Donate Now
سجدہ میں قدم کی انگلیوں کا زمین سے لگانے کا حکم

سجدہ میں قدم کی انگلیوں کا زمین سے لگانے کا حکم

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سجدہ میں پیر کی کتنی انگلیوں کا زمین پر لگنا فرض اور کتنی کا واجب ہے؟ اگر امام یا کوئی اور نمازی صرف انگلیوں کے سرے زمین پر لگائے، تو نماز کا کیا حکم ہے؟ بيِّنُوا وَ تُؤْجَرُوْا ۔

مستفتی ۔حافظ محمد  آفتاب ۔مظفر  پور


بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرحِيْمِ

خلاصۂ فتوی:

۱۔ سجدہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ چہرے کا کچھ حصہ زمین سے لگ جائے؛لہٰذا  اگر حالت سجدہ میں چہرے کا کچھ حصہ زمین سے لگ گیا تو نماز کی  فرضیت  ادا  ہوگئی ۔

۲۔ بالخصوص  حالت ِسجدہ میں  دونوں قدموں  میں سے کسی ایک کا   بھی زمین سے لگنا  عند التحقیق فرض نہیں ہے،تو انگلیوں کا لگنا فرض کیوں کر ہوگا۔

۳۔   علامہ ابن عابدین شامی حنفی کے بقول حالتِ سجدہ میں قدم  کی انگلیوں کا  قبلہ رو رکھنا سنت ہے، جس کا ترک موجبِ کراہت تنزیہی ہے،جو صرف خلاف اولیٰ ہے۔

تفصیلی فتوی :

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(الحج: ۷۷) 

اے ایمان والو! رکوع اور سجدہ کرو اور اپنے رب  کی عبات کرو اور کارِ خیر کرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

فرائض نماز میں سجدہ ایک اہم فرض ہے۔ اس کی فرضیت کتاب وسنت  سے ثابت ہے۔

حدیث پاک میں سجدہ کی کیفیت اور اسے کیسے ادا کیا جائے، اس کی بھی تفصیل موجود ہے ۔ 

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ الْجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ، وَالرِّجْلَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ ( صحيح  مسلم،حدیث: ۲۳۰) 

مجھے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا  ہے: پیشانی  اور ناک کی طرف اشارہ کیا،دونوں ہاتھ،دونوں پیر اور دونوں قدموں  کے اطراف  ( یعنی انگلیو ں پر)۔

اس حدیث میں لفظ ’’ اُمِرْتُ‘‘  آیا ہے جس سے بظاہر یہ خیال ہوسکتا ہےکہ سجدہ میں ان ساتوں اعضا کا زمین سے لگنا فرض ہولیکن ائمہ نے اس خیال کو رد کرتے ہوئے حدیث کا درست مفہوم واضح کردیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مامور بہ فقط سجدہ ہے جو فرض ہے،یعنی فرض فقط زمین پر پیشانی رکھنا ہے، بقیہ ۶؍اعضا کو زمین سے لگانا  آداب ِ سجدہ میں داخل ہےلیکن وہ فرض نہیں ہے۔

اس حدیث کی تشریح میں صاحب ِعنایہ علامہ بابرتی حنفی (۷۸۶ھ) لکھتے ہیں:

أَنَّ الِاسْتِدْلَالَ بِهَذَا الْحَدِيثِ إنَّمَا هُوَ عَلَى أَنَّ مَحَلَّ السَّجْدَةِ هَذِهِ الْأَعْضَاءُ لَا عَلَى أَنَّ وَضْعَهَا لَازِمٌ لَا مَحَالَةَ (عنایہ شرح ہدایہ ،۱/ ۳۰۳)

اس حدیث سے استدلال صرف اِس بات پر ہے کہ محل ِ سجدہ یہ تمام اعضا ہیں ،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تمام  اعضا کا حالت ِ سجدہ  میں زمین پر رکھنا ضروری ہے۔ 

اس حدیث سے فرض و وجوب کا ثبوت اس لیے بھی نہیں ہوسکتا کہ لفظ ’’ أمرت ‘‘ صرف فرض و وجوب کے لیے نہیں آتا بلکہ یہ ندب اور استحباب کے لیے بھی آتا ہےجیسا کہ علامہ ابن نجیم مصری حنفی (۹۷۰ھ) لکھتے ہیں:

أَنَّ لَفْظَ " أُمِرْت " مُسْتَعْمَلٌ فِي الْوُجُوبِ وَالنَّدْب هُوَ الْأَعَمُّ بِمَعْنَى طُلِبَ مِنِّي ذَلِكَ أَوْ فِي النَّدْبِ أَوْ فِي الْوُجُوبِ(البحر الرائق شرح كنز الدقائق،۱/۳۳۵)

’’لفظ ’’ أمرت ‘‘کا استعمال وجوب اور ندب دونوں کو عام ہے ،اس کے معنی یہ ہوئے کہ وہ چیز مجھ سے طلب کی گئی ہے ۔ اورکبھی یہ صرف     استحباب  کے لیےہوتاہے  اورکبھی صرف   وجوب کے  لیے‘‘۔ 

لہٰذا لفظ’’ أمرت ‘‘ سے وجوب پر استدلال بغیر  کسی قرینہ  کے نہیں ہو سکتا ،جو یہاں مفقود ہے۔

ایک دوسری حدیث حضرت ابو حميد ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ،آپ فرماتے ہیں:

أَنَا كُنْتُ أَحْفَظَكُمْ لِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ’’رَأَيْتُهُ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حِذَاءَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ، فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا، وَاسْتَقْبَلَ ‌بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ القِبْلَةَ، فَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اليُسْرَى، وَنَصَبَ اليُمْنَى، وَإِذَا جَلَسَ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اليُسْرَى، وَنَصَبَ الأُخْرَى وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ‘‘( صحيح بخاری ،حدیث:۸۲۸)

 مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے ۔میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو  ( زمین پر )  اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے توبائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر   بیٹھتے۔ 

اس حدیث میں بھی جو انگلیوں کو قبلہ رو رکھنے کا ذکر ہے وہ بھی استحباب کے لیے ہے ،وجوب کے لیے نہیں ہے۔

شارح بخاری علامہ ابن بطال  (۴۴۹ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

لا يختلف العلماء فى استحباب هذه الصفة فى السجود، وكذلك يستحبون أن يستقبل الساجد بأنامل يديه القبلة فى سجوده، وإن فعل غير ذلك فصلاته جائزة عندهم(شرح صحيح البخارى لابن بطال، ۲/۴۲۹)

تمام علما اس پر متفق ہیں کہ سجدہ میں انگلیوں کا قبلہ رو رکھنا مستحب ہیں،اس طرح سجدہ کی حالت میں  ہاتھ کی انگلیوں کا بھی قبلہ رو رکھنا علما مستحب سمجھتے ہیں،لیکن اگر کوئی ایسا نہ کرے تو اس کی نماز علما کے نزدیک جائز و درست ہے۔

اس مسئلے میں   مذاہب اربعہ کے  اقوال و تفصیلات حسب ذیل ہیں:

