یہی ہے مری آرزو یا الٰہی
کہ دیکھوں تجھے چار سو یا الٰہی
یہی اِک تمنا ہے روزِ ازل سے
کہ دل میں ہو بس تو ہی تو یا الٰہی
ترا آئینہ ہیں ترے خاص بندے
زمیں پر ہیں یہ تیری بو یا الٰہی
وہ کیوں کر نہ کھو جائے جلوؤں میں تیرے
کرے جو تری جستجو یا الٰہی
جدھر دیکھتا ہوں جہاں دیکھتا ہوں
نظرمیں ہے بس تو ہی تو یا الٰہی
کدھر جاؤں میں چھوڑ کر تیرے در کو
کہ مولیٰ ہے بس میرا تو یا الٰہی
سعیدؔ اللہ اللہ کس سے کہوں میں
کہ ہے میرے پردے میں تو یا الٰہی
سعیدؔ آئینہ خانۂ دل کے اندر
اگر ہے تو بس تو ہی تو یا الٰہی
Leave your comment