امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف جن صحابہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کرتے ہوئے جنگ جمل اور صفین میں خروج کیا ان کے بارے میں ان مشائخ کا یہی عقیدہ ہے کہ اس معاملے میں امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے اور ان کے مخالفین خطا پر تھے،البتہ جنگ جمل میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھ والے صحابہ کی خطا ،خطاء اجتہادی تھی جب کہ جنگ صفین جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑی گئی اس سلسلے میں اہل سنت کا اس بات پر تو اتفاق ہے کہ اس میں حضرت علی حق پر اور حضرت معاویہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام خطا پر تھے، لیکن خطا کی نوعیت کے سلسلے میں اہل سنت کے دو گروہ ہیں،ایک ان کی خطا کو بھی اجتہادی مانتا ہے جب کہ دوسرا ان کی خطا کو منکر کہتا ہے۔اس میں صفوی مشائخ کا رجحان بھی خطاے منکر کی طرف معلوم ہوتا ہے۔شارح عقائد صفویہ حضرت شاہ عزیز اللہ صفوی اس سلسلے میںرقم طراز ہیں:
’’میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی خلافت راشدہ حقّہ پورے تیس برس رہی جیسا حدیث صحیح میں ہے: الخِلَافَۃُ بَعْدِی ثَلَاثُونَ سَنَۃً ثُمَّ یَکُوْنُ مَلَکًا )یعنی خلافت میرے بعد تیس برس ہے پھر پادشاہی ہوگی۔ پس وہ خلافت حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر ختم ہوئی، جب آپ کا وصال ہوا، پانچ مہینے، تیس برس میں باقی تھے، حضرت امام حسن نے وہ زمانہ پورا کیا۔ پھر معاویہ بن ابی سفیان صحابی رسول اللہ صلی علیہ وسلم امیر ہوئے اور حضرت امام حسن نے امارت اور حکومت کو ترک فرما کر ان پر چھوڑ دیا اور بیعت اطاعت ان کے ہاتھ پر کی اور وہ حاکم اسلام اور امیر ملک اور صحابی عدول تھے۔وہ، حضرت عثمان کے خون کا قصاص چاہتے تھے اور ان کا گمان یہ تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر میں ان کے قاتل موجود ہیں اور وہ بدلہ نہیں لیتے۔ حضرت علی فرماتے تھے کہ خون کا مقدمہ نازک ہوتا ہے۔ تم قاتلوں کو ثابت کرو، میں حکم دوں اور حضرت عثمان بلوائے عام میں شہید ہوئے تھے، قاتلوں کا ثبوت بہت مشکل تھا۔ معاویہ نے حضرت علی کے ارشاد کو باور نہ کیا اور مقام صفین میں چند لڑائیاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے لڑے ، اور ان کو ہرگز یہ منصب حاصل نہ تھا کہ رسول ﷺ کے بھائی اور داماد اور محب اور محبوب اور خلیفہ برحق اور امام وقت سے لڑتے۔ پھر حضرت امام حسن نے انہیں فسادات قدیمہ پر نظر کرکے معاویہ سے صلح کرلی اور مسلمانوں کی جانیں بچائیں اور چوں کہ اصحاب کا ایک گروہ ان کی طرف بھی تھا، جدال اور قتال سے باز رہے، اور معاویہ کو کسی طرح لائق نہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے پارۂ جگر اور نورالعین اور ریحان اور یادگار کا مجبور ہونا اور معزول ہوکر گھر بیٹھنا اپنے سامنے اچھا سمجھتے! اور انہیں باتوں کے متعلق اور چند باتیں امیرمعاویہ کی روایات معتبرئہ اہل سنت سے ثابت ہیں۔لا محالہ اُن کی رائے نے خطا کی، جیسا اہل سنت کا مذہب ہے اور اسی سے امام نسائی (جامع صحیح نسائی) کا قول ان کے باب میں ہے کہ معاویہ کی فضیلت یہی بہت ہے کہ نجات پا جائیں ۔