مذہب  شافعی

امام شافعی(۲۰۴ھ) رضی اللہ عنہ اپنی کتاب ’’الام ‘‘ میں فرماتے ہیں:

وَأُحِبُّ إذَا لَمْ يَكُنْ الرَّجُلُ مُتَخَفِّفًا أَنْ يُفْضِيَ بِقَدَمَيْهِ إلَى الْأَرْضِ وَلَا يَسْجُدَ مُنْتَعِلًا فَتَحُولُ النَّعْلَانِ بَيْنَ قَدَمَيْهِ وَالْأَرْضِ فَإِنْ أَفْضَى بِرُكْبَتَيْهِ إلَى الْأَرْضِ، أَوْ سَتَرَ قَدَمَيْهِ مِنْ الْأَرْضِ فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ؛ لِأَنَّهُ قَدْ يَسْجُدُ مُنْتَعِلًا مُتَخَفِّفًا وَلَا يُفْضِي بِقَدَمَيْهِ إلَى الْأَرْضِ،(قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَفِي هَذَا قَوْلَانِ أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ عَلَيْهِ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى جَمِيعِ أَعْضَائِهِ الَّتِي أَمَرْته بِالسُّجُودِ عَلَيْهَا، (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَهَذَا مَذْهَبٌ يُوَافِقُ الْحَدِيثَ، وَالْقَوْلُ الثَّانِي أَنَّهُ إذَا سَجَدَ عَلَى جَبْهَتِهِ، أَوْ عَلَى شَيْءٍ مِنْهَا دُونَ مَا سِوَاهَا أَجْزَأَهُ.( الام للشافعی،۱/۱۳۷)

میں یہ  پسند کرتا ہوں کہ جب آدمی خف نہ پہنے ہو تو اپنے دونوں قدم  زمین سے لگائے اور جوتے پہن کر سجدہ نہ کرے  تاکہ جوتے،قدموں اورز مین کے درمیان حائل نہ ہوں،لیکن  اگر کوئی اپنے گھٹنے زمین سے لگائے یا اپنے دونوں قدموں کو زمین سے کسی چیز کے ذریعے محجوب کردے تو کوئی حرج نہیں ہے؛کیوں کہ آدمی کبھی جوتے یا خف پہن کر سجدہ کرتا ہے اور اس کے دونوں قدم  زمین سے نہیں لگتے۔

اس میں دو قول ہیں ،پہلا  قول یہ ہے کہ جن اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان تمام اعضا پر سجدہ کرنا ضروری ہے۔یہ مذہب  ظاہرِ حدیث کے موافق ہے۔دو سرا قول یہ ہے کہ اگر پیشانی پر یا پیشانی کے کچھ حصے پر سجدہ کیااور باقی دوسرے اعضا پر سجدہ نہ کیا تب بھی کافی ہے۔

امام ابو اسحاق شیرازی شافعی (۴۷۶ھ) اپنی کتاب ’’المہذب‘‘ میں لکھتے ہیں:

 وأما السجود على اليدين والركبتين والقدمين ففيه قولان أشهرهما أنه لا يجب لأنه لو وجب ذلك لوجب الإيماء بها إذا عجز كالجبهةوالثاني يجب لما روى ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن يسجد على سبعة أعضاء يديه وركبتيه وأطراف أصابعه وجبهته (مہذب،۱/۷۶)

دونوں ہاتھوں ،گھٹنوں اور قدموں پر سجدہ کرنے کے سلسلے میں دو اقوال ہیں ،پہلا مشہور قول یہ ہے کہ ان اعضا پر سجدہ کرنا واجب نہیں ہے کیوں کہ اگر ان اعضا پر سجدہ کرنا واجب ہوتا تو ان سے عجز کے وقت  ان کے ذریعے اشارہ کرنا واجب ہوتا ،جیسے کہ پیشانی کے ذریعے اشارہ کرنا واجب ہو تا ہے۔دوسرا قول یہ ہے کہ  دونوں ہاتھوں ،گھٹنوں اور قدموں  پر سجدہ کرنا واجب ہے ،کیوں کہ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ انہیں سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، دونوں ہاتھ،گھٹنے،دونوں قدم کی انگلیاں اور پیشانی۔

امام نووی شافعی(۶۷۶ھ)  مہذب  کی شرح میں لکھتے ہیں :

إذَا قُلْنَا لَا يَجِبُ وَضْعُ هَذِهِ الْأَعْضَاءِ السِّتَّةِ فَقَالَ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِنَا الْمُتَقَدِّمِينَ وَالْمُتَأَخِّرِينَ مِنْهُمْ الْمَحَامِلِيُّ فِي الْمَجْمُوعِ إذَا قُلْنَا لَا يَجِبُ وَضْعُهَا فَمَعْنَاهُ يَجُوزُ تَرْكُ بَعْضِهَا عَلَى الْبَدَلِ فَتَارَةً يَتْرُكُ الْيَدَيْنِ أَوْ إحْدَاهُمَا وَتَارَةً يَتْرُكُ الْقَدَمَيْنِ أَوْ إحْدَاهُمَا وَكَذَلِكَ الرُّكْبَتَانِ، قَالَ أَصْحَابُنَا فَإِذَا قُلْنَا يَجِبُ وَضْعُ هَذِهِ الْأَعْضَاءِ كَفَى وَضْعُ أَدْنَى جُزْءٍ مِنْ كُلِّ عُضْوٍ مِنْهَا كَمَا قُلْنَا فِي الْجَبْهَةِ وَالِاعْتِبَارُ فِي القدمين ببطون الاصابع فلو وضع غيرذلك لَمْ يُجْزِئْهُ وَنَقَلَ صَاحِبُ الْبَيَانِ عَنْ صَاحِبِ الْفُرُوعِ أَنَّهُ إنْ سَجَدَ عَلَى ظَاهِرِ قَدَمِهِ أَجْزَأَهُ وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ[المجموع شرح المهذب،۳/۴۲۸ )

ہمارے متقدمین و متاخرین اصحاب  نے کہا ہے انھیں میں  محاملی ہیں جنھوں نےمجموع میں لکھا ہے: 

(۱)جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان چھ اعضا  پر سجدہ کرنا واجب نہیں ہے تواس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض کے بدلے بعض کو ترک کرنا جائز ہے جیسے کبھی سجدے سے دونوں ہاتھ کو اٹھا لے  یا کبھی ایک ہاتھ اٹھا لے،  کبھی دونوں قدم  اٹھا لے یا  کبھی ایک قدم اٹھا لے، اسی طرح کبھی دونوں گھٹنوں کو تو کبھی  ایک گھٹنے کو اٹھا لے  ، تو  بھی ( نماز )  جائز ہے۔

