مفتی صاحب قبلہ! سلام و رحمت
ہمارے یہاں کولکتا میں ختم سحری کے فوراً بعد اذان دے دی جاتی ہے اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھا، لیکن بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے کیوں کہ ختم سحری کا وقت احتیاطا طلوعِ فجرسے 5 منٹ پہلےمقرر کیا جاتا ہے،یہ بات بھی درست ہے کیوں کہ نماز کے جنتے ایپ ہیں اس میں فجر کا جو وقت دیا گیا ہے اس سے 5 منٹ پہلے اذان ہوجاتی ہے تو کیا اس وقت دی ہوئی اذانِ فجر ہوجائے گی؟ کسی کسی کلینڈر میں لکھا ہوتا ہے کہ سحری کا وقت ختم ہونے کے 8 منٹ بعد اذان دیں ،اس کا کیا فائدہ ہے؟
مستفتی: غلام ربانی، تلتلہ لائبریری، کولکتا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ختم سحر اور طلوعِ فجر کے درمیان پانچ منٹ کا فاصلہ احتیاط کے لیے رکھا جاتا ہے تاکہ آخر وقت تک سحری کھانے والوں کا روزہ فاسد نہ ہوجائے ۔ اسی طرح ایپ میں دیے ہوئے وقت سے کم از کم 3 منٹ بعد اذان دی جاتی ہے تاکہ فجر کی اذان کا وقت کے اندر ہونا متیقن ہوجائے۔، لہٰذا اگر ایپ یا دائمی نظام الاوقات میں طلوعِ فجر کا جو وقت دیا گیا ہے اس کے ہوتے ہی اذان دے دی جائے تو اذان صحیح ہوگئی، اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں، اگر چہ 3 /منٹ بعد دینا احتیاطاً اولی ہے۔ہاں اگر فجر کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اذان ہوجائے تو حنفیہ کے نزدیک وقت شروع ہونے کے بعد اس کو لوٹانا ضروری ہے، لیکن اگر دہرائے بغیر ہی نماز پڑھ لی گئی تو نماز کے بعد دوبارہ اذان نہیں دی جائے گی، اس کے سبب نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اذان اعلان کے لیے ہوتا ہے اور وقت سے پہلے اذان دینے سے انسان شبہ میں پڑ کر نماز ادا کرلے گا جو فساد کا سبب ہے، اسی لیے تمام فقہا کا یہی مذہب ہے کہ نماز کے وقت سے پہلے اذان دینا درست نہیں ہے ، اور اگر اذان دے دی جائے تو وقت کے اندر اعادہ کیا جائے گا لیکن خاص فجر میں امام ابویوسف اور ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ نصف لیل کے بعد اذان فجر دے دی جائے تو اذان ہوجائے گی؛کیوں کہ حرمین میں ائمہ کے زمانے تک یہی توارث رہا تھا، اور حنفیہ کی دلیل یہ ہے کہ حضور ﷺ نے حضرتِ بلال کو یہ حکم دیا تھا کہ وقت فجر سے پہلے اذان نہ دیا کرو؛ جیسا کہ علامہ ابو الحسن برہان الدین مرغینانی ( ٥٩٣ھ) نے لکھا ہے:
( ولا يؤذن لصلاة قبل دخول وقتها ، ويعاد في الوقت ) لأن الأذان للإعلام ، وقبل الوقت تجهيل ( وقال أبو يوسف ) وهو قول الشافعي رحمه الله : ( يجوز للفجر في النصف الأخير من الليل ) لتوارث أهل الحرمين . والحجة على الكل { قوله عليه الصلاة والسلام لبلال رضي الله عنه لا تؤذن حتى يستبين لك الفجر هكذا ومد يده عرضا . (ہدایہ: 1/45)
چنانچہ مناسب تو یہی ہے کہ طلوع فجر سے 5/ منٹ پہلے ختمِ سحری کا اعلان کردیا جائے اور طلوع فجر کے 3/ منٹ بعد اذان دی جائے اس طرح ختم سحری اور اذان فجر میں 8/ منٹ کا فرق ہوجائے گا، جیسا کہ خاص رمضان کے بعض کلینڈر میں درج ہوتا ہے۔اور اگر اذان طلوعِ فجر سے 5/ منٹ پہلے دی جاتی ہے تو حنفیہ کے مفتی بہ قول کے مطابق اعادہ ضروری ہے لیکن امام ابو یوسف اور ائمہ ثلاثہ کے نزدیک ضروری نہیں ہے ، البتہ نماز 8/ منٹ بعد ہی ادا کرنی چاہیے۔بہت ممکن ہے کہ بہت سارے لوگ جو سحری سے فارغ ہونے کے بعد مصلیٰ پر بیٹھ کر اذان کا انتظار کر رہے ہوتے ہوں گے ،ان کی نماز اس اذان کی وجہ سے خراب ہوجاتی ہوگی۔ العیاذ باللہ ، اللہ رؤف و رحیم جہالت کے سبب ہونے والی خطاؤں کو معاف فرمانے والا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
مفتی رحمت علی مصباحی قاردی چشتی
نزیل حال: جھانسی
28 /مارچ ۲۰۲۳ء
Rehan
Umda
Leave your comment