بہتیرے علما اس پر ہیں کہ انہوں نے یہ باتیں جان کر نہیں کیں اور اس خطا کو خطا نہیں جانا اور علی الغفلت ان سے واقع ہوئی، اس کو خطائے اجتہادی کہتے ہیں اور اس خطا میں خاطی پر گناہ نہیں اور با وجود خطا، ثواب سے محروم نہ رکھا جائے گا اور ایسے خاطی کو مخطی کہتے ہیں۔
بعضے اہل سنت ادھر گئے ہیں کہ وہ خاطی تھے اور جان بوجھ کر یہ سب باتیں کیں۔ اس خطا میں ثواب نہیں اور اندیشۂ مواخذہ بھی ہے اور امید عفو بھی ہے۔ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
حق دراں جا بدستِ حیدر بود
جنگ با او خطاے منکر بود
[اس موقع پر حق مولیٰ علی کی جانب تھا اور ان سے جنگ خطاے منکر تھی۔]
میرا دل بھی اس بات میں اسی طرف ہے، کسی طرح ادھر نہیں آتا کہ وہ یہ سب کچھ کرتے رہے اور کچھ نہ سمجھے۔ اِلاَّ اس کے ساتھ ہی دل سے یقین رکھتا ہوں کہ سب معاف ہوجائے گا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ درگزر فرمائیں گے۔
خیال کرنے کا مقام ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک ہزار تین سو اٹھارہ [۱۳۱۸] برس گزر چکے ہیں اور قیامت تک -واللہ اعلم- کتنا زمانہ گزرے گا اور ہم لوگ ہزاروں گناہ صغیرہ اور کبیرہ کرتے ہیں اور امیدوار شفاعت ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خوش خبری دی ہے کہ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کہا ہے، جنتی ہوگا، اگرچہ زنا کیا ہو، اگرچہ چوری کی ہو، اگرچہ زنا کیا ہو، اگرچہ چوری کی ہو۔ پھر معاویہ رضی اللہ عنہ، کیا ہم لوگوں سے بھی کم ہیں اور کچھ حق نہیں رکھتے؟ پس ان کے باب میں اور جو اصحاب ان کی طرف تھے، ان سب کے حق میں چپ رہنا چاہیے۔‘‘
اس کے بعد تفصیلاً سکوت کے اسباب بیان کرنے کے بعد خلاصہ کیا ہے:
’’ خلاصہ یہ کہ اگر کوئی شخص معاویہ رضی اللہ عنہ کو خاطی کہے تو یہ کہنا کہاں سے کمی کرتا ہے؟ اس سے آگے بڑھنا اور دل کو ان کی طرف سے زیادہ خراب کرنا، اہل سنت کا مذہب نہیں ہے اور اگرچہ ان کی بغاوت، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ارشاد سے ثابت ہے۔ اِلاَّ اگرکوئی شخص باغی نہ کہے اور زبان کو روکے تو اولیٰ ہے۔ حضرت علی کا فرمانا اور ہے اور ہمارا کہنا اور ہے۔‘‘ (عقائد العزیز۔ص:۹۱ ت۱ ۹۴)
اس کے باوجود حضرت معاویہ صحابی عدول تھے اور خطا کی بنا پر ان کی صحابیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور ان کی جانب فسق کی نسبت نہیں کی جا سکتی ۔سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیا سے حضرت معاویہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
’’او مسلمان بودو از صحابہ بود۔‘‘ (فوائدالفواد،جلد: ۴، مجلس:۳۸، ص:۳۰۱)
معاویہ مسلمان تھے اور صحابہ میں سے تھے۔
دوسری طرف اہل بیت اطہار سے محبت عقیدۂ اہل سنت کا لازمی حصہ ہے اور یہی ناصبیت و خارجیت کا تریاق ہے۔امام طحاوی اپنے عقیدے میں فرماتے ہیں :
’’وَمَن أَحسَنَ القَولَ فِی أَصحَابِ رَسُولِ اللہِ ﷺ وَأَزوَاجِہ الطَّاہِرَاتِ مِن کُلِّ دَنسٍ وَذُرَّیَّاتِہ المُقَدَّسِینَ مِن کُلِّ رِجسٍ فَقَد بَرِ ئَ مِنَ النِّفَاقِ. ‘‘(عقیدہ طحاویہ۔عقیدہ نمبر :۱۲۵۔ص:۳۰)
جس نے رسول اکرم ﷺ کے اصحاب، پاکباز ازواج اور آپ ﷺ کی ہر رجس سے پاک آل کے بارے میں اچھا عقیدہ رکھا، وہ نفاق سے بری ہوا۔
Leave your comment