صوفیہ کرام اور بزرگان دین سے تعلق اور نسبت رکھنے کا مطلب صرف ان کے اعراس میں شرکت اور ان کےمزارات پر چادر و گاگر کی رسم ادا کرنا نہیں ہے بلکہ ان کی محفلوں اور مجلسوں میں شریک ہو کر ان کی تعلیمات کو سننا اور اپنی زندگی میں اس کو عمل میں لانا ہے ۔مذکورہ خیالات کا اظہار درگاہ مخدوم شاہ مینا شاہ ، لکھنؤ میں منعقد تعلیمات صوفیہ کرام کانفرنس میں مفتی محمد کتاب الدین رضوی(نائب پرنسپل جامعہ عارفیہ ، سید سراواں) نے اپنے خصوصی خطاب میں کیا ۔ آپ نے مزید کہا کہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں کے لیے فرمان ہے کہ اے مطمئن نفس! ہر حال میں رب کے فیصلوں سے راضی ہوتے ہوئےاپنے رب کی طرف لو لگائے رہو، اور میرے بندوں میں شامل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جاؤ۔ آپ نے تعلیمات صوفیہ کی روشنی میں اس پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس مقصد کے لیے ہمیں پیدا کیااورانبیا کو مبعوث فرمایا ، انہیں مقاصد کے دریافت اور حصول کے لیے صلحا و اصفیا کی جماعت ہمارے مابین آتی رہی اور ہمارا تعلق رب سے مستحکم کرنے میں کوشاں رہی ۔ مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی کی مشہور و مقبول تالیف مجمع السلوک کے حوالے سے آپ نے فرمایا کہ بندہ جب کسی شیخ کامل کی تربیت کو قبول کرتے ہوئے اپنے اندر مندرجہ آٹھ شرطوں کو جمع کر لے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل سے اسے ایسا بنا دے گا جیسے ماں کے پیٹ میں تھا اور یہ اس سالک کے سلوک کی انتہا ہوگی اور یہی آٹھ شرطیں مجمع السلوک اور رسالہ مکیہ کا خلاصہ بھی ہیں ۔ وہ آٹھ شرطیں یہ ہیں : دوام الطہارۃ ، دوام الصوم ، دوام السکوت، دوام الخلوۃ ، دوام الذکر، دوام نفی الخواطر ، دوام ربط القلب بالشیخ ، دوام ترک الاعتراض فی کل ما یرد علیہ منہ تعالیٰ ۔ مفتی صاحب نے ان تمام شرطوں کی جامع اور مختصر وضاحت فرمائیں۔
کانفرنس کی ابتدا میں افتتاحی کلمات پیش کرنے کے لیےمترجم مجمع السلوک مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی(استاذ جامعہ عارفیہ )کو مدعو کیا گیا ۔ آپ نے فرمایا کہ مجمع السلوک و الفوائد تعلیمات مخدوم شاہ مینا کا مرقع اور مجموعہ ہے ۔ یہ کتاب پانچ صدیوں سے مخطوطے کی شکل میں محفوظ تھی جس کا ترجمہ پہلی بار خانقاہ عالیہ عارفیہ سے تحقیق و تخریج کے بعد شائعکیا اور عنقریب اس کے متن کی بھی اشاعت ہوگی ۔
مولانا عبید اللہ خان اعظمی (سابق ممبر پارلیمنٹ )کا آخری اور خصوصی بیان ہوا جس میں انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ صورت حال پر نہایت اہم تجزیہ پیش فرمایا ۔ آپ نے دوران گفتگو فرمایا کہ پیغمبر اعظم کاآپس میں سلام پھیلانے والا فرمان نفرت اور دہشت کی جڑوں کو کاٹنے والا ہے ؛ لیکن بد قسمتی سے ہم مسلمانوں کی داخلی اور خارجی دونوں صورت حال نا گفتہ بہ ہے ۔ ہم اپنے خود ساختہ اسلام کی پیروی میں لگے ہیں اور دشمن ہماری اس بد عملی کو اسلام کا نام دے کر ہماری شناخت مسخ کرنے میں مصروف ہے ۔ ضرورت اس بات کی کہ ہم اللہ رب العزت کے پسندیدہ دین ، دین اسلام کی رسی کو مظبوطی سے تھام لیں اور اپنے وجود سے اس کی خوشبو کی دنیامیں پھیلانے کی کوشش کریں ۔ ہم ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں جینے والے مسلمان ہیں جن کے لیے خواجہ غریب نواز چشتی اجمیری رحمہ اللہ کا کردار ہی نمونہ عمل ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ملنے والوں کو امن و سلامتی کی ضمانت دیں اور اس کے لیے پیغمبر اسلام کا وہی فارمولہ آزمودہ اور لائق عمل ہے کہ ہم بغیر مسلک ومشرب معلوم کیے آپس میں سلام کو عام کریں ۔
اس پروگرام میں عصر حاضر کےمعروف و مقبول صوفی داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی ، سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ عارفیہ ، سید سراواںکی مذہبی ، دعوتی اور علمی خدمات بالخصوص مجمع السلوک کے اردو ترجمے کی اشاعت کے اعتراف میں حضرت مخدوم شاہ مینا شاہ ایوارڈ تفویض کیا گیا ۔
واضح رہے کہ تعلیمات صوفیہ کانفرنس پیر زادہ شیخ راشد علی مینائی (متولی و سجادہ نشیں درگاہ حضرت مخدوم شاہ مینا شاہ ) کی نگرانی میں انجام پایا ۔ اس کانفرنس کی صدارت حضرت سید شاہ آصف علی میاں(سجادہ نشیں مخدوم شیخ سارنگ مجھگواں شریف )نے فرمائی جب کہ پیرزادہ رئیس علی مینائی نے سرپرستی کے فرائض انجام دیے ۔ اس کانفرنس میں متعدد درگاہوں کے سجادگان ، متولیان اور متوسلین شریک رہے ۔ خصوصاً ڈاکٹر نجم الحسن عثمانی عرف شعیب میاں(سجادہ نشیں درگاہ حضرت مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی (بڑے مخدوم ) خیرآباد ،سیتاپور ) درگاہ حضرت مخدوم شاہ صفی ، صفی پور سے شاہ افضال محمد فاروقی نے شرکت فرمائی جب کہ حاجی سید واثق وارثی، سید معین علوی اور سید شعیب میاں بقائی بھی کانفرنس میں شریک رہے۔
Leave your comment