خانقاہ عارفیہ ، سیدسراواں میں دو روزہ ذکر شہادتین کی محفل کا انعقاد
سید سراواں ، الٰہ آباد خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواں میں۹ اور ۱۰ محرم کو ’’ذکر شہاتین‘‘ کے نام سےتقریری محفل کا انعقاد عمل میں آیا۔ بروز سنیچر مغرب تا عشا پہلی نشست منعقد ہوئی جس میں جامعہ عارفیہ کے طالب علم مظہر حسین انصاری نے منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔
اس کے بعد مولانا محمد ذکی (استاذ جامعہ عارفیہ ) نے نہایت سنجیدہ اسلوب میں حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت اور اس کے تقاضے پر گفتگو فرمائی ۔ آپ نے فرمایا کہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی پوری زندگی اقامت دین اور استقامت علی الشریعہ سے تعبیر تھی ۔ اور کیوں نہ ہو کہ آپ دونوں کی تربیت سید الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی ۔ اسی لیے امام عالی مقام کی جدوجہد پر اعتراض کرنابالواسطہ طور پر حضور کی تربیت پر اعتراض کرنا ہے۔ امام حسین کا یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرنا بغاوت نہیں تھا بلکہ آپ نے ایسا محض اقامت دین اور ظلم وجبر کے سد باب کے لئے کیا تھا۔
مولانا نے مزیدکہا کہ سانحۂ کربلاسے تین طرح کے کردار ہمارے سامنےآتے ہیں ۔ حسینت ، یزیدیت اور کوفیت ۔ اسلامی شعائر و احکام کو پامال ہوتا ہو ا دیکھ کراسلام کی سربلندی کے لیےاٹھ کھڑاہونا حسینیت ہے ۔ دین کے احکام کو پامال کرکے فسق و فجور میں مبتلا ہو جانا یزیدیت ہے اور باطل کو مضبوط دیکھ کرباطل کے ساتھ کھڑے ہوجانا ، نیز بے وفائی اور وعدہ خلافی کرنا کوفیت ہے ۔
اس کے بعد مولانا ذیشان احمد مصباحی (استاذ جامعہ عارفیہ ) خطاب کے لیے تشریف لائے ۔ آپ نے ملوکیت اور خلافت کی تاریخ کا ایک واضح نقشہ پیش کیا اور واقعۂ کربلا کےاسباب و عوامل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں عہدے خاندانوں میں منقسم تھے ، جاہ و حشم وراثت میں منتقل ہواکرتا تھا ، لیکن جب مذہب اسلام آیا تو اب اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ خاندانی اعزازات اور موروثی جاہ و حشم کو ترک کر کے ایک اللہ کی اطاعت اور ایک نبی کی فرماں برداری کرنی ہے ۔ خلافت راشدہ کا زریں دور زمانے نے دیکھا لیکن بعد ازاں دور ملوکیت شروع ہوگیا جس کو روکنے کے لیے امام حسین نے اپنی جان تک کی بازی لگادی۔ مولانا نے واقعہ کربلا کا پیغام بیان کرتے ہوئے کہا کہ روح حسین ہے اور نفس یزید ہے۔ کربلا ہمیں نفس پرستی سے روحانیت کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے ۔ افسوس کہ ہم یزید کی مذمت کرتے ہیں، حسین کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن نفس پرستی کرتے ہوئے یزید کی ہم نوائی کرتے ہیں۔ امام حسین کا صرف نام لینے سے کام نہیں چلتا ،حسینی کردار کواپنانے کی ضرورت ہے ۔آخر میںخانقاہ عارفیہ کے صاحب سجادہ داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی نے مختصر سی گفتگو میں اہل بیت اطہار کی عظمتوں کو واضح فرمایا ۔ اوراس کے ساتھ ہی پہلی نشست کا اختتام ہوگیا ۔
دوسرے دن صبح ۱۰ بجے تا دو پہر ۱۲ بجے دوسری نشست کا انعقاد ہوا ۔ جامعہ عارفیہ کے چند طلبہ نے نعت و منقبت کے اشعار پیش کیے۔
اس کے بعد مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی (استاذ جامعہ عارفیہ ) نےکتاب و سنت کی روشنی میں فضائل اہل بیت بیان کرتے ہوئے واقعہ کربلا کا پس منظر و پیش منظر علمی و اصلاحی اسلوب میںواضح فرمایا ۔آپ نے کہا کہ اسلام میں قربانی دو طرح کی ہے ، ایک اپنی جان کی قربانی اور دوسری مال کی قربانی ۔ بندہ ان دونوں قربانیوں سے اللہ کا مقرب بنتا ہے ۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جب جس چیز کی قربانی پیش کرنے کا موقع آئے ہمیں اس کی قربانی دےدینی چاہیے ۔ انہیں دونوں قربانیوں کی تصویر حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی ذوات قدسیہ ہیں ۔ آپ نے گفتگوجاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے ساتھ علی ، فاطمہ اور حسنین کریمین رضوان اللہ علیہم بھی اہل بیت اطہار میں شامل ہیں۔ اپنی اس بات پر موصوف نے متعدد احادیث کریمہ سے شواہد بھی پیش کیے ۔
آخر میں مولانا حسن سعید صفوی (ناظم اعلیٰ جامعہ عارفیہ) نے شہادت اور محبت اہل بیت کا ذکر فرما کر اپنی محبتوں کا اظہار فرمایا ۔ بعد ازاں حضرت داعی اسلام کی دعاؤں پر محفل اختتام پذیر ہوگئی ۔
Leave your comment