Donate Now
حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کی ولایت کا عقیدہ

حضرت امیرالمؤمنین علی کرم اللہ وجہہ کی ولایت کا عقیدہ

میں عقیدہ رکھتا ہوں کہ حضرت علی کے باب میں جو حدیثیں مروی ہیں ان سے بیشک ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو حضرت علی کے ساتھ نہایت محبت تھی۔ اور اگرچہ خلفاے ثلاثہ کو فضل نبوت حاصل تھا اور خلیفہ برحق تھے مگر آنحضرت ﷺ کی قرابت کی نظر سے کوئی حضرت علی کے مثل خلافت کا حق دار نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خودالتفات نہیں فرمایا اور  طالب نہیں ہوئے اورا ن کی خلافت کو قبول کیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان سے راضی رہے اور وہ سب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت حفظ مراتب کرتے رہے۔ 
حضرت مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس سرہ نے حضرت سید محمد گیسودراز کے ملفوظ سے مجمع السلوک میں لکھا ہے کہ خلافت دوقسم پر ہے: 
خلافت صغری یعنی امور ظاہر کی خلافت، یہ خلفائے ثلاثہ پر ختم ہوئی۔ اور خلافت کبریٰ یعنی اسرار باطن کی خلافت، یہ فقط حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذات پاک میں منحصر رہی۔ 
اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی تصنیفات میں لکھا ہے کہ اولیائے برحق کو مکاشفہ صحیحہ سے معلوم ہوا ہے کہ فیض ولایت حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روح پاک کوسونپا گیا اور جس نے پایا آپ کی روح مقدس سے پایا۔ جب آپ کا ظہور ہوا آپ کی ذات پاک سے پایا۔ آپ کے بعدوہ فیض حضرت امام حسن کو سونپا گیا۔ پھر حضرت امام حسین کو پھر حضرت امام زین العابدین کو اسی طرح گیارہویں امام تک سونپا گیا۔ پھر حضرت غوث پاک کو عطا ہوا اور آپ سید حسنی وحسینی ہیں ، جب امام مہدی ظاہر ہوں گے ان کو سونپا جائے گا۔ اوریہ بارہ امام ائمۂ طریقت ہیں ۔ 
پس میرا اعتقاد یہ ہے کہ اگرچہ خلفاے ثلاثہ نے جس طرح فیض نبوت آنحضرت ﷺ سے پایا ہے ویسے ہی فیض ولایت بھی پایا ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے: لَمْ یَفْضُلْکُمْ أبُوْبَکر بِکَثرَةِ صِیَام وَلَاصَلاةٍ وَاِنَّمَافَضْلَکُمْ بِشَیْءٍ وُقِرَفِی صَدْره۔ یعنی جو فضیلت ابوبکر کو تم سب پر حاصل ہے وہ اِس سے نہیں کہ اُس نے روزے بہت رکھے ہیں یا نماز بہت پڑھی ہے بلکہ وہ فضیلت اُس چیز سے ہے جو اُس کے سینے میں ڈالی گئی ہے۔(حافظ عراقی نے کہا:اس روایت کی اصل حدیث مرفوع میں نہیں ہے بلکہ یہ قول بکر ابن عبداللہ مزنی کا ہےجس کو حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں بیان کردیا ہے، میں (زبیدی) کہتا ہوں :’’ بکربن عبداللہ‘‘ثقہ ہیں ،ابن عباس اور ابن عمررضی اللہ عنہما سے سماعت ہے۔ اور ابن قیم نے اس کو ’’ابوبکر بن عیاش‘‘کی طرف منسوب کیا ہے، بہ لفظ: ما سبقكم أبو بكر بكثرة صوم ولا صلاة ولكن بشيء وقر في قلبه (تخريج أحاديث إحياء علوم الدين، ۱/۱۰۶،ح:۸۵))
اور اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان نے بھی فیض پایا ہے لیکن فیضِ نبوت کے پہنچانے میں اُن کو فضل ہے اور فیضِ ولایت کے پہنچانے میں حضرت علی کو اُن پر فضل ہے اور بیشک آپ سیدالاولیا ہیں اور میرا یہ عقیدہ اور اِس کا ثبوت مثل آفتاب روشن ہے۔
سمجھنا چاہیے کہ وہ خلافتِ راشدہ ٔحقہ، جس کا بندوبست خلفائے ثلاثہ کے وقت میں نہایت عمدہ طورپر سے رہا، جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر منتقل ہوئی۔ قضا وقدر سے وہ واقعات ظاہر ہوئے کہ آخر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انتظام ظاہر سے ہاتھ اٹھایا اور مسجد کوفہ میں مقیم ہوکر تعلیم باطن شروع فرمائی۔ اور مولانا عبدالعزیز نے لکھا ہے کہ مصلحتِ الٰہی نے آپ کو ظاہر سے باز رکھا کہ باطن کی طرف متوجہ ہوئے۔ اگر آپ اُن واقعات سے مجبور نہ ہوجاتے تو بندوبستِ ظاہر سے نجات نہ ملتی اور  آنحضرت ﷺ کا فیض باطن جو آپ کی ذات میں منحصر رہا تھا،  باقی نہ رہتا۔
 بالجملہ یہ فیض حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے امت نبوی کو ایسا پہنچاہے کہ خلفائے ثلاثہ سے اس قدر نہیں پہنچا اور جس جس خاندان کو جدا جدا اورخاندانوں سے واسطہ ہے ،وہ بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سلسلۂ عُلیہ سے ضرور متسلسل ہے اور فیض ولایت کی کثرت آپ ہی کی ذات سے ہے اور آپ کا یہ فیض قرناً بعد قرنٍ جاری ہے  اورجب تک دنیا ہے، رہے گا اور ابدال اور اوتاد اور نجباء اور نقبا او ر غوث اورقطب اوران سے اتر کر بہت لوگ ہمیشہ اس امت میں رہیں گے اورجس طرح ختم نبوت کا مرتبہ آنحضرت ﷺ کو دیا گیا، اسی طرح ختم خلافت اور فیض ولایت کا فضل حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو دیا گیا۔ 
اور مولانا عبدالعزیز نے لکھا ہے کہ چوں کہ خلفائے ثلاثہ کے بعد آنحضرت ﷺ کے ظاہر اور باطن کامدار اوران کے فیوض وبرکات کا انحصار حضرت علی کی ذات پاک پر رہا تھا اور ابن ملجم ملعون نے سب کو محو کیا، اس وجہ سے آپ نے اس کو أشقی الآخرین فرمایا۔ اورمیرے اعتقاد میں اِس سے الگ ہونا، آفتاب پوشی ہے۔ لراقمہ 

