خانقاہ عارفیہ میں منعقد ماہانہ محفل مولائے کائنات میں’’ دردناک عذاب سے نجات کا راستہ‘‘ کے عنوان پر مفتی محمد کتاب الدین رضوی کا اظہار خیال
دنیا میں کوئی بھی شخص بغیر غم کے نہیں ہےاور اگرکوئی ایسا ہے جس کو کوئی غم نہیں تو وہ انسان ہی نہیں ہے ۔ کچھ لوگوں کو دنیا کا غم ہے ، کسی کوجہنم سے بچنے کا غم، کسی کو جنت کے حور و قصورپانے کا غم تو کسی کو اپنے بنانے والے کومنانے کا غم ۔ ہر انسان کی زندگی میں مصیبت ہے ، پریشانی ہے ، مصائب و آلام کا سامنا ہے۔
دریں عالم کسے بے غم نہ باشد
اگر باشد بنی آدم نہ باشد
لیکن بڑی مصیبت آخرت کی مصیبت ہے، اس لیے دنیا کے سارے غم قبول کر لیں لیکن آخرت کا چھوٹا سا بھی خسارہ قبول نہ کریں ۔ دنیا اور آخرت کی دونوں مصیبتوں سے ہمیں بچنا ہے لیکن اگر ایسی گھڑی ہو جہاں دنیا و آخرت کی مصیبت میں سے کسی ایک مصیبت کو قبول کرنا لازم ہو جائے تو خدا کے واسطے دنیا کی ساری مصیبت قبول کر لیں لیکن آخرت اور جہنم کی مصیبت قبول نہ کریں ۔مذکورہ خیالات کا اظہار خانقاہ عارفیہ، سید سراواں میں ہر مہینہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب منعقدپروگرام ’’محفل مولائے کائنات‘‘ کے اجلاس میں نقیب الصوفیہ مفتی محمد کتاب الدین رضوی نے کیا ۔
رواں مہینے کی محفل جمعرات کے دن مغرب تا عشا جاری رہی۔اس محفل کا آغاز قاری سرفراز سعیدی (استاذ شعبۂ حفظ ، جامعہ عارفیہ ) کی تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔ اس کے بعدجامعہ عارفیہ کے ایک طالب علم نے نعت پاک پیش کی۔ پھر مفتی رحمت علی مصباحی (استاذ جامعہ عارفیہ)کو خطابت کے لیے دعوت دی گئی۔ آپ نے حسن ظن سے متعلق بہت ہی جامع، مختصر اوراصلاحی تقریر کی۔ قرآن پاک کی روشنی میں آپ نے فرمایاکہ بدگمانی ایسا گناہ ہے جو اپنے اندر بہت سارے گناہوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس لیے بدگمانی کرنے سے صرف ایک آیت نہیں بلکہ قرآن کی بہت سی آیتوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔بعدہٗ مولانا رفعت رضانوری نےعلامہ اقبال کا مشہور کلام ’’لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب‘‘کوبہترین انداز میں سماعتوں کے حوالے کیا ۔ پھر نقیب الصوفیہ حضرت مفتی محمد کتاب الدین رضوی صاحب نے’’دردناک عذاب سے نجات کا راستہ ‘‘ کے عنوان پر پرمغز بیان فرمایا۔آپ نےاپنی تقریر میں سورہ الصف کی آیت (۱۰) کی روشنی میں فرمایا کہ اللہ تعالی نےاس آیت میں عذاب سے نجات دلانے والی تجارت کی رہ نمائی کی ہے۔ گویا نجات کی بنیاد حصول منفعت کی بجائے دفع ضرر کو بنایاہے۔یعنی انسان کی فطرت ہے کہ وہ فائدے کو حاصل کرنے سے زیادہ نقصان سے بچنے کو اہمیت دیتا ہےاور کوشش کرتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے نقصان سے بچا جائے،اس لیے ہمیں چاہیے کہ جہنم کی طرف لے جانے والی چیزوں یعنی محرمات سے بچنے کی زیادہ کوشش کریں۔ ایمان کے تعلق سے بتاتے ہوئے آپ نے کہا کہ اللہ و رسول نے جو کچھ فرما دیا اس کو بلا چو ن و چرا تسلیم کر لیناہی ایمان ہے ۔اگر کوئی بات اس کے سمجھ لینے کے بعد مانی جائے تو پھر اس میں قائل کی خصوصیت نہیں رہ جاتی۔ ایمان کہتے ہیں اللہ و رسول کو مان لینے کو۔ اب جب رسول کو مان لیا تو ان کی ہربات مانی جائے،خواہ ہر بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ایمان بالرسول کا یہی تقاضا ہے۔
اس کے بعد صلاۃ و سلام اور حضور داعی اسلام کی دعاؤں کے ساتھ یہ پروگرام اختتام پذیر ہوا اور نماز عشا کے بعد محفل سماع منعقد ہوئی اور اگلی اکیس کے لیے ۱۱؍نومبر بروز سنیچر کا اعلان ہوا۔محفل سماع کے بعد لنگر عام کا انتظام ہوا جس میں بلا تفریق آئے ہوئے زائرین ، معتقدین نے خانقاہ کے ایک صحن میں بیٹھ کر کھاناتناول کیا ۔
Leave your comment