مطرب خوش نوا بگو تا زہ بہ تازہ نو بہ نو
[مسئلہ سماع و مزامیر پر ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی کی نگارشات کاجائزہ]
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی وتقلیدوزوالِ تحقیق! (اقبال)
کیا موجودہ مذہبی ادبیات میں وہ عصرانیت یاقوت وکشش ہے ،جو جدیدذہن کو اپنی جانب متوجہ کرسکے؟مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔کیا مذہبی ادبیات کا حلقۂ قارئین علمی وتحقیقی مضامین کامتحمل ہے؟ مجھے افسوس ہے کہ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔اس کا قطعاََ یہ مطلب نہیں کہ موجودہ مذہبی معاشرےپر موت کاہول چھایاہواہےیا یہ کہ فی زمانہ علمی تحقیقات کا کال پڑ گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میں شعور کے کسی بھی درجے میں معاصر ارباب علم کی فتوحات کو کم آنکنے کی کوشش کررہا ہوں۔مگرچوں کہ مبنی برحقیقت تجزیوں میں مغالطہ آفریں ’خوش اخلاقیوں‘ کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے میں اس کرب ناک سچائی کے اظہار میں کوئی عار نہیں محسوس کرتا کہ ہم پرعلمی غربت، فکری افلاس اور اخلاقی دنائت کا منحوس سایہ کچھ اس طرح پڑگیا ہے کہ نیم دانش مندانہ بیانات کو بھی ہمارے معاشرےمیں’حکمت ودانائی‘ کی سندکے طور پر قبول عام مل جاتا ہے۔کوتاہ بینی اس قدر کہ کوےّ ’بلند پروازی‘ کی مثال بن گئے اور کورذوقی اس انتہا پر کہ گدھے ’خوش الحانی‘ کا معیار قرار پائے۔آج عیب صواب سے زیادہ آبرو مند ہوگیاہے ۔ تعصب وجہالت کی دکانیں علم وتحقیق کی بزموں سے کہیں زیادہ بارونق دکھائی دیتی ہیں۔ کیا غضب ہے کہ ہیرےخاک کے ڈھیر میں دبے پڑے ہیں اور خزف ریزوں سے بازار سج رہے ہیں!!
اس مردم خوراور متعصب ماحول میں جب کبھی کوئی ایسی علمی کاوش منظر عام پر آتی ہے، جواپنے اندرجدّت واصالت کی خوبیوں کو سموئے ہوئے ہو،جس میں جدیدتحقیقی اسالیب کی رعایت ہو اور ’اخلاقی جنایات‘کےارتکاب سے بالقصد اجتناب کیاگیا ہوتو تازہ ہوا کے جھونکے کا سا احساس ہوتاہے،جیسےدفعتاََ سنگلاخ زمین سے کوئی چشمہ ابل پڑا ہو۔ ڈاکٹرذیشان احمد مصباحی صاحب کی تازہ کتاب ’’الموسیقی فی الاسلام‘‘کے اوراق سے گزرتے ہوئے میں نے کئی دفعہ ایسی ہی سرشاری ہی محسوس کی۔
ہے غنیمت کہ فروزاں ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے کیا چاہتے ہو
میانہ قد، اکہرابدن،چوڑی پیشانی، آنکھیں شیشوں کےجزدان میں ڈھکی ہوئی،طبیعت سادہ، مزاج شگفتہ،لباس ’جام نور‘ کے سرورق جیسا اور جثہ ’الاحسان‘ کا ایک تہائی؛ یعنی حشووزوائد سے پاک۔زندہ دل، یارباش بھی اور خوش باش بھی، اور غضب کے حساس بھی ، علاقائی وگروہی زنجیروں سےیکسر آزاد،خردوں میں خرد، بزرگوں میں بزرگ۔ مجلسی گفتگو میں مخاطب کو کریدنے ٹٹولنےکے شوقین، ’خطرناک‘ حد تک صاف گو،بحث وتجزیہ میں قدیم مولویوں کاتیور،رقّتِ قلبی میں مردان خد امست کی مثال۔
