ظہر کے بعد علما، طلبا ،سالکین و طالبین حلقہ بنائے سرکار کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی درمیان الٰہ آباد شہر سے محترم ندیم صاحب اور ان کے ہمراہ دو تین افراد تشریف لائے ۔ سرکار نے ان کو اپنے قریب بلایا اور خیریت دریافت کی ۔ اس کے بعد ان میں سے ایک شخص نے جس کی عمر تقریباًچالیس رہی ہوگی ،سوال کیا کہ حضرت مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب میں نمازکے لیے کھڑا ہوتا ہوں تب صرف دنیا کی بات یاد آتی ہے ،کاروبار،معمولات یہی ساری باتیں یاد رہتی ہیں، حد تو یہ ہے کہ جوبھول گیا ہوتا ہوں وہ سب بھی نماز میں یاد آجاتی ہیں ۔
سرکار نے مسکراتے ہوئے فرمایا :کہاجاتاہے اَلْصَّلٰوۃُ نُوْرُ اْلمُؤْمِن۔ کہ نماز مومن کا نور ہے ، یا اَلْصَّلٰوۃُ نُوْرٌ۔نماز نور ہے ۔ظاہر ہے کہ نمازی جب نماز کی حالت میں ہوگا تو اس کے دل ودماغ میں جو کچھ بھی ہوگا نما زکے نور سے وہ سب روشن ہو جائے گا ۔ نمازی جو کچھ کیا ہوگا وہ سب اس کے سامنے کھلی کتاب کی طرح عیاں ہو جائیں گے ۔زندگی کے سارے کارو بار، اس کے افکارو خیالات نمازی کے سامنے دو دو چار کی طرح ظاہر ہو جائیں گے۔ اب عقل مند وہ شخص ہے جو نماز کے نور کی مدد سے اپنے خانۂ دل کو آباد کرے برے اور غیر مفید خیالات کو دل سے باہر کرے اور اچھے اور صالح خیالات و نظریات سے خانۂ دل کو سجانے اور دماغ کو روشن کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس کی نماز صحیح معنوں میں اس کے لیے معراج ہو جائے اور اپنی نماز کے ذریعے عروج حاصل کرتے ہوئے اپنے رب کا قرب حاصل کر سکے ۔
نمازی کو نماز کی یہ حالت ایک دو دن کی کوشش سے حاصل نہ ہوگی بلکہ مسلسل کوشش اور اپنے رب سے یہ دعا کرتے رہنا ضروری ہے کہ مولیٰ! مجھ کو میری نماز کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور اپنی عبادت کا سلیقہ عنایت کر،بار بار دعاکرے اللہ ضرور سنے گا ،جس رب نے انسانوں کے حق میں وَأَمَّااْلسَّائِلَ فَلاَ تَنْہَرْ۔فرماکراپنے بندوں کو جوخود محتاج ہے سائلوں کو نہ جھڑکنے کا حکم دیا ہے بھلا وہ جو رب العالمین اور مختار مطلق ہے ،اپنی بارگاہ کے منگتوں کو کیسے جھڑکے گا اور کیوں کر محروم رکھے گا ۔
نمازی جب نماز میں کھڑا ہو تو باربار یہ بھی سوچے کہ میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوں جو دل کے وسوسوں سے بھی باخبرہے، عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورْہے ۔ اگر میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں تو وہ مجھ کوضرور دیکھ رہا ہے ۔ نمازی اگر ایسا کرنے لگتا ہے تو جودنیوی خیالات اس کو نماز میں آتے ہیں وہ دھیرے دھیرے کم ہوتے جائیں گے اور اللہ کا تصور دل میں غالب آجائے گا ،پھر یہ حالت ہو گی کہ اٹھتے بیٹھتے ،کارو بار کرتے ،ہر حال میں اللہ یاد رہے گا۔ اب صرف نماز ہی نہیں بلکہ ہر فعل، عبادت اور نیکی کا حصہ ہوگا ۔اب اگر کارو بار میں بھی ہوگا تو دھوکا اور جھوٹ سے بچتا ہوا نظر آئے گا اور اگر یہ حالت اپنے طور پر کوشش اور ریاضت سے حاصل نہ ہو تومخلصین و صادقین کے ساتھ عبادت کر ے وَارْکَعُوْامَعَ الَّراْکِعِیْن۔اللہ کے فضل اور اس کے نیک بندوں کی صحبت کی برکت سے حقیقت نماز تک رسائی حاصل ہو جائے گی اوراب اس کی نماز برائیوں سے روکنے والی نماز کہی جائے گی۔إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ ۔
Leave your comment