(۲) اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ان چھ اعضا کا سجدہ میں رکھنا واجب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں سے ہر عضو کا کم سے کم حصہ  زمین سے لگنا کافی ہے، جیسے  پیشانی کہ اس کا ادنی حصہ اگر زمین سے لگ جائے تو سجدہ ہو جائے گا ۔اور قدم میں انگلیوں کے پیٹ لگنے کا اعتبار ہے۔ لہٰذا ، اگر پیٹ کی بجائے کچھ اور حصہ زمین سے لگے تو کافی نہ ہوگا۔صاحب بیان نے صاحب فروع سے نقل کیا ہے کہ اگر کوئی قدم کی پشت پر بھی سجدہ کرے تو کافی ہوگا ،لیکن اول زیادہ صحیح ہے۔

مذہب مالکی 

علامہ ابن رشد مالکی (۵۹۵ھ) لکھتے ہیں:

اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ السُّجُودَ يَكُونُ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ: الْوَجْهِ، وَالْيَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ، لِقَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ ، وَاخْتَلَفُوا فِيمَنْ سَجَدَ عَلَى وَجْهِهِ وَنَقَصَهُ السُّجُودُ عَلَى عُضْوٍ مِنْ تِلْكَ الْأَعْضَاءِ هَلْ تَبْطُلُ صَلَاتُهُ أَمْ لَا؟ فَقَالَ قَوْمٌ: لَا تَبْطُلُ صَلَاتُهُ ; لِأَنَّ اسْمَ السُّجُودِ إِنَّمَا يَتَنَاوَلُ الْوَجْهَ فَقَطْ، وَقَالَ قَوْمٌ: تَبْطُلُ إِنْ لَمْ يَسْجُدْ عَلَى السَّبْعَةِ الْأَعْضَاءِ لِلْحَدِيثِ الثَّابِتِ]بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد،۱/۱۴۷ )

علما کا اس پر اتفاق ہے کہ سجدہ سات  اعضا پر ہوتا ہے۔چہرہ،دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنےاور دونوں قدم کی انگلیاں؛کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے   ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے سات اعضا پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن علما کا اس  بارے میں اختلاف ہے کہ اگر کسی نے چہرہ پر سجدہ کیا اوردیگر اعضا میں سے  کسی ایک عضو کو چھوڑ کر سجدہ کیا ،  تو اس کی نماز باطل ہوگی یا نہیں ؟   بعض علما کا موقف یہ ہے کہ اس کی نماز باطل نہیں ہوگی ؛کیوں  کہ سجدہ کا مصداق  صرف  چہرہ ہے۔ اور بعض علما کا موقف یہ ہے کہ اس کی نماز باطل ہو جائے گی،  کیوں کہ حدیث میں سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیاہے ۔ 

ابو عبد اللہ مالکی (۸۹۷ھ) مختصر خلیل کی شرح میں لکھتے ہیں:

 ( وَسُنَّ عَلَى أَطْرَافِ قَدَمَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ ) .

ابْنُ الْقَصَّارِ : يَقْوَى فِي نَفْسِي أَنَّ السُّجُودَ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ ، وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ سُنَّةٌ[التاج والاكليل لمختصر خليل،۱/ ۴۲۱]

(دونوں قدم کی انگلیوں اور گھٹنوں پر سجدہ کرنا مسنون ہے)

ابن قصار نے کہا ہے کہ میرے نزدیک قوی مذہب یہ ہے کہ دونوں گھٹنوں اور قدموں کی انگلیوں پر سجدہ کرنا سنت ہے۔

مذہب حنبلی 

علامہ ابن قدامہ حنبلی (۶۲۰ھ) لکھتے ہیں:

وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَكُونَ عَلَى أَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ، وَيَثْنِيهِمَا إلَى الْقِبْلَةِ. 

مستحب یہ ہے کہ سجدہ دونوں قدم  کی انگلیوں پر ہو اور انہیں قبلہ کی طرف متوجہ  رکھے ۔

پھر آپ دوسرے صفحہ پر لکھتے ہیں :

وَالْكَمَالُ فِي السُّجُودِ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ يَضَعَ جَمِيعَ بَطْنِ كَفَّيْهِ، وَأَصَابِعِهِ عَلَى الْأَرْضِ، وَيَرْفَعَ مِرْفَقَيْهِ، فَإِنْ اقْتَصَرَ عَلَى بَعْضِ بَاطِنِهِمَا، أَجْزَأَهُ. قَالَ أَحْمَدُ: إنْ وَضَعَ مِنْ الْيَدَيْنِ بِقَدْرِ الْجَبْهَةِ، أَجْزَأَهُ.

وَإِنْ جَعَلَ ظُهُورَ كَفَّيْهِ إلَى الْأَرْضِ، وَسَجَدَ عَلَيْهِمَا، أَوْ سَجَدَ عَلَى أَطْرَافِ أَصَابِعِ يَدَيْهِ، فَظَاهِرُ الْخَبَرِ أَنَّهُ يُجْزِئُهُ؛ لِأَنَّهُ أُمِرَ بِالسُّجُودِ عَلَى الْيَدَيْنِ، وَقَدْ سَجَدَ عَلَيْهِمَا. وَكَذَلِكَ لَوْ سَجَدَ عَلَى ظُهُورِ قَدَمَيْهِ، فَإِنَّهُ قَدْ سَجَدَ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، وَلَا يَخْلُو مِنْ إصَابَةِ بَعْضِ أَطْرَافِ قَدَمَيْهِ الْأَرْضَ، فَيَكُونَ سَاجِدًا عَلَى أَطْرَافِ قَدَمَيْهِ، وَلَكِنَّهُ يَكُونُ تَارِكًا لِلْأَفْضَلِ الْأَحْسَنِ [المغنی لابن قدامہ،۱/۳۷۳)

سجدہ میں کمال یہ ہے کہ ہتھیلیوں کاپورا پیٹ اور ان کی انگلیاں زمین پر رکھے اور کہنیوں کو بلند رکھے،اوراگر کسی نے ہتھیلیوں کا بعض حصہ زمین پر رکھا  تب بھی کافی ہے۔ امام احمد نے کہا :اگر کسی نے دونوں ہاتھوں  میں سے پیشانی کے مقدار رکھا تو کافی ہے۔

  اور اگر کسی نے دونوں ہتھیلیوں کی پشت کو زمین پر رکھا اور سجدہ کیا یا اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو زمین پر رکھا اور اس حالت میں سجدہ کیا تو ظاہر ِ حدیث کے مطابق کافی ہے؛ کیوں کہ دونوں ہاتھوں پر سجدہ کا حکم دیا گیا ہے اور اس نے دونوں ہاتھوں پر سجدہ کر لیا۔اسی طرح کسی نے اگر دونوں قدموں کی پشت  پر سجدہ کیا تو  اس نے در حقیقت قدموں  ہی پر سجدہ کیا،  کیوں کہ اس صورت میں اس کے دونوں قدموں کی انگلیوں کا بعض حصہ زمین سے لگ رہا ہوگا تو وہ اپنے قدموں کے انگلیوں ہی پر سجدہ کرنے والا ہوگیا، لیکن اس صورت میں  وہ افضل اور احسن کا ترک کرنے والا ہوگا۔