اشرفیہ نے پال پوس کرجوان کیا، جام نور نے بال وپر عطاکیے،عارفیہ پہنچ کر تحویل قبلہ ہوا، تب سے یکسوئی کے ساتھ’ کعبۂ مقصود‘ کی طرف متوجہ ہیں۔کھوجی آدمی ہیں، ضبط کا ملکہ پایاہے، ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری ہے، غور وفکر ، تجزیہ وتحلیل پر زبردست قدرت ہے۔ اندھیرے میں تیر نہیں چلاتے،دماغ میں برسہابرس کوئی موضوع پکتا رہتا ہے، طویل غوروخوض کےبعدجب کسی ٹھوس نتیجے تک پہنچتے ہیں توپھراظہار حق سے مکرتے ہیں ،نہ ہچکچاتے ہیں، نہ دبتے ہیں اور نہ ڈرتے ہیں۔
مولانا ان لوگوں میں سےنہیں ہیں جو’دیوان خاص‘میں ’تلخ جماعتی تجربات‘کی’ پوٹلی‘ کھول کر بیٹھ جائیں اور ’دیوان عام‘ میں قدم رنجہ ہوتے ہی طوطا چشمی پر اترآئیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں مذہبی اشرافیہ’’دیدم ولے نہ گویم‘‘ کے ’مرض الموت‘میں مبتلا ہو،وہاں ’’فاش می گویم واز گفتۂ خود دلشادم‘‘ کی جرأت کو کیونکرسہا جاسکتا ہے؟ یہ وہ وصف ہے جسےمولانا کی خوبی اورخامی دونوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کچھ نیا لکھتے ہیں تو ایک شور سا اٹھتا ہے۔سنجیدہ اہل علم خوش ہوتے ہیں کہ کچھ اچھا پڑھنے کو ملے گا جب کہ منجمد بوتلوں میں ابال آجاتا ہے۔ ایک بڑا طبقہ پڑھےبغیران کی تحریروں کو مسترد کردیتا ہے کہ مولانا نے لکھا ہے تواس میں ضرور کوئی نہ کوئی ’فتنہ‘ ہوگا۔
این گناھیست کہ برتھمتِ آن ھم حسد است
’الموسیقی فی الاسلام‘ کا سرورق سادہ مگر دیدہ زیب ہے۔ کتاب کے نام میں ’الف لام‘اضافی بوجھ جیسا لگتا ہے،لیکن ظاہر ہے کہ ایسا سن اشاعت کے استخراج کے مدنظر کیا گیا ہے۔ ’ضرورت شعری‘کی طرح اس ’ضرورت‘ کو بھی گوارا کیا جانا چاہیے۔ ابتدائے کتاب میں ’مضراب الست!‘ کےعنوان سے مولانا ضیاء الرحمن علیمی کی خوبصورت تقریظ شامل ہے۔اس کےبعد فاضل محقق کے مخصوص لب ولہجہ میں کتاب کادیباچہ ہے،جو قاری کے ذہن کو کتاب پڑھنے کے لیے ہموار کرتاہے،اسےایک طرح سے مصنفِ کتاب کی کشاکشِ فکری کی روداد بھی کہا جاسکتا ہے،جسے پڑھ کر قاری پر یہ راز کھلتا ہے کہ مزامیرومعازف سے’شدید نفرت‘کرنے والا انسان کیونکر’فغان چنگ ورباب‘کا اسیرہوگیا ؟ یہ روداد دل چسپ بھی ہے اور بے حد چشم کشا بھی!
کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیا گیاہےجن کی تفصیل یہ ہے:
پہلاباب’جمالیات سماع‘ ہے۔اس کی پہلی دوفصلوں میں انسان کے جمالیاتی شعور پر روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہےکہ اسلام نے جس طرح انسان کے دیگرجائز فطری مطالبات کو قبول کیا ہے، یوں ہی انسان کی قوت سامعہ کا حق ہے کہ وہ اس کائنات کی اچھی آوازوں کو سنے اورمحظوظ ہو۔البتہ ہوش رہے کہ حسن صوت یاحسن کائنات سے لطف اندوزی حدود وقیود سے اس قدر آزاد وبےپرواہ نہ ہوجائے ’جو انسان کو رحمٰن کی بندگی سے نکال کر نفس اور شیطان کا غلام بنا دے‘۔
