Donate Now
تحصیل علم کا مقصود خوف خدا کا حصول

تحصیل علم کا مقصود خوف خدا کا حصول

علم ایک ایسا چراغ ہے، جس کی روشنی میں علم والا اچھائی اور برائی میں تمیز کرتا ہے، حلال و حرام اس کے سامنے واضح ہوتا ہے ،کفر وایمان کے درمیان فرق اس کے لیے آسان ہوجا تا ہے۔یہ انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس چیز کی خرابی کا علم ہو جاتا ہے تو وہ اس خرابی سےکسی کے بتائے بغیر خود ہی بچنے لگتا ہے اور جب کسی چیز کی خوبی کا علم ہوجا تا ہے تو کسی کی ترغیب کے بغیراس چیز کو پانے کی کوشش کرتا ہے ۔

 یہ سب کو معلوم ہے کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوںبرابر نہیں ہو سکتے ،ہَل یَستَوی الَّذینَ یَعلَمُونَ وَالذِّینَ لَا یَعلَمُون ۔صاحب علم کا سینہ اس گھر کی طرح ہے جس میں کوئی چراغ روشن ہواور جس گھر میں چراغ روشن ہو تاہے اس گھر کی ہر اچھی بری چیز نظر آتی ہے اور صاحب خانہ اس چراغ کی روشنی کی مدد سے ہر وہ چیز جو اس کے کام کی نہیں ہوتی یا اس کے لیے تکلیف دہ یا مضر ہوتی ہے یا اس کی طبیعت سلیمہ کے خلاف ہوتی ہے، اس کو گھر سے باہر کر دیتا ہے اور جو چیز اس کے کام کی اوراس کے حق میں مفید ہوتی ہے،اسے نہایت سلیقے سے سجا دیتا ہے ، اور ہر پل اس گھر کو مزیدمزین اور خوبصورت بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جو ایسا نہ کرے وہ یا تو بد ذوق ہوگا یا طبیعت سلیمہ سے محروم ، جس کی وجہ سے وہ روشنی کی صحیح قدر دانی سے قاصر و عاجز ہے ۔

علم کا نتیجہ اور ثمرہ یقین بھی ہے، چنانچہ جب کسی شخص کو کسی خوفناک چیزکا یقین ہوجا تا ہے تو دوسرے ہی لمحے وہ اس سے بچنے میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کھڑا ہو ،اور جس کو وہ سچا جانتا ہے اس کی طرف سے یہ کہا جائے کہ تمہارے پاؤں کے پاس ایک اژدھا ہے یا تمہاری پشت کے پیچھے ایک خونخوار درندہ ہے، تو پھر وہ نہ آگے دیکھے گا نہ پیچھے بلکہ بھاگنے کو غنیمت جانے گا ۔یوں ہی جب کسی صادق کی طرف سے کسی عظیم کامیابی کے طریقوں کی خبر ملے گی تو اس خبر کی تحقیق کیے بغیراپنی مسرتوں کا اظہار کرتے ہوئے ،اپنے آپ کوکامیابی سے ہم کنا ر کرنے کے لیے جہد مسلسل کرنے لگے گااور اگر ایسا نہیں کرتا ہے تو وہ یا تو خبر دینے والے کو سچا نہیں ،جھوٹا جانتا ہے یا ایسا شخص اپنے آپ کو ہلاک کرنے والا اور کامیابیوں سے محروم رکھنے والا کہا جائے گا ،یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ ابھی اسے علم و یقین حاصل ہی نہیں ہوا ،کیو نکہ اگراسے علم و یقین حاصل ہوجاتاتو ہلاکتوں سے ضرور بچنے کی کوشش کرتا اور کامیابیوں سے اپنے آپ کو سرفراز کرنے کے لیے کوشاں ہوتا۔معلوم ہوا کہ جہاں بھی علم و یقین ہوگا وہاں دو چیزیں ضرور ہوں گی :ایک خوف اور دوسرا شوق ۔ ہلاکتوں کا خوف ہوگا او ر کامیابیوں کے حصول کا شوق ۔ اور جہاں جہاں یہ چیزیں ہوں گی ،جس جس ذات میں یہ چیزیں پائی جائیں گی وہی ذات صاحب علم اور صاحب یقین شمار کی جائے گی ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اِنَّمَا یَخشَی اللّٰہ مِن عِبَادِہِ العُلمَاء، اللہ سے ڈرنے والے ہی علما ہیں ۔یعنی عذاب سے بچنے والے اور اللہ کے احکام پر عمل کر کے اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے ہی عالم ہیں ،اور وہی علم مفید ہے جو اللہ کے عذاب سے بچنے اور اس کی رضا حاصل کرنے میں معاون و مددگار ہو ،بقیہ سب خرافات و فضول ہیں ۔ جو علم کسی بھی صورت میں اللہ تک نہ لے جائے اور اس کے عذاب سے بچنے کی رغبت نہ دلائے وہ علم نہیں ،جہل و نادانی ہے ،و ہ علم یقینی نہیں،علم ِرسمی ہے ، وہ علم رحمانی نہیں،علم شیطانی ہے ۔

 علمِ رسمی کام آسکتا نہیں

جب تلک پیدا نہ ہو کامل یقیں

علم سے پیدا نہ ہو تقویٰ اگر

بے گماں وہ علم ہے نا معتبر

(خضر راہ ، مارچ ۲۰۱۲ء )

Ad Image