مذاہب ثلاثہ کا تجزیہ

خلاصہ یہ کہ اس سلسلے میں فقہائے شافعیہ  کےدو اقوال ہیں:پہلا قول  وجوب  کا ہے جب کہ  دوسرا قول عدم وجوب کا ہےاور یہی مشہور ہے۔امام نووی کی توجیہ کے مطابق عدم وجوب کا مطلب یہ ہے کہ پیشانی کے ساتھ چھ اعضا (دونوں ہاتھ،گھٹنے،دونوں قدم)میں سے  کسی ایک پر بھی  سجدہ کر لیا تو جائز و درست ہے۔

اس سلسلے میں فقہائے مالکیہ میں دو گروہ ہے ،ایک کا کہنا یہ ہے کہ تمام اعضاے سجود پر سجدہ کرنا ضروری ہے ،اگران میں سے ایک کو بھی ترک کیا تو نماز باطل ہو جائے گی جب کہ دوسرےکا کہنا یہ ہے کہ صرف پیشانی پر سجدہ کرنا ضروری ہے ،دیگر اعضاے سجود کے ترک کی صورت میں نماز جائز و درست ہے،امام ابن القصار کے بقول  دوسراقول قوی ہے۔ 

اور فقہائے حنابلہ کے نزدیک دونوں قدموں کی انگلیوں پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔

مذہب حنفی 

صاحب ہدایہ علامہ ابو الحسن برہان الدین مرغینانی  (۵۹۳ھ) نے قدوری کے حوالے سے حالت ِ سجدہ میں دونوں قدموں کو  زمین پر رکھنے کو فرض کہا ہے ،وہ  لکھتے ہیں:

ووضع اليدين والركبتين سنة عندنا لتحقق السجود بدونهما وأما وضع القدمين فقد ذكر القدوري رحمه الله تعالى أنه فريضة في السجود[ہدایہ شرح البدایہ ،۱/ ۵۰]

دونوں ہاتھوں  اور گھٹنوں کو سجدہ کی حالت میں زمین پر رکھنا ہمارے  نزدیک سنت ہے،کیوں کہ ان دونوں کے بغیر بھی سجدہ کا تحقق ہو جاتا ہے۔لیکن سجدہ میں دونوں قدموں کو زمین پر رکھنے کو   امام قدوری نے فرض لکھا ہے۔

علامہ کمال الدین   ابن الہمام (۸۶۱ھ) اس کی فرضیت کی علت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَأَمَّا افْتِرَاضُ وَضْعِ الْقَدَمِ فَلِأَنَّ السُّجُودَ مَعَ رَفْعِهِمَا بِالتَّلَاعُبِ أَشْبَهُ مِنْهُ بِالتَّعْظِيمِ وَالْإِجْلَالِ، وَيَكْفِيهِ وَضْعُ أُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ.وَفِي الْوَجِيزِ وَضْعُ الْقَدَمَيْنِ فَرْضٌ، فَإِنْ وَضَعَ إحْدَاهُمَا دُونَ الْأُخْرَى جَازَ وَيُكْرَهُ [فتح القدير للكمال ابن الهمام، ۱/۳۰۵]

سجدہ کی حالت میں زمین پر قدم رکھنے کی فرضیت اس لیے ہے کہ اگر سجدہ میں  دونوں قدم اٹھا لیےتو یہ  تعظیم و اجلال کے بجائے تلاعب (کھیل کود )  سے زیادہ مشابہ ہے۔اور صرف ایک انگلی کا رکھنا بھی کافی ہے۔اور"الو جیز" میں لکھا ہے کہ دونوں قدم کا رکھنا فرض ہے،تو اگر ان میں سے ایک رکھا اور دوسرا نہ رکھا ، تو کراہت کے ساتھ جائز ہے۔

علامہ ابن نجیم مصری حنفی (۹۷۰ھ) کی بحر الرائق میں ہے:

إذَا رَفَعَ قَدَمَيْهِ فِي السُّجُودِ فَإِنَّهُ لَا يَصِحُّ؛لِأَنَّ السُّجُودَ مَعَ رَفْعِهِمَا بِالتَّلَاعُبِ أَشْبَهُ مِنْهُ بِالتَّعْظِيمِ وَالْإِجْلَالِ، وَيَكْفِيه وَضْعُ أُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ فَلَوْ لَمْ يَضَعْ الْأَصَابِعَ أَصْلًا وَوَضَعَ ظَهْرَ الْقَدَمِ فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّ وَضْعَ الْقَدَمِ بِوَضْعِ الْأُصْبُعِ وَإِذَا وَضَعَ قَدَمًا وَرَفَعَ آخَرَ جَازَ مَعَ الْكَرَاهَةِ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ كَمَا أَفَادَهُ قَاضِي خَانْ وَذَهَبَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ إلَى أَنَّ وَضْعَهُمَا سُنَّةٌ فَتَكُونُ الْكَرَاهَةُ تَنْزِيهِيَّةً وَالْأَوْجَهُ عَلَى مِنْوَالِ مَا سَبَقَ هُوَ الْوُجُوبُ فَتَكُونُ الْكَرَاهَةُ تَحْرِيمِيَّةً لِمَا سَبَقَ مِنْ الْحَدِيثِ. وَذَكَرَ الْقُدُورِيُّ أَنَّ وَضْعَهُمَا فَرْضٌ، وَهُوَ ضَعِيفٌ[ البحر الرائق شرح كنز الدقائق،۱/۳۳۶)

اگر  سجدہ میں دونوں قدموں کو اٹھا لے تو یہ صحیح نہیں ہے؛کیوں کہ ان کے اٹھانے سے تعظیم و اجلال کی  بجائے تلاعب سے زیادہ مشابہ ہو جاتا ہے۔اور صرف ایک انگلی کا رکھنا کافی ہوگا۔تو اگر بالکلیہ کوئی انگلی نہ رکھی اور صرف  قدم کا ظاہری حصہ  ہی رکھا تو یہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ قدم کا رکھنا انگلیاں رکھنے ہی سے متحقق ہوتا ہے۔ اور جب ایک قدم رکھا اور دوسرا قدم اٹھائے رکھا تو  بغیر عذر کےبھی  ایسا کرنا  کراہت کے ساتھ جائز ہے،جیسا کہ قاضی خان نے بیان کیا ہے۔ اور شیخ الاسلام اس طرف گئے ہیں کہ  دونوں قدم کا رکھنا سنت ہے، لہٰذا ترک کی صورت میں صرف مکروہ تنزیہی ہوگا۔ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح وجوب کا قول ہے،  لہٰذا اس کا ترک مکروہ تحریمی ہوگا، جیسا کہ اس کا وجوب حدیث سے ثابت ہے۔ اور جو قدوری نے یہ کہا ہے کہ دونوں قدم کا سجدہ میں زمین پر رکھنا فرض ہے، وہ ضعیف ہے۔

صاحب عنایہ علامہ بابرتی حنفی (۷۸۶ھ) لکھتے ہیں: 