تیسری فصل میں سادات صوفیہ اور حضرات فقہا کےجداگانہ مذاق ومنہاج اورطرزہاے اخذواستنباط کو علمی پیرایے میں بیان کیاگیا ہے،اس ضمن میں فاضل مؤلف نے علامہ فخر الدین زرادی(۷۲۷ھ) کے ایک جملے’روایۃ الفقہاء علیھم لیس بحجۃ‘ اور حضرت مجدد الف ثانی کے قول’حلت وحرمت میں صوفیہ کا عمل حجت نہیں ہے‘‘ کی تاویل وتوجیہ میں جس سخن فہمی اور خوش ذوقی کامظاہرہ کیا ہے، اسے پڑھ کربےساختہ’قربانت شوم‘کہنے کو جی چاہتا ہے۔
آواز،غنا، آلات موسیقی، معازف اورمزامیر وغیرہ اشیا محفل سماع کے اجزاےترکیبی ہیں، دوسرےباب ’مبادیات سماع‘ میں مولانا نے انھی اشیا کی بڑی باریک بینی سے تحقیق کی ہے۔
سماع بالمزامیرکاشمار تاریخ اسلام وتصوف کے ان چند مسائل میں ہوتا ہے ،جن کے اثبات وانکار پر طرفین کی جانب سےصدہا کتابیں لکھی گئی ہیں،کتاب کے تیسرےباب ’تراث سماع‘ میں ان میں سےاکیس منتخب کتابوں کا تجزیہ کیاگیا ہے۔یہ پورا باب ’لٹریچرریوو‘کی شاندار مثال ہے۔ یہاں ایک قابل لحاظ امر یہ ہے کہ تلخیص وتجزیہ میں مؤلف نےدورخی پالیسی نہیں اپنائی ہے،بلکہ موافقین ومخالفین دونوں کی کتابوں سے اعتنا فرمایاہے، صوفی و سلفی، بریلوی ودیوبندی ،متقدمین ومتأخرین اور معاصرین میں سے ہر ایک طبقے کے کسی نہ کسی نمائندہ عالم کی کتاب کو شامل کرلیا ہے۔
اس باب کی دوسری فصل میںشرح وبسط کےساتھ سماع کے موضوع پر عرفانی متون کا جائزہ لیا گیا ہے۔جائزے کا یہ سلسلہ چوتھی صدی ہجری کے مستند صوفی شیخ ابو نصر سراج(۳۷۸ھ/۹۸۸ء)کی کتاب اللمع سے شروع ہوکر گیارہویں صدی کے معروف صوفی و مجددامام ربانی شیخ احمد سرہندی(بعد۱۰۳۴ھ/۱۶۲۴ء) کے مکتوبات پر ختم ہوجاتا ہے۔یہاں بھی مؤلف نے سماع کے مخالف وموافق صوفیہ کی نگارشات کاحاصل مطالعہ پیش کیا ہے۔
انسان کے کان پہلی مرتبہ کب موسیقی کی لذت سے آشنا ہوئے؟عربوں کےدرمیان نغمہ وموسیقی کی روایت کا نقطۂ آغاز کیا ہے؟وہ کون سازمانہ تھا جب مسلم ثقافت میں موسیقی سننے کی شروعات ہوئی؟اورپھرکن اسباب واغراض کےزیر اثر سادات صوفیہ آلات موسیقی کواشرافیہ کی’ بزم طر ب‘ سے اپنے ’حلقۂ ذکر‘ میں اٹھالائے، اس کےبعد خانقاہوں میں بھی چنگ ورباب کے مسحور کن زمزمےسنائی دینے لگے۔ چوتھے باب’تاریخ سماع‘ کی پہلی فصل میں فاضل محقق نےانھی سوالات سے اعتنا کیا ہے۔اس کے بعد ’مشائخ چشت اور سماع بالمزامیر‘ کے عنوان سے ایک طویل فصل ہے،اس میں خواجہ اجمیری سے پیر مہر علی شاہ تک سماع کے تعلق سے چشتی بزرگوں کے اقوال وافعال سے بحث کی ہے۔ اس پورے باب میں مصنف کے قلم نے دیانت کا خون نہیں کیا ہے، دستیاب مصادر سے جتنی بات ثابت ہوتی ہے مؤلف نے انھی پر اکتفا کیاہے۔ہواکومٹھی میں قید کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔
’فقہ نغمات‘ میں حسب ترتیب چھ فصلیں ہیں؛ سماع نغمہ-فطری اور عقلی اصولوں کی روشنی میں، سماع نغمہ کا شرعی پہلو، سماع نغمہ-آیات قرآنیہ کی روشنی میں، سماع نغمہ-احادیث رسول کی روشنی میں، سماع نغمہ-مذاہبِ فقہا کی روشنی میں، مذہبِ حنفی کی تحقیق۔
