Donate Now
تفہیم جہاد-اسلامی فلسفۂ جنگ کا حقیقی بیانیہ

تفہیم جہاد-اسلامی فلسفۂ جنگ کا حقیقی بیانیہ

صاحب کتاب:
 ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی مغربی چمپارن (ضلع بتیا) شمالی بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر موصوف ایک معتدل فکر کے حامل روشن خیال اسلامی اسکالر اور مصنف ہیں۔ موصوف نے اہل سنت کی معروف دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ سے فضیلت کی سند حاصل کی ہے، جب کہ معروف قومی دانش گاہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے تقابل ادیان میں ایم اے اور پھر اسلامک اسٹڈیز سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ بروقت خانقاہ عارفیہ، سید سراواں میں مقیم اور وہاں ’’جامعہ عارفیہ‘‘ اور ’’شاہ صفی اکیڈمی‘‘ کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں۔ موصوف ایک زمانے تک ماہ نامہ ’’جام نور‘‘ دہلی کی ادارت میں بھی شامل رہے ہیں اور فی الحال اپنے چند احباب کے ساتھ مل کر تصوف پر ایک علمی، تحقیقی اور دعوتی مجلہ ’’الاحسان‘‘ کی ادارت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹرصاحب کو زَمانۂ طالب علمی سے ہی تحقیق وتصنیف کا ذوق رہا ہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات پر سیکڑوں تحقیقی مقالات ومضامین وتبصرے اورتجزیے لکھے ہیں، جو ملک و بیرون ملک کے مختلف رسائل وجرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں اپنے مقالات پیش کرچکےہیں۔ روایتی فکر سے الگ ہٹ کر عصری تقاضوں کے مطابق موضوعات کا انتخاب کرنا اور ان پر قلم اٹھانا ڈاکٹرصاحب کی سرشت میں شامل ہے، جس کی وجہ سے وہ نئے موضوعات پر غیر جانب دارانہ تحقیق وتنقید کے حوالے سے اپنی منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ موصوف دینی، سماجی اور عرفانی موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ ان کی کچھ اہم تصانیف میں:
◾جدید ذرائع ابلاغ سے رویت ہلال کا ثبوت، ۲۰۱۸ء ◾مسئلۂ تکفیر و متکلمین، ۲۰۲۰ء ث الموسیقی فی الاسلام ، ۲۰۰۳ء ◾طلاق ثلاثہ-علمی تحقیق وعصری تعبیر (غیر مطبوعہ)◾شیخ سعد خیرآبادی اور فقہ وتصوف کے فروغ میں ان کی خدمات (پی ایچ ڈی کا مقالہ، غیرمطبوعہ) شامل ہیں۔ زیر نظر تصنیف ’’تفہیم جہاد‘‘بھی اُن کےاسی اعلیٰ معیار تحقیق اور معتدل طرز فکر کاشاہ کار ہے۔ 
تعارف کتاب:

 ’’تفہیم جہاد‘‘دو سو صفحات پر مشتمل ایک طویل مطالعہ وتفکر اور تحقیق وتنقید کا نچوڑ ہے، جس میں علمی وفکری اورتحقیقی وتنقیدی اُسلوب کے سہارے دو-دوچارکی طرح باتیں کہنے کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے۔ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو۳؍ مارچ ۱۹۲۴ء کو کمال اتاترک (ف:۱۹۳۸ء) کے ذریعے جب عثمانی خلافت کا خاتمہ ہوا تو ایک طرف عالم اسلام میں تہلکہ مچ گیا اور دوسری طرف اہل نظر کے اوسان خطا ہوگئے، مسلم ذہن یاسیت کا شکار ہو اُٹھا، تعمیر نو کی فکر جاگی اور اِس بیچ ردّ عمل کی نفسیات کے تحت مسلم دماغوں نے مسلمانوں کی سیاسی بالادستی اور دین کی سیاسی تعبیر وتشریح کا کام شروع کردیا۔ نیزاُسی عہد میں اشتراکیت، سرمایہ داریت اور جمہوریت جیسے جدید مغربی نظریات دنیا میں چھاتے چلے جارہے تھے، یہاں تک کہ اہل مشرق اور عالم عرب کے لیے بھی اس میں انتہائی درجے کی کشش محسوس ہورہی تھی۔ یہ نظریات نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ تہذیبی و ثقافتی اور معاشی وتمدنی سطح پر بھی اسلام کے سامنے چیلنج بن کر کھڑے ہوگئے۔