(وَأَمَّا وَضْعُ الْقَدَمَيْنِ فَقَدْ ذَكَرَ الْقُدُورِيُّ أَنَّهُ فَرْضٌ فِي السُّجُودِ) فَإِذَا سَجَدَ وَرَفَعَ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ عَنْ الْأَرْضِ لَا يَجُوزُ، كَذَا ذَكَرَهُ الْكَرْخِيُّ وَالْجَصَّاصُ، وَلَوْ وَضَعَ إحْدَاهُمَا جَازَ. قَالَ قَاضِي خَانْ: وَيُكْرَهُ. وَذَكَرَ الْإِمَامُ التُّمُرْتَاشِيُّ أَنَّ الْيَدَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ سَوَاءٌ فِي عَدَمِ الْفَرْضِيَّةِ، وَهُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ كَلَامُ شَيْخِ الْإِسْلَامِ فِي مَبْسُوطِهِ وَهُوَ الْحَقُّ. [عنایہ شرح ہدایہ ،۱/ ۳۰۵]

(قدوری نے سجدہ میں دونوں قدموں کے رکھنے کو فرض کہا ہے)تو جب کوئی سجدہ کرے اور اپنے دونوں قدموں کی انگلیوں کو زمین سے اٹھالے تو جائز نہیں ہوگا۔اسی طرح امام کرخی اور امام جصاص نے بیان کیا ہے۔اور اگر ان میں سے ایک قدم کی انگلیوں کو اٹھا لے تو جائز  تو ہوگا،  لیکن مکروہ ہوگا،قاضی خان نے اسی طرح ذکر کیا ہے۔ امام تمرتاشی نے فرمایا ہے کہ دونوں ہاتھ اور دونوں قدم عدم فرضیت میں برابر ہیں،اسی طرف مبسوط میں شیخ الاسلام کی بات بھی دلالت کرتی ہے،اور یہی حق ہے۔

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی(۵۸۷ھ) لکھتے ہیں:

وَاخْتُلِفَ فِي مَحَلِّ إقَامَةِ فَرْضِ السُّجُودِ، قَالَ أَصْحَابُنَا الثَّلَاثَةُ:هُوَ بَعْضُ الْوَجْهِ. وَقَالَ زُفَرُ وَالشَّافِعِيُّ:السُّجُودُ فَرْضٌ عَلَى الْأَعْضَاءِ السَّبْعَةِ: الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ،وَاحْتَجَّا بِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ وَفِي رِوَايَةٍ عَلَى سَبْعَةِ آرَابٍ:الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ. (وَلَنَا) أَنَّ الْأَمْرَ تَعَلَّقَ بِالسُّجُودِ مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ تَعْيِينِ عُضْوٍ، ثُمَّ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ عَلَى تَعْيِينِ بَعْضِ الْوَجْهِ فَلَا يَجُوزُ تَعْيِينُ غَيْرِهِ، وَلَا يَجُوزُ تَقْيِيدُ مُطْلَقِ الْكِتَابِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ؛ فَنَحْمِلُهُ عَلَى بَيَانِ السُّنَّةِ عَمَلًا بِالدَّلِيلَيْنِ. [بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع،۱/ ۱۰۵]

محل سجدہ     میں فقہا کا  اختلاف ہے ، ہمارے تینوں ائمہ کے نزدیک صرف چہرے کا بعض حصہ ہے۔ اور امام زفر اور امام شافعی نے فرمایا ہے کہ محل ِ سجدہ سات اعضا ہیں :چہرہ،دونوں ہاتھ،دونوں گھٹنے اور دونوں قدم، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے سات  اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ امر ِ قرآنی  کا تعلق مطلقاً صرف سجدہ سے ہے ، اس میں کسی عضو کی تعیین  نہیں ہے،پھر بعض چہرے کی  تعیین پر اجماع منعقد ہوگیا ،لہٰذا اب  کسی دوسرے عضو کی تعیین نہیں کریں گے؛ کیوں کہ کتاب اللہ کے مطلق حکم کو خبر واحد کے ذریعے مقید نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے ہم دونوں دلیلوں پر عمل کرتے  ہوئے چہرے کے علاوہ باقی دوسرے اعضا پر سجدہ کرنے کو سنت پر محمول کرتے ہیں۔

علامہ ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ)نے  لکھا ہے :

فِي الْمَسْأَلَةِ ثَلَاث رِوَايَاتٍ: الْأُولَى فَرْضِيَّةُ وَضْعِهِمَا. الثَّانِيَةُ فَرْضِيَّةُ إحْدَاهُمَا. الثَّالِثَةُ عَدَمُ الْفَرْضِيَّةِ، وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ سُنَّةٌ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَذَهَبَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ إلَى أَنَّ وَضْعَهُمَا سُنَّةٌ فَتَكُونُ الْكَرَاهَةُ تَنْزِيهِيَّةً اهـ. وَقَدْ اخْتَارَ فِي الْعِنَايَةِ هَذِهِ الرِّوَايَةَ الثَّالِثَةَ وَقَالَ إنَّهَا الْحَقُّ، وَأَقَرَّهُ فِي الدُّرَرِ. وَوَجْهُهُ أَنَّ السُّجُودَ لَا يَتَوَقَّفُ تَحَقُّقُهُ عَلَى وَضْعِ الْقَدَمَيْنِ فَيَكُونُ افْتِرَاضُ وَضْعِهِمَا زِيَادَةً عَلَى الْكِتَابِ بِخَبَرِ الْوَاحِدِ، لَكِنْ رَدَّهُ فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ وَقَالَ إنَّ قَوْلَهُ هُوَ الْحَقُّ بَعِيدٌ عَنْ الْحَقِّ وَبِضِدِّهِ أَحَقُّ، إذْ لَا رِوَايَةَ تُسَاعِدُهُ وَالدِّرَايَةُ تَنْفِيهِ لِأَنَّ مَا لَا يُتَوَصَّلُ إلَى الْفَرْضِ إلَّا بِهِ فَهُوَ فَرْضٌ....... وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمَشْهُورَ فِي كُتُبِ الْمَذْهَبِ اعْتِمَادُ الْفَرْضِيَّةِ وَالْأَرْجَحُ مِنْ حَيْثُ الدَّلِيلُ وَالْقَوَاعِدُ عَدَمُ الْفَرْضِيَّةِ، وَلِذَا قَالَ فِي الْعِنَايَةِ وَالدُّرَرِ:إنَّهُ الْحَقُّ. ثُمَّ الْأَوْجَهُ حَمْلُ عَدَمِ الْفَرْضِيَّةِ عَلَى الْوُجُوبِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ(رد المحتار علی الدر المختار (۱/ ۴۹۹)

اس مسئلہ میں تین روایتیں ہیں :