’فقہ آلات‘ میں بحث کا محور یہ چار عنوانات ہیں؛سماع آلات نغمہ-فطری اور عقلی اصولوں کی روشنی میں، سماع آلات نغمہ -آیات قرآنیہ کی روشنی میں ، سماع آلات نغمہ-احادیث رسول کی روشنی میں، سماع آلات نغمہ-مذاہب فقہا کی روشنی میں۔
ان دونوں ابواب میں جگہ جگہ فاضل تحقیق کار کی وسعت مطالعہ، علمی تجزیے پر ماہرانہ دسترس اور تحقیقی ریاضت کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔انھوں نے موافقین ومخالفین کے تمام دلائل کو یکجا کرکے استدلال کی خامیوں اور نارسائیوں پرعلمی نقدکیا ہے اور زیر بحث مسئلہ میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔
’سماع عارفاں‘کتاب کاآٹھواں اورآخری باب ہے،اس کے ذیل میں تحقیق کار نےسماع کے مضامین،اثرات اورآداب وشرائط کےعنوانات کےتحت خوبصورت مباحث شامل کیے ہیں۔یہاں پہنچ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مؤلف کا اشہب خامہ ریگزاروں کی طویل مسافت طے کرنے کے بعد کسی لالہ زار میں داخل ہوگیاہو۔
آخرکے دس صفحات میں’کتابیات‘کےتحت مؤلف نے ان تمام مصادرومراجع کا اندراج کیا ہے جن سےانھوں نے اس تحقیقی عمل کے دوران استفادہ کیاہے۔
مشمولات کے اس اجمالی جائزے سے اس کتاب کی قدروقیمت کا کسی حدتک اندازہ کیا جاسکتا ہے۔زیربحث موضوع پرمولانا کی گرفت زبردست ہے،وہ بات کہنے کا ہنر جانتے ہیں،اگلوں کی علمی کاوشوں پرخاک ڈالناان کا شیوہ نہیں،اس کتاب کے صفحے صفحے پر ان کی علمیت،قوت استدلال اورحسن تجزیہ سے کے نمونے بکھرے ہوئے ہیں۔
مختلف فیہ موضوعات پر لکھنےوالےاہل علم عموماََ’معاملات ِمن وتو‘میں الجھ جاتے ہیں،مگر فاضل محقق کا قلم ان خاردار وادیوں سے بھی عالمانہ وضع اور مومنانہ کرّوفر کے ساتھ گزرا ہے، ان کی تنقیدیں زیادہ تر متوازن اور غیرجانب دار رہی ہیں۔
مسئلۂ سماع مختلف الجہات ہے، اس کا ایک پہلو فقہی ہے تو دوسرا خالص صوفیانہ، اور ان دونوں سے پہلے اس کا تعلق فردبشرکے جمالیاتی شعور سے ہے،کمال کی بات یہ ہے کہ فاضل محقق نے ہرہر پہلو کوخوبی کےساتھ نبھایا ہے۔ان کے پاس ادیب کا حسن خیال، فقیہ کا تفقہ ،صوفی کا گداز قلب اور وہ سب کچھ ہے جواس موضوع پر لکھنے والے کسی بھی صاحب قلم سے مطلوب ہوتا ہے۔اس کتاب کے مطالعے کے دوران کم از کم تین مرتبہ یہ بات میرے دل میں آئی کہ شاید اکیسویں صدی کے ’نظام الدین‘ کو پھر کوئی’فخرالدین زرّادی‘مل گیا ہے۔ واللہ اعلم!
ان سب خوبیوں پر مستزاد یہ ہے کہ فاضل محقق نے گاہے گاہےعہدرواں کےایک مستند صوفی-قبلہ گاہی شیخ ابوسعید صفوی مدظلہ- کے واردات وافادات کو سلیقہ مندی کے ساتھ شامل کتاب کرلیا ہے۔اس وصف زائد کےسبب کتاب کاعرفانی پایہ بدرجہا بلند اور اس کامعنوی حسن دوچند ہوگیا ہے۔
مذکورہ تمام صوری ومعنوی خوبیوں سے آراستہ ہونے کےباوجود کتاب میںبہت سارے ’مقامات آہ وفغاں‘بھی ہیں۔ مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں ان کی نشاندہی کردی جائے ۔
