کل بعد نماز عشا معروف اسکالر اور داعی وحدت مولانا سلمان حسینی ندوی خانقاہ عارفیہ تشریف لائے۔ خانقاہ کی قدیم مسجد میں ایک چھوٹی سی محفل رکھی گئی۔ تعارفی کلمات میں صاحب زادۂ گرامی مولانا حسن سعید صفوی نے بتایا کہ مولانا سلمان حسینی مولانا ابو الحسن ندوی کے بڑے بھائی حکیم عبد العلی کے نواسے ہیں اور خانقاہ عارفیہ کے مورث اعلیٰ شیخ بہاء الدین عثمانی غزنوی، مولانا ابو الحسن علی ندوی کے جداعلیٰ فاتح کڑا سید قطب الدین مدنی(۶۷۷ھ/۱۲۷۹ء) کے سپہ سالار کے طور پر آج سے آٹھ سو سال قبل وارد ہند ہوئے تھے۔
مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی نے تصوف اور صوفیہ کے حوالے سے بتایا کہ صوفیہ ہی درحقیقت امانت نبوی کے صحیح امین ہیں اور جہاں تک ان کے تعلق سے غلط فہمیوں کی بات ہے، یہ محض چند اصولی مباحث سے ناواقفیت اور کسی صاحب حال صوفی کی صحبت میں بیٹھ کر تصوف نہ سیکھنے کے سبب ہے۔ اگر موضوعات کے سبب حدیث کو، کتاب الحیل کے سبب فقہ کو اور فلسفیانہ موشگافیوں کے سبب کلام کو رد نہیں کیا جاسکتا تو محض شطحات کے سبب تصوف کو رد کرنے کے کیا معنی ہیں؟
مولانا سلمان حسینی ندوی نے کتاب و سنت کی دعوت دیتے ہوئے اور ان کو بناے اتحاد اور حکم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں کتاب اللہ اور احادیث متواترہ سے ثابت ہیں، پہلے ہمیں ان کو بلاچون و چرا تسلیم کرنا چاہیے، بجائے ان کے علما اور مشائخ کے ملفوظات کا اسیر ہوکر دین اور سنیت کا فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہے۔
مولانا نے خانقاہ عالیہ عارفیہ کے بارے میں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب میں خانقاہ سے قریب ہورہا تھا اس وقت ایک عجیب روحانی کیفیت کا احساس ہوا جس سے اندازہ ہوا کہ عارفیہ اسم با مسمی ہے۔ یہاں آکر میں نے جو کچھ سنا تھا اس سے بہتر پایا۔ گزشتہ چالیس سالوں سے میں جس چیز کی دعوت دے رہا ہوں یہاں عملا موجود ہے، اس لیے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مولانا نے یہ بھی کہا کہ بعض اسباب کے سبب جو کام ندوہ نہیں کرسکا وہ ان شاءاللہ عنقریب عارفیہ سے ہوگا۔
مولانا حسب معمول کسی قدر جذباتی بھی تھے جس سے گریز ان لوگوں کے لیے بطور خاص ضروری ہے جو خود کو انسانیت اور امت کے بیچ داعی وحدت کے سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ کتاب وسنت اور اتباع مشائخ کے دعوے کے ساتھ جہاں پر امت میں اختلاف رائے ہوجائے، وہاں توسع کی راہ اختیار کی جانی چاہیے، جذبات میں یہ اسلوب اختیار کرنا مناسب نہیں جس سے یہ باور ہو کہ تنہا میرا فہم قرآن ہی عین قرآن ہے۔ اس سے اتحاد کے بجائے مزید اختلاف کو فروغ ملتا ہے۔
قاری دلشاد ہاشمی نے تلاوت کلام اللہ سے محفل کا آغاز کیا تھا، جب کہ عزیزم مطلوب ظفر نے حضرت داعی اسلام کا منظوم کلام پیش کیا تھا۔
ملت میں اتحاد ووفاق کے قیام، خلوص و للہیت کی بقا اور افتراق و انتشار اور جہل وضلالت کے خاتمے کے لیے حضرت داعی اسلام کی دعا پر محفل کا اختتام ہوا۔
واضح رہے کہ دو روز قبل محترم فیضان وارثی کے توسط سے مولانا کا یہ پیغام آیا تھا کہ مولانا خانقاہ میں حاضر آنا چاہتے ہیں جس کے بعد خانقاہ کے ذمہ داران نے اسلامی اخلاقیات اور خانقاہی روایت کے مطابق ان کا خیر مقدم کیا۔
Leave your comment