خانقاہ عارفیہ میں مولانا سید صادق حسین کا خطاب اور وسیم رضوی کی شدید مذمت
(الاحسان میڈیا)آج بعد نماز ظہر معروف شیعہ عالم دین مولانا سیدصادق حسین شعبہ وحدت، ایران کلچرل ہاؤس، نئی دہلی۔ خانقاہ عارفیہ سید سراواں تشریف لائے اور موجودہ حالات کے تناظر میں وحدت اسلام و مسلمین کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ مولانا نے کہا کہ قابل غور بات یہ ہے کہ دشمن، قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف اپنی ہرزہ سرائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوا ہے۔ سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین اور وسیم رضوی کی شکل میں دشمن کو ہماری صفوں سے غدار اور بے دین عناصر مل جاتے ہیں اور ان کے ذریعے دشمن اپنی مردہ سازشی مہم کو زندہ رکھتا ہے۔ یہاں قابل ذکر یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک ہنگامہ کی فضا قائم ہے، دراصل اسے ہمیں صبح نو کی آمد کا مژدہ سمجھنا چاہیے۔ اس سے ملت کی آستین میں چھپے ہوئے سانپ ایک ایک کرکے سامنے آرہے ہیں اور ملت کی تطہیر ہو رہی ہے۔یہ صفائی مہم ہے، اس کے بعد ان شاء اللہ بزم آرائی کا منظر سامنے آئے گا۔
مولانا صادق حسین نے مزید کہا کہ اس وقت جو لوگ شیعیت کو تحریف قرآن سے منسوب کر رہے ہیں، وہ دین کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ ایک کروڑ کی فوج میں سے لاکھوں کو پہلے ہی خارج کردینا یہ کسی عقل مند کمانڈر کا کام نہیں ہوسکتا۔خداے برتر نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور وہی اس کا محافظ ہے۔ اس پر ہمارا پختہ ایمان ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ائمۂ اثنا عشر میں سے کسی امام کا ضعیف قول بھی تحریف قرآن کا نہیں ہے، ایسے میں اس عقیدے کو شیعہ امامیہ کا عقیدہ کہنا یا سمجھنا ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔ اب اگر بالفرض اہل سنت یا اہل تشیع کی کسی کتاب میں کوئی موضوع یا ضعیف روایت ایسی ملتی بھی ہے جس سے تحریف کا مفہوم نکلتا ہو تو تواتر اور اجماع کے خلاف اس سے عقیدہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کی بنیاد پر اس وقت بھی جو لوگ سنی اور شیعہ کے اختلافات کو فروغ دے رہے ہیں، وہ دین و ملت کے دوست ہرگز نہیں ہوسکتے، بلکہ وہ بالواسطہ طور پر دشمن کی سازش کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی نے اپنی تعارفی گفتگو میں کہا کہ ملت اسلامیہ ملت واحدہ ہے۔ مختلف ترجیحات کے سبب اور مختلف تعبیرات کے سبب یہ امت واحدہ مختلف طبقات میں بٹی ہوئی ہے۔ شیعہ سنی، پھر سنیوں میں وہابی صوفی، پھر مدعیان تصوف میں دیوبندی بریلوی ،یہ امت کے بڑے دھڑے ہیں۔ دشمن کا نشانہ قرآن اور صاحب قرآن پر ہے، اسلام اور مسلمانوں پر ہے،ایسے میں سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اپنے داخلی تحفظات کے ساتھ دشمن کے بالمقابل بنیان مرصوص بنیں۔ اس کے برخلاف ہماری صورت حال یہ ہے کہ دشمن، دین کی عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے اور ہم صرف اپنے اپنے کمروں کی فکر میں لگے ہیں، دشمن جہاز کو غرقاب کرنا چاہتا ہے اور ہم صرف اپنے شخصی بچاؤ کی فکر میں ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب طوفان کا مقابلہ اجتماعی طور پر نہیں کیا گیا تو سب کے چراغ گل ہوں گے، سب غرقاب ہوں گے اورسب تباہ ہوں گے۔
اس محفل کا آغاز قاری دلشاد ہاشمی کی تلاوت کلام اللہ سے ہوا، مطلوب ظفر نے بارگاہ امام عالی مقام میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا اور آخر میں داعی اسلام حضرت شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ کی دعاے اتحاد و اتفاق اور التجاے امن و امان پر محفل کا اختتام ہوا۔
Leave your comment