٭’جمالیات سماع ‘ کتاب کا بابِ سوم ہے،اس باب کی پہلی دوفصلیں (۱اسلام کاتصور جمالیات، ۲انسانی اور اسلامی جمالیات میں سماع نغمہ وموسیقی کا مقام)عنوان باب کے عین مطابق ہیں،البتہ ہم یہ سمجھنے سےقاصرہیں کہ تیسری فصل ’فقیہانہ مزاج اور صوفیانہ مذاق‘کا ’جمالیات سماع‘کےعنوان سے کیا واسطہ ہے؟؛جب کہ اس فصل کے مندرجات کا تعلق بھی جمالیات کی بجائے فقہا اورصوفیہ کے جداگانہ مزاج ومنہاج سےہے۔ممکن ہے کہ فاضل محقق کے ذہن میں اس باب میں اس کی شمولیت کاکوئی ’فلسفیانہ‘ جواز ہو،جہاں تک پہنچ پانے میں ہم ناکام رہے۔
٭فاضل محقق رقمطراز ہیں ’’شاہ برکت اللہ مارہروی کے پوتے شاہ حمزہ مارہروی (۱۱۹۸ھ/۱۷۸۳ء) نے اپنی کتاب کاشف الاستار میں میر صاحب کو سند المحققین لکھا ہے،سبع سنابل کا بڑا والہانہ ذکرکیا ہے اور آزاد بلگرامی کی مآثر الکرام کے حوالے سے اس کے مقبول بارگاہ رسالت ہونے کا ذکر کیا ہے۔‘‘(ص:۱۶۰)
اس عبارت کے مطابق ’سبع سنابل ‘کے مقبول بارگاہِ رسالت ہونے کےقصّےکااولین ماخذ ’مآثرالکرام ‘ہے، مآثرالکرام ہی کے حوالےسےحضرت حمزہ مارہروی نے بھی اپنی تصنیف’ کاشف الاستار‘ میں اس واقعےکونقل کیا ،لیکن تحقیق کارنےاپنی اسی کتاب میں سبع سنابل کے سلسلۂ ذکر میں کم از کم دو مقامات پراس قصے کا انتساب اصل قائل(علامہ بلگرامی)کی بجائے اعلی حضرت کی طرف کیا ہے۔ چناںوہ لکھتے ہیں:’’میرعبد الواحد بلگرامی کی کتاب سبع سنابل جسے اعلی حضرت فاضل بریلوی نے مقبولِ بارگاہ رسالت بتایاہے۔‘‘ (ص۲۰۲)
دوسرے مقام پر ہے:’’اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میر عبد الواحد بلگرامی کی کتاب سبع سنابل جسے اعلی فاضل بریلوی نے مقبول بارگاہ رسالت بتایا ہے۔‘‘(ص۲۵۸)
بطورتوجیہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ فقہ وحدیث کے باب میں اعلی حضرت فاضل بریلوی کاپایہ مذکورہ دونوں اسما کی بہ نسبت کہیں زیادہ بلندہے،اور چوں کہ زیر نظر کتاب میں مسئلۂ سماع کے تعلق سے اعلی حضرت کے فتاوی بھی زیر بحث رہے ہیں،اس لیےبات میں وزن پیدا کرنے کےلیے مذکورہ قصے کا انتساب ان کی طرف کردیاگیاہے،لیکن شاید یہ وجہ بھی قول کو اس کے اصلی قائل کی بجائے ناقل کی طرف منسوب کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
٭ سبع سنابل ہی کےحوالےسےسماع بالمزامیر کی اشاعت وفروغ کےسلسلےمیں حضرت قاضی حمید الدین ناگوری (۶۴۳ھ / ۱۲۴۶ء) کی غیر معمولی کوششوں کا تذکرہ کیا گیا ہے،اسی کےضمن میں ہےکہ: ’’ حضرت جنید بغدادی کے بعد بغداد سے سماع کی محفل ویران ہوگئی تھی۔دہلی میں سماع بالمزامیر کی تجدید کےبعد قاضی صاحب نے بغداد کا رخ کیا۔‘‘
کچھ سطروں کےبعد فرماتے ہیں:’’اس طرح آپ نےدہلی کےبعد بغداد میں بھی سماع بالمزامیر کی تجدیدفرمادی۔‘‘(ص۱۶۱)
ان جملوں کےسیاق وسباق سےیہ وہم ہوتا ہے کہ سید الطائفہ جنید بغدادی (۲۹۸ھ)کے یہاں سماع بالمزامیر کی روایت قائم تھی،جو ان کےبعد ویران ہوگئی تھی،بعد میں قاضی حمید الدین ناگوری نےاس کی تجدیدفرمائی۔