1۔حالت سجدہ میں دونوں قدم کا رکھنا فرض ہے۔۲۔دونوں میں سے کسی ایک  کا رکھنا فرض ہے۔۳۔ کسی قدم کا  بھی رکھنا فرض نہیں ہے۔ظاہر یہ ہے کہ یہ  سنت ہے۔ بحر میں  ہے کہ شیخ الاسلام اس طرف گئے ہیں کہ دونوں قدم کا رکھنا سنت ہے۔ لہٰذا اس کا ترک کراہت تنزیہی  کو مستلزم ہوگا۔ صاحب عنایہ نے اسی تیسرے قول کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہی حق ہے۔اور دُرَر میں اسی کو ثابت کیا گیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سجدہ  کا تحقق دونوں قدم کے زمین پر رکھنے پر موقوف نہیں ہے، لہٰذا اس کو فرض کہنے سے  خبر واحد سے کتاب اللہ پر زیادتی لازم آئے گی۔لیکن،  اس بات کو شرح منیہ میں رد کر دیا گیا ہے اور یہ کہا  گیا ہے کہ صاحب عنایہ کا اس کو حق کہنا ، خود حق سے دور ی ہے اور اس کے برعکس زیادہ حق  ہے۔کیوں کہ اس کی تائیدکسی روایت سے نہیں ہوتی اور درایت اس کی نفی کرتی ہے ؛کیوں کہ جو چیز فرض تک پہنچانے والی ہوتی ہے ، وہ بھی فرض ہوتی ہے۔حاصل کلام یہ ہے کہ کتب مذاہب میں اس کا فرض ہی ہونا مشہور ہے، لیکن دلیل اور اصول کے اعتبار سے زیادہ راجح اس کا فرض نہ ہونا ہے،اسی لیے عنایہ اور درر میں اس کی عدم فرضیت کو حق کہا گیا ہے۔اس لیے زیادہ صحیح یہ ہے کہ عدم فرضیت کو وجوب پر محمول کر دیا جائے۔ واللہ اعلم۔

فقہاے احناف کے اقوال کا تجزیہ

فقہائے احناف میں سے امام قدوری (۴۲۸ھ) علامہ ابن ہمام(۸۶۱ھ) اور علامہ علاء الدین حصکفی(۱۰۸۸ھ) نے زمین پر قدم لگانے کی فرضیت کا قول کیا ہے۔امام ابو الحسن کرخی(۳۴۰ھ) اور امام ابو بکر رازی الجصاص(۳۷۰ھ) کا موقف بھی اسی کے قریب ہے۔امام ابن نجیم مصری(۹۷۰ھ) وجوب کی طرف گئے ہیں ، جب کہ امام سرخسی (۴۸۳ھ)،علامہ علاءالدین کاسانی(۵۸۷ھ) صاحب ِکفایہ امام جلال الدین خوارزمی(۷۶۷ھ) ،صاحبِ عنایہ علامہ بابرتی(۷۸۶ھ) اورصاحبِ شرح جامع صغیر علامہ تمرتاشی (۶۱۰ھ)نے عدم فرضیت یا سنیت کا قول کیا ہے۔ اور علامہ ابن عابدین شامی  (۱۲۵۲ھ) نےان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد سب کے بیچ تطبیق دیتے ہوئے فرضیت ،وجوب،عدم فرضیت اور سنیت سب کو وجوب پر محمول کیا ہے اور اسے ہی مناسب توجیہ قرار دیا ہے۔  

فقہائے احناف کے دلائل کا تجزیہ 

جن فقہا نے سجدہ میں قدم  رکھنے کو فرض کہا ہے،ان کی صرف  دوعقلی دلیلیں ہیں ؛کیوں کہ حدیث رسول’ ’اُمرت أن أسجد‘‘ سے فرضیت ثابت نہیں ہو سکتی  ، جیسا کہ فقہا ےاحناف نے اس کی تشریح کردی ہے کہ یہ خبر واحد ہے اور خبر واحد سے کتاب اللہ پر زیادتی جائز نہیں ہے۔اس سے وجوب پر بھی استدلال کرنا درست نہیں ہے،کیوں کہ اگر اِس حدیث سے وضعِ قدم  کے وجوب کو ثابت کریں گے تو وضع ِ یدین  اور رکبتین کے وجوب کو بھی ثابت کرنا پڑے گا کیوں کہ اِن دونوں کا ذکر بھی حدیث مذکور میں ہے ،حالاں کہ یہ دونوں بالاتفاق واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ بابرتی  حنفی (۷۸۶ھ) نے کہا ہے کہ یہ حدیث محل ِ سجدہ بتانے کے لیے آئی ہے نہ یہ بتانے کے لیے کہ ان اعضا پر سجدہ کرنا لازم ہے۔بعینہ یہی بات امام جلال الدین خوارزمی حنفی (۷۶۷ھ) نے کفایہ شرح ہدایہ میں کہی ہے۔مزید آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک پیشانی ،دونوں ہاتھ،دونوں گھٹنے اور دونوں قدموں پر سجدہ کرنا سنت ہے  اور اور امر ِ رسول ندب پر محمول ہے۔(الکفایۃ شرح الہدایۃ۱/۱۹۰ تا ۱۹۲ ،دار الکتب العلمیہ) اور لفظ’’ اُمرت‘‘  میں اس کی گنجائش بھی موجود ہے کہ اس سے وجوب  کے علاوہ ندب  اور استحباب  مراد لیا جائے کیوں علامہ ابن نجیم مصری حنفی (۹۷۰ھ) نے لکھا ہے کہ لفظ’’ اُمرت‘‘  عام ہے جو وجوب اور ندب کو بھی شامل ہوتا ہے۔

جن دو عقلی دلیلوں کی روشنی میں بعض فقہائے احناف فرض کہتے ہیں،  وہ دلیلیں یہ ہیں :

۱۔ قدم اٹھانے کی صورت میں تعظیم و اجلا ل کی بجائے تلاعب سے مشابہت زیادہ ہے۔

۲۔ جو چیز فرض تک پہنچانے والی ہوتی ہے وہ بھی فرض ہوتی ہے اور چونکہ زمین پر قدم رکھ  کر سجدہ ہوتا ہے اس لیے قدم  کا زمین پر رکھنا فرض ہوگا۔

پہلی دلیل  کا سقم یہ ہے کہ اگر سجدہ کی حالت میں دونوں قدم  بہت زیادہ اٹھا لیا جائے تب تلاعب کے مشابہ ہوگا ،تھوڑا سا اٹھ جائے ،یا صرف انگلی کا سرا لگا رہے تو اس صورت میں تلاعب سے مشابہ نہ ہوگا ،پھر یہ کہ  جو لوگ فرضیت کا قول کرتے ہیں ان کے نزدیک بھی اگر ایک قدم اٹھا رہے تو نماز ہوجائے گی،  حالاں کہ ایک قدم اٹھانے کی صورت میں بھی تلاعب سے مشابہت ہو سکتی ہے بایں طور کہ کوئی ایک  قدم  زمین پر رکھے اور ایک قدم  بہت زیادہ اٹھالے ۔ اسی طرح اگر کوئی گھٹنے زمین سے نہ لگائے اور انہیں بہت زیادہ اٹھالے تو اس میں بھی بدرجہ ٔ اولی ٰتلاعب سے مشابہت ہو جائے گی ،اسی طرح اگر کوئی زمین پر پیشانی رکھے اور دونوں ہاتھ اوپر کو اٹھائے رکھے تب بھی تلاعب سے بہت زیادہ  مشابہت ہو جائے گی جبکہ کسی کے نزدیک سجدہ میں ہاتھ اور گھٹنے کا رکھنا فرض نہیں ہے۔ لہٰذا صرف تلاعب کے ساتھ مشابہت کی بنا پر زمین قدم کےرکھنے کی فرضیت ثابت نہیں ہو سکتی۔

