بنیادی اعتبار سےاسلام دین دعوت و تبلیغ ہے،مذہب انکار و تکفیر نہیں ہے۔ فلیبلغ الشاہد الغائب اور بلغواعنی ولو آیۃ فرما کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس بات کا مکلف فرمادیا ہے کہ وہ قیامت تک پیدا ہونے والے ملحدین، مشرکین، کفار ،اہل ضلالت اورفاسق و فاجر لوگوں تک ہدایت اور روشنی سے بھری باتوں کی تبلیغ و ترسیل ،حکمت و موعظت اور علمی سنجیدہ اسالیب میں کرتے رہیں۔
امت مسلمہ کے لیے یہ بات بڑی قابل افسوس ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کے اس دنیا سے کوچ فرمانے کے ساتھ ہی فتنوں میں گرفتار ہوگئی۔ فتنۂ ارتداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماتے ہی رونما ہوا ۔ اس کے بعد کے زمانے میں نگاہ فلک نے جمل اور صفین جیسے خون آشام معر کے بھی دیکھے ۔کچھ سالوں بعد کربلا کا سانحہ بھی اس امت کے بعض بے توفیق افراد نے آل رسول کے خلاف برپا کیا جو ظلم و ستم کا استعارہ ہے۔نظریاتی سطح پر بات کریں تو حضرت علی کے عہد میں ہی خوارج کا تکفیری گروہ سامنے آیا جس کی نظر میں باب علم نبوت امیر المومنین مولائے کائنات حضرت علی ابن ابو طالب اور کاتب وحی ربانی صحابی رسول جناب امیر معاویہ بھی مسلمان نہ رہ سکے۔ اس کے بعد قدر و جبر کی بحثیں چھڑیں، معتزلہ اور مرجیہ کا ظہور ہوا، خصوصاً عہد عباسی میں یونانی علوم کی در آمدات کے سبب گمراہیوں کا بازار گرم ہوا، نظریاتی اختلافات اپنے شباب پر پہنچے ،بھانت بھانت کے عقیدے اور فرقے سامنے آئے اور ظلم یہ ہوا کہ ہر فرقہ خود ہی مسلمان تھا ،اس کے علاوہ دوسرے لوگ اسلام سے خارج تھے۔
اللہ بھلا کرےعلمائے متکلمین کا جنہوں نے تکفیر کے باب عام کو بند کیا اور مسئلہ تکفیر کو مشکل سے مشکل تر کر دیا۔ تکفیر کے لیے ضروریات دین کو انکار صریح کے ساتھ مشروط کیا، پھر اس انکار کے ثبوت کو لزوم و التزام کا فرق کر کے اور مشکل کر دیا اور آخر میں کلام، تکلم اور متکلم میں تاویل کے مختلف پہلو بتا کر مؤوّلین کی تکفیر کو مشکل ترین بنادیااور انتہا یہ کہ ایک ہی قول ایک عالم و محقق کے نزدیک صریح، ناقابل تاویل اور موجب تکفیر ٹھہرا اور دوسرے عالم و محقق کے نزدیک مؤوّل، قابل تاویل اور موجب سکوت ثابت ہوا۔( مفتی مطیع الرحمٰن مضطر رضوی نے اپنی شہ کار تصنیف ’’ اہل قبلہ کی تکفیر ‘‘میں تکفیر کلامی کے حوالے سے تین ایسی صورتیں لکھی ہیں جب ایک ہی تکفیر کسی کے نزدیک کلامی ہوتی ہے اور دوسرے کے نزدیک غیر کلامی۔ ص: ۴۶ -۵۳، مسلم کتابوی ، دربار مارکیٹ، لاہور،۲۰۰۶۔تفصیل کے لیے کتاب مذکور کا مطالعہ کریں۔)
فقہا اور متکلمین نے ایک طرف اقوال کفریہ اور اعمال کفریہ کی فہرست بنائی تو دوسری طرف یہ طے کر لیا کہ جب تک ان کے قائلین کے بارے میں پوری تحقیق و تفتیش نہ کر لی جائے ان اقوال و اعمال کی بنیاد پر شخصی تکفیر نہیں کی جا ئے گی کیونکہ کسی شخص سے کسی کفری قول و عمل کا صدور ہونا چیزےدیگر ہے اور اس شخص کا کافر ہونا چیزے دیگر ۔( وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ-طہ:۱۱۵) آدم سے رب کی معصیت ہوئی، مگر آدم کوہم’’ عاصی‘‘ نہیں کہیں گے کیو ں کہ دوسری آیت میں یہ صراحت کے ساتھ موجود ہے: ( فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا- طہ :۱۱۵) آدم بھول گئے تھے، ان کے اندر معصیت کا ارادہ نہیں تھا ۔
متکلمین نے مسئلہ تکفیر کو یہ کہہ کر اور مشکل کر دیا کہ اگر ایک قول میں ننانوے پہلو کفر کے ہوں اور ایک پہلو ،ضعیف سے ضعیف ،نحیف سے نحیف ،خواہ وہ دوسرے امام کے مسلک پر ہی کیوں نہ ہو،ایمان کا ہو ، تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔
متکلمین نے یہ رویہ در اصل اس لیے اپنایا اور تکفیر کو اس لیےمشکل کیا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو پھر آج دنیا میں کوئی مسلمان ہی نہ ہوتا،ہر شخص دوسرے کے نزدیک کافر ہوتا۔ متکلمین کی یہ کوشش کتنی کامیاب رہی، یہ الگ سوال ہے، لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ متکلمین کے طریقۂ تاویل وتوسع کے برخلاف امت میں ہر دو رمیں تکفیری اور تشدیدی رجحان کے حاملین موجود رہے اور خوارج کے فکری تشدد کے علم بردار ہر عہد میں پائے گئے۔ تاریخ تحریک وہابیت کے واقف کار جانتے ہیں کہ اس کے بانی شیخ محمدبن عبد الوہاب نجدی میں کس قدر تشدد تھا اور وہ اپنے نظریاتی مخالفین کوکس شدت کے ساتھ کافرو مشرک کہا کرتے تھے ۔ ابن عبد الوہاب کے بھائی شیخ سلیمان بن عبد الوہاب نے اپنے بھائی کی تفہیم و تردید کے لیے جو کتاب الصواعق الالهيۃ في الرد علی الوهابيۃ لکھی ہے، اس میں بطور خاص بار بار اسی بات کو دہرایا ہے کہ امت مصطفی کو تم کافر و مشرک کیوں کہتے ہو؟ پیغمبر لوگوں کو مسلمان بنانا چاہتے تھے اور تمہارا سارا زور مسلمانوں کو کافر بنانے پر ہے۔
وہابیت کا ہندوستانی ایڈیشن جو شاہ اسماعیل دہلوی کے ذریعے عام ہو ااس کے اندر بھی متشددانہ تکفیری رجحان موجود تھا ،شاہ اسماعیل نے ایک موقع پر یہاں تک اعتراف کیا کہ میں نے شرک خفی کو شرک جلی لکھ دیاہے۔ نزہۃ الخواطر کے مصنف مولاناسید عبد الحی رائے بریلوی نے اپنی کتاب ’’دہلی اور اس کے اطراف‘‘ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ میاں نذیر حسین دہلوی کے عہد میں دہلی کے اندر موجود وہابی غیر مقلدین حضرات احناف کو مباح الدم اور ان کی عورتوں کو اپنے لیے حلال سمجھتے تھے۔( یہ لوگ یعنی حنفی المذہب مستحل الدم ہیں۔ ان کا مال مال غنیمت ہے، ان کی بیویاں ہمارے واسطے جائز ہیں۔( دہلی اوراس کے اطراف، اردو اکادمی، دہلی،۲۰۰۱ء،ص:۵۶) )افسوس صد افسوس ! کہ عرب و عجم اور یورپ و امریکہ میں آج خارجیت و وہابیت سے متأثر افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جو تکفیر مسلم کے معاملے میں انتہائی جری اور بے باک ہیں۔ بات بات پر اپنے علمی، فکری، فقہی، سیاسی اور سماجی مخالفین پر کفر کے فتوے داغتے ہیں اور ان کے جان و مال کے در پے آزار ہو جاتے ہیں۔ آج عالم اسلام اگر تباہ ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے ایک بڑا عفریت یہی تکفیری رجحان ہے۔
یہ بات بھی افسوس ناک ہے بلکہ زیادہ افسوس ناک ہے کہ اس وقت ہندو بیرون ہند کے بعض وہ حضرات جو خود کو اہل سنت صوفیہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، تکفیر کے معاملے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں! صوفیہ کے مسلک حق کا مدعی ہو تے ہوئے بھی ان کے اندر صوفیہ کے اخلاق و اعمال ،صلح و آشتی اور محبت و رواداری کا کوئی اثر نہیں۔بطور خاص اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کے بعض منتسبین کا حال بہت ہی برا ہے۔( فاضل بریلوی کو جیسا غیروں نے بدنام کیا کہ وہ تکفیر میں جلدی کرنے والے تھے، ایسا ہی ان کے بعض متبعین نے بھی سمجھ لیا، جب کہ وہ اصولی اعتبار سے اہل قبلہ ٔ کلمہ گو کی تکفیر میں حد درجہ احتیاط برتتے تھے، جو کہ ائمۂ محققین کی شان ہے۔ )اب وہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ ذاتی رنجش اور شخصی عناد کی بنیاد پر تکفیر کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اور ہر ایسی بات جس کے ننانوے پہلو ایمان کے ہوں اور کوئی ایک ضعیف سے ضعیف پہلو کفر کا ہو تو وہ اس کفری پہلو کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ،کفر کے فتوے ایشو کرتے ہیں ،زور دار تقریریں ہو تی ہیں اور ہنگامے کیے جاتے ہیں، اہل نظر سے اس طرح کے واقعات پوشیدہ نہیں ہیں بلکہ اب تو ہمارے پاس اتنے شواہد موجود ہیں کہ تقریباًہر سنی بریلوی عالم کسی نہ کسی سنی بریلوی عالم کے ہی فتوے کی زد پر ہے ۔خطیب الہند مولانا عبید اللہ خان اعظمی کا تازہ معاملہ بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے فقیہ النفس مفتی محمد مطیع الرحمن مضطر رضوی اور محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی کے زیرنظر فتاویٰ کا مطالعہ کافی ہوگا۔ یہاں سر دست فتاویٰ رضویہ سے چند ایسے اقتباسات نقل کیے جاتے ہیں جن سے متکلمین کے اصول تکفیر اور تکفیر کے حوالے سے فاضل بریلوی کے علمی مسلک کا ایک آئینہ قارئین کے سامنے آجائے گا۔ اقتباسات پر ہماراتبصرہ کم سے کم ہوگا۔
ایک چشم کشا عبارت
سب سے پہلے یہ عبارت پڑھیے:
’’مذہبِ معتمد ومحقق میں استحلال( حرام کو حلال ٹھہرانا جسے فقہا کفر کہتے ہیں۔ )بھی علی اطلاقہ کفر نہیں جب تک زنا یا شربِ خمر یا ترک صلاۃ کی طرح اس کی حرمت ضروریاتِ دین سے نہ ہو ،غرض ضروریات کے سوا کسی شے کا انکار کفر نہیں، اگرچہ ثابت بالقواطع ہو، کہ عندالتحقیق آدمی کو اسلام سے خارج نہیں کرتا مگر انکار اُس کا جس کی تصدیق نے اُسے دائرہ اسلام میں داخل کیا تھا اور وہ نہیں مگر ضروریاتِ دین کما حققہ العلماء المحققون من الائمۃ المتکلمین( جیسا کہ ائمۂ متکلمین کے محقق علماء نے تحقیق کی ہے۔ ت )ولہذا خلافت خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا منکر مذہب تحقیق میں کافر نہیں، حالانکہ اُس کی حقانیت بالیقین قطعیات سے ثابت۔‘‘( فتاویٰ رضویہ:۵/۱۰۱)