اگر اس عبارت کا درست مفہوم یہی ہے تو بھی ہمیں اسے تسلیم کرنے میں کوئی اعتراض نہیں، لیکن اس سے پہلے یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ تیسری صدی ہجری کےبغداد کی خانقاہوںمیںمزامیر کے ساتھ محفل سماع کا اہتمام رواج پاچکاتھا،یہ بات ہمیں اس لیے بھی قابل غور لگی کیوں کہ فاضل محقق کے نتیجۂ تحقیق کےمطابق’’شاید اس عہد کی خانقاہوں میں سماع کی باضابطہ روایت قائم نہیں ہوئی تھی۔‘‘(ص۱۶۵)
٭کتاب میں’ غیرچشتی علما و مشائخ اور سماع بالمزامیر‘کےعنوان سے پوری ایک فصل ہےجس میں فاضل مؤلف نے مستند حوالوں سے اس غلط العام کی تردید کی ہے کہ ’سماع بالمزامیر چشتیوں کے نزدیک جائز اور غیرچشتیوں کے یہاں ناجائز ہے‘۔(ص۲۵۴)
یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ۱،۲،۳نمبرات کے تحت بعض صحابہ وتابعین اورعلمائے متقدمین کے اسما ذکر کیے گئےہیں،لطف کی بات یہ ہے کہ آگے اسی فصل کے’خلاصۂ بحث‘میں ’ غیر چشتی علما ومشائخ‘کی فہرست پانچویں صدی سے شروع ہوئی ہےاوراوپر صحابہ وتابعین کا ذکر علیحدہ کیا گیا ہے جو بالکل بےغبارہے۔
البتہ یہاںہماری نظر’خلاصۂ بحث ‘ کی بجائے فصل کے ابتدائی تین نمبرات پررکی ہوئی ہے۔خاکسارعرض گزارہے کہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت کے عین مطابق ہے کہ بعض صحابہ وتابعین اور علماے متقدمین سے مزامیر سننا ثابت ہے، اس کےباوجود ’غیرچشتیوں‘کی فہرست میں ان حضرات کا ذکر اس طور پرکرنا کہ ان کی طرف چشتی یاغیر چشتی سلاسل کے انتساب کا اشتباہ بھی پیدا ہو،غیر صحت مندانہ روش ہے،خواہ یہ اشتباہ اسلوب ِبیان کے ابہام کےنتیجےمیں پیدا ہوگیا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی صحابی کو صرف اس لیے ’حنفی‘ شمارکرلیاجائے کہ ان سےاحناف کی مستدل احادیث مروی ہیں۔
فاضل محقق فقہ وتصوف کے شناور ہونے کے ساتھ زبان وادب کابھی ستھرا ذوق رکھتے ہیں، چناں چہ ان کی اس کتاب میں جابجا فصیح وبلیغ فقروں کے دل پسندنمونے موجود ہیں،مگر خاص لسانی نقطۂ نظرسے کچھ خامیاں بھی راہ پاگئی ہیں،بطور مثال یہ چند جملے دیکھیے:
٭’’تصوف کے روشن چہرے کی رونمائی ہو‘‘ (ص۱۳۸)
٭ ’’روح مبارک قید حیات کی بندشوں سے آزاد ہوکر عالمِ بقا کی کھلی فضاؤں کی طرف پرواز کرگئی‘‘ (ص ۲۴۸)
٭’’بطور خاص اس صورت میں، جب کہ اس کا سلسلہ سلف سے ہوتا ہوا عہد رسالت کے مبارک دور سے مربوط ہو‘‘(ص۳۲۵)
٭’’شبنمی بارش اس کے وجود کو سرمستیوں سے سرشار نہ کردے۔‘ (ص۲۷۶)
٭’’کیوں کہ آوازوں کی تاثیر دل میں اثرانداز ہوتی ہے‘‘(ص۳۸۵)
ان جملوں کی ترکیب میں ہم معنی الفاظ[’چہرے کی رونمائی‘ ، ’قیدِ حیات کی بندشوں‘ ، ’عہد رسالت کے مبارک دور‘، سرمستیوں سے سرشار‘ اور تاثیر دل میں اثر انداز ہوتی ہے] کے یکجا کردیے جانے کے سبب’آب زم زم کا پانی‘والا عیب پیدا ہوگیا ہے۔ذراسے ردّوبدل اور حذف واضافہ سے یہ فقرے صحت مند ہوجائیں گے۔ بطور مثال انھیں بالترتیب اس طرح کیا جاسکتا ہے:
