خانقاہ عارفیہ ، سیدسراواں میں ۱۲۵؍ واں عرس عارفی اپنی تقریبات ورسومات کے ساتھ اختتام پذیر
پریس ریلیز
16 ذی القعدۃ مطابق 25 مئی 2024 سے جامعہ عارفیہ و خانقاہ عارفیہ میں سالانہ دو روزہ عرس سلطان العارفین خواجہ شاہ عارف صفی رحمہ اللہ تعالیٰ شروع ہوا، جس میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور خانقاہوں سے معتقدین تشریف لائے۔ عرس کی تقریبات کا آغاز بعد نمازِ مغرب محفل ختم بخاری سے ہوا۔ درس بخاری سے قبل نعت و منقبت خوانی ہوئی اور اس کے بعد ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی صاحب کا ایک پر مغز اور مفصل و مدلل خطاب ہوا ۔ڈاکٹر صاحب نے امام بخاری کے جمع حدیث پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ڈاکٹر صاحب نے دوران گفتگو کہا کہ حدیث پر باضابطہ طور پر سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی وہ مؤطا امام مالک ہے لیکن جس کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ملی اور امت نے جس کو قبول کیا وہ صحیح بخاری ہے کیوں کہ امام بخاری کے ہاں روایت و درایت حدیث کے اصول اور تحقیق و تنقیح کا معیار سب سے اعلی ہے۔کہاجاتا ہے کہ مجھ کو ایک لاکھ صحیح احادیث یاد تھیں لیکن امام بخاری نے بخاری شریف میں صرف ان چار ہزار (حذف مکررات کے بعد) احادیث کو جمع کیا جو سند کے اعتبار سے سب اعلی و انسب تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید کہا کہ امام بخاری ہر حدیث کو لکھنے سے قبل غسل و استخارہ کرتے اس کے بعد حدیث کو تحریر فرماتے اس سے یہ پتہ چلا کہ امام بخاری مسلک عشق پر عمل پیرا تھے۔
ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کے بعد شہزادہ داعی اسلام حضرت مولانا حسن سعید صفوی صاحب نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا ۔حضرت نے درس حدیث کے دوران فرمایا کہ بخاری میں پہلی حدیث بھی غریب ہے اور آخری بھی ۔ نکتہ بعد الوقوع کے طور پر شارحین نے لکھا ہے کہ اس سے اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں کہاگیا ہے کہ اسلام غربت (اجنبیت) کی حالت میں شروع ہوا اور درس بخاری کے بعد محفل سماع کا آغاز ہوا اور بعد نمازِ عشاء زائرین و مریدین کے لیے لنگر عام کا اہتمام کیا گیا۔
26 مئی بروز اتوار صبح دس بجےچھوٹی درگاہ کا غسل ہوا اور ظہر کی نماز سے قبل زائرین کو کھانا کھلایا گیا۔ پھر بعد نمازِ ظہر محفل سماع کا آغاز ہوا اور عصر سے پہلے تک محفل سماع کا سلسلہ جاری رہا ۔محفلِ سماع کے بعد حضرت شاہ عارف صفی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پاک کا غسل ہوا اس کے بعد نمازِ عصر ادا کی گئی۔
بعد نمازِ عشاء جلسہ دستار بندی کا انعقاد کیا گیا، محفل کی ابتدا قرآن مجیدکی تلاوت سے ہوئی۔ تلاوت قرآن کے بعد نعت و منقبت خوانی ہوئی۔ اس کے بعد مولانا مفتی امام الدین مصباحی صاحب نے خطاب کیا ۔ مفتی صاحب نے دوران خطاب کہا کہ ہر شخص کا اپنا قبلہ ہوتا ہے یعنی جو جس چیز کا خواہاں ہوتا ہے وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص دنیا کا خواہش مند ہے تو اس کا قبلہ دنیا ہے اور اگر کوئی آخرت اور عرفان خداوندی کا خواہش مند ہے تو عرفان و تجلیات الٰہی ہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔
مفتی صاحب کی گفتگو کے بعد ناظم اجلاس ڈاکٹر مجیب الرحمٰن علیمی صاحب نے اجمیر معلی سے تشریف لائے حضرت مولاناسید کامران چشتی کو مدعو کیا۔ مولانا نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا تعلق خود ایک بڑی خانقاہ سے ہے لیکن میں نے تصوف و احسان اسی خانقاہ و ادارے سے سیکھا۔ مولانا نے مزید اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خانقاہ عارفیہ ہندوستان کی واحد خانقاہ ہے جو شریعت و طریقت کا سنگم ہے۔
