھڑکیاں حسب سابق بند کی بند ہی رہ جاتی ہیں۔ عصر حاضر میں دینی تعلیمی نظام کے اندر معلومات کے ساتھ اخلاقیات اور علم کے ساتھ شعور کی تربیت از حد ضروری ہوگئی ہے ۔ذوقی شاہ نے کتنی چبھتی ہوئی لطیف بات کہی کہ
’’عبادت بلا عشق زہد خشک ہے اور زہد خشک سےبد تر دنیا میں کوئی آزار نہیں۔‘‘
اب ظاہر ہے کہ جو لوگ اس آزار میں مبتلاہوں ،ان سے کسی خیر واور فہم و بصیرت کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔وہ اس قسم کے اشعار کو کیا سمجھیں گے:
عشاق روضہ سجدے میں سوئے حرم جھکے
اللہ جانتاہے کہ نیت کدھر کی ہے
پیش نظر وہ نوبہار سجدے کو دل ہے بے قرار
روکیے سر کو روکیے ہاں یہی امتحان ہے
خرد سے کہہ دو کہ سر جھکالے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کے لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سراغ این ومتی کہاں تھا نشان کیف والی کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی ، نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا ادھر کا
تنزلوں میں ترقی افزا، دنیٰ تدلیّٰ کے سلسلے تھے
اٹھے جو قصر دنی کے پردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں توجاہی نہیں دوئی کی، نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے ارے تھے
حجاب اٹھنے میں لاکھوں پردے ہرایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
وہی ہے اول وہی ہے آخر وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اسی کے جلوے اسی سے ملنے اسی سے اس کی طرف گئے تھے
(فاضل بریلوی)
یہ اور اس جیسے اشعار صحیح معنوں میں وہی سمجھتے ہیں جنہیں عشق کی سر فرازیوں کا حصہ ملا ہو ،یاکم ازکم جن کے اندرسر فرازان عشق ومحبت کے ساتھ حسن ظن کا مضبوط رشتہ قائم ہو۔ درد محبت سے ناآشنا ،ظلمتوں اور فرقتوں میں جینے والے، بدگمانیوں، بدتمیزیوں اور غلط فکریوں اور غلط کاریوں میں مبتلا اشخاص عشق ومحبت کی واردات کوکیا جانیں۔عاشق صادق دنیا میں ہوتے ہوئے بھی دنیا کی حدود سے باہر ہوتاہے ۔ وہ رنج ومحن اور فضل و نعم ہر حال میں شاکر و ساجد ہوتاہے۔ وہ معشوق حقیقی کے جلوؤں میں گم ہوتاہے، القدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰکا راز اس پرعیاں ہوتاہے،ان الحکم الا للہ کی تمام تر حقیقتیں اس کے حضور عملی شکل میں بےحجاب ہوتی ہیں۔خلقکم و ماتعملون کی جلوہ سامانیاں اس کی نگاہوں میں ہوتی ہیں، زاہد خشک ایسے دیوانوں کو ہوش میں لانے کی تدبیر کرتاہے،ایسے فرزانوں کووہ ایمان واسلام کے ابتدائی اسباق پڑھانے کے لیے بے چین ہوتاہے،جب کہ یہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوتے ہیں، یہ عشق کے بندے بحث وجدال کی دنیا اور کشف و کرامات کی سرحدوں سے بہت آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔
عشاق حق کی نظر میں صرف ایک مطلوب ہوتاہے ذات حق ، جب عشق کے رشتے کوبھی من اللہ پاتے ہیں، تووہ اپنی عاشقی کو بھی بھول جاتے ہیں،دوئی کا تصور مٹ جاتاہے ،کیوں کہ ان پر یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ فاعل حقیقی صرف ایک ہے اور جب فاعل حقیقی صرف ایک تو عاشق و معشوق کا جھگڑاکہاں ، بلکہ خود عشق کی غیریت کیسی ،یہ و ہ مقام ہے جہاں پہنچ کر عرفا بسا اوقات کفر و ایمان کی غیریت پر خندہ زن ہوتے ہیں،لیکن یہ خندہ زنی ان کے مقام، حال اور اصطلاح کی مطابق ہوتی ہے، جو لوگ ان کی اصطلاح سے بےخبر ہیں وہ کچھ سے کچھ معنی نکال لیتے ہیں۔جب صاحب عرفان اپنی مخصوص اصطلاح اور لب و لہجے میں نعرہ زن ہوتاہے کہ؎
ملت عشق از ہمہ ملت جداست
عاشقاں را مذہب و ملت خداست
کفر کافر را ودیں دیندار را
ذرۂ دردت دل عطار را
رندے دیدیم نشستہ بر خنگ زمیں
نہ کفر و نہ اسلام و نہ دنیا و نہ دیں
ما و عشق یار اگر در قبلہ و در بت کدہ
عاشقان دوست را با کفر وایماں کارنیست
تو اصطلاح تصوف سےناآشنا یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید صوفیہ کا دین و مذہب اسلام سے الگ ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ روح اسلام کے حامل ہوتے ہیں، وہ روح کے متلاشی ہوتے ہیں اور ظاہر بیں انہیں جسم کا منکر سمجھ لیتاہے۔وہ عشق الٰہی کے طلب گار ہوتے ہیں اور اس تقویٰ اور خود نمائی سے بیزار ہوتے ہیں جس میں انسان گرفتار انا ہو کر اپناہی طواف شروع کر دیتاہے ۔ صوفیہ زاہدان خشک کی طرح عبادت بلا عشق پر نازاں نہیں ہوتے ،بلکہ اپنی عبادت کے اندراس درد کو تلاش کرتے ہیں جو وصال الٰہی کا مرکب ہے،اس تلاش حقیقت کو تنگ نظر اسلام سے خروج سمجھتے ہیںتو طالبان مولیٰ ان کے اس ’’مخصوص اسلام‘‘ سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ عرفائے حق تو تصور غیریت کو بھی کفر سمجھتے ہیں جسے عام لوگ حقیقت اسلام سمجھے ہوئے ہوتے ہیں۔صوفیہ اس اسلام کو اپنے لیے کفر سمجھتے ہیں اور اس سے آگے نکل کر بحر وحدت میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ قل ہوا للہ احد، ان الحکم الا للہ، خلقکم وما تعملون اور القدر خیر ہ وشرہ من اللہ کے جلوے جب بے نقاب ہوتے ہیں تو غیریت کے سارے حجاب اوہام وخیالات سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔بحر عشق و محبت میں جب صوفی ڈوب جاتاہےاور لا فاعل الا اللہ اور اس سے آگے بڑھ کر لاموجود الا اللہ کی حقیقت جب اس پرمنکشف ہوتی ہے تو وہ ببانگ دہل پکار اٹھتاہے:
سر سرم جان جانم من نیم
من نیم واللہ یاراں من نیم
نہ کافر ہوں ،نہ مومن ہوں ،نہ عصیاں ہے ،نہ طاعت ہے
غلام شاہ خادم ہوں، مرا مذہب محبت ہے
کہاں ایمان کس کا کفر اور دیر و حرم کیسے
ترے ہوتے ہوئے اے جاں خیال دوجہاں کیوں ہو
اس کے سامنے قرص آفتاب بے حجاب ہوتاہے، تو حید نکھری اورکھلی ہوتی ہے، مگر اندھااس توحید کو انکار سمجھتاہے اور آشوب چشم میں مبتلامریض ایک آفتاب کو دوچاردیکھتاہے اور الشرک الشرک پکارنے لگتاہے۔جب نظر خراب ہوتو اس میں نظارے کا کیا قصور،جسے ناچنانہ آوے اور آنگن کو ٹیڑھا کہے اس پر حیرت کیاہے۔ ایسے اندھوں ،تنگ نظروں اور آشوب چشموں کے بیچ جب کوئی صاحب نظر گھر جاتاہے تو بے ساختہ پکار اٹھتاہے :
