ایک مرتبہ حضور داعی اسلام کی مجلس ميں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی، آپ نے شعبۂ دعوہ کے ايک طالب علم سے پوچھاکہ بتاؤ خلوت افضل ہے یا جلوت؟طالب علم نے جواب دیا کہ جب تک جلوت کے لائق نہ ہو جائیں ا س وقت تک خلوت افضل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہارا جواب درست ہے ، لیکن اگر کوئی پھر بھی اس بات پر اصرارکر رہا ہو کہ خلوت ہی افضل هے، پھر کیا جواب دوگے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: یہ بات مجموعی طور پر صحيح ہے کہ جب تک تزکیہ نہ ہوجائے اورانسان جلوت کے لائق نہ ہو جائے اس وقت تک خلوت افضل ہے،لیکن اس میں ایک دوسرا پہلو بھی ہے ،ہو یہ کہ نااہل جن کی ہم نشینی دین و ایمان کو نقصان پہنچانے والی ہوتی ہے ان کی صحبت سے خلوت بہتر ہے اور الله کے نیک بندے جن کی صحبت کی برکت سے برےاخلاق دورہوتے ہیں ، اچھےاخلاق سے آراستگی حاصل ہوتی ہے ، مردہ دل زندہ ہوتا ہے ، گناہوں پر ندامت ہوتی ہے ، نیکیوں کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ایسی جلوت و صحبت ، خلوت سے افضل ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک نا مکمل انسان ، صالحین کی صحبت میسر ہونے کے باوجود اور مرشد کی اجازت کے بغیر اگر خلوت اختیار کرتا ہے تو اسے ایسی خلوت سے وسوسوں کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اکیلا جان کر شیطان کا حملہ اس پر تیز ہو جائے گا ، اس کے برعکس اگر اللہ کے مقرب بندوں کی صحبت اختیار کرے گا تو جس طرح وہ شیطانی حملوں سے محفوظ ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ۴۲ (حجر)( ميرے مقرب بندوںپر تمہارا کوئی زور نہیں ) اسی طرح وہ بھی جب تک ان کی صحبت میں رہے گا فیضان صحبت کی بنا پر شیطانی حملوں سے محفوظ رہے گا ، کیوں کہ حدیث قدسی ہے : هُمُ الْقَوْمُ لَايَشْقٰى بِهِمْ جَلِيْسُهُمْ۔(صحیح مسلم ) ترجمہ:یہ وہ جماعت ہیں جن کے ساتھ بیٹھنے والا بدبخت نہیں ہوتا۔
خضرِراہ ، جون ۲۰۱۵ء
Leave your comment