Donate Now
’’تکثیری معاشرے میں مکالمے کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے سمپوزیم

’’تکثیری معاشرے میں مکالمے کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے سمپوزیم

مکالمہ :مذہبی وقومی نزاعات کے حل کا موثر ترین ذریعہ

’’تکثیری معاشرے میں مکالمے کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے سمپوزیم میں صوفی اسکالرز کا اظہار خیال اورکتاب ’’داراشکوہ:ایک صوفی شہزادہ‘‘ کی رونمائی

ہندوستان میں ہزاروں سال سے مختلف مذاہب کے درمیان باہمی تعلقات قائم تھے، لیکن انگریزوں نے فتنہ پروری کو فروغ دیا اور اور لوگوں کو تقسیم کیا۔ آج بتاریخ سنیچر 13 مئی، 2023 کو خسرو فاؤنڈیشن نئی دہلی کے ذریعہ اور جامعہ عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی کے اشتراک سے جامعہ عارفیہ میں منعقد سمپوزیم بعنوان "تکثیری معاشرے میں مکالمے کی اہمیت" میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر آف پرشین کے چیئر پرسن پروفیسر اخلاق احمدآہن نے مذکورہ بات کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انگریزوں کی آمد سے پہلے اس طرح کا مذہبی تشدد اور نفرت کا نام نہیں تھا لیکن انگریزوں نے اس کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا اور آپسی اتحاد کو درہم برہم کیا۔ ہندوستان کیا دنیا کے سبھی مذاہب کا ایک ہی پیغام ہے اور وہ ہے خالق کی رضا اورخلق کی دل جوئی کاپیغام۔ اس کے بغیر دوریاں پروان چڑھتی ہیں اور نفرت کا بازار گرم ہوتا ہے۔

اس سمپوزیم کا آغاز جامعہ عارفیہ کے استاذ قاری سرفراز سعیدی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔بعد ازاں مولانا رفعت رضا نوری نے حضرت امیر خسرو کا خوب صورت ہندوی کلام اپنے دلکش لہجے میں پیش کیا۔پھر خسرو فاؤنڈیشن کے چیرمین جناب سراج الدین قریشی صاحب کے نہ آ پانے کی صورت میں ان کا پیغام ڈاکٹر حفیظ الرحمن نے ہی پیش کیا، جس میں خسرو فاؤنڈیشن کے تعارف کے ساتھ جامعہ عارفیہ میں اس سیمینار کی کامیابی کے حوالے سے انہوں نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔

ڈاکٹر ذیشان احمد مصاحی نے مندوبین اور مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ کلمات پیش کیے۔اس کے بعد خسرو فاؤنڈیشن کی شائع کردہ کتاب "داراشکوہ:ایک صوفی شہزادہ" کا رسم اجرا عمل میں آیا۔ کتاب کے بارے میں اس کے مولف ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی جنگیں ہم مذہبوں اور غیر مذاہب کے درمیان ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیں اس سے دور رہتے ہوئے آپسی اتحاد کو قائم رکھنا چاہیے۔ داراشکوہ ایک شہزادہ ہونے کے ساتھ ایک بڑے عالم وفاضل بھی تھے۔ وہ پہلے اسکالر ہیں جنہوں نےدوسرے مذاہب کے مطالعے اور تفہیم کا معروضی آغاز کیا۔اس لیے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مستشرقین نے انہیں کے مشن کو آگے بڑھایا۔ سامعین کو خطاب کرتے ہوئے جامعہ عارفیہ کے چیئرپرسن جناب شیخ حسن سعید صفوی نے کہا کہ ہمارے صوفیہ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے اور ہر مذہب کے لوگوں کی رہنمائی کی ہے۔

جامعہ عارفیہ کے استاد جناب مولانا ضیاء الرحمن علیمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں ڈائیلاگ بہترین طریقے سے کرنا چاہیے۔ جہالت کسی بھی دور کے فساد اور تشدد کی سب سے بڑی وجہ ہوتی ہے اس لیے مکالمہ علم کے ساتھ ہونا چاہیے اور موضوع بحث انہیں باتوں کو لانا چاہیے جو ہم میں مشترک ہیں۔ آخر میں خسرو فاؤنڈیشن کے کنوینر ڈاکٹرحفیظ الرحمن نے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر کچھ بھی ایسا نہیں لکھنا چاہیے جس سے کسی کی بھی دل شکنی ہو اور لوگوں کو ٹھیس پہنچے۔ڈاکٹر صاحب نے محمد ریحان البیرونی ، عبد اللہ ابن مقفع اور داراشکوہ کے حوالے سے مختلف مذاہب کے علمی تراث پر علمی،تشہیری و تبلیغی کارناموں پر بھی خوب روشنی ڈالی ۔ انہوں نے اپنی بات جگر مرآدابادی کے اس شعر سے ختم کی:

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

اس پروگرام کی نظامت مدرسہ عارفیہ کے استاذ ڈاکٹر ذیشان مصباحی نے بحسن و خوبی انجام دی۔ پروگرام کے آخر میں اس پروگرام کےصدر، داعی اسلام، خانقاہ عارفیہ کے سجادہ نشین حضرت شیخ ابو سعید صفوی نے ملک و ملت کی خیر و عافیت کے لیے دعا کی۔ اس پروگرام میں محبوب میاں بقائی، سید لاریب حیدر یلدرم، مولانا عارف اقبال مصباحی ،اساتذہ و طلبہ جامعہ عارفیہ کے علاوہ دور دراز کے بہت سے صاحبان علم و ذوق کی شرکت رہی۔

رپورٹ: آفتاب رشک مصباحی، الاحسان میڈیا، خانقاہ عارفیہ

Ad Image