عقائد کے درجات
’’مانی ہوئی باتیں چار (۴) قسم [کی]ہوتی ہیں:
(۱) ضروریاتِ دین :
ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے، جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کو راہ۔ اور ان کا منکر یا ان میں باطل تاویلات کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔
(۲) ضروریاتِ مذہبِ اہل سنت و جماعت :
ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے، اسی لیے ان کا منکر کافر نہیں بلکہ گمراہ، بدمذہب، بددین کہلاتا ہے۔
(۳) ثا بتات محکمہ :
ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی، جب کہ اس کا مفاد اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضمحل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنادے۔ اس کے ثبوت کے لیے حدیث احاد، صحیح یا حسن کافی ، اور قول سوادِ اعظم و جمہور علماء کا سندِ وافی ،فانّ یدﷲ علی الجماعۃ( ﷲ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ت )ان کا منکر وضوحِ امر کے بعد خاطی و آثم، خطاکارو گناہگار قرار پاتا ہے، نہ بددین و گمراہ نہ کافر و خارج از اسلام۔
(۴) ظنّیات محتملہ:
ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنّی بھی کافی، جس نے جانبِ خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو، ان کے منکر کو صرف مخطی و قصور وارکہا جائے گا نہ گنہگار ، چہ جائیکہ گمراہ ، چہ جائیکہ کافر۔
ان میں سے ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے، جو فرقِ مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے اعلیٰ درجے کی دلیل مانگے، وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکّار فیلسوف: ع
ہر سخن و قتے و ہر نکتہ مقامے دارد
گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی
( ہر بات کا کوئی وقت اور ہر نکتے کا کوئی خاص مقام ہوتا ہے۔ اگر تُو مراتب کے فرق کو ملحوظ نہ رکھے تو زندیق ہے۔ت)‘‘(فتاویٰ رضویہ: ۲۹/۳۸۵)
فاضل بریلوی نے انہیں باتوں کو ایک دوسرے مقام پر تین حصوں میں اس طرح تقسیم کیا ہے:
’’مسلمانو ! مسائل تین قسم کے ہوتے ہیں:
اول:ضروریات دین، اُن کا منکر بلکہ اُن میں ادنیٰ شک کرنے والا بالیقین کافر ہوتا ہے ایسا کہ جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر۔
دوم :ضروریات عقائد اہل سنت، ان کا منکر بدمذہب گمراہ ہوتا ہے۔
سوم:وہ مسائل کہ علمائے اہل سنت میں مختلف فیہ ہوں، اُن میں کسی طرف تکفیر و تضلیل ممکن نہیں۔
یہ دوسری بات ہے کہ کوئی شخص اپنے خیال میں کسی قول کو راحج جانے، خواہ تحقیقاً یعنی دلیل سے اسے وہی مرجح نظر آیا، خواہ تقلیداً کہ اسے اپنے نزدیک اکثر علماء یا اپنے معتمد علیہم کا قول پایا۔ کبھی ایک ہی مسئلہ کی صورتوں میں یہ تینوں قسمیں موجود ہوجاتی ہیں۔ مثلاً ﷲ عزوجل کے لیے ید وعین کا مسئلہ :قال ﷲ تعالیٰ: يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ( ﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ان کے ہاتھوں پر ﷲ کا ہاتھ ہے۔ت)وقال تعالیٰ : وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي(اور ﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اور اس لیے کہ تو میری نگاہ کے سامنے تیار ہو۔ ت)
ید ہاتھ کو کہتے ہیں ، عین آنکھ کو۔ اب جو یہ کہے کہ جیسے ہمارے ہاتھ آنکھ ہیں ایسے ہی جسم کے ٹکڑے ﷲ عزوجل کے لیے ہیں، وہ قطعاً کافر ہے۔ ﷲ عزوجل کا ایسے ید و عین سے پاک ہونا ضروریات دین سے ہے، اور جو کہے کہ اس کے ید و عین بھی ہیں تو جسم ہی، مگر نہ مثل اجسام، بلکہ مشابہت اجسام سے پاک و منزہ ہیں ،وہ گمراہ بددین کہ ﷲ عزوجل کا جسم و جسمانیات سے مطلقاً پاک ومنزہ ہونا ضروریات عقائد اہل سنت و جماعت سے ہے، اور جو کہے کہ ﷲ عزوجل کے لیے یدوعین ہیں کہ مطلقاً جسمیت سے بری و مبرا ہیں، وہ اس کی صفات قدیمہ ہیں جن کی حقیقت ہم نہیں جانتے، نہ اُن میں تاویل کریں، وہ قطعاً مسلم سُنّی صحیح العقیدہ ہے، اگر چہ یہ عدم تاویل کا مسئلہ اہل سنت کا خلافیہ ہے، متاخرین نے تاویل اختیار کی، پھر اس سے نہ یہ گمراہ ہوئے نہ وہ، کہ اجر اعلیٰ المظاہر بمعنی مذکور کرتے ہیں، جس کا حاصل صرف اتنا کہ" اٰمنّابہ کل من عندربنا" ۔ ( ہم اس پر ایمان لائے ، سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔ت)‘‘(فتاویٰ رضویہ:۲۹/۴۱۳)
اہل قبلہ کی تکفیر سے گریز
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’بالجملہ تکفیر اہل قبلہ واصحاب کلمہ طیّبہ میں جرأت وجسارت محض جہالت بلکہ سخت آفت جس میں وبال عظیم ونکال کا صریح اندیشہ، والعیاذباللّٰہ رب العالمین، فرض قطعی ہے کہ اہل کلمہ کے ہر قول وفعل کو اگر چہ بظاہر کیسا ہی شنیع وفظیع ہو،حتی الامکان کفر سے بچائیں، اگر کوئی ضعیف سے ضعیف، نحیف سے نحیف تاویل پیدا ہو جس کی رُو سے حکمِ اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں، اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانبِ کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں۔
حدیث میں ہے حضور سیّد العالمین صلی ﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
الاسلام یعلوولایعلی۔ اخرجہ الرؤیانی والدارقطنی والبیہقی والضیاء فی المختار ۃ والخلیل، کلھم عن عائذ بن عمر والمزنی رضی ﷲتعالیٰ عنہ۔ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس کو رؤیانی، دار قطنی، بیہقی، مختارہ میں ضیاء اور خلیل نے عائذ بن عمرو مزنی رضی ﷲتعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔(ت)
احتمال اسلام چھوڑکر احتمالاتِ کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں والعیاذ باللّٰہ رب العالمین۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ:۱۲/۳۱۷)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’اہل لا الہ الﷲ پر بدگمانی حرام ، اور ان کے کلام کو جس کے صحیح معنی بے تکلف درست ہوں خواہی نخواہی معاذاللہ معنی کفر کی طرف ڈھال لے جانا قطعا گناہ کبیرہ ہے۔ حق سبحانہ وتعالیٰ فرماتاہے:يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ(حجرات:۱۲) اے ایمان والو! بہت گمانوں کے پاس نہ جاؤ، بیشک کچھ گمان گناہ ہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۲۱/ ۳۲۹)
کفر لزومی اور کفر التزامی
’’[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ اپنے رب کے پاس سے لائے ان میں سے کسی بات کا] انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے، دو طرح ہوتاہے، لزومی والتزامی۔
التزامی یہ کہ ضروریات دین سے کسی شئی کا تصریحاً خلاف کرے، یہ قطعا ًاجماعاً کفر ہے، اگر چہ نام کفر سے چڑے اور کمال اسلام کا دعوٰی کرے۔ کفر التزامی کے یہی معنی نہیں کہ صاف صاف اپنے کافر ہونے کا اقرار کرتاہو جیسا کہ بعض جہال سمجھتے ہیں۔ یہ اقرار تو بہت طوائف کفار میں بھی نہ پایا جائے گا۔ ہم نے دیکھا ہے بہیترے ہندو کافر کہنے سے چڑتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنی کہ جو انکار اس سے صادر ہوا یا جس بات کا اس نے دعوٰی کیا وہ بعینہ کفر ومخالف ضروریات دین ہو جیسے طائفہ تالفہ نیاچرہ کا وجود ملک وجن وشیطان وآسمان ونار وجنان و معجزات انبیاء علیہم افضل الصلٰوۃ والسلام سے ان معانی پر کہ اہل اسلام کے نزدیک حضور ہادی برحق صلوات اللہ وسلامہ علیہ سے متواتر ہیں انکار کرنا اور اپنی تاویلات باطلہ وتوہمات عاطلہ کو لے مرنا، نہ ہر گز ہرگز ان تاویلوں کے شوشے انھیں کفر سے بچائیں گے ،نہ محبت اسلام وہمدردی قَوام کے جھوٹے دعوے کام آئیں گے۔ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ (اللہ انھیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ ت)
اور لزومی یہ کہ جوبات اس نے کہی عین کفر نہیں مگر منجر بکفر ہوتی ہے یعنی مآل سخن ولازم حکم کو ترتیب مقدمات وتتمیم تقریبات کرتے لے چلئے توانجام کار اس سے کسی ضروری دین کا انکار لازم آئے جیسے روافض کا خلافت حقہ راشدہ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حضرت جناب صدیق اکبر وامیر المومنین حضرت جناب فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انکار کرنا کہ تضلیل جمیع صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی طرف مؤدی اور وہ قطعاً کفر، مگر انھوں نے صراحۃً اس لازم کا اقرار نہ کیا تھا بلکہ اس سے صاف تحاشی کرتے اور بعض صحابہ یعنی حضرات اہل بیت عظام وغیرہم چند اکابر کرام علی مولا ھم وعلیہم الصلٰوۃ والسلام کو زبانی دعووں سے اپناپیشوا بناتے اور خلافت صدیقی وفاروقی پر ان کے توافق باطنی سے انکار رکھتے ہیں، اس قسم کے کفرمیں علماء اہل سنت مختلف ہوگئے جنھوں نے مآل مقال ولازم سخن کی طرف نظر کی حکم کفر فرمایا۔ اور تحقیق یہ ہے کہ کفر نہیں بدعت وبدمذہبی وضلالت وگمراہی ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۱۵/۴۳۱-۴۳۲)
