حضور داعی اسلام ادام اللہ ظلہ علینانے درمیان گفتگوفرمایا:
انسان زندگی بھر صرف اپنی دنیاکے لیے کوشش کرتاہے جب کہ دنیاتو سایے کی طرح ہے ،پھر اس کی کیافکرکرنا؟اتنا فرماتے ہوئے آپ اپنی کرسی سے اٹھے اور اپنے سایے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کبھی آگے جاتے اورکبھی پیچھے ہٹتے اور یہ فرماتے جاتے کہ اگر ہم اس کو اپنی گرفت میں لیناچاہیں تو ہزارکوشش کے باوجوداس کو نہیں پکڑ سکتے ، چاہے ہزارسال اس کے پیچھے دوڑیں،یوں ہی اگر اس سےہم اپنی جان چھوڑاناچاہیں تونہیں چھڑاسکتے،اگرہم اس کو طلب کریں تو یہ ہم سے بھاگےاور اگرہم اس سے بھاگیں تو یہ ہمارا پیچھا کرے۔ رزق اور دنیا کا حال بالکل اسی سایے کی طرح ہے۔
اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ہم سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (کیامیں تمہارارب نہیں ہوں؟)ہی فرمایا۔جب وہ رب ہے تو پالے گا ہی اورجب جس چیز کی جتنی مقدارمیں ضرورت ہوگی عطاکرے گا،رب کا معنی ہی یہی ہے۔مگر جب دنیامیں بھیجاتوفرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ۵۶(ذاریات)(ہم نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔) اور ہم نے وہاں تو کہہ دیاکہ اے مولیٰ!تو ہی ہمارا رب ہےاورہم تیری ہی فرماں برداری کریں گے لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد ہم بھول گئے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کے بجائےبذات خود اپنی دنیاسنوارنے میں لگ گئے۔لاشعوری طورپرخود ہی رزاق بن بیٹھے۔
آج بھی وہی رب ہے جس کو ہم نے عالم ارواح میں اپنارب ماناتھا۔رب العلمین صرف اسی کی ذات ہے۔اس کا فرمان ہے:وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا۶(ہود)(زمین پر چلنے والے تمام جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ ہی پر ہے۔)اور ہم یہ خیا ل کرتے ہیں کہ ہمارے رزق کا انحصارصرف محنت ومزدوری پر ہےاور ہم اپنی دنیاکو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش میں حلال کو حرام سے ملا دیتے ہیں۔
کاش!ہم اپنے مالک وخالق کے احکام پر عمل کرکے اپنی عبدیت کا ثبوت دیتے تو ہمارا رب جو مالک یوم الدین اوررب العلمین ہے ،ہماری دنیاکو بھی اچھی کردیتا،وہ ایسا رحیم وکریم ہے جو اپنے نافرمان بندے کو بھی اپنے ملک میں باقی اور سلامت رکھتاہےاور اپنی نعمتوں سے نوازتاہےتو بھلا اپنے پسندیدہ دین کے خادموں کو کیسےمحروم رکھے گا:وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ۳(طلاق)(جو اللہ پر بھروسہ رکھتاہے تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔)
(خضرراہ ، جولائی ۲۰۱۳ء)
Leave your comment