مخدوم سیدنظام الدین معروف بہ شیخ الہدیہ بن سیدمیرن سنڈیلوی خیرآبادی بچپن ہی میں اپنے والدکے ہمراہ مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اورمرید ہوگئے۔ سلسلۂ نسب سید محمد صدر الدین بھکری بن سید محمود مکی کے واسطے سے جناب رسالت مآب ﷺ تک پہنچتاہے۔
مرشدکے اشارے پرتحصیل علم کی خاطرپنجاب کاسفرکیا۔واپسی پرمعلوم ہوا کہ مرشد کاوصال ہوگیا۔ پیر ومرشدنے اپنے خلیفہ مخدوم شاہ صفی قدس سرہ کووصیت کی تھی کہ الہدیہ جب واپس آئیں تو تعلیم وتربیت کرنااورخرقۂ خلافت عطاکرنا۔جب آپ مخدوم شاہ صفی کی بارگاہ میں حاضرہوئے اس دن مخدوم شیخ سعدالدین قدس سرہ کاعرس تھا ۔ مخدوم شاہ صفی نے شیخ الہدیہ سے محفل میں چلنے کوکہا۔آپ نے قوالی کے آلات کی وجہ سے اعراض کیا۔مخدوم نے قوالوں کو آلات سے دورہونے کاحکم دیااورتھوڑی دیر کے بعدآلات نے خودہی سرود شروع کردیا۔ یہ دیکھتے ہی شیخ الہدیہ کیف میں آئے اور بے ہوش ہو گئے۔ہوش میں آنے کے بعدمعلوم ہواکہ مخدوم صاحب مجھگواںگئے ہیں۔ شیخ الہدیہ بھی مجھگواں گئے، مگر وہاں معلوم ہواکہ مخدوم لکھنؤگئے، جب شیخ لکھنؤ حاضرہوئے تومعلوم ہواکہ صفی پورگئے اورشیخ جب صفی پورآئے تو معلوم ہواکہ مخدوم خیرآباد گئے۔شیخ الہدیہ صفی پور ہی میں مزدورں کے ساتھ مخدوم کی خانقاہ کی تعمیرمیں بغیر اجرت کے مصروف رہے کہ مخدوم خیرآبادسے واپس ہوئے اورفرمایا:’شمابناے خودمستحکم کردید۔‘ (تم نے اپنی بنیاد پکی کرلی۔)
خیرآباد و اطراف میں آپ چھوٹے مخدوم صاحب کے نام سے مشہور ہیں اور مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس سرہ بڑے مخدوم صاحب کہلاتے ہیں۔ آپ کا آخری زمانہ اکبربادشاہ کا ہے۔ بادشاہ کے کارندوں نے آپ کو پریشان کرنا چاہا اور دربار شاہی میں بلایا۔مگربادشاہ آپ کے ہیبت وجلال کودیکھتے ہی تعظیماً کھڑا ہو گیا اور عزت واحترام کے ساتھ پیش آیا۔ فیضی جو اکبر بادشاہ کامعتمدعلیہ تھا، اس نے آپ کو پریشان کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے مگرعاجز رہااور بالآخر آپ کا معتقد ہوگیا۔ شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی (۱۰۵۲ھ) اخبار الاخیار میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے راقم ہیں:
’’از مریدانِ شیخ سعد خیرآبادی، شیخ اللہ دیا خیرآبادی است کہ بہ غایت مسنّ و معمر و متبرک بود، در ہنگامی کہ بہ امرِوالی عہد درین دیار تشریف آوردہ بود بہ غایت تعظیم وتکریم مخصوص گشتہ، بعضی آثارِ عظمت و کرامت از وی بہ ظہور رسیدہ۔ فقیر خدمتِ اورا دریافتہ بود۔ ہم در این سال کہ نہصدو نود و سہ است از عالم رفت۔ رحمۃ اللہ علیہ ‘‘
ترجمہ: شیخ سعد خیرآبادی کے مریدین میں سےشیخ اللہ دیا خیرآبادی بھی ہیں جو بہت عمر دراز اور متبرک شخصیت تھے۔ جس زمانے میں بادشاہ (اکبر) کے حکم سے اس دیار میں تشریف لائے تھے ، بڑی تعظیم وتکریم سے نوازے گئے تھے۔ آپ سے بعض کرامتوں کا ظہور بھی ہوا تھا۔ فقیر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ اسی سال ۹۹۳ھ میں عالم فانی سے رخصت ہوئے۔
۷؍ربیع الاول ۹۹۳ھ / ۸ مارچ ۱۵۸۵ء میں آپ کاوصال ہوااور خیرآبادمیں مدفون ہوئے۔ فیضی نے آپ کے مرقد مبارک پر گنبد بنوایا،جوآج بھی موجودہےاور آپ کے لیے قطعۂ تاریخ بھی کہا، جوروضہ شریف کی دیواروں پرنقش ہے۔ آپ کے فضل و کمال کا اعتراف آپ کے معاصر علماء ومشائخ نے کیا ہے اور تمام تذکرہ نگاروں نے بلند القاب سے آپ کو یاد کیاہے۔
آپ کے صاحبزادے مخدوم سید ابو الفتح خیرآبادی (م ۱۰۱۱ھ/ ۱۶۰۲ء)آپ کی علمی و روحانی وراثت کے امین ہوئے۔ آپ کی اولاد میں بکثرت علما و فضلا پیدا ہوئے۔ ان سب کی خدمات کا احاطہ ایک مستقل موضوع ہے۔
قطعۂ تاریخ
مخدومِ پاکان اللہ دیہ رفت
از دارِ فانی سوے ارمگاہ
گفتم عزیزا تاریخِ رحلت
محبوبِ آفاق رفت از جہان آہ
ترجمہ: مخدوم الصلحاء اللہ دیہ دنیاے فانی سے جنت کی طرف تشریف لے گئے۔ عزیز!میں نے آپ کی تاریخ وصال کہی، آہ محبوبِ آفاق دنیا سے تشریف لے گئے ۔
Leave your comment