ایک مجلس میں مرشدی حضور داعی اسلام ادام اللہ ظلہ علینا سے یہ عرض کیا گیا کہ بعض علاقوں میں کچھ لوگ سرکارسے سوئے ظن رکھتے ہیں اورعام مسلمانوں کو خانقاہ شریف آنے سے منع کرتے ہیں۔ سرکا رنے فرمایا: جو لوگ ہمیں تسلیم کرتے ہیں ان کی تعلیم و تربیت ہمارے ذمے ہے ،ہمیں ان کی طرف متوجہ رہنا چاہیے اور جو لوگ ہمیں تسلیم نہیں کرتے ،ان سے الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں،بلکہ ان کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
ہمارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم کتاب وسنت کی پیروی اور مشائخ امت کی روش پر کاربند رہیں ،اور اسی کی روشنی میں دعوت و تبلیغ اور متعلقین و محبین کی تربیت و تزکیہ کافریضہ انجام دیتے رہیں ، اپنے وجود یا اپنی کسی تحقیق کو ساری دنیا سے تسلیم کرانے پر بضد نہ ہوںاور نہ ہی علما و مشائخ میں سے کسی کی توہین و تذلیل کریں۔ علما و صوفیا میں سے کوئی بھی ہو،ان کی موافقت یا کسی مسئلہ میں ان کے خلاف رائے رکھنا انسان کا شرعی حق ہے ، کوئی فقیہ جب کوئی فتویٰ دیتا ہے تو وہ اپنے علم اور اپنی تحقیق کی بنیاد پر دیتاہے اور فتویٰ کے آخر میں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ (حق و صواب کواللہ ہی زیادہ جانتاہے) لکھتاہے ، اب اگر کوئی مفتی وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ کو وَاللّٰہِ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ (اللہ کی قسم! حق و صواب کو میں ہی جانتاہوں)خیال کرے اور اس بات پر بضد ہو جائے کہ میرافتویٰ کَافَّۃً لِّلنَّاسِ۔ یعنی سارے عالم پر مانناواجب ہے،تویہ شرعی اور فطری طور پر غلط قراردیاجائے گا ، یہ درجہ تو صرف صاحب وحی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ہی کو حاصل ہے ۔
شرعی طور پر کسی صوفی یا کسی فقیہ کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ ساری دنیا سے اپنے وجود اور اپنے فتوی کو منوانے پر بضدہو جائے اور جو نہ مانے اس کو گمراہ یا کافر قرار دے ،یہ شان تو صرف انبیا کی ہے اگر کوئی کسی نبی کے وجود یا ان کے فرمان کا انکار کرتاہے تو وہ قطعی کافر قرار دیا جائے گا، کسی امتی کو یہ حق اور یہ مقام حاصل نہیں۔یونہی کسی شخص کو یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ کسی عام مومن کی بھی توہین و تذلیل کرے۔چہ جائے کہ علمااور مشائخ کی تذلیل و توہین کرے یہ تو سخت گناہ اور گمرہی ہے ،علماو مشائخ کی توہین کرنے والا اللہ کی رحمت سے محروم اور شیطان لعین کادلال ہے ۔
از خدا خواہیم توفیق ادب
بے ادب محروم ماند از فضل رب
خضرِراہ ، دسمبر ۲۰۱۴ء
Leave your comment