سلوک چلنے اور کوشش کرنے کے معنی میں ہے اور صوفیاکے یہاںمعرفت الٰہی کی راہ میں چلنے اور کوشش کرنے کو سلوک کہا جاتا ہے۔جذب کے معنی کشش کے ہیں، لیکن صوفیاکی اصطلاح میں اللہ رب العزت کی جانب سے ہونے والی اس خاص کشش کا نام جذب ہے جو پل جھپکتے ہی بندے پر معرفت کے راز کھول دے۔ اسی لیے صوفیا کہتے ہیں : جَذْبَۃٌ مِّنْ جَذْبَاتِ اللہِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِ الثَّقَلَیْنِ۔ ترجمہ:اللہ رب العزت کی جانب سے معمولی کشش کا پیدا ہوجانا جن و بشر کے تمام اعمال سے بہتر ہے۔
لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ نہ تو سالک محض، مرشد بننے کے لائق ہے اور نہ ہی مجذوب محض ۔سالک محض ایک حد تک راستے سے واقف تو ہوتا ہے لیکن منزل سے بےخبر ہوتا ہے جب کہ مجذوب محض منزل سے تو آشنا ہوتا ہے لیکن راستے سے بے خبر ہوتا ہے، اس لیے دونوں ہی مرشد بننے کے لائق نہیں ہوتے۔ مرشد بننے کے لیے جذب و سلوک دونوں کا اجتماع ضروری ہے،اب اگر پہلے جذب تھا ، پھر سلوک کے مراحل طے ہوئے تو ایسے شخص کو مجذوب سالک کہتے ہیں اور اگر کسی نے پہلے سلوک کے مراحل طے کیے پھر جذبۂ الٰہی نے دست گیری کی تو اُسے سالک مجذوب کہتے ہیں۔ یہ دونوں مرشد بننے اور خلق خدا کے بیچ نور ہدایت تقسیم کرنے کےاہل ہوتے ہیں۔ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ ان دونوں میں افضل کون ہے؟ ہمارا وجدان کہتا ہے کہ جس نے جذب کے بعدسلوک کی راہ میں قدم رکھاہو ، یعنی جومستی کے بعد ہوش میں آیا ہو، وہ خلق کی ہدایت کے لیے زیادہ موزوں ہوگا۔ حضرت اصغر گونڈوی نے اسی مفہوم کو اس طرح باندھا ہے:
جسے لینا ہو آکرکے وہ اب درس جنوں لے لے
سنا ہے ہوش میں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے
خضرِراہ ، اپریل ۲۰۱۵ء
Leave your comment