۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۷ءبروز جمعرات بعد نماز مغرب جا معہ عارفیہ ،سید سراواں ،الٰہ آباد میں طلبہ دعوہ کے زیر اہتمام’’دور حاضر میں صحافت کی ضرورت واہمیت اور اس کے تقاضےپر ایک توسیعی خطبہ کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں معروف صحافی جناب احمد جاوید صاحب(ایڈیٹر اخبار انقلاب ،پٹنہ ) کا جامع خطبہ ہوا ۔نظامت کے فرائض مولانا ذیشان احمد مصباحی نے انجام دی ۔
مجلس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا متعلم محمد رضی احمد نے تلاوت کلام اللہ سے مجلس کی شروعات کی ،بعدہ حمد ونعت محمد اخترتابش نے پیش کیا ۔مولانا رفعت رضانوری استاد جامعہ ہذا نے صحافت کے حوالے سے چند مفید باتوں سے نوازا ۔آپ نے کہا کہ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے ۔تعارفی کلمات مولانا مجیب الرحمٰن علیمی نے پیش کی
اس کے بعد مہمان خطیب جناب احمد جاوید صاحب نے ’’دور حاضر میں صحافت کی ضرورت واہمیت اور تقاضے ‘‘کے حوالے علمی اور جامع گفتگو فرمائی ۔صحافت سماجی ذہن کی صحیح تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔اس کا مقصدانسانی سماج کی ذہن وفکر کی ترسیل وذرائع ابلاغ کے ذریعے اچھی تربیت کرنا ہے تاکہ آنے والی نسل کی ذہن وفکر کی صحیح تربیت ہو سکے اور سماجی وثقافتی تمدن برقرار رہ سکے ۔نیزآپ نے صحافت کے چند بنیادی اور اہم امور کی طرف نشاندہی کی اور بتا یا کہ عصر حاضر میں صحافت کے سات ذرائع ہیں ان سات ذرائع کا استعمال صحافت کے اندر ہوتا ہے ۔پرنٹگ ،ریڈیو،سینیما ،آئوڈیوڑیکارڈنگ ،انٹر نیٹ ،موبائیل اور ٹی وی ہیں ۔اسی طرح آپ نے جمہوریت اور اسلام کے مابین کیا فرق ہے ان فرق کی وضاحت کی ۔
سوالات کا شیشن بھی ہوا جس میں چند طلبہ نے سوالات کیے اور حضرت نے سبھی سوالوں کا تشفی بخش جواب بھی دیا ۔ صحافت کے میدان میں طلبہ وعلمائے مدارس کا رویہ اور طریق کا ر کیسا ہو ۔اس حوالے سے آپ نے فرمایا:کہ صحافت میں جو بنیادی طور سے گراوٹ آئی ہے وہ گفتگو میں زبا ن واسلوب اور ساخت کی صحیح استعمال نہ ہونے کی بنا پر ،بجائے موعظت حسنہ کے مجادلہ اور مناظرہ کے اسلوب اپنا ئے گئے جس کااثر فن صحافت میں ہوا ہے ۔مدارس میں مناظرے اور مجادلے پر زیادہ زور دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور کفر وگمرہی اور پروان چڑھتارہا ۔ علما کو صحافت کے میدان میں موعظت حسنہ کا اسلوب اپنانا از حد ضروری ہے یہ خود قرآن کا پیغام اور اسلوب ہے ۔
قرآن میں تین طرح کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے مومن متقی ،مشرک اور منافق اور ان تینوں سے مخاطب ہونے کا انداز واسلوب بھی بیان کیا گیا ہے ۔ہم جو آج تنزلی کا شکار ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ قر آن کےاس اسلوب اور طریقے کو ہم نے پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کا اثر ہم پر ظاہر ہے ۔آج طلبہ مدارس اور علما مدراس کو اسی طرز اسلوب کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ صحافت میں اس کی وقعت اور حیثیت برقرار رہے ۔ اخیر میں جامعہ کے استاذ مولانا غلام مصطفی ازہری نے کلمات تشکر ادا کیے اور دعا پر اس مجلس کا اختتام ہوا ۔
Leave your comment