کتب فقہ میں مذکور تمام کفریات پر تکفیر نہیں کی جائے گی
تکفیر کے معاملے میں فقہا اور متکلمین کا اختلاف ہے۔ فقہا کا کام Law & Order درست رکھنا ہے، اس لیے انھوں نے اپنی کتابوں میں کفریہ اقوال و اعمال کی طویل فہرست دے دی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ ان کفریات سے آگاہ ہوں اور ان کے ارتکاب سے بچیں۔ لیکن جہاں تک ان کفریات کی بنیاد پر شخصی اور متعین طور پر کسی کو کافر کہنے کا مسئلہ ہے تو فقہا نے بھی اس میں بڑی احتیاطیں برتی ہیں، بلکہ بہت سے فقہا نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ ہم ان کفریات کی بنیاد پر متعین طور پر لوگوں کے کفر کے فیصلے نہیں کرتے۔( يقع في كلام أهل المذاهب تكفير كثير ولكن ليس من كلام الفقهاء الذين هم المجتهدون (شرح فتح القدير:6/ 100)) فاضل بریلوی کا رجحان یہ ہے کہ کفر اگرچہ اقبح حرام ہے، اس لیے کتب فقہ میں باب الردہ موجود ہے اور اس کے تحت کفریات کی فہرست درج ہے، لیکن بنیادی طور پر اس کا تعلق عقیدہ سے ہے، اس لیے شخصی طور پر کسی کے کفر کا فیصلہ متکلمین کا کام ہےاور وہ اس سلسلے میں انتہائی محتاط ہیں۔ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’کسی قول یافعل کا موجب کفر ہوناتو خود افعالِ مکلفین ہی سے بحث ہے۔ اس کے بیان کو کتب فقہ میں 'باب الردۃمذکور اور صدہا اقوال وافعال پر انہی مشائخ کے بے شمار فتوائے کفر مسطور، مگر محققین محتاط تارکین تفریط وافراط باآنکہ سچے دل سے حنفی مقلد اور ان مشائخ کرام کے خادم و معتقد ہیں،زینہار ان پر فتوی نہیں دیتے اور حتی الامکان تکفیر سے احتراز رکھتے بلکہ صاف فرماتے ہیں کہ اگر کوئی روایت ضعیفہ اگر چہ دوسرے ہی مذہب کی دربارہ اسلام مل جائے گی اسی پر عمل کریں گے، اور جب تک تکفیر پر اجماع نہ ہولے کافر نہ کہیں گے، وہی درمختار جس میں اما نحن فعلینا اتباع مارجحوہ الخ تھا اسی میں ہے:
الفاظہ تعرف فی الفتاوٰی بل افردت بالتالیف مع انہ لا یفتی بالکفر بشیئ منھا الا فیما اتفق المشایخ علیہ کما سیجیئ، قال فی البحر: وقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیئ منھا یعنی الفاظ کفر کتب فتاوٰی میں معروف ہیں بلکہ ان کے بیان میں مستقل کتابیں تصنیف ہوئیں، اس کے ساتھ ہی یہ کہ ان میں سے کسی کی بناء پر فتوی کفر نہ دیاجائےگا مگر جہاں مشائخ کا اتفاق ثابت ہو جیسا کہ عنقریب کلام مصنف میں آتا ہے۔ بحرالرائق میں فرمایا: میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ ان میں سے کسی پر فتویٰ نہ دوں۔
تنویر الابصارمیں ہے :لایفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن اوکان فی کفرہ خلاف ولوروایۃ ضعیفۃ کسی مسلمان کے کفر پر فتوٰی نہ دیا جائے جبکہ اس کا کلام اچھے پہلو پر اتار سکیں یا کفر میں خلاف ہو، اگر چہ ضعیف ہی روایت سے۔
ردالمحتار میں ہے :قال الخیرالرملی: اقول: ولوکانت الروایۃ لغیراھل مذھبنا ویدل علیٰ ذلک اشتراط کون مایوجب الکفر مجمعاً علیہ یعنی علامہ خیرالدین رملی استادصاحبِ دُرمختار نے فرمایا: اگرچہ وہ روایت دوسرے مذہب مثلاً شافعیہ یامالکیہ کی ہو، اس لیے کہ تکفیر کے لیے اُس بات کے کفرہونے پر اجماع شرط ہے۔
یہ علامہ بحر صاحب البحر و علامہ خیررملی و مدقق علائی دربارہ تقلید جیسا تصلب شدید حق و سدید رکھنے والے ہیں ان کی تصانیف جلیلہ بحر واشباہ و رسائل زینیہ ودر و فتاوٰی خیریہ وغیرہا کے مطالعہ سے واضح، مگریہاں اُن کے کلمات دیکھئے کہ جب تک اجماع نہ ہو فتوٰی مشائخ پر عمل نہ کریں گے، ہم نے التزام کیاہے کہ اس پرفتوی نہ دیں گے، تو وجہ کیاوہی کہ یہ بحث اگرچہ افعال مکلفین سے متعلق ہے مگر فقہ کادائرہ تو حیثیت حلال وحرام تک منتہی ہوگیا، آگے کفر واسلام، اگرچہ یہ اعظم فرض، وہ اخبث حرام، مگراصالۃً اس مسئلہ کافن علم عقائدوکلام، وہاں تحقیق ہوچکاہے کہ جب تک ضروریات دین سے کسی شئے کاانکارنہ ہو کفرنہیں، تو ان کے غیرمیں اجماع ہرگز نہ ہوگا اور معاذﷲ ان میں سے کسی کاانکارہوتو اجماع رُک نہیں سکتا، لہٰذا تمام فتاوٰی ونقول سے قطع نظر کرکے مسائل اجماعیہ میں حصر فرمادیا۔(اقول: علامہ اقبال کی شاعری اردو اسلامی دنیا کی انتہائی مقبول شاعری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ بعض علما نے اقبال کے بعض اشعار کی بنیاد پر ان کی تردید، تضلیل بلکہ تکفیر بھی کی۔ لیکن اکثر علما اقبال کو قبول کرتے ہیں اور ان کی شاعری میں موجود بعض بظاہر خلاف شرع امور کی تاویل کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں ہمیں اقبال کے بارے میں بھی یہی رویہ-عدم تکفیر-اپنانا چاہیے۔نیز اقبال کے اس قسم کے اشعار پڑھنے اور نقل کر نے والوں کے بارے میں بھی بدرجۂ اولیٰ یہی رویہ اپنایا جانا چاہیے، بشرطیکہ وہ اہل قبلہ ہوں۔)‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۹/ ۹۴۱،۹۴۲)
ہنود سے مشابہ بعض اعمال کا حکم
ہمارے یہاں تو من تشبہ بقوم فہومنہم کو اتنا عام کر دیا گیا ہےکہ جیسے اب کسی کے لیے مسلمان ہونا ممکن ہی نہ رہے ،اس کی زندگی کا کوئی پہلو کفار ومشرکین سے مشابہ ہوا اور وہ فوراً کافرومشرک ہو گیا۔ لیکن فاضل بریلوی کا احتیاط یہ ہے کہ وہ بعض ایسے اعمال پر بھی کفر و شرک کا فتویٰ دیتےہوئے گریز کرتے ہیں جو ہنود کے اعمال سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہاں ایک استفتا اور اس کے جواب سے ایک اقتباس دیا جاتا ہے۔ فاضل بریلوی نے اس میں ایک بڑی اصولی بات یہ لکھی ہے کہ نصوص میں جن مقامات پر کفرو شرک کے الفاظ آئے ہیں ، وہ ہر جگہ اصطلاحی کفرو شرک کے معنی میں نہیں ہیں۔ملاحظہ فرمایئے:
’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو بکرے نذر ونیاز یعنی تقرب و عبادت کسی پیر صاحب کے، پرورش ہوتے ہیں اور قندوریاں بنائی جاتی ہیں اور پنڈا بھرتے ہیں جیسے ہنود بھرتے ہیں اور ڈوری اور بدھی اور چوٹی اور جھرو لااور تاتے گلے میں ڈالتے ہیں، یہ امور اخص شرع ہیں یانہیں اور ان امور کا کرنے والا مشرک ہوتاہے یا نہیں؟ ہمارے شہر چور،وریاست بیکانیر میں، اندر ان مسائل کے بحث ہورہی ہے۔ بینوا توجروا (بیان فرماؤ تاکہ اجر وثواب پاؤ۔ت)
الجواب: اللھم احفظنا ( اے اللہ! ہماری حفاظت فرما۔ ت) آدمی حقیقۃ کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیر خدا کو معبود یا مستقل بالذات وواجب الوجود نہ جانے۔ بعض نصوص میں بعض افعال پراطلاق شرک تشبیہاً یا تغلیظاً یا بارادہ و مقارنت باعتقاد منافی توحید وامثال ذلک من التاویلات المعروفۃ بین العلماء وارد ہوا ہے، جیسے کفر نہیں مگر انکار ضروریات دین، اگر چہ ایسی ہی تاویلات سے بعض اعمال پر اطلاق کفر آیا ہے، یہاں ہر گز علی الاطلاق شرک وکفر مصطلح علم عقائد کہ آدمی کو اسلام سے خارج کردیں اور بے توبہ مغفور نہ ہوں، زنہار مراد نہیں کہ یہ عقیدہ اجماعیہ اہل سنت کے خلاف ہے، ہر شرک کفر ہے اور کفر مزیل اسلام، اور اہل سنت کا اجماع ہے کہ مومن کسی کبیرہ کے سبب اسلام سے خارج نہیں ہوتا ایسی جگہ نصوص کو علی اطلاقہا کفر وشرک مصطلح پر حمل کرنا اشقیائے خوارج کا مذہب مطرود ہے اور شرک اصغر ٹھہرا کر پھر قطعا مثل شرک حقیقی غیر مغفورماننا، وہابیہ نجدیہ کا خبط مردود۔‘‘(فتاویٰ رضویہ: ۲۱/ ۱۳۱)
مشرکین کا پرساد کھانا جائز
یہ فتویٰ بھی فتاویٰ رضویہ ہی کا ہے:
’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں ہنودجو اپنے معبودان باطلہ کو، ذبیحہ کے سوااور قسم طعام وشیرینی وغیرہ چڑھاتے ہیں اور اس کا بھوگ یا پرشاد نام رکھتے ہیں، اس کا کھانا شرعا حلال ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : حلال ہے لعدم المحرم (حرمت کی دلیل نہ ہونے کی وجہ سے۔ ت) مگر مسلمان کو احتراز چاہئےلخبث النسبۃ (نسبت کی خباثت کی وجہ سے۔ ت)
عالمگیریہ میں ہے:مسلم ذبح شاۃ المجوسی لبیت نارھم اوالکافر لالھتہم تؤکل لانہ سمی ﷲ تعالیٰ ویکرہ للمسلم کذا فی التاتارخانیۃ ناقلا عن جامع الفتاوٰی ۔
اقول: فاذا حلت ھذہ وھی ذبیحۃ فالمسئول عنہ اولیٰ بالحل۔ اگر کسی مسلمان نے آتش پر ست کی بکری اس کے آتشکدہ کے لئے یا کافر کے جھوٹے خداؤں کے لئے ذبح کر ڈالی تو اسے کھایا جائے گا( یعنی کھانا چاہے تو کھاسکتاہے )اس لئے کہ مسلمان نے اس پر خدا کا نام لیاہے لیکن ایسا کرنا مسلمان کے لئے مکروہ ہے تاتارخانیہ میں جامع الفتاوٰی کے حوالے سے اسی طرح منقول ہے۔
اقول( میں کہتا ہوں )جب یہ ذبیحہ ہونے کے بعد حلال ہے تو پھر جس مسئلہ کے متعلق سوال کیا گیا وہ بطریق اولیٰ حلال ہے۔ (ت)‘‘(فتاویٰ رضویہ: ۲۱/۶۰۷)