اِس نئے چیلنج کے جواب کے لیے عالمی سطح پر جو شخصیات سامنے آئیں اُن میں دو نام بطور خاص قابل ذکر ہیں: ہندوستان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی (۱۹۰۳- ۱۹۷۹ء) اور عالم عرب میں سید قطب مصری (۱۹۰۶-۱۹۶۶ء)۔ یہ دونوں شخصیتیں ہم عصر وہم خیال، ادیب ومفکر اور جدید عہد میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کے نظریے کے بنیاد گذار ٹھہریں۔ نیز اِن دونوں شخصیتوں نے جمہوری، اشتراکی اور سرمایہ دارانہ نظام کے بالمقابل اسلام کو ایک جامع نظام حیات کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس کے لیے انھوں نے اسلام کی جہادی فکر کی نئی تشکیل کی اور عالمگیرسیاسی انقلاب کا نظریہ پیش کیا، جو اُن کی نظر میں ’’احیاے دین‘‘ کا کام تھا۔
لیکن مولانا مودودی نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’الجہاد فی الاسلام‘‘میں جس جہادی فکر کو پیش کیا وہ نہ صرف تشدد آمیز تھا بلکہ دنیا کو اِسلام کے خلاف ورغلانے کے مترادف تھا۔ مولانا یحیٰ نعمانی کے بقول: ’’جہاد کی یہ تعبیر اور اِسلامی احکام کی یہ تشریح کہ مسلمانوں کو مشرق ومغرب کے ہر کالے گورے غیر مسلم ملک پر، چاہے وہ جنگجو ہو یا صلح کرنا چاہے، جنگ مسلط کرنے کا حکم ہے، یہ اسلام دشمن لابیوں کی خدمت انجام دینا ہے کہ وہ مسلمانوں کی دشمنی پر ساری دنیا کو متحد کریں۔‘‘ بعینہ سید قطب مصری کی سیاسی فکر میں ایسی شدت اور برہمی پائی جاتی ہے کہ بقول علامہ یوسف قرضاوی: دنیا کے وہ تمام مسلمان بھی اُن کی نظر میں کفر وجہالت کی زندگی بسر کر رہے ہیں جو اُن کی جدید سیاسی فکر کے سانچے میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ موجودہ مسلمانوں کے سلسلے میں سید قطب کا یہ جارح نظریہ ’’معالم فی الطریق‘‘، ’’فی ظلال القرآن‘‘ اور ’’العدا لۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام‘‘ جیسی کتابوں میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
اِن دونوں جہادی مفاہیم کا نتیجہ کتنا بھیانک نکلا اِس تعلق سے مولانا وحید الدین رقم طراز ہیں: ’’ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء سے پہلےاور ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے مختلف مقامات پر اسلام کے نام سے جو بھیانک تشدد ہوا یا ہو رہا ہے، وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر انہی دونوں نام نہاد انقلابی تحریکوں [جماعت اسلامی اور اخوان المسلمین] کا نتیجہ ہے۔‘‘ (امن عالم، ص: ۹۷) اور بقول مصنف: ’’برصغیر ہند وپاک میں مولانا مودودی کے بعد مولانا وحید الدین خان اور پھر جناب جاوید احمد غامدی نے اِس مورچے کو سنبھالا اور جہاد کے بدلے ہوئے مفہوم کو صحیح سمت دینے کی کوشش کی، مگر اَفسوس کہ ان کی توضیح بھی جدید ذہن کی تفہیم جہاد کے حوالے سے ہنوز نامکمل ہے، بلکہ ان کی بعض تشریحات ایسی ہیں جن سے معترضین کی باتوں کی مزید توثیق ہوتی ہے۔‘‘ (تفہیم جہاد، ص: ۱۶۸) چناں چہ ’’تفہیم جہاد‘‘ کے ذریعے اُنھیں ناقص ونامکمل تشریحات وتفہیمات کومکمل وتام کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ کتاب کے’’پیش لفظ‘‘ میں خسروفاؤنڈیشن کے کنویر ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن صاحب نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے:’’ ڈاکٹر ذیشان مصباحی صاحب نے دراصل جہاد کی اُسی گتھی کو سلجھانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے، تاکہ مولانا مودودی اور سید قطب یا اِس طرح کے وہ (مولانا وحید الدین خاں و جاوید احمد غامدی) تمام اسکالرس جنھوں نے لفظ جہاد کی تعبیر و تشریح تشدد کے لیے کی ہے، اس کو ایکسپوز کیا جا سکے اور قرآن کے نظریۂ جہاد و امن اور فلسفۂ جنگ و صلح کو قرآن کے صحیح سیاق وسباق اور سیرت رسول کی روشنی میں سامنے لایا جا سکے، تاکہ مستقبل میں جہاد کے نام پر تشدد پسند تنظیمیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اس پاکیزہ فلسفے کا غلط استعمال نہ کرسکیں اور ملک وبیرون ملک میں بسنے والےعوام وخواص جہاد کے لفظ سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اس کے صحیح معنی اور مفہوم سے آگاہی حاصل کرسکیں۔‘‘