نور احمد بہ حقیقت متجلی ز علی ست
أنْتَ مِنِّی وَأنَا مِنْکَ ز آثار جلی ست

[احمد مجتبی ﷺ کا نور حقیقۃً مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ سے ظاہر ہوا، أنْتَ مِنِّی وَأنَا مِنْکَ(تم مجھ سے ہو اور میں تم سے) اس پر واضح دلیل ہے۔](صحيح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ،باب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (۴/۱۸۷۰، ح: ۲۴۰۴)صحيح البخاري،كتاب أصحاب النبي ﷺ،باب مناقب علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي أبي الحسن رضي الله عنه (۵/۱۸))
اور اس سب بیان سے یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلفائے ثلاثہ پر من کل الوجوہ فضل ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ فقرا کا سلسلہ آپ سے ملا ہوا ہے اورآپ سب کے مرشد ہیں ۔اس وجہ سے یہ لوگ آپ ہی کا دم بھرتے ہیں ۔ 
میرے مرشد پاک کا ارشاد ہے کہ خلفائے ثلاثہ کی فضیلت عقائد میں ہے، اب رہا حضرت جناب امیر کا ماننا اور سب کچھ آپ ہی کو جاننا، اس کی حقیقت یہ ہے – ہندی  ع

جا کی جا سو لگن ہے واہی وا کو رام

Ad Image