داعی و مبلغ کفار کے میلے میں جا سکتا ہے
مسلک اعلیٰ حضرت کی غلط تعبیر و تشریح کرنے والے شدت سے اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ کفار و مشرکین اور گمراہوں سے کسی طرح بھی ملنا روا نہیں، حتی کہ داعی ومبلغ علما و مشائخ پر بھی اس ’’جرم ‘‘ کی پاداش میں فتوے جڑتےہوئے دیر نہیں لگتی۔ وہ اس میں بھی فرق نہیں کرتے کہ داعی خود مدعو سے ملنے جائے یا مدعو داعی سے ملنے آئے۔ اس سلسلے میں فاضل بریلوی کا یہ فتویٰ چشم بینا سے پڑھیے۔ کفار ومشرکین کے میلوں میں شرکت کو ناجائز و حرام بتاتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
’’ہاں ایک صورت جواز مطلق کی ہے، وہ یہ کہ عالم انھیں ہدایت اور اسلام کی طرف دعوت کے لئے جائے جبکہ اس پر قادر ہو، یہ جانا حسن ومحمود ہے اگر چہ ان کامذہبی میلہ ہو، ایسا تشریف لے جانا خود حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بارہا ثابت ہے، مشرکین کا موسم بھی اعلان شرک ہوتا لبیک میں کہتے :لاشریک الا شریکا ھو لک تملکہ و ماملک ۔ تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ شریک جس کاتو مالک ہے مگر وہ تیرا مالک نہیں۔ (ت)‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۱/۱۶۱)
کفار کا ہدیہ قبول کرنا
کفارو مشرکین کے تحائف کی قبولیت کے حوالے سے مختلف روایتیں ہیں ،بعض اثبات میں ہیں تو بعض نفی میں۔ فاضل بریلوی اس طرح کی روایات لکھنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’اسی طرح اور بھی حدیثیں رد وقبول دونوں میں وارد ہیں:فمنھم من زعم ان الرد نسخ القبول ورد بجھل التاریخ، ومنھم من وفق بان من قبلہ منہم فاھل کتاب لا مشرک، کما فی مجمع البحار، اقول: قد قبل عن کسرٰی ولم یکن کتابیا الا ان یتمسک فی المجوس سنّوا بھم سنۃ اھل الکتاب غیر ناکحی نساءھم ولا اٰکلی ذبائحھم ۔ ان میں کچھ وہ لوگ ہیں جن کا خیال ہے کہ ہدیہ رد کرنے سے اس کا قبول کرنا منسوخ ہوااوریہ غلط ہے کیونکہ تاریخ معلوم نہیں۔ اور بعض نے دونوں میں مطابقت اور موافقت پیدا کی کہ جن کا ہدیہ قبول فرمایا وہ اہل کتاب تھے مشرک نہ تھے، جیسا کہ مجمع البحارمیں ہے۔ اقول:( میں کہتا ہوں )کہ آپ نے کسرٰی شاہ ایران کا ہدیہ قبول فرمایا، حالانکہ وہ اہل کتاب میں سے نہ تھا، بلکہ مجوس سے تھا۔ مگر یوں استدلال کیا جائے کہ مجوسی نے اہل کتاب کی روش اختیار کی، البتہ ان کی عورتوں سے نکاح اور ان کے ذبیحہ کا کھانا جائز نہیں۔ (ت)
اس بارہ میں تحقیق یہ ہے کہ یہ امر مصلحت وقت و حالت ہدیہ آرندہ وہدیہ گیرندہ پر ہے، اگر تالیف قلب کی نیت ہے اور امید رکھتاہےکہ اس سے ہدایاو تحائف لینے دینےکا معاملہ رکھنے میں اسے اسلام کی طرف رغبت ہوگی تو ضرور لے اور اگر حالت ایسی ہے کہ نہ لینے میں اسے کوفت پہنچے گی اور اپنے مذہب باطل سے بیزار ہوگا تو ہر گز نہ لے، اور گر اندیشہ ہے کہ لینے کے باعث معاذاللہ اپنے قلب میں کافر کی طرف سے کچھ میل یا اس کے ساتھ کسی امر دینی میں نرمی و مداہنت راہ پائے گی تو اس ہدیہ کو آگ جانے۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ:۲۱/۶۲۵)
حیرت ہے کہ فاضل بریلوی کے ذہن نے غیر جمہوری ہندوستان میں اس مسئلے کا ادراک کر لیا اور دونوں طرح کی روایتوں میں تطبیق تلاش کر لی لیکن ان کے بعض غالی معتقدین آج کے اس جمہوری عہد میں بھی ایک ہی راگ الاپے جا رہے ہیں۔ انہیں اس فتوے کو بغور پڑھنا چاہیے، اس سے ان کی جدید جمہوری دنیا کی بہت ساری الجھنوں کا ازالہ ہو جائے گا ۔
تصویر کا سجدہ
فاضل بریلوی کا یہ فتویٰ بھی نگاہ بصیرت سے پڑھیے:
’’تصویر اگر مشرکین کے معبودان باطل کی ہو تو اسے سجدہ کرنے پر بھی مطلقاً حکم کفر ہے۔ لاشتراک العلۃ بل لافرق بینہا وبین الوثن الا بالتسطیح بالتجسیم۔ اس لئے کہ علت مشترک ہے( لہذا حکم بھی ایک ہے ) بلکہ اس میں( یعنی تصویر )اور بت میں سوائے جسمانیت اور کوئی فرق نہیں (مراد یہ کہ وثن(بت) میں جسم ہے جبکہ عکسی اور نقشی تصویر میں جسم نہیں)۔ (ت)اور اگر ایسی نہیں تو اسے سجدہ کرنا مطلقا حرام وکبیرہ ہے مگر کفر نہیں جب تک بہ نیت عبادت نہ ہو۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ:۲۱/۱۶۳)
تشیع اور حب علی
موجودہ علمی معاشرے کا بحران یہ ہےکہ یہاں شیعیت، رافضیت، تفضیلیت، شتم صحابہ اورحب علی جیسے سارے الفاظ متراد ف سے لگتےہیں۔ بلکہ اہل تشیع سے کسی بھی سطح پر راہ و رسم رکھنے والوں کو بھی اسی زمرے( خلود فی النار )میں سمجھا جاتاہے ۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے۔وہ ہر جگہ فرق مراتب کا لحاظ رکھتے ہیں اور جرائم کی سنگینی کے پیش نظر سزائیں تجویز کرتے ہیں۔مثال کے طور پر ان کا یہ اقتباس دیکھیے:
’’ تقر یب کے قو ل ''ان پر تشیع کی تہمت لگا ئی گئی ہے''سے دھو کا کھا کر ان پر رفض کا عیب لگا نا بد بو دار جہا لت ہے، رفض و تشیع میں زمین و آسما ن کا فر ق ہے، بسا اوقا ت لفظ تشیع کا اطلا ق حضر ت مو لا علی کو عثمان غنی رضی اللہ تعا لی عنہم پر فضیلت دینے پر ہو تا ہے جبکہ یہ ائمہ بالخصوص اعلا م کو فہ کا مذہب ہے، صا حب تقر یب نے خو د بھی ''ہد ی السا ری ''میں فر ما یا: تشیع، حضر ت علی کی صحا بہ سے زا ئدمحبت کا نا م ہے تو اگر کو ئی آپ کو ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے تو وہ غالی شیعہ ہے اور اسے رافضی بھی کہا جاتا ہے اوراس کے ساتھ گا لی اور بغض کا اظہا ر کر ے تو غا لی را فضی ہے۔اور اس کی پور ی تحقیق ہما ر ی تحر یر ا ت حد یثیہ میں ہے۔
وفی المقا صد للعلا مۃ التفتا زا نی: الافضلیۃ عند نا بتر تیب الخلا فۃ مع تردد فیما بین عثمان وعلی رضی اللہ تعا لی عنہما۔ مقا صد علامہ تفتازانی میں ہے: ہمارے نز دیک خلفا ئے اربعہ میں فضیلت خلا فت [کی]تر تیب پر ہے، حضر ت عثمان و علی رضی اللہ تعالی عنہما میں تردد کے ساتھ۔
وفی شر حہا لہ: قا ل اھل السنۃ: الافضل ابو بکر ثم عمر ثم عثما ن ثم علی۔ وقد ما ل بعض منھم الی تفضیل علیّ علی عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما والبعض الی التو قف فیما بینھما۔ شر ح مقا صد للتفتا زانی میں ہے: اہل سنت نے کہا کہ سب سے افضل ابو بکر، پھر عمر، پھر عثما ن، پھر علی اور بعض حضر ت علی کو عثما ن سے افضل ما نتے ہیں۔ رضو ا ن اللہ تعا لی علیہم اجمعین اور بعض ان دو نو ں کے در میا ن توقف کے قا ئل ہیں۔
وفی الصواعق للاما م ابن حجر: جز م الکو فیون و منھم سفیان الثو ری بتفضیل علیٍّ علی عثمان، و قیل: با لوقف عن التفاضل بینھما وھو روایۃ عن مالک۔ اما م ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعا لی علیہ کی صوا عق محر قہ میں ہے: ائمہ کو فہ (انہیں میں سفیان ثو ر ی ہیں) نے حضر ت علی کو حضر ت عثما ن پر بالیقین افضل گر دا نا اور اما م ما لک وغیر ہ سے تو قف مر و ی ہے۔
وفی تہذیب التہذیب فی تر جمۃ الا ما م الا عمش: کا ن فیہ تشیع۔ تہذیب التہذیب میں حضر ت اما م اعمش کے حا لا ت میں تحر یر ہے کہ ان میں تشیع تھا ۔
وفی شر ح الفقہ الا کبر لعلی قاری روی عن ابی حنیفۃ تفضیل علی علیٰ عثما ن رضی اللہ تعا لی عنہما و الصحیح ما علیہ جمہو ر اھل السنۃ وھو ظا ہر من قو ل ابی حنیفۃ رضی اللہ تعا لی عنہ علی ما رتبہ ھنا وفق مرا تب الخلا فۃ۔ شرح فقہ اکبر ملا علی قا ر ی میں اما م صا حب کے با رے میں لکھا ہے: حضر ت ابو حنیفہ رضی اللہ تعا لی عنہ سے حضرت عثما ن غنی پر حضر ت علی کی فضیلت مر و ی ہے (رضی اللہ تعا لی عنہ )لیکن صحیح وہی ہے جس پر جمہو ر اہل سنت ہیں اور فقہ اکبر میں اس کو تر تیب خلا فت کے مو افق رکھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ یہی آپ کا قو ل بھی ہے۔
ثم لا یذ ھب عنک الفر ق بین شیعی و رمی با لتشیع و کم فی الصحیحین ممن رمی بہ وقد عد فی ھد ی السا ر ی عشر ین منھم فی مسا نید صحیح البخاری فضلا عن تعلیقا تہ ،بل فیہ مثل عبا د بن یعقو ب را فضی جلد ثم الشبھۃلا قیمۃ لہا را سا، فکم فی الصحیحین ممن رمی با نو اع البدع وقد تقررعند ھم ان المبتدع تقبل روا یتہ اذا لم یکن دا عیۃ۔ پھر لفظ شیعی اور رمی بالتشیع کا فرق بھی ملحوظ رہنا چاہیے۔ بخاری کے کتنے ہی ایسے راوی ہیں جن پر تشیع کا الزا م ہے۔ ''ہدی السا ری ''میں ایسی بیس سندوں کی تفصیل ہے جو خاص مسانید[صحیح] بخاری میں ہیں، تعلیقات کا تو ذکر ہی الگ رہا، بلکہ روا ۃ بخاری میں عباد بن یعقوب جیسا رافضی ہے جس پر کوڑے کی حد جاری [کی] گئی تھی اور جرح میں شبہہ کی تو کو ئی اہمیت نہیں، خود بخاری ومسلم میں بہت سے روای ہیں جن پر انواع واقسا م کی بدعت کا شبہہ کیا گیا اور اصول محدثین کی رو سے خود بدعتی بھی اپنے مذہب نا مہذب کا داعی و مبلغ نہ ہو تو اس کی روایت مقبول ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۲۸/ ۷۷-۷۹)
شاتمان صحابہ کا حکم
