امسال (۲۰۱۲)عید کے بعدچندلوگوں کے ساتھ جن میں ایک عالم دین بھی تھے،دھاراوی ممبئی میں حضور داعی اسلام کی ایک مجلس میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی ۔تعارف کے بعد گفتگو شروع ہوئی اور آپ نے فرمایا: علما پانی کی طرح ہیں،پانی کبھی اپنے طبعی رنگ ،بواورمزہ پر باقی ہوتاہے جب کہ کبھی ان اوصاف میں سے کوئی ایک وصف بدلا ہوا ہوتاہے۔یوں ہی کچھ علماایسے ہوتے ہیں جو اعمال صالحہ کے رنگ میں رنگے، اخلاق حسنہ کی خوشبوسے مہکتے ہوتے ہیں اور ان کے اندر عقائد صحیحہ کا ذوق ومزہ رچا بسا ہوتاہے جب کہ بعض علما ایسے ہوتے ہیں جن پر اعمال صالحہ کے بجائےمعصیت کا رنگ چڑھاہوتاہے،ان کے اندرسے بداخلاقی کی بدبو پھوٹتی ہے اور ان کی طبیعت میں بدعقیدگی کی بدمزگی پائی جاتی ہے ۔ فقہائے اسلام نے فرمایا ہے کہ:اسی پانی سے طہارت حاصل کرنا جائزہے جو اپنے مذکورہ بالا تینوں اوصاف پر باقی ہو اور اگر ان تینوں اوصاف میں سے کوئی ایک وصف بھی بدل جائے تو ایسی صورت میں اس پانی سے طہارت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
چنانچہ جو علمااعمال صالحہ ،خوش اخلاقی اور خوش عقیدگی تینوں کے جامع ہوںان سے ہی دین کو حاصل کرناچاہیے اور انھیں کی صحبت میں بیٹھنا چاہیےاور جن علما پر بداعمالی کا رنگ چڑھا ہو ،جن سے بد اخلاقی کا تعفن پھوٹتاہو اور جن کی طبیعت میں بدعقیدگی ہووہ فاسق مردودالشہادہ ہیں ان سےنہ دین لیناچاہیے اور نہ ان کی صحبت میں بیٹھنا چاہیے اور اگر لوگوں کی طبیعتیں ایسی ہوگئی ہوں کہ ان کو صاف وشفاف پانی اچھا نہ لگے بلکہ گندہ اور گدلا پانی میٹھا معلوم ہوتو یہ ایک بیماری ہے اور اس کے علاج کے لیے مشائخ کی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاوَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا۲۸ (کہف) ترجمہ:اپنے آپ کو ان لوگوںکی صحبت میں جمائے رکھوجو صبح وشام اس کی رضا کے لیے اپنے رب کو پکارتے ہیںاور دنیاوی زیب وزینت کے لیےان سے اپنی نگاہیں نہ پھیرواور ان کی پیروی نہ کرو جن کے دل کو ہم نےاپنی یادسے غافل کردیاہے، جو اپنی خواہش کا غلام ہے اور جس کا معاملہ حدسے آگے بڑھا ہوا ہے۔
(خضرِراہ ، مئی ۲۰۱۳ء)
Leave your comment