عشق را با کفر و با ایماں چہ کار
عاشقاں را لحظہ با جاں چہ کار
ہر کرا در عشق محکم شد قدم
در گذشت از کفر از اسلام ہم
(عطار)
کافر عشقم مسلمانی مرا درکار نیست
ہر رگ من تار گشتہ حاجت زنار نیست
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آرے آرے می کنم باخلق مارا کار نیست
(خسرو)
ندانم کہ ایماں چہ و کفر چیست
گر ایں بود در آں فدائے تو شد
(عزیز صفی پوری)
بت خانہ و کعبہ کچھ نہ جانا
کہاں جائیں خلاف کفر و دیں ہم
(آسی غازی پوری)
مطلب نہ کفر و دیں سے نہ دیر وحرم سے ہے
کرتاہے دل طواف عذار و طواف زلف
(بہادر شاہ ظفر)
اسلام کفر سے تو یہاں کچھ نہیں حصول
ہم کو نہیں ہے کافر و دیندار سے غرض
(مسکین شاہ)
کفر کہاں اسلام کدھر ہے گبرو مسلماں کہتے ہیں کس کو
کعبہ ہمیں ہیں دیر ہمیں ہیں تسبیح و زنار ہمیں ہیں
مفتی نے دیے کفر کے فتوے میرے اوپر
اتنا نہیں سمجھا مجھے میں کون بشر ہوں
(اشرفی میاں)
کفرواسلام کی سرحد سے الگ دور کہیں
اک نئی دنیا محبت کی بسائے کوئی
(شیخ ابو سعید)
کم سے کم وہ لوگ جو تصوف کا دم بھرتے ہیں،غوث وخواجہ کا نعرہ لگاتے ہیں اور طریقت کے کسی نہ کسی سلسلے سے وابستہ ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ اصطلاحات صوفیہ کو سمجھیں اور تصوف اور ارباب تصوف کے ساتھ حسن ظن قائم کریں ۔ اہل قبلہ کوئی بھی ہو، اس کے قول وعمل میں ہر ممکن تاویل تلاش کرنے کی کوشش کریں، امت مسلمہ انتشار در انتشار کے مرحلوں سے گزر رہی ہے،ایسے میں ایمان و کفر کے حوالے سے کسی شخص معین پر رائے دینے کے لیے متکلمین کے مشکل ترین پیمانے سے مسئلے کی نوعیت کو انتہائی حدتک مخلصانہ طور سےسمجھنے کی کوشش کریں۔ افسوس! کہ آج تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا ہے،تصویر ہی بدل گئی ہے، اب اہل اسلام کے کفر یہ قول میں ایمان واسلام کا ضعیف پہلو تلاش نہیں کیا جاتا ، بلکہ ان کے اسلامی اقوال میں کفر کے ضعیف پہلو تلاش کر کے اپنے جذبات واشتعالات کو تسکین پہنچائی جاتی ہے۔وہ فقہائے حرم جن کے لیے صحیح تعبیر علمائے سو ہے ، وہ کسی مسلمان کا کفر کھینچ تان کر ثابت کر دینے کے بعد پھولے نہیں سماتے،مارے خوشی کے بغلیں بجاتے ہیں اور اپنا چھوٹا سا کمرہ بند کر کے کیف مستی میں دلاورفگار کا یہ شعر گنگناتے ہیں:
ہر شخص پر ہے کفر کا فتویٰ لگا ہوا
یو ں ہے تو ایک میں ہی مسلمان رہ گیا
اس مضمون کو خیام نے آسمان کی رفعتیں بخش دی ہیں۔ فرماتے ہیں:
کفر چو منے گزاف آساں نہ شود
محکم از ایمان من ایماں نہ شود
در دہر چو من یکے و آں ہم کافر
پس در دوجہاں یکے مسلماں نہ شود
(مجھ جیسے آوارے کا کفر آساں نھیں ہے اور نہ میرے ایمان کی طرح کسی کا ایمان مستحکم ہے.کائنات میں میرے جیسا کوئی ہو اور وہ بھی کافر ؟؟ پھر تو دونوں جہاں میں کوئی مسلمان ہے ہی نہیں۔)
Leave your comment