حضور داعی ٔاسلام ادام اللہ ظلہ علینا نے ایک سفر میں فرمایا کہ علم وعمل دونوں ضروری ہیں ،علم، عمل کے بغیر بے فائدہ ہے اور عمل، علم کے بغیر گمراہی ہے، معرفت،علم کے بغیر محال اور علم،معرفت کے بغیر وبال ہے، علم یا صاحب علم کی صحبت بےحد ضروری ہے۔ علم کے حصول کے لیے یہ ضروری نہیں کہ نو یا دس برسوں تک کا ایک لمبا عرصہ صرف ہی کیا جائے بلکہ اہل ذکر کی صحبت بھی کافی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَاسْئلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۳)(نحل)( اہل ذکر جواہل علم ہوتے ہیں ان سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے ہو )یہاں حکم ہوا اہل ذکر سے سوال کرنے کا، معلوم ہوا کہ ذاکرین سے سوال کیا جائے نہ کہ غافلین سے، اہل غفلت اوراہل نسیان سے دین حاصل کرنا غیر دانشمندانہ ہوگا،ورنہ اندھے کی لاٹھی اندھے کے ہاتھ۔ نہ آج تک اس کا دل ذاکر ہوا اور نہ اس کی صحبت میں رہنے والوں کا۔
ذکر یہ نہیں ہے کہ تسبیح کے دانے لے کر بیٹھ جائے اور ہر نماز کے بعد ایک مخصوص کیفیت میں بلند آواز سے کچھ مخصوص کلمات ادا کیے جائیں ،بلکہ ذکر الٰہی یہ ہے کہ ہر قول و فعل کے صدور سے پہلے اللہ کی رضااور ناراضی پیش نظر ہو اور جب کبھی دل غافل ہو یا نسیان طاری ہو جائے تو فوراً اللہ کی طرف اور اللہ والوں کی طرف مائل ہو:وَاذْکُرْ رَبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ(۲۴)( کہف) (جب کبھی بھول جاؤ تو اللہ کو یاد کرو)اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِین (۱۱۹) (توبہ)(اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہو جاؤ ) یہاں حالت تقویٰ جو حالت ذکر ہے اس کو حاصل کرنے کے ساتھ صادقین کی صحبت کا بھی حکم دیا گیا ہے۔
غرض کہ علم اور عمل دونوں ضروری ہیں، جتناعلم ہو اُس پر عمل کیا جائے ورنہ علم کا کوئی فائدہ نہیں ،علم کم ہو اور عمل زیادہ ،یہ اس سے بہتر ہے کہ علم زیادہ ہو اور عمل تھوڑا اور ناقص ہو ۔کوئی علم میں کم ہو، اور ہدایت میں زیادہ تو یہ اس شخص سے بہتر ہے جو علم میں زیادہ ہو اور ہدایت میں کم، علم کے حصول کا اصل مقصد عمل ہی ہے،ایسا علم جس پر عمل نہ کیا جائے اس کا حاصل کرنا حقیقت میں وقت ضائع کرنا ہے ۔
خضرِ راہ ، دسمبر ۲۰۱۲ء
Leave your comment