’’تصوف کا روشن چہرہ نمایاں ہوــ‘‘، ’’شبنمی بارش اس کے وجود کوسرشار نہ کردے۔‘‘ ،’’روح مبارک قید حیات سے آزاد ہوکر عالم بقا کی کھلی فضاؤں کی طرف پرواز کرگئی‘‘،’’کیوں کہ آوازیں دلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔‘‘
٭’’دین سے نکالا کردیا ہے‘‘(ص۱۶۲)’ دین سے نکالا کرنا‘ کوئی محاروہ نہیں ہے، ہاں’’دیس نکالادینا‘‘اردوزبان کا ایک محاورہ ہے۔ محاوروں کے صیغوں میں تبدیلی ممکن ہے،البتہ الفاظ کو بدلانہیں جاسکتا۔
٭’’سرکار رسالت پناہ‘‘ (ص۳۵) ، اس ترکیب پر ہماری نگاہ ٹھہر گئی۔ظاہراََ اس کاتعلق ’عالم پناہ‘ اور ’جہاں پناہ‘ کے قبیلے سے معلوم ہوتا ہے، اگر ایسا ہی ہے تو اس میں’مبالغہ وغلو‘کا گمراہ کن پہلو چھپاہواہے۔قرآن کے مطابق منصب رسالت اللہ کے فضل وانتخاب پر منحصر ہے،اس نے اپنے بندوں میں سے جسے چاہاچن لیا، یہ بشر کےسرحد ادراک سے ماورا، خالص الہی انتخاب کا معاملہ ہے۔ گوکہ صاحبان تاویل کے پاس اپنی ہر بات کے لیے سو تاویلیں ہوتی ہیں لیکن بہرحال ایسے جملوں اور تراکیب سے اجتناب کرنا اولی ہے جو عام قاری کو بھٹکانے والی ہوں۔
٭’’اسلام اس اعتدال کو بھی معتدل دیکھنا چاہتا ہے‘ ‘۔(ص۲۸) ، ہمیں علم نہیں کہ حضرت مصنف کے نزدیک’ اعتدال‘ کی حد اعتدال کیا ہے؟ اور کس حد ِ معین سے گزر جانے کی پاداش میں ’ اعتدال‘ غیر معتدل ہوجاتا ہے؟،اگر قول وفعل میں بے نظمی آجائے تو بھلا اسے اعتدال کیونکر کہاجاسکتا ہے؟
٭’’ آلات موسیقی کے حوالے سے احادیث کا مطالعہ کانٹے کی بحث ہے۔‘‘(ص۳۷۳) اس جملے پر جیسے ہی نظر پڑی ہم بےساختہ مسکرانے لگے۔اب تک ہم نے ’کانٹے کے مقابلے‘ دیکھے اور سنےتھے، پہلی بار سناکہ مطالعہ بھی ’کانٹے ‘کا ہوتا ہے ،یابحث بھی’کانٹے‘ کی ہوتی ہے۔
٭’پچہ کاری‘(ص۴۳۰) درست لفظ’پچی کاری‘ ہے۔
٭’’گھوڑسواری‘ ‘(ص۳۸۷)’’گھڑسواری‘ ‘درست املاہے۔
کتابت معیاری ہے،پروف محنت سے پڑھا گیا ہے، البتہ کہیں کہیں ’حضرت کاتب‘ نے عبارتوں میں ’ملک یمین‘ والا تصرف فرمایاہے، جس کے سبب جابجا کتاب کی عصمت متأثر ہوگئی ہے۔ بطور مثال ان جملوں کو سرسری طور پر دیکھ لیجیے:
٭’’ہم مسئلۂ سماع ونغمہ اور مزامیر کے موضوع پرگذشتہ ہزار سال میں لکھی گئی ۲۰ ؍اہم کتابوں کی توضیحی کتابیات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘ (ص۷۸)اس سے قطع نظر کہ اس جملےمیں’کےموضوع‘زائد ہے اور کتابوں کی کتابیات پیش کرنا کچھ بےڈھب معلوم ہوتا ہے، ۲۰ کی جگہ’۲۱ ہونا چاہیے، کیوں کہ محقق نے اس فصل میں کل اکیس کتابوںکاتجزیہ کیا ہے۔
٭’’ان کی تفصیل مندرجہ بالا کتب میں دیکھی جاسکتی ہے‘ ‘(ص۲۵۵) اگر ’کتب‘سے مراد وہی کتابیں جن کا ذکر نیچے والے پیراگراف میں ہے تو یہاں ’مندرجہ بالا‘ کی جگہ’مندرجہ ذیل‘ ہونا چاہیے۔
بعض مقامات پر تذکیر وتانیث کی خامیاں راہ پاگئی ہیں، مثلاََ
٭’’اس سے حرمت سماع ثابت کیا گیا ہے‘‘(ص۲۳)’’ کی گئی ہے‘‘
٭’’اس کی توثیق سیرالاولیا میں مذکور خواجہ نظام الدین اولیا کے بیان کردہ اقسام سماع سے ہوتا ہے۔‘ ‘(ص۲۰۳)’’ہوتی ہے‘‘
