اللہ کا ولی اور دوست وہ ہے کہ اس کی صحبت میں بیٹھنے یا اسے دیکھنے کے بعد اللہ کی یاد آ جائے، وہ اللہ کی تجلیات کا ایسا مظہر ہو کہ اس کی ذات کے واسطہ سے انسان اللہ کی رضا اور اس کے قرب کے مقام تک پہنچ جائے؛ اسی لیے کسی کو دل دینے سے پہلے اس کی صحبت میں جاؤ اور اس کی خلوت وجلوت کو دیکھو؛ اگر اس کی صحبت میں گناہوں پر ندامت اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حضوری کی توفیق ملتی ہے تو اس کے در کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ مذکورہ باتوں کا اظہار خطیب الصوفیہ مولانا عارف اقبال مصباحی نے خانقاہ عارفیہ، سید سراواں میں منعقد غوث پاک اور خواجہ نظام الدین اولیاکے عرس کی تقریب میں کیا۔ عرس کی تمام تر تقریبات شاہ صفی میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام و انصرام ہوتا ہے۔
اس سے قبل حضرت مولانا مقصود احمد سعیدی نے اللہ کے بندوں سے محبت رکھنےاور ان کی صحبت و معیت کی اہمیت و فضیلت کے حوالے سے اہم باتیں بیان فرمائیں۔ آپ نے کہا کہ ہمیں ایسوں کے ساتھ اپنی زندگی گزارنی چاہیے جن کا اچھا اثر ہماری شخصیت اور ہمارے اعمال پر مرتب ہو، ساتھ ہی ان کی معیت کا فائدہ ہمیں آخرت میں بھی نصیب ہو۔
عرس کی تقریبات دو دنوں تک جاری رہیں۔ پہلے دن عشا بعد سے فجر تک مجلس وعظ و نصیحت اور محفل سماع کا پروگرام اپنی سابقہ روایت کے مطابق جاری رہا۔ مجلس کی ابتدا جامعہ عارفیہ کے استاذ قاری سرفراز سعید کی تلاوت سے ہوئی۔ اس کے بعد جامعہ کے طالب علم محمد مطلوب ظفر نے بارگاہ رسالت میں نعتیہ اشعار پیش کیے۔ اس کےبعد جامعہ عارفیہ کے طلبہ کی ٹیم نے حضور غوث پاک اور نظام الدین اولیا کی بارگاہ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
دوسرے دن بعد نماز ظہرحسب روایت ’’درس عقیدۂ اہل سنت‘‘ کی خصوصی محفل کا انعقاد ہوا، جس میں آنے والے زائرین اور علما و طلبہ نے شرکت کی۔ نقیب الصوفیہ مفتی محمد کتاب الدین رضوی نے اللہ کی مشیت اور ارادے کے تعلق سے فلسفہ اور تصوف کے علمی و عارفانہ نکات پر مشتمل روح پرور گفتگو کی۔ انہوں نے فرمایا کہ قدیم فلاسفہ خدا کو فاعل مجبور مانتے ہیں، یعنی خدا جو کچھ کرتا ہے اس میں وہ مجبور ہوتا ہے، جس طرح سورج اپنی روشنی کی تقسیم میں مجبور ہے۔ مسلم علما میں معتزلہ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اللہ نے بندوں کو پیدا کردیا اور ان کو اس کائنات میں تصرف کا کلی اختیار دے دیا۔ اب اس کائنات میں بندے جو کچھ کرتے ہیں اس میں وہ کلی آزاد ہیں۔ اور خدا چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے خدا کی صحیح عظمت کا ادراک و اعتراف ہی نہیں کیا۔ اہل سنت کا معتدل عقیدہ یہ ہے کہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے اور اس ملکیت میں اس کے ارادے کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ ہاں! بندوں کو کسب کا حق ہے۔ اب اگر وہ برائی کا کسب کریں گے تو اس کا عذاب ملےگا اور اچھائی کا کسب کریں گے تو اس پر ثواب ملےگا۔
مفتی صاحب نے بتایا کہ عقیدہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم اس کی باریکیوں میں لگے رہیں بلکہ عقیدہ عمل کے لیے ہے۔ ہمیں اگر خوش عقیدہ ہونے کا دعوی ہے تو اپنے حسن عمل سے اس کا ثبوت بھی دینا ہوگا۔ عمل و کردار کی پستی کے ساتھ خوش عقیدگی کا دعویٰ ایک بے حقیقت دعویٰ ہے۔
اس درس میں بڑی تعداد میں علما بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج کے مسلمانوں کا سخت المیہ ہے کہ انھیں ان عقائد کے بارے میں بھی علم نہیں ہے جن پر ایمان رکھنا ہر مسلم کے لیے نہایت ضروری ہے۔ عوام تو عوام کثیر اہل علم بھی ان سے صحیح طور سے واقف نہیں ہوتے، جس کے نتیجے میں فروعی چیزوں کو اہل سنت کا عقیدہ بنا کر دوسروں پر طعن وتشنیع کا ایک لامحدود سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے نازک ماحول میں اعراس کے موقع پر اس طرح کے درس کا انعقاد کرنا یقیناً خانقاہِ عارفیہ کا بڑا کارنامہ ہے۔
اخیر میں صاحب سجادہ خانقاہ عارفیہ داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی کی دعاؤں پر محفل کا اختتام ہوا۔ تقریبات عرس کےشرکا میں سید علیم اشرف جائسی، محترم نوشاد عالم چشتی، سید لاریب علوی، سید نوازش محمد فاروقی صفوی، سید محبوب اللہ بقائی، سید نیاز میاں، سید محمود میاں، شوکت چشتی کے نام بطور خاص شامل ہیں۔
Leave your comment