شاتمان صحابہ اور منکرین خلافت شیخین کے تعلق سے بالعموم فقہا نے تکفیر کاقول کیا ہے۔ اس سیاق میں درجن بھر سے زائد تکفیری فقہی عبارتیں نقل کرنے کے بعد فاضل بریلوی نے لکھا ہے کہ اگر ایسے بدتمیز لوگ کسی امر ضروری دینی کے منکر نہ ہوں، تو متکلمین ان کی بھی تکفیر نہیں کرتے اور اس حوالے سے میرا موقف بھی یہی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’والاحوط فیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار لاکفار وبہ نأخذ۔ اس میں محتاط متکلمین کا قول ہے کہ وہ گمراہ اور جہنمی کُتے ہیں کافر نہیں، اور یہی ہمارا مسلک ہے (ت)‘‘ (۱۴/۲۵۹)
زیدیہ گمراہ ہیں کافر نہیں
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اہل تشیع کی کلی تکفیر نہیں کرتے ،حتی کہ فرقۂ زیدیہ کے پیچھے نماز کی اقتدا کو کراہت شدیدہ کے ساتھ درست سمجھتے ہیں،اس کا مطلب یہ ہے کہ فرقہ زیدیہ ان کے نزدیک قطعی طورپر کافرنہیں۔ لکھتےہیں:
’’تعزیہ رائجہ بنانے کو اچھا جاننا،بدعت شیعہ کی تحسین اور حضرت امیر المومنین سیدنا مولیٰ علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالیٰ عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی، یہی وجوہ اس شخص کے پیچھے نماز کے سخت مکروہ ہونے کو کافی تھے ۔خلاصہ وفتح القدیر وہندیہ وغیرہا میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع ۔اگرکوئی شخص سیدنا علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کو دونوں خلفاء پرفضیلت دیتا ہے تو وہ بدعتی ہے ۔ت)
ارکان اربعہ میں ہے:اما الشیعۃ الذین یفضلون علیاعلی الشیخین ولایطعنون فیھما اصلا کالزید یۃ تجوز خلفھم الصلٰوۃ لکن تکرہ کراھۃ شدیدۃ ۔ وہ شیعہ لوگ جوحضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کوشیخین (حضرت ابوبکروحضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہما) پر فضیلت دیتے ہیں اور ان پر ہر گز طعن و تشنیع بھی نہیں کرتے مثلاً فرقہ زیدیہ کے لوگ ،تو ان کے پیچھے نماز جائز ہے لیکن سخت مکروہ ۔ (ت)‘‘(فتاویٰ رضویہ:۶/۴۴۲)
قوم بوہرہ کی تکفیر مشروط ہے
شیعوں کا ایک فرقہ بوہرہ ہے۔ گجرات اور مہاراشٹروغیرہ کے علاقوں میں ان کی بڑی باثروت تعداد ہے۔ ان کے ذبیحے سے متعلق فاضل بریلوی کی جو رائے ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سب کی مطلقا تکفیر نہیں کرتے۔ فرماتے ہیں :
’’قوم بوہرہ میں جو شخص صرف بدعت رفض وغیرہ رکھتاہو اور اس کے ساتھ ضروریات دین کا منکر نہ ہو تو اس کا بھی ذبیحہ حلال، کہ اگر چہ بدعتی مذہب ہے مگر اسلام رکھتاہے، اور اگر ضروریات دین سے کسی امر کا انکار کرے گو دعوٰی اسلام رکھتا اور کلمہ طیبہ پڑھتا ہو، جیسے آج کل اکثر روافض زمانہ کا حال ہے تو کافر مرتد ہے اور اس کا ذبیحہ حرام مطلقاً۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۰/۲۴۳)
محقق طوسی کی عدم تکفیر کی علت
ہمارے یہاں ایک تکفیری طبقہ ایساہے جس کی نظرمیں اس کے ایک مختصر سے جتھے کے علاوہ دنیا میں کوئی مسلمان ہے ہی نہیں۔فتاویٰ رضویہ کی فقہی عبارتوں کو لے کر وہ اپنے مزعومات و دعاوی کا اثبات بھی کرتاہے،جب کہ فاضل بریلوی کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ سد ذرائع کے تحت احکام بیان کرنے کے بعد مقام تحقیق پر آتے ہیں تو متکلمانہ انداز نظر اپناتے ہوئے وہ گہر ہائے تاب دارلٹاتے ہیں جو ارباب نظر کے لیے دعوت نظارہ اور متشددین کے لیے دعوت اصلاح قبلہ ہیں۔
روافض کے مشہور عالم و محقق علامہ طوسی اثناعشری کے بارے میں ایک استفتا اور فاضل بریلوی کا محتاط جواب آپ کی نذر ہے ۔ واضح رہے کہ یہ وہی محقق طوسی ہیں جن کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ یہ ہلاکو کے ساتھ تھے، موصوف نے بے شمار سنی علما ، فقہا اور قضاۃ کا قتل کرایا، دینی کتابیں تلف کرائیں۔ ابن قیم نے تو انھیں کافر و زندیق تک لکھا ہے۔ لیکن فاضل بریلوی کا احتیاط دیکھیے :
’’کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص نصیر الدین طوسی ملوم ومذموم کو بلفظ مولی الاعظم اورقدوۃ العلماء الراسخین اور نصیر الملۃ والدین قدس اللہ تعالیٰ نفسہ روح رمسہ (بڑا مولیٰ، پختہ علماء کے پیشوا، دین اور ملت کے مددگار، اللہ تعالیٰ ان کے نفس کو پاک کرے اور ان کی ہڈیوں کو آرام پہنچائے۔ ت) سے تعبیر کرے تو ایسے کو فاسق یا کافرنہ جاننے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوا یا نہیں، اگر نہ ہوا تو فاسق بھی ہوا یانہیں؟ امید کہ دلیل عقلی ونقلی سے اس کا اثبات فرمایا جائے۔
الجواب:طوسی کا رفض حدکفرنہ تھا بلکہ اس نے حتی الامکان اپنے اگلوں کے کفر کی تاویلات کیں، اور نہ بن پڑی تو منکر ہوگیا اور اس کی ایسی توجیہ گناہ ضرور ہے اور منطقی فلسفی شراح ومحشین معصوم نہیں، جہاں جہاں اس نے خلاف اہل سنت کیا ہے اس کا رد کردیا گیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘(فتاویٰ رضویہ:۲۱/۲۱۹)
وہابیہ کی تکفیر سے کف لسان
فاضل بریلوی نے شیخ ابن عبدالوہاب نجدی اور شاہ اسماعیل دہلوی کی کفریات پر طول طویل بحثیں کی ہیں اور دلائل وشواہد کے انبار لگادیے ہیں، لیکن اس کے باوجود تکفیر کے معاملے میں کف لسان اور احتیاط برتتے ہیں۔ وہابیہ کی تکفیر کے حوالے سے بہت سے اقوال نقل کرنے کےبعد آخر میں لکھتے ہیں:
’’بالجملہ اس میں شک نہیں کہ اس گروہ ناحق پر ہزاروں وجہ سے کفر لازم، اور جماہیر فقہائے کرام کی تصریحیں ان کے صریح کفر پر حکم۔ نسأل ﷲ تعالیٰ العفو والعافیۃ فی الدین والدنیا والاخرۃ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دین اور آخر ت میں عفو و عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ (ت)‘‘
لیکن اس کے بعد’’ تنبیہ نبیہ‘‘ کے زیرعنوان لکھتے ہیں:
’’یہ حکم فقہی متعلق بکلمات سفہی تھا، مگر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں بے حد برکتیں ہمارے علمائے کرام عظمائے اسلام معظمین کلمہ خیرالانام علیہ وعلیہم السلام پر کہ یہ کچھ دیکھتے ،وہ کچھ سخت و شدید ایذائیں پاتے، اس طائفہ تالفہ کے پیرو سے ناحق ناروا بات پر سچے مسلمانوں خالص سنیوں کی نسبت حکم کفر وشرک سنتے، ایسی ناپاک وغلیظ گالیاں کھاتے ہیں باایں ہمہ نہ شدت غضب دامن احتیاط ان کے ہاتھ سےچھڑاتی، نہ ان نالائق ولایعنی خباثتوں پر قوت انتقام حرکت میں آتی ہے، وہ اب تک یہی تحقیق فرمارہے ہیں کہ لزوم والتزام میں فرق ہے، اقوال کا کلمہ کفر ہونااور بات، اور قائل کو کافر مان لینا اور بات، ہم احتیاط برتیں گے، سکوت کریں گے، جب تک ضعیف سا ضعیف احتمال ملے گا حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے، فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ، نے اس مبحث کا قدرے بیان آخر رسالہ سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح (۱۳۰۷ھ) میں کیا اور وہاں بھی بآنکہ اس امام وطائفہ پر صرف ایک مسئلہ امکان کذب میں اٹھتر(۷۸) وجہ سے لزوم کفر کا ثبوت دیا، حکم کفر سے کف لسان ہی لیا۔
بالجملہ اس طائفہ حائفہ خصوصا ان کے پیشوا کا حال مثل یزید پلید علیہ ماعلیہ ہے کہ محتاطین نے اس کی تکفیر سے سکوت پسند کیا، ہاں یزید مرید اور ان کے امام عنید میں اتنا فرق ہے کہ اس خبیث سے ظلم وفسق وفجور متواتر مگر کفر متواتر نہیں اور ان حضرات سے یہ سب کلمات کفر اعلیٰ درجہ تواتر پر ہیں، پھر اگرچہ ہم براہ احتیاط تکفیر سے زبان روکیں ان کے خسار و بوار کویہ کیا کم ہے کہ جماہیر ائمہ کرام فقہائےاسلام کے نزدیک ان پر بوجوہ کثیرہ کفر لازم، والعیاذ باللہ القیوم الدائم۔‘‘(فتاویٰ رضویہ:۱۵/۲۵۶)
امکان کذب باری کے قائلین کی تکفیر
بیسویں صدی میں مسلکی منافرت کی توسیع کے لیے جو بہت سے گم راہ کن موضوعات زیر بحث آئے ان میں ایک اہم ترین امکان کذب باری کا مسئلہ بھی ہے۔ اس کے رد میں فاضل بریلوی کا رسالہ سُبحٰن السبوح عن کذب عیب مقبوح (۱۳۰۷ھ)ان کے چند نہایت عالمانہ رسائل میں سے ایک ہے۔مستفتی نے امکان کذب کے قائلین کے پیچھے نماز کا مسئلہ پوچھا تھا۔ کتاب کے آخر میں’’خاتمہ تحقیق حکمِ قائل میں‘‘کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’جان برادر! یہ پوچھتا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ کیساہے اور ان کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے، یہ پوچھو کہ امام و ماموم پر ایک جماعت ائمہ کے نزدیک کتنی وجہ سے کفرآتاہے۔ حاش للہ حاش للہ ہزار ہزار بار حاش للہ!! میں ہر گز ان کی تکفیر پسند نہیں کرتا، ان مقتدیوں یعنی مدعیان جدید کوتو ابھی تک مسلمان ہی جانتا ہوں اگرچہ ان کی بدعت وضلالت میں شک نہیں اور امام الطائفہ کے کفر پر بھی ہم حکم نہیں کرتے کہ ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اہل لا الہ الا ﷲ کی تکفیر سے منع فرمایا ہے، جب تک وہ وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن وجلی نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے کوئی ضعیف ساضعیف محمل بھی نہ رہے۔ فان الاسلام یعلو ولایعلی( اسلام غالب ہے مغلوب نہیں ۔ت )مگریہ کہتاہوں اوربےشک کہتاہوں کہ بلاریب ان تابع ومتبوع سب پر ایک گروہ علماء کے مذہب میں بوجہ کثیرہ کفر لازم ۔ والعیاذ باﷲ ذی الفضل الدائم‘‘(فتاویٰ رضویہ:۱۵/۴۲۹)