دوسری دلیل کا سقم یہ ہے کہ  یہ اصول کہ جو چیز فرض تک پہنچانے والی ہوتی ہے وہ بھی فرض ہوتی ہے،اس اصول کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چیز فرض کے لیے موقوف علیہ بنے یعنی اس کے بغیر اس فرض کا تحقق نہ ہوتا ہو تو وہ چیز بھی فرض ہوتی ہے جیسے نماز میں قیام فرض ہے اور قیام کا وجود اور تحقق بغیر زمین پر قدم رکھے نہیں ہو سکتا لہٰذا قیام کے فرض کو انجام دینے کے لیےقدم کا زمین پر رکھنا بھی فرض ہوگا ،اسی طرح نماز میں سجدہ فرض ہے اور سجدہ کے وجود اور تحقق کے لیے صرف زمین پر پیشانی رکھنا کافی ہے، اس کے وجود و تحقق کے لیے قدم  کا زمین پر رکھنا ضروری نہیں ہے ، علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں :

أَنَّ السُّجُودَ لَا يَتَوَقَّفُ تَحَقُّقُهُ عَلَى وَضْعِ الْقَدَمَيْنِ)رد المحتار علی الدر المختار ۱/ ۴۹۹(

یعنی زمین پرقدم رکھنا سجدہ کا موقوف علیہ نہیں ہے،مطلب یہ ہے کہ زمین پر قدم رکھے بغیر بھی سجدہ کیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کے بغیر سجدہ وجود میں آہی نہیں سکتا ۔اور جو فرض جس چیز کے بغیر بھی وجود میں آسکتا ہو وہ چیز اس فرض کے لیے مُوصِل یا موقوف علیہ  نہیں ہو سکتی،لہٰذا وہ چیز فرض بھی نہیں ہوسکتی۔ سجدہ  صرف چہرے کے بعض حصے کےزمین پر  رکھنے کا نام ہے جیسا کہ صاحب در مختار نے لکھا ہے:

(قَوْلُهُ وَمِنْهَا السُّجُودُ) هُوَ لُغَةً: الْخُضُوعُ قَامُوسٌ، وَفَسَّرَهُ فِي الْمُغْرِبِ بِوَضْعِ الْجَبْهَةِ فِي الْأَرْضِ. وَفِي الْبَحْرِ: حَقِيقَةُ السُّجُودِ وَضْعُ بَعْضِ الْوَجْهِ عَلَى الْأَرْضِ مِمَّا لَا سُخْرِيَةَ فِيهِ)الدر المختار وحاشیہ ابن عابدين ،۱/۴۴۷)

سجدہ لغت میں خضوع کو کہتے ہیں،مغرب میں اس کی تفسیر زمین پر پیشانی رکھنے سے کی گئی ہے۔اور بحر میں ہے کہ سجدہ کی حقیقت یہ ہے کہ  زمین پر چہرے کے بعض حصے کو اس طرح رکھا جائے جس میں استہزا نہ ہو۔

یعنی سجدہ صرف چہرے کے بعض حصے کو زمین پر رکھنے سے متحقق ہو جا تا ہے،سجدہ کے تحقق کے لیے قدموں کو زمین پر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔جس طرح دونوں ہاتھ یا   دونوں گھٹنے زمین پر  رکھے بغیر بھی سجدہ کا تحقق ہوسکتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی آسانی سے  ایک  یا دونوں قدم زمین پر  رکھے بغیر بھی سجدہ کا تحقق ہو سکتا ہے ۔ سجدہ کا موقوف علیہ صرف چہرے کا بعض حصہ ہے،  اس لیے وہ فرض ہےکیوں کہ  اس کو زمین پر رکھے بغیر سجدہ نہیں ہوسکتا اور دیگر اعضاے سجود کو زمین پر رکھے بغیر بھی سجدہ ہو سکتا ہے، لہٰذا ان کا حالت ِ سجدہ میں زمین پر رکھنا فرض نہیں ہوگا۔

جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ سجدہ کی حالت میں قدم  کا  زمین پر رکھنا فرض نہیں ہے،  تو قدم  کی انگلیوں کا قبلہ کی طرف متوجہ  رکھنا کہاں سے فرض ہو جائے گا۔

علامہ ابن عابدین شامی (۱۲۵۲ھ)بالخصوص سجدہ میں انگلیوں کے رکھنے کے متعلق لکھتے ہیں :

 وَأَنَّ التَّوْجِيهَ سُنَّةٌ عِنْدَنَا قَوْلًا وَاحِدًا، خِلَافًا لِمَا مَشَى عَلَيْهِ الشَّارِحُ تَبَعًا لِشَرْحِ الْمُنْيَةِ، وَيُؤَيِّدُ مَا قُلْنَاهُ أَنَّ الْمُحَقِّقَ ابْنَ الْهُمَامِ قَالَ فِي زَادِ الْفَقِيرِ وَمِنْهَا: أَيْ مِنْ سُنَنِ الصَّلَاةِ تَوْجِيهُ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ إلَى الْقِبْلَةِ وَوَضْعُ الرُّكْبَتَيْنِ، وَاخْتُلِفَ فِي الْقَدَمَيْنِ. اهـ.فَهَذَا صَرِيحٌ فِيمَا قُلْنَاهُ حَيْثُ جَزَمَ بِأَنَّ تَوْجِيهَ الْأَصَابِعِ سُنَّةٌ[الدر المختار وحاشیہ ابن عابدين ،۱/۵۰۴)

حالت ِ نماز میں قدم کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھنا ہمارے نزدیک سنت ہے،اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، بلکہ اس میں صرف ایک ہی قول ہے۔برخلاف   شارح ( صاحب در مختار) کے،کہ انہوں نے شرح منیہ کےاتباع میں فرض کا قول کیا ہے۔ ہماری بات کی تائید محقق ابن الہمام  کی اس  بات سے بھی ہوتی ہے جو انہوں نے زاد الفقیر میں کہی ہے:ان میں سے یعنی نماز کی سنتوں میں سے پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ رکھنا اور دونوں گھٹنوں کو  زمین پر رکھناہے۔اور قدموں کے رکھنے کے سلسلے میں اختلاف ہے۔لہٰذا جو بات میں نے کہی ہے اس کی صراحت ہوگئی کہ انہوں نے جزم کے ساتھ یہ کہا کہ انگلیوں کو قبلہ رخ رکھنا سنت ہے۔ 

خلاصہ یہ ہوا کہ سجدہ کی حالت میں دونوں قدموں کا زمین سے لگنا فرض نہیں ہے اور نہ ان کی انگلیوں کا لگنا فرض ہےاور نہ انہیں قبلہ  رخ رکھنا فرض ہے۔ہاں! سنت یہ ہے کہ سجدہ سات  اعضا پر کیا جائے،  پیشانی ، دونوں ہاتھ ، دونوں گھٹنے  اور دونوں قدموں  کی انگلیاں،  جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔اس کا ترک کراہت تنزیہی کو مستلزم ہوگا،جو صرف خلاف اولیٰ ہے جس سے  نماز باطل نہیں ہوگی۔

