Donate Now
غیر مسلم کو قربانی کے گوشت دینے کا حکم

غیر مسلم کو قربانی کے گوشت دینے کا حکم

سوال ۔ کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دینا جائز ہے یا نہیں ؟ 

مستفتی ۔ ضیاء المصطفی ، مکہ مسجد ، الہ آباد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

جواب۔ قربانی کا گوشت صدقاتِ نافلہ سے ہے؛ کیوں کہ وجوب اور اصل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہا دینے سے ہی ادا ہوچکی ہے۔

صدقات واجبہ یا نافلہ کا کافرِ حربی، ذمی یا مستامن پر خرچ کرنے کے سلسلے میں علما کے یہاں کچھ تفصیل ہے ،پہلے یہاں ان تفصیلات کا ذکر کیا جاتا ہے :

صاحب الدر علاء الدین حصکفی حنفی (۱۰۸۸ھ) نے اپنا مذہب اس طرح بیان کیا ہے:

(وَجَازَ) دَفْعُ (غَيْرِهَا وَغَيْرِ الْعُشْرِ) وَالْخَرَاجِ (إلَيْهِ) أَيْ الذِّمِّيِّ وَلَوْ وَاجِبًا كَنَذْرٍ وَكَفَّارَةٍ وَفِطْرَةٍ خِلَافًا لِلثَّانِي وَبِقَوْلِهِ يُفْتِي حَاوِي الْقُدْسِيِّ وَأَمَّا الْحَرْبِيُّ وَلَوْ مُسْتَأْمَنًا فَجَمِيعُ الصَّدَقَاتِ لَا تَجُوزُ لَهُ اتِّفَاقًا بَحْرٌ عَنْ الْغَايَةِ وَغَيْرِهَا، لَكِنْ جَزَمَ الزَّيْلَعِيُّ بِجَوَازِ التَّطَوُّعِ لَهُ. (الدر المختار، ۲/۳۸۵) 

زکات ،عشر اور خراج کے علاوہ دوسرے صدقات واجبہ جیسے نذر ، کفارہ ، فطرہ وغیرہ اور صدقاتِ نافلہ ذمی کو دینا جائز ہے۔ لیکن امام ابو یوسف کا مذہب امام ابو حنیفہ اور امام محمد سے الگ ہےاور امام ابو یوسف کے مذہب کو حاوی القدسی نے مفتی بہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ اکثر متون میں اس کے بر خلاف قول کو مفتی بہ قرار دیا گیا ہے۔

کافر حربی کو اگرچہ مستامن ہو کسی بھی طرح کے صدقات خواہ نافلہ ہو کہ واجبہ ،دینا باتفاق جائز نہیں ہے۔ لیکن امام زیلعی نے مستامن کو صدقات نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے۔

علامہ شمس الدين شربينی شافعی (۹۷۷ھ) کا قول بھی اسی سے قریب ہے، آپ لکھتے ہیں:

قَضِيَّةُ إطْلَاقِهِ الْكَافِرَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ الْحَرْبِيِّ وَغَيْرِهِ، وَهُوَ مَا فِي الْبَيَانِ عَنْ الصَّيْمَرِيِّ. وَالْأَوْجَهُ مَا قَالَهُ الْأَذْرَعِيُّ مِنْ أَنَّ هَذَا فِيمَنْ لَهُ عَهْدٌ أَوْ ذِمَّةٌ، أَوْ قَرَابَةٌ، أَوْ يُرْجَى إسْلَامُهُ، أَوْ كَانَ بِأَيْدِينَا بِأَسْرٍ وَنَحْوِهِ، فَإِنْ كَانَ حَرْبِيًّا لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مِمَّا ذُكِرَ فَلَا (مغنی المحتاج الی معرفۃ معانی الفاظ المنهاج، 4/ 195)

صاحب کتاب کا ہر قسم کے کافر کو صدقہ نہ دینے سے منع کرنا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان کے نزدیک کافر حربی اور غیر حربی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور بیان میں بھی صمیری کے حوالے سے یہی منقول ہے لیکن زیادہ راجح وہی ہے جو امام اذرعی نے کہا کہ صدقہ سے مطلق منع ان کا فروں کے لیے ہے جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہ ہو ، نہ ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو اور نہ کوئی قرابت یا رشتہ داری ہو ، نہ جن کے اسلام لانے کی امید ہو ، نہ وہ ہمارے قید میں ہوں۔ یعنی وہ خالص حربی ہو، مذکورہ بالا اوصاف میں سے کوئی وصف اس کے اندر نہ ہو تو انھیں کچھ نہیں دیا جائے گا نہ صدقہ واجبہ، نہ نافلہ۔ 