مولانا کی گفتگو کے بعد شہزادہ داعی اسلام مولانا علی سعید صفوی صاحب نے داعی اسلام کے دست مبارک سے رسالہ صوفی ٹائمز کی جو امریکہ سے اولیا کونسل کی جانب سے شائع ہوتا ہے رونمائی کرائی۔
اس کے بعد ناظم اجلاس نے نقیب الصوفیہ مولانا مفتی کتاب الدین رضوی صاحب کو خطاب کے لیے مدعو کیا۔ حضرت مفتی صاحب نے نہایت ہی مفصل و مدلل،قلوب و اذہان کو تازگی اور فکر کو جلا بخشنے والا خطاب فرمایا ۔مفتی صاحب قبلہ نے اپنے خطاب کے دوران فرمایا کہ جو شخص اپنی زندگی پر کتاب اللہ کو نافذ نہیں کرتا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور جو شخص نافذ کر لیتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر زمین و آسمان سے نعمتوں ،برکتوں اور رحمتوں کا نزول فرماتا ہے۔ مفتی صاحب نے مزید کہا کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ دین کو قائم کرے اور دین اس کا قائم ہوتا ہےجو ترسیخ عقائد ،تصحیح اعمال اور تہذیب اخلاق کو اپنی زندگی کالازمی جز بنا لیتا ہے۔مفتی صاحب نے اپنی گفتگو کا اختتام شیخ عبد القادر جیلانی کے اس قول پر کیا کہ بندہ مومن کے ساتھ اللہ جو کرے اس پر خوش رہنا چاہیے اور ایک سالک و مومن کامل پر لازم ہے کہ ہمیشہ وہ کام کرے جس سے رب خوش ہو ۔
حضرت کی گفتگو کے بعد طلبہ کی دستار بندی کی گئی اور حضرت داعی اسلام نے تمام فارغین جامعہ کی گل پوشی فرمائی اور دعا کے ساتھ محفلِ دستار بندی اپنے اختتام کو پہنچی۔ خاص مہمانان کی فہرست میں شعیب میاں، صاحب سجادہ نشین خانقاہ بڑے مخدوم صاحب خیرآباد شریف ۔ منہاج الدین قادری مجیبی ،خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ بہار، سید نظام الدین چشتی گجرات ، مولانا سید کامران چشتی ، خادم درگاہ معلیٰ اجمیر شریف کے نام شامل ہیں ۔محفل دستار بندی کے بعد نمازِ فجر تک محفل سماع ہوئی اور قل کے بعد نمازِ فجر ادا کی گئی اور زائرین نے لنگر تناول فرما کر رخصت ہوئےاور یوں عرس عارفی نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
دستار حاصل کرنے والے طلبہ کا نام حسب ذیل ہے۔ (مفتی)اختصاص فی الفقہ (۱) محمد غلام غوث (۲) محمد شاہنواز (۳) محمد رئیس احمد ۔دستار فضیلت: (۱) محمد ریان فاروقی (۲) محمد فائق رضا (۳) محمد آصف (۴) نورالزماں۔ دستار عالمیت (۱) محمد فیضان (۲) محمد مدثر (۳) رشید احمد انصاری (۴) ریاض احمد انصاری (۵) محمد عیان کریمی (۶) محمد عمران (۷) طٰہٰ عارف (۸) محمد ایوب (۹) محمد دانش (۱۰) محمد حسنین (۱۱) عدنان چشتی (۱۲)محمد ارکان (۱۳)محمد دلشاد (۱۴) عادل قمر (۱۵) محمد آل نبی (۱۶) محفوظ انصاری (۱۷) محمد امروز ۔ دستار حفظ: (۱) محمد عطا سعیدی (۲) محمد ذکیٰ سعیدی (۳) محمد ابراہیم (۴) محمد سہیل خان (۵) محمد داؤد (۶) محمد عادل (۷) محمد مشرف (۸) محمد ذیشان (۹) محمد مجتبیٰ(سبحانی) (۱۰) محمد انس (۱۱) شیخ عمران ۔ دستار قرأت: (۱) محمد قدرت اللہ (۲) محمد لاریب (۳) محمد فاضل فاروقی (۴) سید شاکر احمد (۵) محمد رئیس القادری (۶) محمد ارباز علی (۷) محمد معراج (۸) شہاب الدین انصاری (۹) سید عدی علی (۱۰) محمد عادل (۱۱) محمد ذیشان (۱۲) محمد اویس (۱۳) محمدسعد رضا (۱۳) محمد شاہد (۱۴)محمد محسن (۱۴) ارشد رضا (۱۶) محمد عیان (۱۷) محمد رئیس (۱۸) تیج علی (۱۹) صاحبان خان (۲۰) محمدفردوس (۲۱) محمد کاظم چشتی (۲۲) سید محمد یمین اللہ قادری (۲۳) محمد ساجد (۲۴) محمد راشدالقادری۔
Leave your comment