دہشت گردی دنیا کا وہ مرض ہے جس کے علاج کی تلاش وجستجو میں آج پوری دنیا سرگرداں ہے، مگر اس کی تلاش وجستجو آج تک پوری نہیں ہوسکی ہے۔ یہ وہ بھیانک مرض ہے جو پوری انسانیت کو اپنے زد میں لیے ہوئے ہے اورجس کے تعفن سے پوری دنیا بے قرار ومضطرب ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس مرض کے خلاف آوازیں وہ لوگ اٹھارہے ہیں جن کی زندگی اس کی نشر واشاعت میں صرف ہوگئی ہے۔ غریبوںاور دردمندوں کی لاشوں پر اپنے اقتدار کی بساط بچھانے والے آج غربت اور درمندی کے خاتمے کی بات کررہے ہیں، ظلم وجبر اور وحشت وبربریت کی ہوا چلانے والے دنیا کی مسیحائی کی بات کررہے ہیں۔ یہ ایک عبث خیال اور لاحاصل گفتگو ہے۔ اس مرض کا بس ایک ہی علاج ہے، وہ یہ کہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق دیا جائے۔ حقوق کی پاسداری کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ اور امن وشانتی کا قیام ممکن نہیں ہے۔ پیغمبر اعظم محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سب سے پہلے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انسانی حقوق ومساوات پر زور دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیوں سے دست وگریباں رہنے والے لوگ اپنے حقوق پاکر آن واحد میں ایک دوسرے کے لیے شیر وشکر بن گئے۔ اگر دنیا سے دہشت گردی اور ظلم وبربریت کا خاتمہ کرنا ہے تو محمد عربی ﷺ کی تعلیمات پر سختی سے عمل پیرا رہنا ہوگا۔ ان تمام خیالات کا اظہار خانقاہِ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں منعقدہ ’’میلاد النبی کانفرس بعنوان امن وشانتی کا پیغام انسانیت کے نام‘‘ میں نقیب الصوفیہ مفتی کتاب الدین رضوی نے کیا۔
مفتی صاحب نے مزید فرمایا: آج لوگ عمر کی دو تین دہائیاں گزارنے کے بعد انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، مگر پیغمبر اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شیر خواری کے زمانے ہی میں حقوق ومساوات کا اعلان فرمادیا تھا۔ رضاعی ماں حضرت دائی حلیمہ نے جب آپ کو ایک پستان سے دودھ پلانے کے بعد دوسراپستان پیش کیا تو آپ نے اپنا رخ پھیر لیا اور اس جانب اشارہ فرمایا کہ اس پر میرے رضاعی بھائی کا حق ہے۔ جو پیغمبر بچپن ہی سے لوگوں کے حقوق کی اس قدر رعایت کررہا ہے، اس کی ذات سے یہ کب ممکن ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی پامالی کرے۔
مفتی صاحب قبلہ سے پہلے خطیب الصوفیہ مولانا عارف اقبال مصباحی صاحب نے پیغمبر اسلام کے حوالے سے ایک بڑی پر مغز گفتگو فرمائی اور یہ واضح کیا کہ امن وشانتی، عدل وانصاف ، حقوق انسانی کی رعایت کا جو نمونہ پیغمبر اسلام کی ذات ہے اس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ الفضل ما شہدت بہ الاعداء ، حقیقی بلندی وہی ہے جس کی گواہی غیر بھی دیں۔ پیغمبر اسلام کی رفعت وبلندی کی گواہی دوسرے ادیان ومذاہب کے پیروکار بھی دے رہے ہیں۔ منشی پریم چند اور این کے سنگھ جیسے لوگ بھی پیغمبر اسلام کی رفعت وبلندی اور عظمت شان کے بیان میں رطب اللسان ہیں اور ان کی ذات کو پوری انسانیت کے نمونہ قرار دے رہے ہیں۔ مزید حیرت تو اس پر ہے کہ ان لوگوں نے پیغمبر اسلام کی رفعت وبلندی سے دنیا کو آشنا کرانے کے لیے مختلف کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔
جامعہ عارفیہ کے استاذ مولانا محمد ذکی ازہری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام نے حقوق انسانی کا لحاظ اس حد تک رکھا ہے کہ آپ فرماتے ہیں :جو کسی غیر مسلم کی حق تلفی کرے گا یا اسے اذیت وتکالیف کے مراحل سے گزارے گا تو قیامت کے دن میں اس غیر مسلم کی طرف سے اس مسلم کے خلاف گواہی دوں گا۔پیغمبر اسلام نے دوسرے مذاہب کے معبودوں کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
آج دنیا پر لازم ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ کرے اور اس سے معاشرے میں امن وشانتی اور اخوت ومحبت قائم کرنے کا سبق لے۔ آج کے اس عظیم الشان محفل کی ابتدا جامعہ عارفیہ کے استاد قاری کلیم اللہ صاحب کی تلاوت سے ہوئی ۔ جناب یاسر عرفات کی نعت کے بعد اویس رضا گجراتی متعلم جامعہ عارفیہ نے اپمے ساتھیوں کے ساتھ دف پر بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں اپنے مخصوص لہجے میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا ، جب کہ اس پروگرام کی نظامت مولانا مجیب الرحمٰن علیمی صاحب نے کی ۔اخیر میں صلواۃ و سلام اور حضور داعئی اسلام کی دعا پر اس پروگرام کا اختتام ہوا ۔ اس پروگرام میںاطراف و جوانب کے مسلمانوں کی سیکڑوں تعداد کے ساتھ کثیر مقدار میں غیرمسلم افراد بھی موجود تھے۔
Leave your comment