انقاق فی سبیل اللہ چوں کہ ثواب کا کام ہے اور کافرِ حربی پر خرچ کرنے سے ثواب نہیں ملے گا ،اس لیے ان فقہا نے ذمی کے لیے تو جائز قرار دیا ہے لیکن حربی کافر پر مال کے خرچ کرنے کو بے مقصدہونے کی وجہ سے خلاف مستحب قرار دیا ہے، نہ کہ حرام ، اسی بے مقصد اور خلاف مستحب عمل کو بعض لوگوں نے ناجائز ہونے سے تعبیر کیا ہے۔

لیکن متقدمین فقہا کی ایک جماعت نے تالیفِ قلب ، صلہ رحمی اور دعوتِ حق کے مد نظر کافر کو مطلقاً صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے، اس میں انھوں نے حربی اور ذمی کا فرق نہیں کیا ہے۔

مدون و ترجمان فقہ حنفی امام محمد بن حسن شیبانی (۱۸۹ھ) لکھتے ہیں:

لَا بَأْسَ بِأَنْ يَصِلَ الْمُسْلِمُ الْمُشْرِكَ قَرِيبًا كَانَ أَوْ بَعِيدًا ، مُحَارِبًا كَانَ أَوْ ذِمِّيًّا لِحَدِيثِ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ : صَلَّيْت الصُّبْحَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْت مَسَّ كَفٍّ بَيْنَ كَتِفِي ، فَالْتَفَتّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ : هَلْ أَنْتَ وَاهِبٌ لِي ابْنَةَ أُمِّ قِرْفَةَ ؟ قُلْت : نَعَمْ . فَوَهَبْتهَا لَهُ. فَبَعَثَ بِهَا إلَى خَالِهِ حَزَنَ بْنِ أَبِي وَهْبٍ ، وَهُوَ مُشْرِكٌ وَهِيَ مُشْرِكَةٌ . وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسَ مِائَةِ دِينَارٍ إلَى مَكَّةَ حِينَ قَحَطُوا ، وَأَمَرَ بِدَفْعِ ذَلِكَ إلَى أَبِي سُفْيَانَ بْنِ حَرْبٍ وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ لِيُفَرِّقَا عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ مَكَّةَ . فَقَبِلَ ذَلِكَ أَبُو سُفْيَانَ ، وَأَبَى صَفْوَانُ وَقَالَ : مَا يُرِيدُ مُحَمَّدٌ بِهَذَا إلَّا أَنْ يَخْدَعَ شُبَّانَنَا وَلِأَنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحْمُودٌ عِنْدَ كُلِّ عَاقِلٍ وَفِي كُلِّ دِينٍ ، وَالْإِهْدَاءَ إلَى الْغَيْرِ مِنْ مَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ . وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { بُعِثْت لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ فَعَرَفْنَا أَنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ جَمِيعًا . (السیر الكبیر، باب صلۃ المشرك، 1/ 96)

امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ مسلمان مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کرے چاہے و ہ مشرک قریب کا رہنے والا ہو یا دور کا ، حربی ہو یا کہ ذمی ہو جیساکہ حضرت سلمہ بن اکوع کی حدیث میں ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی ، پھر مجھے اپنے کاندھے پر کسی ہتھیلی کے مس ہونے کا احساس ہوا تو میں پلٹا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں ،پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم مجھے ام قرفہ کی بیٹی کے لیے کچھ ہدیہ دوگے میں نے عرض کیا جی ہاں ، اس کے بعد میں نے آپ کو اس کے لیے ہدیہ دیا آپ ﷺ نے ہدیہ لے کر اس کےمامو حزن بن ابی وہب کے پاس بھیجا جو کہ اس وقت مشرک تھا اور ام قرفہ کی بیٹی بھی اس وقت تک مشرک ہی تھی ۔ اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے مکہ میں قحط سالی کے وقت پانچ سو دینار بھیجا اور حکم دیا کہ وہ دینار ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کو دے دیا جائے تاکہ وہ دونوں مکہ کے فقراء کے درمیان اس دینار کو تقسیم کردیں ، ابو سفیان نے اسے قبول کر لیا اور صفوان نے انکار کردیا اور کہا: محمد (ﷺ)اس کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ اور کہا محمد ﷺ اس دینار کے ذریعہ ہمارے جوانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں ۔ 

 امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لیے بھی دینا جائز ہے کہ صلہ رحمی ہر مذہب میں اور ہر عقل مند انسان کے نزدیک ایک پسندیدہ عمل ہے ، نیز دوسرے کو ہدیہ دینا مکارم اخلاق میں سے ہے ، اور اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مکارم اخلاق کو پورا کرنے کے لیے بھیجا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ ہدیہ کا لین دین مسلم غیر مسلم دونوں کے حق میں یکساں پسندیدہ عمل ہے ۔ 

علامہ ابن قدامہ حنبلی نے بھی کافر کو صدقاتِ نافلہ دینا جائز قرار دیا ہے۔

وَكُلُّ مَنْ حُرِمَ صَدَقَةَ الْفَرْضِ مِنْ الْأَغْنِيَاءِ وَقَرَابَةِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْكَافِرِ وَغَيْرِهِمْ، يَجُوزُ دَفْعُ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ إلَيْهِمْ، وَلَهُمْ أَخْذُهَا، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى {وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا} [الإنسان: 8] . وَلَمْ يَكُنْ الْأَسِيرُ يَوْمَئِذٍ إلَّا كَافِرًا، وَعَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا -، قَالَتْ: «قَدِمْتُ عَلَى أُمِّي وَهِيَ مُشْرِكَةٌ، فَقُلْت: يَا رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إنَّ أُمِّي قَدِمَتْ عَلَيَّ وَهِيَ رَاغِبَةٌ، أَفَأَصِلُهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِي أُمَّك» .وَكَسَا عُمَرُ أَخًا لَهُ حُلَّةً كَانَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَعْطَاهُ إيَّاهَا. (المغنی لابن قدامۃ،2/ 492) 

ہر وہ مالدار ، قرابت دار ، کافر وغیرہ جنہیں صدقہ واجبہ سے محروم کیا گیا ہے انھیں صدقہ نافلہ دینا اور ان کا صدقہ نافلہ لینا جائز ہے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وہ یتیم ، مسکین ، اور قیدی کو اللہ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں ۔ اور اس وقت قیدی کافر ہی ہوا کرتا تھا ۔ حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : میری والدہ جس وقت مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری والدہ میرے پاس آئی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ،تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی ( جب کہ وہ مشرک تھا) کو نبی کریم ﷺ کا عطا کردہ جبہ پہنایا ۔ 

ان عباراتِ علما اور نصوصِ شرعیہ سے واضح ہوتا ہے کہ صدقات نافلہ ذمی کافر کو دینا جائز ہے اور دار الحرب میں مقیم ان کافروں کو بھی از راہِ مصلحت جیسے تالیف و دعوت کے طور پر دینا جائز ہے، ہاں! ایسے حربی کافر کو کسی بھی طرح کا تعاون کرنا ناجائز ہے جو اس وقت یا مستقبل قریب میں مسلمانوں سے جنگ پر آمادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [الممتحنہ: ۸،۹]

 اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں کے ساتھ احسان وسلوک کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے جنگ نہیں لڑتے، اور تمھیں تمہارے گھروں سے بے دخل نہیں کرتے ، بیشک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمھیں ان لوگوں سے حسنِ سلوک اور دوستی کرنے سے منع کرتا ہے ، جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی کی، تمھیں تمہارے گھروں سے نکال دیا اور تمہارے نکالنے پر لوگوں کی مدد بھی کی ، تو منع کرنے کے باوجود جنھوں نے ان سے دوستی کی وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں۔

ہندوستان کے کافر حربی نہیں ہیں اور نہ اس ملک کو دار الحرب کہا گیا ہے۔ آج کی تحقیق کے اعتبار سے تمام جمہوری ممالک کو دار الدعوۃ، دار المیثاق، دار المعاہدہ وغیرہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان کے باشندے معاہد کے حکم میں ہوں گے، کسی ایک فرد یا چند جماعت کی شرکشی کو حکومت کا دستور نہیں مانا جائے گا۔ 

 اس لیے قربانی کا گوشت جو کہ نفلی صدقہ کے درجہ میں ہے، غیر مسلم کو بھی دیا جاسکتا ہے۔ اور خاص طور سے اس غیر مسلم کو جو پڑوسی یا رشتہ دار بھی ہو تو اس کو گوشت دینے سے حسن سلوک کا ثواب ملنے کی بھی امید ہے۔

اور آج کے دور میں خاص طور سے غیر مسلموں کی وقتاً فوقتاً تالیف کرتے رہنا چاہیے،تاکہ ان کے دل نرم ہو اور مسلمانوں سے حسنِ ظن پیدا ہو ۔ واللہ اعلم بالصواب

مفتی محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری

خادم دارالافتاء العارفیہ ،سید سراواں

۱۷/جولائی ۲۰۲۱ء

Ad Image