ایسا لگتا ہےکہ مولانا مقبول احمد سالک مصباحی تکمیل سلوک سے پہلے ہی قافلے سے بچھڑ گئے اور واصل باللہ ہوگئے۔ لوگ یہاں جانے کے لیے ہی آتے ہیں اور پھر یہ قضا وقدر کا نظام ہے، کس کو کب آنا ہے اور کب جانا ہے، بھلا اس پر حرف زنی کی کسے مجال ہو سکتی ہے! البتہ عالم اسباب کی طرف نظر کرتے ہوئے کچھ لوگوں کا جانا ناقابل برداشت محسوس ہوتا ہے۔ وہ خود چلے جاتے ہیں لیکن دل سے ان کی یادیں نہیں جاتی ہیں ۔ان کی یادوں کے چراغ دیر تلک دلوں میں روشن رہتے ہیں۔ مولانا مقبول احمد مصباحی بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھے جن کی یادوں کے نقوش دیر تک دلوں پر قائم رہیں گے۔
مولانا مرحوم کی وفات کی خبر سن کر ایک عجیب کیفیت سے دوچار ہوا۔ اس اتفاقی سانحے پر کیا کہیں،کیا لکھیں، اپنے دلی رنج کا اظہار کیسے کریں، صرف یہ فیصلہ کرنے میں تیس گھنٹے گزر گئے۔ دوسرے دن شام کو فیس بک پر ان مختصرجملوں کے ساتھ اپنی تعزیت پیش کی:
’’شہید بغداد کے بعد یہ دوسرا سانحہ ہے جب دل بے حد افسردہ ہوا ۔
رحمہ اللہ رحمۃ واسعہ۔
اللہ مغفرت کرے آزاد مرد تھا۔‘‘
اس کے بعد یہ خیال آیا کہ مولانا کے حوالے سے کوئی تاثراتی مضمون بھی ہونا چاہیے اور بعض احباب نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی لیکن کیا لکھا جائے، بات کہاں سے شروع ہو؟ اور کہاں ختم ہو؟ یہ فیصلہ کرنے میں بھی نصف ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ آج ہمت کر کے بیٹھے ہیں تاکہ چند یادیں، باتیں ،دروس اور عبرتیں، غیر مربوط طور پر ہی سہی لکھ دی جائیں ۔
1999 میں جب میں باغ فردوس الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں وارد ہوا۔ اس سے پہلے مولانا مقبول مصباحی صاحب اشرفیہ چھوڑ چکے تھے لیکن اسی طوفانی انداز سے جس کے بعد کچھ ویرانیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ نئے سبزے بھی لہلہاتے نظر آتے ہیں۔ پرانے طلبہ کی انجمن میں مولانا کی انقلابی شخصیت کا چرچہ تھا ۔روانی گفتار ہو کہ سیلانی قلم، تدریسی مہارت ہو کہ تقریری گل افشانی، تنظیمی صلاحیت ہو کہ تحریکی جذباتیت،عربی کا فروغ ہو کہ انگریزی کی تحریک،جداریوں کا آغاز ہو کہ اشرفی لائبریری کے بازو میں خالص ایک عربی مکتبے کا قیام، ان کا ظاہری حسن و جمال ہو کہ ان کی رعنائی رفتار و گفتار، طلبہ جب اس پری وش کا ذکر چھیڑتے تو محفل دراز ہو جاتی ۔جوش و ولولے کے ساتھ گفتگوآگے بڑھتی اور حسرت و یاس کے ساتھ اختتام پذیر ہوجاتی۔ یہ باتیں جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں، ان کا تعلق افسانہ طرازی سے نہیں حقیقت بیانی سے ہے، جس کی شہادت ہر وہ شخص دے گا جو مولانا مقبول مصباحی کے قرب و جوار سے گزرا ہو۔
مولانا مقبول احمد مصباحی نور اللہ مرقدہ سے پہلی ملاقات زمانہ طالب علمی میں 2001 یا 2002 میں ہوئی۔ اس وقت وہ دہلی سے اشرفیہ مبارک پور آئے ہوئے تھے اور استاذ گرامی مولانا نفیس احمد مصباحی صاحب کے پاس مقیم تھے۔ پتا چلا کہ مولانا عربی زبان میں اعلی حضرت فاضل بریلوی پر خصوصی نمبر لانے کی تیاری میں ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک دراز قد اشتہار بھی تھا جس میں جامعہ قطب الدین بختیار کاکی کا تصوراتی خاکہ مرقوم تھا ۔غالباً ان کا پروگرام یہ تھا کہ دہلی میں ایک ملک گیر پیمانے پر بڑا اجلاس ہو جس میں عربی زبان میں امام احمد رضا نمبر کی رونمائی ہو اور ساتھ ہی جامعہ قطب الدین بختیار کاکی کا ہمہ گیر تعلیمی و تحریکی منصوبہ ارباب علم اور اصحاب ثروت کے سامنے پیش کیا جائے۔