آج کچھ لوگ نماز میں یہی دیکھتے رہتے ہیں کہ کس کی ناک  اورقدم کی تین انگلیاں زمین سے لگ رہی ہیں اور کس کی نہیں لگ رہی ہیں۔  جس کی نہیں لگتی اس پر فوراً فتوی لگاتے ہیں کہ اس کی نماز نہیں ہوئی ،یہ فقہائے احناف کی رو سے بھی صحیح نہیں ہے۔قدم کی انگلیوں کی تفصیل ابھی گزری ،اور ناک کے متعلق امام سرخسی (۴۸۳ھ )لکھتے ہیں: 

وَيَسْجُدُ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ وَاظَبَ عَلَى هَذَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -، وَفِيهِ تَمَامُ السُّجُودِ، فَإِنْ سَجَدَ عَلَى الْجَبْهَةِ دُونَ الْأَنْفِ جَازَ عِنْدَنَا وَعِنْدَ الشَّافِعِيِّ لَا يَجُوزُ، وَإِنْ سَجَدَ عَلَى الْأَنْفِ دُونَ الْجَبْهَةِ جَازَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَيُكْرَهُ وَلَمْ يَجُزْ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ - رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا - وَهُوَ رِوَايَةُ أُسَيْدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -. أَمَّا الشَّافِعِيُّ اسْتَدَلَّ بِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: مَنْ لَمْ يُمِسَّ أَنْفَهُ الْأَرْضَ فِي سُجُودِهِ كَمَا يُمِسُّ جَبْهَتَهُ، فَلَا سُجُودَ لَهُ، وَالْمُرَادُ بِهَذَا عِنْدَنَا نَفْيُ الْكَمَالِ لَا نَفْيُ الْجَوَازِ[المبسوط للسرخسی،۱/ ۳۴]

سجدہ اپنی پیشانی اور ناک پر کرے،  کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مواظبت فرمائی ہے،سجدہ  ان دونوں سے تام  ہوتا ہے۔ اگر کسی نے پیشانی پر سجدہ کیا اور ناک نہ لگائی ،   تو ہمارے(امام اعظم ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کے )  نزدیک جائز ہے اور امام شافعی کے نزدیک جائز نہیں ہے۔اور اگر کسی نے ناک پر سجدہ کیا اور پیشانی  نہ لگائی ، تو  بھی امام ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے، لیکن مکروہ ہے۔اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک  ( ایسا کرنا ) جائز نہیں ہے،اور  امام ابوحنیفہ سے بھی   اسید بن عمرو کی ایک روایت میں یہی ہے۔امام شافعی کا استدلال حضرت ابو ہریرہ کی حدیث سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : سجدہ میں جس کی ناک زمین سے نہ لگی  جس طرح پیشانی لگتی ہے تو اس کا سجدہ نہ ہوا۔ہمارے نزدیک اس حدیث میں کمال ِسجدہ کی نفی  ہے ،جواز کی نفی نہیں ہے۔ 

اس سے پتا چلتا ہے کہ زمین پر ناک لگائے بغیر بھی سجدہ درست ہے ،لہٰذا اس صورت  میں نماز باطل ہونے کا حکم لگانا صحیح نہیں ہے۔

بلکہ منیۃ المصلی میں امام کاشغری حنفی (۷۰۵ھ) اوراس کی شرح میں امام حلبی حنفی(۹۵۶ھ )   نے اس پر اجماع نقل کیا ہے،آپ لکھتے ہیں وَالْكَمَالُ فِيْهِ وَضْعُ الْجَبْهَةِ وَ الأنْفِ وَ الْقَدْمَيْنِ وَ الْيَدَيْنِ وَ الرُّكْبَتَيْنِ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلاَمِ:أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ،علي  الجَبْهَة وَالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَاَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَ الأنفُ دَاخِلٌ فِي الجَبْهَةِ لِأنَّ عَظمَهَماوَاحِدٌ، وَ اِنْ وَضَعَ جَبْهَتَه دُوْنَ أنْفِه جَازَ سُجُوْدُه بِالْاِجْمَاعِ(شرح منیۃ المصلی،ص:۹۸ ،مکتبہ مجلس الشوری الاسلامی)

سجدہ کو بطور کمال ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ زمین پر پیشانی ،ناک،دونوں قدم ،دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے رکھےجیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے سات اعضا پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے :پیشانی ،دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے،اوردونوں قدم کے اطراف ۔ اور ناک پیشانی میں داخل ہے کیوں کہ دونوں کی ہڈی ایک ہی ہے۔ اور اگر کسی نے ناک کے بغیر پیشانی زمین پر رکھی تو اس کا سجدہ بالاجماع جائز و درست ہے ۔

منیہ اور اس کی  شرح غنیہ کی اِس عبارت سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ بغیر زمین پر ناک لگائے  سجدہ اجماعاً جائز و درست ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ سجدہ میں دونوں قدموں کا رکھنا کمالِ سجدہ ہے نہ کہ فرض ِ سجدہ۔

یہاں ہمیں یہ یاد رکھنے کی سخت ضرورت ہے کہ نماز کی روح اور مغز کیا ہے ،یہ ہمارے اوپر کیوں فرض ہے؟ 

اللہ فرماتا ہے:

{وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طہ: 14] مجھے یاد کرنے کے لیے نماز ادا کرو۔

 معلوم ہوا کہ نماز کی فرضیت اس لیے ہے کہ اللہ کو یاد کیا جائے،اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن ، اس پر غور کرنے  کی بجائے کہ ہمیں نماز میں کتنی دیر اللہ یادرہا اور کتنی دیر غفلت رہی، ہماری ساری توجہ ہاتھ پیر کی انگلیوں پر ہوتی ہے۔اگر بالفرض نماز میں ہماری انگلیاں قبلہ رو نہ رہی یا زمین سے نہ لگی،  لیکن ہم نے نماز اللہ کی یاد میں ڈوب کر ادا کی،تو اللہ سے قوی امید ہے کہ وہ ہماری اس نماز کو قبول فرمائے گا ۔ لیکن  اگر ہم نے   نماز میں صرف انگلیوں اور ناک کو ٹھیک کرنے پر ساری توجہ مرکوز  رکھی اور اللہ کی یاد سے غافل رہے تو پھر ایسی نماز کسی کام کی نہیں ہوگی ۔  واللہ اعلم 

کتبہ:

اصغر علی مصباحی

 دار الافتا عارفیہ سید سراواں،  کوشامبی۔ 

۷/ جنوری ۲۰۲۲ء 

الجواب  صحیح 

محمد رحمت علی مصباحی  چشتی قادری 

دار الافتاء عارفیہ، سید سراواں شریف، کوشامبی

7/ جنوری 2022

Ad Image