Donate Now
قربانی کے جانور میں دیوبندی وہابی کے شرکت کا حکم

قربانی کے جانور میں دیوبندی وہابی کے شرکت کا حکم

سوال ۔ کیا فرماتے ہیں  علماے دین و مفتیان شرح  متین مسئلہ ذیل میں  کہ  اگر کوئی  دیوبندی  وہابی   قربانی  کے جانور میں اہل سنت بریلوی کے ساتھ  شریک ہو تو   قربانی کا کیا حکم ہے ؟  

مستفتی ۔ ضیاء  المصطفی   ، مکہ مسجد ، الہ آباد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب : ہر وہ شخص جو اسلام کا دعوی کرتا ہو اور ہماری طرح نماز ادا کرتا ہو، صراحتاً کسی بھی ضروریاتِ دین کا انکار نہیں کرتا ہو  وہ سب مسلمان ہیں ان   میں سے کسی کو بھی  قربانی کے جانور میں شریک کیا جاسکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جہاں تک دیوبندی اور وہابی کی بات ہے ان کو زیادہ سے زیادہ بدعتی کہا جاسکتا ہے، ان دونوں گروہوں کے علما یا عوام کی بالعموم تکفیر نہیں کی گئی ہے ، ہاں ان کے بعض علما کی بعض تعبیرات پر علما نے گرفت کی ہے، بعض نے ان عبارتوں کی وجہ سے تکفیر بھی کی ہے لیکن اب  وہ افراد ہمارے درمیان نہیں رہے۔ جو علما  یا عوام موجود ہیں  وہ ان عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں  اور ان عبارتوں سے جو عقائد بطور لزوم  ثابت ہوتے ہیں  ان کا انکار کرتے ہیں  ،ایسے میں ان کا وہی حکم ہوگا جو  فلسفی  نصیر الدین طوسی رافضی  کا ہے،  فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت  فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

” طوسی کا رفض حدکفرنہ  تھا بلکہ اس نے حتی الامکان اپنے اگلوں کے کفر کی تاویلات کیں، اور نہ بن پڑی تو منکر ہوگیا اور اس کی ایسی توجیہ گناہ ضرور ہے اور منطقی فلسفی شراح ومحشین معصوم نہیں جہاں جہاں اس نے خلاف اہلسنت کیا ہے اس کا رد کردیا گیا واللہ تعالیٰ اعلم۔“ (فتاوی رضویہ ، جلد: ۲۱،صفحہ: ۲۲۰،مسئلہ نمبر ۷۴)

علما ے اہل سنت  (بریلوی) پر جو یہ الزام ہے کہ وہ تمام دیوبندی اور وہابی کی تکفیر کرتے ہیں ، یہ الزام درست نہیں ہے چناں چہ  غزالی زماں کے لقب سے معروف علامہ احمد سعید کاظمی ۱۹۴۶ء میں اپنی مرتب کردہ کتاب الحق المبین میں ’’ہمارا مسلک‘‘ کے زیر عنوان  اس الزام کی وضاحت کر چکے ہیں۔ علامہ کاظمی لکھتے ہیں:

’’مسئلۂ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزام کفر کرلے گاتو ہم اس کی تکفیر میں تامل نہیں کریں گے۔ خواہ وہ دیوبندی ہو یا بریلوی، لیگی ہو یا کانگریسی، نیچری ہو یا ندوی۔ اس بارے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ کافر ہوگئی، یا ایک ندوی نے ایک التزام کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہوگئے۔‘‘  (الحق المبین، ص: ۵۲)

معروف بریلوی عالم دین مولانا یٰسین اختر مصباحی اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

یہ نکتہ یہاں ذہن نشیں رہے کہ دیوبندی وغیر مقلد حضرات کوبلاالتزام کفر کے محض ان کی مخصوص جماعت کا ایک جز اور فرد ہونے کی بنیاد پر تکفیر نہیں کی جاسکتی۔ ہاں! ایسی جماعتوں کے افراد کی تکفیر واجب ہے جن کے کل اور مجموعہ پر حکم تکفیر ہو، جیسے قادیانی وبہائی وغیرہ۔۔۔۔ 

زید اگر مدعی اسلام ہے اور وہ کسی ایسی جماعت اور فرقہ کا فرد نہیں جس کے کل اور مجموعہ پر حکم تکفیر ہو، جیسے قادیانی وبہائی وغیرہ تو ایسی صورت میں اس کی تکفیر صرف اس بنیاد پر ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے کسی قول یا عمل سے ضروریات دین یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کرے۔.....

کسی کا محض قاسمی یا مظاہری یا ندوی یا غیر مقلد ہوناسبب تکفیر نہیں، تاوقتیکہ اس سے کسی کفر کا التزام اور ثبوت شرعی متحقق نہ ہوجائے۔ (تکفیری غلط فہمی کا ازالہ، یٰسین اختر مصباحی، مشمولہ اہل قبلہ کی تکفیر، ص:۵،  ۶)

 لہذا جب تک کسی دیوبندی یا  وہابی سے شخصی طور سے کفر  ِصریحی التزامی ثابت نہ ہو اس وقت تک  وہ  مسلمان ہی  ہے ۔ اور اس کا قربانی کے جانور میں اہل سنت بریلوی کے ساتھ شریک ہونے میں  کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ ان مسائل کو بے جا  ہوا دینا اور شدت  اختیار کرنا اہل اسلام کے حق میں مضر ہے ، اللہ مسلمانوں کو امن امان کے ساتھ قائم رکھے اور انتشار و افتراق کی راہ چھوڑ کر اتحاد و اتفاق پر گامزن رکھے۔ آمین

مفتی محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

خادم دارالافتاء العارفیہ ،سید سراواں

۱۷/جولائی ۲۰۲۱ء

Ad Image