مولانا موصوف نے استاذ گرامی کی توسط سے ایک عنوان’’أسرۃ الامام احمد رضا‘‘ راقم کو بھی عنایت فرمایا۔ میں نے بہت ہی ذوق و شوق کے ساتھ وہ مقالہ لکھا ۔غالباً عربی زبان میں وہ میرا پہلا مقالہ تھا جس کا کریڈٹ مولانا مرحوم کو جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ نہ وہ نمبر منظر عام پر آیا اور نہ جامعہ قطب الدین بختیار کاکی کا وہ آفاقی منصوبہ زمین پر اتر سکا ۔بہت بعد میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ مولانا مقبول سیمابی طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ آندھی کی طرح اٹھتے ہیں اور بگولوں کی طرح گم ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں صفات ان کی زندگی کے ہر قدم پر آخری قدم تک نمایاں طور سے نظر آتی ہیں ۔
2004 کے او اخر میں فراغت کے بعد جب میں دہلی پہنچا تو پتا چلا کہ مولانا موصوف پہلے جامعہ حضرت نظام الدین اولیا میں تدریسی فرائض انجام دے رہے تھے اور اب وہاں سے بھی الگ ہو چکے ہیں اور اپنے ادارہ جامعہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کی تعمیر و تشکیل کے لیے دہلی اور ممبئی کی گلیوں میں آبلہ پائی فرما رہے ہیں ۔میری ان طلبہ سے بھی ملاقات ہوئی جو جامعہ نظام الدین اولیا میں ان سے اکتساب فیض کر چکے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس دور میں مولانا مقبول احمد مصباحی اور مولانا خوشتر نورانی موجود تھے، وہ جامعہ نظام الدین اولیا کا زریں عہد تھا ۔کیوں نہ ہو وہ شخص ہی ایسا تھا کہ احمد فراز کے بقول:
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
ایک زمانے میں انہوں نے ممبئی میں بھی قیام کیا اور بعض بڑے دینی اور اشاعتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کی ۔ہمارے ایک قدیم کرم فرما نےجب ممبئی میں ان کے آفس میں ملاقات کی اور ان کی خادمانہ کیفیت دیکھی تو متحیر ہوئے، اکیلے میں پوچھا کہ مولانا! آپ نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے، کم سے کم اپنی عالمانہ وضع داری کا تو خیال کرتے؟ مولانا کا جواب تھا:
’’ کیا کیجیے گا، دو دھاری گائے کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔‘‘
مولانا موصوف کا یہ جواب دراصل ان کی زندگی کے ایک نئے مرحلے کی ترجمانی تھی۔ مولانا کی زندگی کا ایک عہد وہ تھا جب کسی چیز سے سمجھوتا کرنے کو تیار نہ تھے، پھر اس عہد کو بھی گلے لگایا جب انہیں ہر چیز سے سمجھوتا کرنا پڑا۔
2016 میں منعقد ہونے والی صوفی کانفرنس دہلی اہل سنت کی تاریخ میں خاص سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔ جہاں ایک طرف ملک کی بے شمار خانقاہیں اور درسگاہیں ایک ساتھ جمع ہو رہی تھیں، وہیں دوسری طرف اپنی ہی صفوں کے مجاہدین نے اپنی توپوں کے دہانے صوفی کانفرنس کی طرف کھول رکھے تھے۔ اس موقع پر اپنی تحریر وتقریر اور اپنے وجود وتصویر سے جس طرح سے مولانا موصوف نے صوفی کانفرنس کی حمایت کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ یہی وہ وقت تھا جب سوشل میڈیا اپنی پوری برق رفتاری، توانائی اور وسعت و فراوانی کے ساتھ سماج کے ہر شخص کو اپنا اسیر بنا چکا تھا ۔ جن علما نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا مولانا مقبول بھی ان میں سے ایک تھے لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا نے مولانا موصوف کے قدکو بلند کرنے کے بجائے ان کے گراف کو گھٹانے کا کام کیا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آں موصوف ان معدودے چند لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی مسہری فیس بک پر ڈال رکھی تھی۔ دوسری یہ کہ جن لوگوں کو مولانا موصوف کے ساتھ اپنی تصاویر کھینچا کر فخر محسوس کرنا تھا ان کے ساتھ خود مولانا اپنی سیلفی لیتے اور اپنی وال سے شیئر کرتے۔ تیسری یہ کہ جو نو عمر لڑکے مولانا کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے لائق بھی نہیں تھے، مولانا ان کے ساتھ سوشل میڈیا پر مناظرے کرتے ۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ وہی برآمد ہونا تھا جو ہوا۔یعنی لوہار کی صحبت کم از کم اپنے دھواں سے طبیعت کو مکدر ضرور کرتی ہے۔
مولانا سالک صاحب مئی 2016 میں پہلی بار خانقاہ عارفیہ تشریف لائے ۔حضرت شیخ کی صحبتیں اٹھائیں، مدرسہ اور خانقاہ کے منفرد نظام کو دیکھا اور قلم برداشتہ ایک طویل تاثراتی تحریر لکھ ڈالی ۔یہ تاثراتی تحریر تقریباً ۱۳۰۰؍ الفاظ پر مشتمل ہے۔ آپ اس میں رقم طراز ہیں:
’’ہندوستان کے دیگر خطوں کی طرح شہرالٰہ آباد بھی چشتی فیضان کا مرکز ومحورہے، جو مختلف دینی، تعلیمی اداروں اور درگاہوں کی شکل میں سرگرم عمل ہے ؛ لیکن حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد اس خطے کے سنی مسلمان، اہل محبت اور درویشوں کے چاہنے ، ماننے والےشدت کے ساتھ تشنگی محسوس کررہے تھے، انھیں کوئی ایسا مرشد کامل نہیں مل رہا تھا جو ان کے فکروعمل میں انقلاب پیدا کرکے ان کو صوفیائے اسلام کے مسلکِ عشق ووفا کی راہ پر گامزن کرتا۔ رحمت باری تعالیٰ کو جوش آیا اور اس نے الٰہ آبادسے متصل جانبِ مغرب ۲۳؍ کیلومیٹر کے فاصلے سیدسراواں کے مقام پر ایک ایسا روحانی اورعلمی مرکز برپاکیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے خطہ الٰہ آباد سے باہر نکل کر ہندوستان کے ایک وسیع وعریض خطۂ ارض کو اپنے فیوض وبرکات سے مالا مال کردیا۔ اسی علمی وروحانی مرکز کے روح رواں اور بانی ومربی شیخ طریقت، مرشد برحق مولانا شاہ ابوسعید احسان اللہ محمدی صاحب قبلہ مدظلہ العالی کی ذات گرامی ہے جس نے اپنے نفس گرم سے اس خطۂ ارضی کو اپنے ولولوں اور جذبوں کی تجربہ گاہ بنادیاہے، آج یہ سرزمین ہندوستان کی تاریخ کے عظیم عرفانی اور حقانی انقلاب کا مشاہدہ کررہی ہے۔‘‘
ان کے مشاہدات کا یہ حصہ یقیناً خانقاہ عارفیہ کے کرم فرماؤں کے لیے دعوت فکر ہے:
’’حضرت شیخ طریقت ،طریقت وتصوف کے ساتھ ساتھ تحریر وقلم کے بڑے قدردان، اور نوجوان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے خواہش مند ہیں، اور اسی نقطۂ نظر کے تحت انہوں نے نوجوان فضلا کی ایک زبردست فعال ٹیم کا انتخاب کررکھاہے، جو انتہائی تن دہی، بے خوفی، خلوص اور جاں فشانی کے ساتھ کام کررہی ہے، نوجوانوں کی یہ ٹیم اپنے آپ کو ملازم نہیں،اسلامی سرحدوں کے محافظ تصورکرتی ہے، یہ دن میں درسگاہوں میں سرکھپاتے ہیں ،اور راتوں کو ’’الاحسان لائبریری‘‘ کی خاک چھانتے ہیں۔‘‘
خانقاہ عارفیہ میں ان سے تفصیلی ملاقات کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ یہ شخص اب بھی اپنے اندر ایک انقلابی روح رکھتا ہے، کیوں نہ اس کی صلاحیتوں سے جامعہ عارفیہ کے طلبہ بھی مستفید ہوں۔ احباب اور مرشد گرامی سے استشارہ کے بعداس سلسلے میں ہم نے مولانا موصوف کو واٹس ایپ کیا کہ مہینے میں چند روز ہی سہی، ہمارے طلبہ کو دیں، آپ کی آمد ورفت کا ٹکٹ پہلے سے بک رہے گا۔نہیں معلوم کیوں مولانا نے اس پر بروقت کوئی جواب نہیں دیا، کیا عجب انہوں نے ہمارا میسیج ہی نہ دیکھا ہو۔واللہ اعلم!