٭’’ان تفاسیر کی روشنی میں بظاہر یہی معلوم ہوتی ہےکہ غنا ومزامیر مطلقاََ حرام ہیں‘‘(ص۳۰۰)’’معلوم ہوتا ہے‘‘
٭’’وہ اللہ کی ہدایت یافتہ بندوں میں سے نہیں ہے۔‘‘(ص۲۸۶)’کے‘ کی جگہ’کی‘ ٹائپ ہوگیا ہے۔
کاتب کی بےتوجہی کے سبب بھی بعض جملے زخم خوردہ دہوگئے ہیں۔مثلاََ
٭’فقہا کی باتیں کتنی عجیب ہے‘‘ ’(ص۲۵)’’ہیں‘‘
٭’’ مگر اس سے نہ کسی مفتی کو اعتراض ہے(ص۲۶)‘ یہاں ’اس پر‘ مناسب ہے۔
٭’’خوش الحان پروندوں‘‘(ص۹۱) ’و‘زیادہ ہوگیا ہے۔
٭ اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کا ہجری سن وصال’۱۴۴۴‘ ٹائپ ہوگیا ہے۔(ص۱۱۰)اسے’۱۳۴۰ھ‘ ہونا چاہیے۔
٭’’ان پر مختلف حرکات واضطرابات کا صدور ہوتا ہے۔‘ ‘(ص۱۴۴)یہ ’ان سے‘ کا محل ہے۔
٭’’اس واقعے کو اگر سچ مانا جائے تو ایک بات اور سچ ماننا ہوگا‘‘(ص۲۱۲) اس جملے میںبات کے بعد’کو‘کا اضافہ ہونا چاہیے۔
٭’’انیسویں صدی میں تصوف اور حنفیت سے وابستگان دو گروہ میں بٹ گئے‘ ‘(ص۲۵۲) یہاں’سے‘کی جگہ’کو‘ اور’دوگروہوں‘ ہوناچاہیے۔
٭’’یہ بات بھی آدھا سچ ہے‘۔(ص۲۵۷)اسے یوں کردیاجائےتو بھلا معلوم ہوگا’یہ اھورا سچ ہے۔‘
٭’’اس تعلق سے اہل علم اس مسئلے میں دوگروہوں میں بٹ گئے‘‘(ص۲۶۱)، اس جملے سے’اس تعلق سے‘ یا’اس مسئلے میں‘سے کسی ایک کو حذف کردینا چاہیے۔
٭’’سوائے اس ایک کہ جو اس طرح مروی ہے‘‘(ص۲۹۶)’کے‘ہونا چاہیے۔
٭’’پیغمبر علیہ السلام نے خوش ہوکر اپنی ردائے مبارک پیش کی تھی‘‘۔(ص۳۲۷)یہ ’عطافرمائی تھی‘کا محل ہے۔
٭’متأخرین ومعاصرین نے ان کے انطباق‘ (ص۳۳۴)’ان کا‘ ہوناچاہیے۔
٭’’ان کے ذوق اتباع دیکھ کر‘‘(ص۳۸۵)اتباع کے بعد’کو‘لکھنے سے رہ گیا ہے۔
٭’’بسااوقات صوفیہ کو اپنے سماع میں وجدمیں کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں‘‘ (ص۴۸۰)اس جملے کی ترتیب میں ذرا سی ترمیم کی ضرورت ہے۔
٭’’ان کی نگاہیں غزلیات کی دل کشی ورعنائی میں الجھ کر رہ جائے گی۔‘‘(ص۴۸۳)‘’رہ جائیں گی‘
٭’’جانتے بوجھتے انجانے بنتے ہیں‘ ‘(ص۴۸۷)’انجان ‘مناسب ہے۔
میں نے زیر نظر تبصرہ میں کتاب کی خوبی وخامی کو اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے، ایک طفل ناداں کی نظر بھی بھلا کوئی نظر ہوتی ہے؟البتہ دل نے جو محسوس کیا ،دماغ نے جو تأثر لیا اور نگاہیں جہاں جہاں تھمیں، میں نے انھیں یہ سوچ کرسپرد قرطاس کردیا کہ ممکن ہے کہ میرے یہ طالب علمانہ احساسات اگلے ایڈیشن کی تزئین کاری میں کسی حدتک معاون ثابت ہوں۔
فاضل محقق ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی علمی اور صوفی حلقوں کی طرف سے بےپناہ مبارکبادیوں کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایسی جامع اور بلندپایہ کتاب لکھ کر علم وتحقیق اور تصوف وخانقاہیت کی مثالی خدمت کی ہے۔میں ذاتی طور سےبھی حضرت مولانا کا احسان مند ہوں کہ انھوں نے مجھ جیسے کمتر طالب علم کو یہ کتاب ارسال فرمائی۔اللہ کریم انھیں جزاے خیر سے نوازے،آمین
۱۶؍جولائی ۲۰۲۳ءبروز یک شنبہ بعد نمازِ مغرب
Leave your comment