اسی رسالے کے آخری سطور میں لکھتےہیں:
’’آفتاب روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ ایک مذہب علمائے دین پر یہ امام و مقتدی سب کے سب نہ ایک دوکفر بلکہ صد ہا کفر سراپا کفر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وفی ذٰلک اقول (اس میں میں نے کہا ۔ ت)
فکفر فوق کفر فوق کفر
کأن الکفر من کثر و وفر
کماءٍ اٰسنِ فی نتن دفر
تتابَعَ قطرہ من تقب کفر
( کفر ہرکفر سے بڑھ کرکفر ، ہرکثیرسے بڑھ کرکثیر، جیسا کہ کھڑا پانی بدبودار پانی ملنے سےخوب بدبودار ہوجاتا ہے۔ ت)
معاذاللہ ! اس قدر ان کے خسار وبوار کو کیاکم ہے، اگرچہ ائمہ محققین و علمائے محتا طین انھیں کافر نہ کہیں اور یہی صواب ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۱۵/۴۴۵)
کیا اہل بدعت کی تردید ہر وقت ضروری ہے؟
اہل بدعت و ضلال کے ردوابطال کے حوالے سے فاضل بریلوی نے بہت زور دیا ہے۔ان کے بعض غالی منتسبین نے فاضل بریلوی کی اس قسم کی تحریروں کی روشنی میں One Point Mission رد بدمذہباں بنا لیا ہے۔ وہ بھی اس سختی کے ساتھ کہ ان کی کوئی محفل اہل بدعت کی تردید سے پاک نہیں ہوتی۔ اس پر ظلم یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی مجلس میں بدمذہبوں کا رد نہ کرے تو یہ متشددین اس کے حوالے سے سوءظن کا شکار ہو جاتے ہیں، اس کو بھی گم راہ سمجھ بیٹھتے ہیں اور بسا اوقات لگے ہاتھوں تکفیر کی چھری سے اسے بھی ذبح کر ڈالتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فاضل بریلوی کی یہ تحریر بھی پڑھنی چاہیے:
’’ بہت ائمہ ناصحین رحمۃُ ﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین تو بروجہِ رد و ابطال بھی ، ایسی بلکہ ان سے بدرجہا کم خرافات کی اشاعت پسند نہیں کرتے اور ایک یہ وجہ بھی ہے جس کے سبب کلامِ متاخرین پر ہزاروں ہزار طعن و انکار فرماتے ہیں۔ کما فَصَّل بعضہ الفاضل علیُّ القاری فی شرح الفقہ الاکبر( جیسا کہ اس میں سے بعض کی تفصیل امام فاضل ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں کی ہے۔ت)
حتّی کہ سیدنا امام ہمام عماد السنہ احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سیدنا عارف بﷲ امام الصوفیہ حارث محُاسبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس وجہ پر ملاقات ترک کردی اور فرمایا۔
ویحک! ألستَ تحکی بدعتھم اوّلاً ثمّ تَرُدُّ علیھم ، ألستَ تحمل الناس بتصنیفک علیٰ مطالعۃ البدعۃ ، والتفکر فی الشبہۃ ، فیدعوھم ذٰلک الی الرَّأیِ والبحثِ والفتنۃ تجھ پر افسوس ، کیا تُو پہلے اُن کی بدعات کو نقل نہیں کرتا پھر اُن کا رَد کرتا ہے، کیا تو اپنی تصنیف کے ذریعے لوگوں کو بدعت کے مطالعہ اور شبہات میں غور کرنے پر برانگیختہ نہیں کرتا ہے؟ چنانچہ یہ بات ان کو رائے ، بحث اور فتنہ کی طرف دعوت دیتی ہے۔(ت)اگرچہ ہے یوں کہ رد اہل بدعت ، وقت حاجت اہم فرائض سے ہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۷/۱۳۰)
افسوس کہ مدعیان حقانیت اور دعویداران بہشت یک رخے، غیر علمی اور انتہائی غیر سنجیدہ ہوگئے ہیں۔ فتاویٰ رضویہ کی چند عبارتیں لے کر انھوں نے اپنا خودساختہ مسلک بنا لیا ہے۔ان سےیہ امید رکھنا کہ فتاویٰ رضویہ کا بالاستیعاب مطالعہ کریں ایک ایسی آرزو ہے جس کی تکمیل کے آثار بظاہرنظر نہیں آتے۔
ناظم ندوہ کی تعریف و تردید
امرؤ القیس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مشہور ہے کہ آپ نے اس کے لیے یہ الفاظ کہے :’’اشعر شعراء العرب و قائدھم الی النار‘‘پہلاحصہ اس کے شعری و فنی محاسن کی تحسین ہے تو دوسرا حصہ اس کی بد اعتقادی وبدعملی کا انجام ۔فاضل بریلوی سے ناظم ندوہ مولانا سید محمد علی مونگیری کے بارے میں سوال ہوا توانہوں نے ان کے فکرو عمل کا احتساب کرتے ہوئے آخر میں لکھا :
’’ناظم صاحب ہمارے قدیم عنایت فرما ہیں اور دین و مذہب سے جدا کر کےہم انہیں ایک معقول آدمی جانتےہیں۔‘‘(فتاویٰ رضویہ:۲۷/۵۸۰)
یہ ہے اعلیٰ حضرت کا مسلک ،یہ الگ بات ہے کہ ان کے مسلک کا بلند بانگ نعرہ لگانے والے اس مسلک کو تار تار کر تے نظر آتے ہیں۔ کسی گمراہ اور بد عقیدہ کی کسی اچھائی کا ذکر کر دیجیے یہ متشددین آپ کی تکفیریا تضلیل کیے بغیر دم نہیں لیں گے۔
علم ماکان و مایکون کا منکر گمراہ نہیں
عقائد کے معاملے میں ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ عقائد میں کسی سطح پر کسی سے بھی اختلاف برداشت نہیں کیا جاسکتا، جب کہ اہل نظر پر روشن ہے کہ عقائد کے بھی مختلف درجات ہیں۔ عقائد میں برپا ہونے والا ہر اختلاف ایمان و کفر کا اختلاف نہیں ہوتا۔ یہی اعلیٰ حضرت کا مسلک ہے جس سے مسلک اعلیٰ حضرت کے بیشترعلم بردار بے خبر ہیں۔ اس کی ایک مثال علم غیب کے معاملے میں فاضل بریلوی کا محتاط موقف بھی ہے۔
فاضل بریلوی اپنے آقا ومولیٰ جناب محمدرسول اللہ ﷺ کو علم ماکان و مایکون کا حامل مانتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ان کو یہ بات بھی پتہ ہے کہ یہ عقیدہ کوئی ضروریات دین یا ضروریات اہل سنت سے نہیں ہے۔ خود اہل سنت کا اس میں اختلاف ہے۔ اس لیے اگر کوئی اس مسئلے میں فاضل بریلوی سے اختلاف کرتاہے تو وہ اسے کافر کایا گم راہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’ہاں! اگر تمام خباثتوں سے پاک ہواور علم غیب کثیر ووافر بقدر مذکور پر ایمان رکھے، عظمت کے ساتھ اس کا اقرار کرے، صرف احاطہ جمیع ماکان وما یکون میں کلام کرے اور ان میں ادب وحرمت ملحوظ رکھے تو گمراہ نہیں صرف خطا پر ہے۔ ‘‘(فتاویٰ رضویہ:۶/۵۴۱)
’’محمد نے خدائی کی‘‘ قابل تاویل ہے:
ایک مقام پر فاضل بریلوی سے چند اشعار کے بارے میں حکم شرعی دریافت کیا گیا ہے،ان میں سے در ج ذیل اشعار /مصرعوں کو انہوں نے قابل تاویل بتایاہے،اگر چہ تاویل بعید ہے۔
(۱) میم کی چادر منہ پر ڈال احمد بن کر آیا
(۲) محمد نے خدائی کی خدا نے مصطفائی کی
کوئی سمجھے تو کیا سمجھے کوئی دیکھے تو کیا دیکھے (ج:۱۵،۲۹۸-۲۹۹)
اسی طرح فاضل بریلوی سے اس شعر کے بارے میں سوال ہوا:
سکھی پاپ کی گٹھری توسیس دھری کہیں روس نہ جاویں سام ہری
کتے جاکے بروں کہاں ڈوب مروں سیاں سے حیا شرماوت ہے
اس میں حق تعالیٰ کے لیے ’’سام ہری‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے،فاضل بریلوی نے اسے ناجائز بتاتے ہوئے لکھا ہے:
’’شاعر نےبڑی خطا کی،بہت برا کیا،اس پر توبہ لازم ہےمگر حکم کفر غلو و غلط ہے۔
لایخرج العبد من الایمان الاجحود ما ادخلہ فیہ، سواء صرح بہ أوجحد وجحد الجحود۔ وھذا اخبث واعند العنود۔ والعیاذباللّٰہ تعالیٰ۔ وﷲ تعالیٰ اعلم۔ بندہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا مگر جب کہ وہ ایسی چیز کا انکار کرے جس کے ذریعہ سے وہ ایمان میں داخل ہواتھا، خواہ وہ تصریح کرے یا انکار، اور انکار کا انکار یہ زیادہ خبیث اور سبب عناد ہے۔ والعیاذباللہ تعالیٰ، واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ت)(ج:۱۵،۷-۳)
من تشبہ بقوم کی تشریح جمیل
’’ حق تحقیق وتحقیق حق یہ ہے کہ تشبہ دو وجہ پرہے: التزامی ولزومی۔
التزامی یہ ہے کہ یہ شخص کسی قوم کے طرزووضع خاص اسی قصد سے اختیارکرے کہ ان کی سی صورت بنائے، ان سے مشابہت حاصل کرے حقیقۃً تشبہ اسی کانام ہےفان معنی القصد والتکلف ملحوظ فیہ کمالایخفی(اس لئے کہ قصداورتکلف کے مفہوم کااس میں لحاظ رکھاگیاہے جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت )اور لزومی یہ کہ اس کاقصد تومشابہت کانہیں مگروہ وضع اس قوم کاشعارخاص ہورہی ہے کہ خواہی نخواہی مشابہت پیداہوگی۔
التزامی میں قصد کی تین صورتیں ہیں:
اول یہ کہ اس قوم کومحبوب ومرضی جان کر اُن سے مشابہت پسند کرے یہ بات اگرمبتدع کے ساتھ ہو بدعت اور کفّار کے ساتھ معاذﷲ کفر، حدیث من تشبہ بقوم فہو منھم (جو کسی قوم سے مشابہت اختیارکرے تو وہ انہی میں سے شمارہوگا۔ت) حقیقۃً صرف اسی صورت سے خاص ہے۔
دوم کسی غرض مقبول کی ضرورت سے اسے اختیارکرے وہاں اس وضع کی شناعت اور اس غرض کی ضرورت کاموازنہ ہوگا، اگرضرورت غالب ہوتو بقدرضرورت کاوقت ضرورت یہ تشبیہ، کفرکیا معنی ممنوع بھی نہ ہوگا، جس طرح صحابہ کرام رضی ﷲ تعالیٰ عنہم سے مروی کہ بعض فتوحات میں منقول رومیوں کے لباس پہن کر بھیس بدل کر کام فرمایا او ر اس ذریعہ سے کفار اشرار کی بھاری جماعتوں پرباذنﷲ غلبہ پایا، اسی طرح سلطان مرحوم صلاح الدین یوسف انارﷲ تعالیٰ برہانہ کے زمانے میں جبکہ تمام کفار یورپ نے سخت شورش مچائی تھی دوعالموں نے پادریوں کی وضع بناکر دورہ کیا اور اس آتش تعصب کوبجھادیا۔