غالباً 2018 میں ان کے ساتھ پہلا اور آخری سفر کرنے کا موقع ملا۔ علی گڑھ ریلوے اسٹیشن پر اچانک ٹکرا گئے۔ پھر وہاں سے دہلی تک کا سفر ان کے احوال و افکار اور درد و غم سنتے ہوئے بہت کامیابی کے ساتھ طے ہوا۔مولانا بغیر ٹکٹ کے سوار ہوئے تھے ۔ میرے دریافت کرنے پر کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ فرمانے لگے ، زندگی اس قدر برق رفتار ہے کہ سارے فیصلے اچانک ہوتے ہیں، اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ پہلے سے ریزرویشن کرایا جائے۔ اس لیے ہمارا معمول یہی ہے کہ ہم پہلے اے سی ڈبوں کا طواف کرتے ہیں، جہاں جگہ ملتی ہے وہاں بیٹھ جاتے ہیں، باقی معاملات ٹی ٹی مہودے سے طے ہوجاتے ہیں۔
مولانا موصوف نے بتایا کہ میرے خوابوں کا شیش محل اسی دن چکنا چور ہو گیا تھا جس دن میں اشرفیہ سے برطرف ہوا۔ اس کے بعد کی زندگی ایک بے کیف زندگی ہے جسے جینا ہماری مجبوری ہے ۔مولانا نے بتایا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں عربی زبان و ادب پر عبور حاصل کرنے کے لیے جو محنتیں ہم نے کی ہیں وہ دیوانگی سے کم نہیں۔مقامات و معلقات، دواوین اور ادبیات کی کون سی کتاب تھی جو ہاتھ میں آئی اور رات دن ایک کرکے اسے حل کرتا نہیں چلا گیا۔اس وقت راحت و آسائش جیسے الفاظ میرے لیے بے معنی تھے ۔میں جلد ہی اساتذہ کا منظور نظر بن گیا، طلبہ کی تنظیم کا صدر مقرر کیا گیا، میں جس دن اردو یاعربی بولنے کے لیے کھڑا ہوتا، سننے والوں کا ہجوم لگ جاتا، میرا سارا جنون، جذب و شوق، عشق ودیوانگی صرف اس لیے تھی کہ میں چاہتا تھا کہ اہل سنت کی تاریخ میں انقلابی تبدیلی لاؤں۔ جامعہ اشرفیہ مبارک پور میرے خوابوں کا شہر تھا ۔میری ساری تگ و دو اس لیے تھی کہ میں وہاں مسند تدریس حاصل کروں ،حافظ ملت کے آباد کیے ہوئے اس باغ کو نیا رخ دوں۔ زبان و ادب اور تحریر و تقریر کے حوالے سے حافظ ملت کا جو خواب تھا اسے زمین پر اتاروں اور ساتھ ہی جس طرح ندوہ عربی زبان کی وجہ سے براہ راست عالم عرب سے مربوط ہوا ،اسی انداز سے جامعہ اشرفیہ کو پورے عالم عرب سے جوڑ دوں ۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس وقت مجھے اشرفیہ کا استاد بنایا گیا ،زبان کے حوالے سے وہاں ایک خاص فضا کی تخلیق کی، ایک الگ لائبریری بنائی ،عربی بزموں اور جداریوں کا آغاز کروایا، قاہرہ اور بیروت کے اشاعتی اداروں کو خطوط لکھے اور وہاں سے رسائل و جرائد اور کتابوں کی آمد شروع ہو گئی ۔میں بہت خوش تھا اور میرا سفر بہت ہی صحیح سمت پر جا ری تھا، مگر۔ع
اےبسا آرزو کہ خاک شدہ!