’’تفہیم جہاد‘‘ میں جو باتیں زیربحث آئی ہیں اُنھیں ’’حاصل مطالعہ‘‘ کے طور پر مصنف نے لکھا ہے کہ:
۱۔ یوں تو جہاد-اچھی کوشش-سب پر ہر وقت لازم ہے، مگر اِسلام میں جہاد بمعنی جنگ وقتال کوئی ایسا پرپیچ فلسفہ نہیں جو عقل واخلاق کے خلاف ہو، یا موجودہ عالمی نظام کے تناظر میں اس کو سمجھنا مشکل ہو۔
۲۔ اسلام میں حرب وضرب اور جنگ وجدل کے جواز کی وہی بنیاد ہے جسے کوئی بھی امن پسند صاحبِ فکرانسان وجہِ جنگ بتاسکتا ہے۔ اسلام کی جنگی بنیادیں دراصل آفاقی سچائیاں ہیں، جن کو کوئی بھی سنجیدہ انسان رد نہیں کرسکتا۔
۳۔ اسلام میں جنگ کا جواز محض اضطراری حالت میں فتنہ وفساداور ظلم وجبر کے خاتمے اور امن وامان اور آزادی فکرو ضمیر کے قیام کے لیے ہےاور یہ ایک ایسی معقول اور فطری بات ہے جس میں کوئی بھی باشعور اِنسان شبہہ نہیں کرسکتا۔ 
۴۔ اسلام بہرصورت امن عامہ اور حریت عامہ کا داعی اور خوف ودہشت اور ظلم وجبر کے خلاف ہے۔ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کا متقاضی ہے جو خوف اور بھوک سے پاک ہو۔ (قریش: ۴) البتہ! ان مقاصد کے لیے برپا کی جانے والی جنگ میں وہ رضائے الٰہی کی طلب کو بھی ضروری سمجھتا ہے۔ اس کے بغیر کی جانے والی ہر کوشش اسلام کی نظر میں بے سود ہے۔‘‘(تفہیم جہاد، ص:۱۲)
منہج مباحث:

 مصنف موصوف نے ’’تفہیم جہاد‘‘ کے اندر اپنا مطالعہ معروضی نہج پر رکھا ہے۔ قرآن و سنت، اجماع وقیاس اور فقہ ومقاصد شرع کے اصولوں سے استدلال کیا ہے۔ علماے اسلام کے گراں قدر تفسیری وفقہی ذخیرے کے ساتھ ہی جہاد پر لکھی گئی قدیم وجدید کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نےکوشش کی ہے کہ آیات واحادیث کو سیاق وسباق سے سمجھا جائے، اسلام کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اجاگر کیا جائے اور علماے سلف کی ان آرا کو ترجیح دی جائے جو مقاصد دین، محاسن اسلام اور مطالب عصر سے ہم آہنگ ہوں۔ اس سفر میں انہوں نے قدیم وجدید بہت سے اہل علم سے استفادہ کیا اور ان میں سے بعض سے ادب واحترام کے ساتھ اختلاف بھی کیا ہے۔ پھر وہ جس نتیجے تک پہنچے ہیں وہ مطالبات دین ودنیا سے یکسر ہم آہنگ ہے۔ اس نتیجے کی روشنی میں واقعی اسلام دین امن وسلام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور خدا کے اس ابدی پیغام میں عامۃ الناس کے لیے ایک کشش اور جستجو محسوس ہوتی ہے۔
اس کتاب کے اندر سب سے پہلے مصنف نے نہایت سادہ اور عام فہم اندازہ میں جہاد کا حقیقی مفہوم پیش کیا ہے اور اس کے مختلف اقسام اور گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔ ساتھ ہی ان اسباب کا تفصیلی جائزہ لیا ہے جن کی وجہ سے جہاد اور اسلام کے سیاسی نظام کے تعلق سے عالم گیر سطح پر غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔  اس کے بعد اسلام کا مختصراور جامع تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کس طرح دین اسلام، امن وامان اور محبت وانسانیت کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے بعد ان احوال کا درست تجزیہ کیا ہے، جن کے پیش نظر پیغمبر اسلام ﷺ پر جنگ مسلط ہوئی، مگراس کے باوجود آپ نے ہمیشہ امن، صلح، مصالحت اور عفو ودرگذر کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔
اس کے بعد کتاب کی مرکزی فکر کے طور پر اسلام میں جنگ کی حقیقی علت وسبب کیا ہے؟ اس نقطے کو واضح کیا ہے۔ اس کے تحت لکھا ہےکہ اسلام میں صرف ظلم وجبر کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہے، جسے پوری دنیا کا قانون درست تسلیم کرتا ہے۔ پھر اس پر داخلی اور خارجی جہت سے پیدا ہونے والے گیارہ ممکنہ سوالات کا تفصیلی تحلیل وتجزیہ بھی کیا ہے۔ وہ سوالات انتہائی اہم ہیں، مثلاً:
پہلا سوال- کیا اسلام کفر کے خلاف جنگ چاہتا ہے؟
دوسرا سوال- کیا اسلام شوکت کفر کے خلاف جنگ چاہتا ہے؟
تیسرا سوال- فتنہ اور ازالۂ فتنہ کی حقیقت کیا ہے؟
چوتھا سوال- کیا آیت سیف، آیات امن کے لیے ناسخ ہے؟
پانچواںسوال- اللہ کے لیے کل دین ہونے کے کیا معنی ہیں؟
چھٹا سوال- کیا جہاد مشرکین عرب پر آسمانی عذاب تھا؟
ساتواںسوال- کیا مشرکین عرب کے لیے دو ہی راستے تھے، اسلام یا تلوار؟
آٹھواں سوال- کیا تمام مشرکین کے خلاف جنگ ضروری ہے؟
نواں سوال- کیا لوگوں کو مسلمان بنانے کے لیے جنگ جائز ہے؟
دسواںسوال- صحابہ نے دیگر اقوام سے جنگ کیوں کی؟
گیارہواںسوال- کیا مصالحت صرف بصورت مجبوری جائز ہے؟
اس کے بعد جنگ کے تعلق سے اسلامی شرائط وآداب کو بھی تفصیل سے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ عام آدمی ہتھیار اٹھا لے اور پھر عام شہریوں پر وار بھی کرنے لگے، جیسا کہ بہت سے مسلم وغیر مسلم ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
کتاب کے آخر میں جامعہ ازہر کے سابق استاذ اور جمہوریہ مصر کے موجودہ صدر عبد الفتاح سیسی کے مذہبی مشیرعلامہ ڈاکٹر اسامہ ازہری کی معروف کتاب ’’الحق المبین‘‘ کی تلخیص مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی کے قلم سے شامل ہے۔ واضح رہے کہ دہشت گردوں کے جہادی بیانیہ کے خلاف عالمی سطح پر لکھی جانے والی مشہور ترین کتابوں میں یہ سرفہرست ہے۔ اس تلخیص سے القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے قرآن وحدیث سے غلط استدلال کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
یہاں اِس حقیقت کا انکشاف بھی لازم ہے کہ مصنف بذات خود عہد طالب علمی سے ہی جہاد کے تعلق سے متجسس رہے اور اپنے سوالات کے تشفی بخش جواب پانے کے لیے مطالعہ، تفکر اور تبادلۂ خیالات کرتے رہے۔ مدرسے سے فراغت کے بعد ۲۰۰۷ء میں الہ آباد کے ایک عظیم صوفی ودرویش شیخ ابوسعید صفوی سے اُن کی ملاقات ہوئی اور پھر اُن کی صحبت میں موصوف کے سوالات حل ہوتے گئے۔ انھوں نے اپنا مطالعہ تیز کیا اور پھر اپنی تفسیر ’’دعوت قرآن‘‘ لکھتے ہوئے سورۂ البقرہ کی آیت (۱۹۰- ۱۹۴) کے تحت اپنے تصورات، مطالعات اور تحقیقات کو قلم بند کیا۔ پھر اُسے ازسر نو اُسے کتابی شکل میں مرتب کیا جسے خسرو فاؤنڈیشن، دہلی نے اسی ماہ اُسے شائع کیا ہے۔
منجملہ زیرنظر کتاب ’’تفہیم جہاد‘‘ اپنے موضوع پر منفرد تصانیف میں سے ایک ہے، جس میں جہاد کے مالہ وماعلیہ پر آسان لب ولہجے میں سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے اور جہاد سے متعلق تمام تر چھوٹے بڑے خلجان کو دورکرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ یہ کتاب ہرخاص وعام کےلیے لائق مطالعہ ہے اور حقائق جہاد سے آگاہ ہونے کا اہم ذریعہ ہے۔ اِس عظیم الشان تصنیف کے لیے ڈاکٹرذیشان احمد مصباحی کو ہم مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اُمید بھی کرتے ہیں کہ دیگرکتابوں کی طرح ڈاکٹر صاحب کی یہ کتاب بھی مقبول انام ہوگی۔ (ان شاءاللہ) 

Ad Image