کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ: کیا دین اسلام میں اپنے شیخ کی قدم بوسی جائز ہے؟ سنت سے اس کا ثبوت ہےیا نہیں ؟ اس پر ملکِ ہندوستان کے علماے بریلی اور علماے دیوبند کی کیا رائے ہے ؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔
مستفتی: حسن ثاقب عثمانی۔ خانقاہ سعدیہ، خیرآباد شریف ، سیتاپور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب: قدم بوسی بالاتفاق سب کے نزدیک جائز اور درست ہے۔ اس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں۔ ایک مومن سے بد گمان ہونا اور دوسروں کو بد گمان کرنا دونوں حرام ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔
اسلام بڑوں کی تعظیم اور چھوٹوں پر شفقت کا حکم دیتا ہے۔ اور جو لوگ اس اخلاق سے رو گردانی کرتے ہیں انھیں سخت وعید سناتا ہے۔
سنن ابو داؤد میں ابن سرح (احمد بن عمرو) کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا۔(سنن ابو داؤد: 4/ 286 )
جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے۔
ترمذی شریف میں موجود حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا۔ (سنن ترمذی : 4/ 321 )
وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو نہ ہمارے چھوٹوں پر رحم کرے اور نہ ہمارے بڑوں کی تعظیم کرے۔
تعظیم و توقیر کی مختلف صورتیں ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف صورت میں پائی جاتی ہیں۔ لہذا، جن علاقوں میں جو صورت بطور تعظیم مقبول مانی جاتی ہیں ان علاقوں میں وہ صورت تعظیم ہی کی مانی جائے گی اور از روے شرع اس کی وہاں اجازت بھی ہوگی۔ مثلاً: کسی معزز شخصیت کی آمد پر کھڑا ہو جانا، آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا ، معانقہ کرنا وغیرہ عموما پوری دنیا میں طریق تعظیم کے طور پر رائج ہے۔ اسی طرح والدین، اساتذہ اور مشائخ کی دست بوسی اور بعض علاقوں میں قدم بوسی بھی بطور تعظیم رائج ہیں ۔ خصوصاً : ہند و پاک میں علما و مشائخ کے ساتھ یہ طریق تعظیم صدیوں سے رائج ہے۔ جس طرح عرب ممالک میں ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ دینا رائج ہے۔ مزید یہ کہ قدم بوسی کے حوالے سے احادیث/ بھی موجود ہیں، یعنی قدم بوسی سنت سے ثابت ہے۔
سنن ابو داؤد کی حدیث ہے: عَنْ جِدِّهَا، زَارِعٍ وَكَانَ فِي وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَجَعَلْنَا نَتَبَادَرُ مِنْ رَوَاحِلِنَا، فَنُقَبِّلُ يَدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلَهُ۔ (سنن ابو داؤد: 4/ 357 )
ام ابان بنت وازع اپنے دادا زارع جو وفد عبد قیس میں شامل تھے، سے روایت کرتی ہیں کہ انھوں نے کہا : جب ہم مدینہ آئے تو اپنی سواریوں سے اتر کر جلدی سے حضور ﷺ کی طرف بڑھے پھر ہم نے آپ علیہ السلام کی دست بوسی اور قدم بوسی کی۔
امام بخاری رحمہ اللہ ( ۲۵۶ھ) ادب المفرد میں باب تقبیل الرجل کے تحت ایک روایت نقل کرتے ہیں:
عن الوازع بن عامر رضي الله عنه قال: قَدِمْنَا فَقِيلَ ذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ فَأَخَذْنَا بِيَدَيْهِ ورجليه نقبلها۔ (الادب المفرد، ص: 542 )
وازع بن عامر کہتے ہیں کہ جب ہم مدینہ آئے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، تو ہم نے آپ علیہ السلام کی دست بوسی اور قدم بوسی کی۔
امام ترمذی نے حضرت صفوان بن عسال سے ایک روایت نقل فرمائی ہے جس میں ہے کہ دو یہودیوں کا نبی ﷺ کی بارگاہ میں آمد اور اخیر میں ان کا نبی علیہ السلام کی دست بوسی اور قدم بوسی کا ذکر کرتے ہیں، جس پر نبی کریم ﷺ انھیں منع نہیں کرتے ۔
فَقَبَّلُوا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ۔ (سنن ترمذی:5/ 77 ۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے) ۔ ان لوگوں نے حضور ﷺ کی دست بوسی اور قدم بوسی کی۔
شارح ترمذی شیخ ابو العلا محمد عبد الرحمن مبارک پوری (۱۳۵۳ھ) مذکورہ حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
الْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى جَوَازِ تَقْبِيلِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ۔ (تحفۃ الاحوذی:7/ 437)
حدیث دست بوسی اور قدم بوسی کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔
مفسر قرآن ابو جعفر محمد بن جریر طبری اپنی تفسیر جامع البیان میں حضرت سدی سے ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی ﷺ کے جلال اور انداز گفتگو دیکھ کر حضرت عمر قدم بوس ہو جاتے ہیں:
فقام إليه عمر فقبَّل رجله وقال: يا رسولَ الله، رضينا بالله ربًّا، وبك نبيًّا، وبالإسلام دينًا، وبالقرآن إمامًا، فاعف عنا عفا الله عنك! فلم يزل به حتى رَضِيَ۔ (تفسير طبری :11/ 103)
پھر حضرت عمر کھڑے ہوتے ہیں اور حضورﷺ کے قدم بوس ہو جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہ ! ہم اللہ کے رب ہونے ، آپ کے نبی ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں۔ لہذا، ہمیں معاف کر دیا جائے۔ حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے اس وقت تک قدم بوس رہے تب تک آپ علیہ السلام راضی نہ ہو گئے۔
اسے علامہ ابن کثیر (۷۷۴ھ) نے اپنی تفسیر (تفسير ابن كثير : 3/ 184) میں بھی نقل کیا ہے۔
سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا (۷۲۵ھ) کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد میں ہے:
’’بعد از نماز سعادت پائبوس حاصل شد‘‘۔(فوائد الفواد ، ج:۱- مجلس ہفتم، ص: ۱۳۔ ملک سراج الدین اینڈ سنز پبلشرز، بازار کشمیری، لاہور۔ ۱۹۶۶ء)
نماز کے بعد قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی۔
فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان (۱۳۴۰ھ) لکھتے ہیں:
’’دست و پائے اولیائے و علماء را بوسہ دادن زنہار ممنوع ھم نیست ، بلکہ ثابت و درست است‘‘ ( فتاوی رضویہ، ج: ۲۲، ص: ۳۱۸- رضا فاؤنڈیشن ، جامعہ نظامیہ رضویہ ، لاہور۔ ۲۰۰۲ء)
اولیا و علما کا ہاتھ پاؤں چومنا ہرگز ممنوع نہیں، بلکہ ثابت و درست ہے۔
در مختار میں امام حصکفی محمد بن علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمن حنفی (۱۰۸۸ھ) لکھتے ہیں:
طلب من عالم أو زاهد أن يدفع إليه قدمه ويمكنه من قدمه ليقبله أجابه۔(در مختار-ص:658)
کوئی شخص کسی عالم یا زاہد سے گزارش کرے کہ وہ اپنا قدم آگے بڑھا دے تاکہ بوسہ دے سکے تو اس عالم یا زاہد کو قدم بڑھا دینا چاہیے۔
فتاوی دار العلوم دیوبند آن لائن کے فتوی : ۲۱۱- ۱۷۶/بی -۰۳/۱۴۴۳ کے تحت سوال نمبر : 606646 پر ایک سوال و جواب موجود ہے جس میں صوف طور پر قدم بوسی کو جائز لکھا ہے۔
سوال: پیر،عالم،والدین کی قدم بوسی کرنا کیسا ہے ؟ اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان کرام حوالے کے ساتھ جواب عنایت کریں عین نوازش ہوگی ۔
جواب: دست بوسی اور قدم بوسی صرف ان لوگوں کی جائز ہے جو عالم باعمل نیک و صالح ہوں، یا عادل مسلمان بادشاہ ہو، یا کوئی دینی شرافت و بزرگی رکھتا ہو، ان کے علاوہ دوسروں کے لئے جائز نہیں۔
مفتی اعظم دار العلوم دیوبند مفتی محمود الحسن گنگوہی (۱۴۱۷ھ) اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں:
’’جو شخص واجب الاکرام ہو ، اس کی قدم بوسی کی اجازت ہے‘‘۔ (فتاوی محمودیہ۔ ج: ۱۹، ص: ۱۲۹)
اسی میں ہے:
’’والدین، اساتذہ، مشائخ کی قدم بوسی کی اجازت ہے‘‘۔( فتاوی محمودیہ۔ ج: ۱۹، ص: ۱۳۲)
لہذا، قدم بوسی بالاتفاق سب کے نزدیک جائز اور درست ہے۔ اس کے جواز میں کسی کا اختلاف نہیں۔ ایک مومن سے بد گمان ہونا اور دوسروں کو بد گمان کرنا دونوں حرام ہے، جس سے ہر مسلمان کو بچنا لازم ہے۔واللہ اعلم
کتبہ
آفتاب رشک مصباحی
دار الافتا عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی، یوپی۔
تاریخ: ۱۵/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح
محمد رحمت علی مصباحی چشتی قادری
دار الافتاء عارفیہ ، سید سراواں، کوشامبی، یوپی
۱۵ / اکتوبر ۲۰۲۳ء
Leave your comment