سوم نہ تو انہیں اچھاجانتا ہے نہ کوئی ضرورت شرعیہ اس پرحامل ہے بلکہ کسی نفع دنیوی کے لئے، یایوہیں [یونہی]بطورہزل واستہزاء اس کامرتکب ہوا توحرام وممنوع ہونے میں شک نہیں اور اگروہ وضع ان کفارکامذہبی دینی شعارہے جیسے زنّار، قشقہ، چُٹیا، چلیپا، تو علماء نے اس صورت میں بھی حکم کفردیا کماسمعت اٰنفا (جیسا کہ تم نے ابھی سنا۔ت) اور فی الواقع صورت استہزاء میں حکم کفر ظاہرہے۔ کمالایخفی (جیساکہ پوشیدہ نہیں۔ت)
اور لزومی میں بھی حکم ممانعت ہے جبکہ اکراہ وغیرہ مجبوریاں نہ ہوں ،جیسے انگریزی منڈا، انگریزی ٹوپی، جاکٹ، پتلون، اُلٹاپردہ، اگرچہ یہ چیزیں کفار کی مذہبی نہیں مگر آخر شعار ہیں، تو ان سے بچنا واجب اور ارتکاب گناہ۔ ولہٰذا علماء نے فسّاق کی وضع کے کپڑے موزے سے ممانعت فرمائی۔
مگر اس کے تحقق کو اس زمان ومکان میں ان کاشعار خاص ہونا قطعاً ضرور ،جس سے وہ پہچانے جاتے ہوں اور ان میں اور ان کے غیر میں مشترک نہ ہو، ورنہ لزوم کا کیا محل(یہی وجہ ہے کہ اب مذکورہ ملبوسات کے حوالے سے علما نے اپنی رائے تبدیل کرلی ہے۔) ، ہاں وہ بات فی نفسہٖ شرعاً مذموم ہوئی تو اس وجہ سے ممنوع یامکروہ رہے گی نہ کہ تشبّہ کی راہ سے۔
اس تحقیق سے روشن ہوگیا کہ تشبُّہ وہی ممنوع ومکروہ ہے جس میں فاعل کی نیت تشبہ کی ہو یاوہ شے ان بدمذہبوں کاشعارخاص یافی نفسہ شرعاً کوئی حرج رکھتی ہو، بغیر ان صورتوں کے ہرگز کوئی وجہ ممانعت نہیں۔
اب مسئلہ مسئولہ کی طرف چلئے، دھوتی باندھنے والے مسلمانوں کایہ قصد تو ہرگز نہیں ہوتاکہ وہ کافروں کی سی صورت بنائیں، نہ مدعی نے اس پربنائے کلام کی بلکہ مطلقاً دھوتی باندھنے کو ان سخت شدید اختراعی احکام کاموردقراردیا، نہ زنہار قلب پر حکم روا نہ بدگمانی جائز، قال ﷲ تعالیٰ:وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (الاسراء:۳۶)۔ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ان باتوں کے پیچھے نہ پڑو جن کاتمہیں کچھ علم نہیں۔ بے شک کان، آنکھ اور دل کے متعلق(بروزقیامت) پوچھا جائے گا۔ (ت)۔
اور اگروہاں کے مسلمان اسے لباس کفارسمجھتے ہوں تواحتراز مؤکد ہے۔ حرج پیچھے گھرسنے میں ہے، ورنہ تہ بند تو عین سنت ہے۔ اس سے زائد کچھ لفّاظیاں شخص مذکور نے کہیں محض بے اصل وباطل اور حلیہ صدق وصواب سے عاطل ہیں، بالفرض اگردھوتی باندھنا مطلقاً ممنوع بھی ہوتا تاہم اس میں اُتناوبال نہ تھا جوشرع مطہر پردانستہ افتراکرنے میں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۲۴/ ۵۲۹-۵۳۱)
ہر سنی کے کلام میں تا حد امکان تاویل لازم
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سجدۂ تعظیمی کے حوالے سے تفصیلی عالمانہ گفتگو کرنے کے بعد آخر میں بعض مشائخ چشت سے اس کے ثبوت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتےہیں کہ فیصلہ ہمیشہ جمہورکی رائے پر ہوتا ہے نہ کہ فرد واحد پر ،پھر یہ کہ کیا خبر کہ مشائخ چشت کی طرف اس امر کا انتساب درست ہے بھی یا نہیں اور اگر انتساب صحیح و مستند ہو بھی تو حتی الامکان تاویل کی جائے گی۔ فرماتے ہیں:
’’اگر بہ ثبوت معتمد ثابت ہو اور گنجائش تاویل رکھتا ہے تاویل واجب اور مخالفت مندفع ۔ اولیاء کی شان توارفع ہر مسلمان سنی کے کلام میں تاحد امکان تاویل لازم۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۲/۵۱۶)
مسلمان کو کافر کہنے والے کی تکفیر؟
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا فتویٰ ہے کہ شاتم رسول اور کافروبےدین کے کفر میں شک کرنے والا خود کافر ہے، یہ بات ہر رضوی بریلوی کو یاد ہے، وہ بھی اس شان سے کہ اب کسی متشکک فی الکفر کی تکفیر میںکسی طرح کے غوروخوض اور تحقیق مزید کی ضرورت نہیں ہے، لیکن دوسری طرف فاضل بریلوی کا یہ بھی موقف ہے کہ جو کسی ایک مسلمان کو بھی کافر کہے وہ خود کافر ہوجاتا ہے، یہ بات متشددین اور مسلک اعلیٰ حضرت سے منحرف لوگوں کو بالکل ہی یاد نہیں ہے۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رقم طراز ہیں:
’’ جمہور ائمہ کرام فقہائے اعلام کا مذہب صحیح ومعتمدومفتی بہ یہی ہے کہ جو کسی ایک مسلمان کوبھی کافر اعتقاد کرے خود کافر ہے، ذخیرہ وبزازیہ وفصول عمادی وفتاوٰی قاضی خاں وجامع الفصولین وخزانۃ المفتین و جامع الرموز وشرح نقایہ برجندی وشرح وہبانیہ ونہرا لفائق ودرمختار ومجمع الانہر واحکام علی الدرر وحدیقہ ندیہ و عالمگیری وردالمحتار وغیرہا عامہ کتب میں اس کی تصریحات واضحہ، کتب کثیرہ میں اسے فرمایا: المختار للفتوی (فتوٰی کے لیے مختار ہے۔ ت) شرح تنویر میں فرمایا: بہ یفتی (اس پر فتوٰی دیا جاتا ہے۔ ت)
یہ افتاءو تصحیحات اس قول اطلاق کے مقابل ہیں کہ مسلمانوں کو کافر کہنے والا مطلقاکافر اگرچہ محض بطور دشنام کہے نہ از راہ اعتقاد،جامع الفصولین میں ہے:
قال لغیرہ: یا کافر! قال الفقیہ الاعمش البلخی: کفر القائل، وقال غیرہ من مشایخ بلخ: لایکفر، فاتفقت ھذہ المسألۃ ببخاری، اذ أجاب بعض ائمۃ بخاری أنہ کفر فرجع الجواب الی بلخ فمن افتی بخلاف الفقیہ الاعمش رجع الی قولہ وینبغی ان لایکفر علی قول ابی اللیث وبعض ائمۃ بخاری والمختار للفتوٰی فی جنس ھذہ المسائل ان قائل ھذہ المقالات لو ارادالشتم ولایعتقد کافرا لایکفر ولو اعتقد کافر ا کفر۔(اختصارا)
کسی نے غیر کوکہا:اے کافر! امام اعمش فقیہ بلخی نے فرمایا: وہ کافر ہوگیا، اورا ن کے علاوہ دیگر مشائخ نے فرمایا: وہ کافر نہ ہوگا، اوریہی مسئلہ بخاریٰ میں پیش آیا تو بخاری کے بعض ائمہ نے فرمایا: وہ کافرہوگیا۔ جب یہ جواب بلخ پہنچا تو جن لوگوں نے امام اعمش فقیہ کے خلاف فتوی دیا تھا انھوں نے رجوع کرکے اعمش کے قول سے اتفاق کرلیا، اور ابولیث اور بخاری کے بعض ائمہ کے نزدیک کافر نہ کہنا مناسب ہے جبکہ اس قسم کے مسائل میں فتوی یہ ہے کہ مسلمان کو کافر کہنے والے نے اگرگالی مراد لی ہو اور کفرمراد نہ لیا تو کافر نہ ہوگا۔ اوراگر اس نے کفر کا اعتقاد کیا تو وہ کا فر ہے۔( اختصارا)
تو فقہائے کرام کے قول مطلق و حکم مفتی بہ دونوں کے رو سے بالاتفاق ان پر حکم کفر ثابت ،اور یہی حکم ظواہر احادیث صحیحہ جلیلہ سے مستفاد، صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہا میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کی حدیث سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں :ایما امرئ قال لاخیہ کافرا فقد باء بھا احدھما، زاد مسلم ان کان کما قال والا رجعت الیہ جو کسی کلمہ گو کو کافر کہے ان دونوں میں ایک پر یہ بلا ضرور پڑے گی ،اگر جسے کہا وہ فی الحقیقۃ کافر ہے تو خیر ،ورنہ یہ کفر کا حکم اسی قائل پر پلٹ آئے گا۔ (ت)‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۱۱/۳۷۹،۳۸۰)
حیرت ہوتی ہے کہ فقہی گفتگو کے وقت اس بات کو اس شد و مد سے لکھنے کے بعد بھی دوسرے مقام پر جب فاضل بریلوی نے متکلمانہ شان سے بات کی ہے تو وہاں جلوہ دوسرا ہے۔ بات چل رہی تھی ان وہابیہ کو جو جناب رسالت مآب ﷺ کے نام سنتے وقت انگوٹھے چومنے کو حرام و کفر اور چومنے والوں کو کافر کہتے ہیں، فاضل بریلوی نے ان کے رد میں دلائل و شواہد کے انبار لگا دیے اور متعدد طرق سے ان کی کی گمراہیوں اور انحرافات کو ثابت کیا۔ لیکن کیا وہ متشددین مسلمانوں کی تکفیر کی پاداش میں خود کافر ہوجائیں گے؟فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’تاہم کسی پر کفر کا حکم بہت بڑا معاملہ ہے۔ دائرہ اسلام سے کسی شخص کو خارج نہیں کرتا مگر اسلام میں داخل کرنے والے امر کا انکار جبکہ تقبیل کا عمل حضرت آدم علیہ السلام یا دیگر انبیاء علیہم السلام سے پایہ ثبوت کو نہیں پہنچا، چہ جائیکہ درجہ تواتر کو پہنچے اور ضروریات دین کے درجہ میں ہوجائے، ان لوگوں کا اس عمل سے انکار صرف اس بات پر مبنی ہے کہ یہ عمل ثابت نہیں نہ کہ ثابت مان کر ازراہ اہانت انکار کرتے ہیں، لہذا اس بناء پر ان کو کافر کہنے کی کوئی وجہ نہیں، بلکہ اس بناء پر کافر کہنا خودخطرناک معاملہ ہے۔ یہ بدبخت لوگ ہیں جو مسلمانوں کو اپنی زبانوں سے کفر میں مبتلا کرتے ہیں اور معمولی معمولی باتوں پر ان کو مشرک اور کافرکہتے ہیں، یہ قیامت کے روز جواب دہ ہوں گے اور ان کو فیصلہ کے وقت اس الزام کا جواب دینا ہوگا، بہت احتیاط کرنی ضروری ہے تاکہ ان لوگوں کی خصلت قبیحہ اور قطعی بدبختی کاارتکاب لازم نہ آئے۔
ہاں کافر ومشرک کہنے کی بناء پر کفر دونوں میں کسی ایک پر ضرور عائد ہوتا ہے اور ہلاک کرتا ہے اور کسی کی بلاوجہ تکفیر پرکفر کا حکم لازم ہوتا ہے۔ یہ روایات بڑے بڑے ائمہ محدثین، امام احمد ، بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور ابن حبان نے صحاح، مسانید، سنن میں حضرت عبد اللہ بن عمر، ابوہریرہ ابوذر اور ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت فرمائی ہیں، یہ جاہل لوگ جو کہ ظاہر حدیث پر عمل بزعم خویش لازم کہتے ہیں اور اہل حدیث کہلاتے ہیں ان کوغور کرنا چاہئےکہ ان روایات کا مصداق ہیں یا نہیں اور کیا امام فقیہ ابوبکر اعمش اور تمام ائمہ بلخ اور بہت سے ائمہ بخارا کا فتویٰ ہے کہ کسی مسلمان کی تکفیر سے انسان مطلقا کافر ہو جاتا ہے ، پر عمل لازم آتا ہے بلکہ معتمد اور صحیح مذہب پر فتوی ہے کہ کسی مسلمان کو بطور اعتقاد جازم کافر قرار دینے سے انسان کافر ہوجاتاہے اور درمختار میں ہے اسی پر فتوی ہے اور شرح نقایہ قہستانی میں انہ المختار ذخیرہ احکام جواہراخلاطی فصول عمادی۔ شرح دررغرر، شرح نقایہ برجندی، شرح وہبانیہ، علامہ ابن الشحنہ، نہر الفائق ، حدیقہ ندیہ، فتاوٰی ہندیہ اور ردالمحتار وغیرہا کتب میں انہ المختار للفتوٰی بالقطع والیقین فرمایا ہے تومسلمانوں کو کافر کہنے والے اس طائفہ پر ان فتاوٰی پر ان فتاوٰی کی روشنی میں کفر وارتداد کاحکم بلا شک وشبہہ لازم آتاہے،جیسا کہ اس فقیر نے اپنے رسالہ مبارکہ مسمٰی باسم التاریخی النھی الاکید عن الصلٰوۃ وراء عدی التقلید میں مفصل بحث ذکر کی ہے۔
تاہم ہمیں بحمدہٖ تعالیٰ ابھی احتیاط لازم اور ضروری ہے اور ان کا فر بتانے والوں کو کافر کہنے سے اجتناب کریں گے جیسا کہ میں نے اسی رسالہ میں اور دیگر تصانیف میں بیان کیاہے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت دینے والا اور وہی میرا مولیٰ ہے ۔واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (ت)‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۲/ ۳۶۴، ۳۶۶)
فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرنے والوں کو یہ نکتہ سامنے رکھنا چاہیے کہ فاضل بریلوی کبھی فقیہانہ گفتگو کرتے ہیں اور کبھی متکلمانہ۔فقہی اور کلامی بصیرتوں سے بے بہرہ لکیر کے فقیر یا شدت غضب اور جوش تکفیر میں جینے والے محبین بے نظیر،امام بریلوی کے ادا شناس نہیں ہیں۔ یہ لوگ مسلک اعلیٰ حضرت کا نام لے کر اعلیٰ حضرت کے علمی مسلک کا خون کرتے ہیں۔
بات بات پر تکفیرکرنا وہابیہ کا طریقہ ہے
تکفیر مسلم کا آغاز خوارج نے کیا تھا جن کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب شخص سرے سے اسلام سے خارج ہوجایا کرتا تھا۔ یہ اس معاملے میں اتنے جری تھے کہ انھوں نے حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کو بھی نھیں بخشا۔ تکفیر مسلم کے ساتھ قتل مسلم میں بھی یہ لوگ حد سے بڑھے ہوئے تھے اور اس حوالے سے وہ عورتوں اور بچوں تک کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے۔ وہابیت کی دوسوسالہ تاریخ بھی خارجیت سے انتہائی حد تک متاثر نظر آتی ہے۔ اس وقت علماے ازہر اور عالم اسلام کے معتدل علما وہابیہ کی تکفیر پسندی اور غارت گری سے بےحد پریشان ہیں۔ وہ امت مسلمہ کے اندر اعتدال،وسطیت، سماحت، رواداری اور دوسروں کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی جی جان سے کوششیں کر رہے ہیں۔اب تو شیخ یوسف القرضاوی جیسے قدرےنرم اخوانی علما بھی تکفیری ظاہرے سے پریشان ہیں۔ (مطالعہ کیجیے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کتاب: ظاہرۃ الغلو فی التکفیر) مگر تکفیر مسلم کا جن رام ہوتا نظر نہیں آتا۔ فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کیجیے تو پتہ چلتا ہے کہ فاضل بریلوی بھی اسی خیال کے ہم نوا تھے کہ بات بات پر تکفیر کرنا وہابیہ کا طریقہ اور خوارج کی ڈگر ہے۔ لکھتے ہیں:
’’دوسرے اہلِ افراط کہ اکثر واعظین وہابیہ وغیرہم جُہّال مُشدّدین ہیں، ان حضرات کی اکثر عادت ہے کہ ایک بیجا کے اٹھانے کو دس۱۰ بیجا اس سے بڑھ کر آپ کریں، دوسرے کو خندق سے بچانا چاہیں اور آپ عمیق کنویں میں گریں، مسلمانوں کو وجہ بے وجہ کافر، مشرک، بے ایمان ٹھہرادینا تو کوئی بات ہی نہیں، ان صاحبوں نے نکاحِ بیوہ کو گویا علی الاطلاق واجب قطعی وفرض حتمی قرار دے رکھا ہے کہ ضرورت ہو یا نہ، بلکہ شرعاً اجازت ہو یا نہ ہو،بے نکاح کئے ہرگز نہ رہے اور نہ صرف فرض بلکہ گویا عین ایمان ہے کہ ذرا کسی بناء پر انکار کیا اور ایمان گیا اور ساتھ لگے آئے گئے پاس پڑوسی سب ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے کہ کیوں پیچھے پڑکر نکاح نہ کردیا اور اگر بس نہ تھا تو پاس کیوں گئے، بات کیوں کی، سلام کیوں لیا، بات بات پر عورتیں نکاح سے باہر، جنازہ کی نماز حرام، تمام کفر کے احکام۔ ولاحول و لا قوۃ الّا باللّٰہ العلی العظیم۔ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں :ھلک المتنطعون۔ رواہ الائمۃ احمد ومسلم وابوداؤد عن ابن مسعود رضی ﷲ تعالیٰ عنہ۔ ہلاک ہوئے بے جا تشدّد کرنے والے(اس کو امام احمد، امام مسلم اور امام ابوداؤد نے حضرت عبد ﷲابن مسعود رضی ﷲتعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا۔ ت)‘‘(فتاویٰ رضویہ: ۱۲/ ۲۹۰)
لعنتی طرز فکرکے حاملین متوجہ ہوں
آج کل نہ صرف بات بات پر تکفیر کا ماحول گرم ہے بلکہ آپس میں ہی ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔امام غزالی کا قول مشہور ہے کہ وہ یزید پربھی لعنت بھیجنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ لعنت کس پر بھیجی جائے ؟اس حوالے سے فاضل بریلوی کی یہ اصولی رائے پڑھیے:’’ لعنت بہت سخت چیز ہے، ہر مسلمان کو اس سے بچایاجائے بلکہ لعین کافر پر بھی لعنت جائز نہیں جب تک اس کا کفر پر مرنا قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ ۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۱/۲۲۲)
کسی کا فتویٰ حرف آخر نہیں
موجودہ عہد کا ایک غیر علمی مہلک مرض یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے بعض محبوب علما کو غیر اعلانیہ طور پر مقام عصمت پر بٹھا رکھا ہے۔ ایسے علما کے فتاویٰ کے بارے میں یہ اصرار کیا جاتاہےکہ ہر عالم ان کی تصدیق کرے؛کیونکہ وہ سب سے بڑے عالم کے فتاویٰ ہیں، جیسے عالم نہ ہوئے پیغمبر ہوئے جن پر ایمان لانا ہر فرد امت پر واجب ہو۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اس طرز فکر کے شدید مخالف ہیں۔شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے ایک فتوے کے بارے میں فاضل بریلوی سے استفسار ہوا تو آپ نے برجستہ طور پر ان کے فتوے کو غلط کہا (اور شاہ عبدالعزیز محدث وہ ہیں جن سے خود فاضل بریلوی کے پیرومرشد حضرت شاہ آل رسول احمدی مارہروی قدس سرہ کو شرف تلمذ حاصل ہے اور انھیں کے واسطے سے اجازت حدیث ان کے خاندان میں رائج۔) اور اس کے ساتھ یہ اصولی بات لکھی:
’’ شاہ صاحب سے اس مسئلہ میں غلطی ہوئی، اور وہ نہ فقط فتاوٰی بلکہ تفسیر عزیزی میں بھی ہے، اورنہ ایک ان کا فتاوٰی بلکہ کسی بشر غیر معصوم کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں سے کچھ متروک نہ ہو، سید نا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الا صاحب ہذا القبر صلیﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ۔ وﷲ تعالیٰ اعلم۔ یہ تمام حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سوا ہر ایک اپنے قول پر ماخوذ ہوگا اور قول کو اس پر رد کیا جائے گا، واللہ تعالیٰ اعلم۔ (ت)(فتاویٰ رضویہ: ۲۰/۲۹۶)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:’’ہر عاقل مسلمان جانتاہے کہ نوع بشر میں عصمت خاصہ انبیاء ہے، نبی کے سوا کوئی کیسے ہی عالی مرتبے والا ایسا نہیں جس سے کوئی نہ کوئی قول ضعیف خلاف دلیل یا خلاف جمہور نہ صاد ر ہواہو۔کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الا صاحب ھذا القبر صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم (ہر آدمی کی اس کے کہنے سے گرفت ہوگی، اور اس پر وہ قول لوٹا دیا جائے گا سوائے اس قبرو الےکے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلام ہو (یعنی حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ذات اقدس )۔ ت)(فتاویٰ رضویہ: ۲۶/۵۷۷)
ایک جگہ اور لکھتے ہیں:’’مکتوبات مثل اورکتب مشائخ کے ہے اورتفصیل عقائد اہل سنت وبیان مسائل نفیسہ فقہ وکلام کے سبب بہت کتب پرمزیت ہے البتہ سیدنا امام مالک رضی ﷲ تعالیٰ عنہ وغیرہ ائمہ دین کا ارشاد کل ماخوذ من قولہا لخ (ہرایک اپنے قول سے پکڑاجاتاہے الخ۔ت) سوائے قرآن عظیم سب کتب کوشامل ہے۔ نہ اس سے ہدایہ، درمختارمستثنٰی، نہ فتوحات ومکتوبات وملفوظات۔‘‘(فتاویٰ رضویہ : ۲۶ /۵۷۷)
لیکن یہ علمی واصولی بات آج کس کو سنائی جائے جب کہ ہر شخص پوری دنیا کو اپنی جزئیات کا پابند بنانا چاہتاہے اور علمی و فقہی اصولوں کو دن کے اجالوں میںقتل کرتا ہوا نظر آتاہے۔
فیصل مبارک پوری نے کہا تھا :
گل ادب کو کترتاہے اب وہی ظالم
جو دیکھنے میں مکمل ادیب لگتا ہے
اور اب فقیر کہتا ہے:
اصول فقہ کو پامال کر رہا ہے وہ
جو دیکھنے میں مکمل فقیہ لگتا ہے
Leave your comment