موصوف نے بتایا کہ اس کے بعد مجھے کئی بڑے اداروں سے آفر ملے۔ جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی،مرکز الثقافۃ السنیۃ کیرالا ،رضا اکیڈمی،ممبئی اور اسی طرح دوسرے بڑےتعلیمی واشاعتی اداروں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ حاجی رفیق نے مجھے دبئی بلایا اوروہاں تمام تر آسائشوں کے ساتھ رضویات پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ۔ایک کے بعد ایک منزل بدلتی رہی، کارواں چلتا رہا، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ پورا سفر میرے لیے ایک بے کیف سفر تھا۔
رفیق مکرم مولانا رفعت رضا نوری ۲۰۰۵ء میں المجمع الاسلامی مبارک پورکے شعبۂ تصنیف میں زیر تربیت تھے،وہیں ’’جہان مفتی اعظم ہند ‘‘ کی ترتیب وتدوین کے سلسلے میںمولانا مقبول احمد مصباحی وارد ہوئے، اس دوران مولانا نوری نے ان سے سوال وجواب کے اسلوب میں ’’یادوں کے کھنڈرات‘‘ کے زیر عنوان ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا۔مولانا رفعت نے اس میں بہت سے اہم سوالات اٹھائے تھے جن پر جی کھول کراور کلیجہ پھاڑ کر مولانا نے اظہار خیال کیا تھا۔وہ بولتے بولتے جذباتی ہوجاتے اور بعض دفعہ انہیں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رہتا۔ وہ روداد کافی دنوں تک مولانا رفعت کے پاس رہی ، پھر مولانا نے ان سے لے لی تھی۔ اگر ان کے مسودات کے کھنڈرات سے اس کی بازیابی ہوجائے تو وہ خاصے کی چیز ہے۔ مولانا رفعت کے اس سوال کے جواب میں کہ جب کہ آپ کو اشرفیہ سے رخصت کردیا گیا، پھر آپ نےعلمی کام کے لیے یہاں کا رخ کیوں کیا؟ مولانا نے کہا کہ میں انتقامی نہیں ہوں، پھر یہ کہ اشرفیہ میری مادر علمی ہے، بھلا اس سے کیا انتقام لینا، میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ذاتی معاملہ ہے اور ذاتی معاملات میں اجتماعیت کوزک نہیں پہنچانی چاہیے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دنیا میں یا تو صلاحیتیں نہیں ملتیں یا صلاحیتیں ملتی ہیں تومواقع نہیں ملتے، مولانا موصوف کو دونوں چیزیں ملیں، مگر یہ سچ ہے کہ وہ اپنی سطح کی کامیاب زندگی نہیں گزار سکے۔ اب یہ سوال اپنے آپ میں قابل غور ہے کہ اس میں قصور کس کا تھا، غم جاناں اور شکوۂ دوراں میں پلہ بھاری کس کا تھا، یہ ایک اہم سوال ہے۔
مولانا موصوف نے یہ بھی بتایا کہ وہ چلتی ٹرین میں ایک سفر کے دوران کئی کئی مضامین موبائل اسکرین پر لکھتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے عرض کی: حضور! اس سے اجتناب چاہیے۔ یہ آپ کی صحت کے لیے مضر ہے۔ پھر آپ جن لوگوں سے آن لائن مناظرے کر رہے ہیں، وہ آپ کے سامنے کھڑے ہونے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ ہر سوال کا جواب ضروری نہیں کہ دیا جائے، بطور خاص جب کہ معلوم ہو کہ مخاطب سمجھنا نہیں، لڑنا چاہتا ہے۔
مولانا مقبول بلا کے ذہین تھے، ان کی ذہانت پیشانی کی ترچھی لکیروں ،آنکھوں کی چمک اورہونٹوں کے تبسم سے ہویدا تھی ۔ جس کام کی ٹھان لی اسے کر کے دم لیااور جس مجلس میں گئے، اس پر چھائے رہے، مولانا کے ذہانت پر یہ دوسری دلیل ہے۔
مولانا بہت تیز طرار تھے ۔ان کی کتاب زندگی کا ہرورق اس کی شہادت دیتا ہے۔مولانا موصوف کی تیزی جلد بازی کی حد تک بڑھی ہوئی تھی،اور تو اور ،موصوف نے مرنے میں بھی بڑی عجلت سے کام لیا۔ مولانا موصوف سے پہلی ملاقات میں دیکھا کہ استاذ گرامی مولانا نفیس احمد مصباحی متفکر تھے۔ سوال تھا کہ امام احمد رضا اور فن تاریخ گوئی کی تعریب کیسے کی جائے؟ مولانا مقبول صاحب نے برجستہ کہا :
’’حضرت اتنا مت سوچیے، چلیے لکھیے:الامام احمد رضا وقول التاریخ، باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔‘‘
یہ تعریب کہاں تک درست ہے، یہ تو صاحبان زبان بتائیں گے مگر مجھ پرجو بات منکشف ہوئی وہ یہ تھی کہ مولانا کی تیزی جلد بازی کی حد تک بڑھی ہوئی ہے۔اپنی تمام تر تیزی وطراری کے باوجود مولانا مرحوم سے بس چوک یہ ہوئی کہ انہوں نے دوسروں کو ضرورت سے زیادہ سادہ لوح سمجھ لیا ۔مولانا سے اگر یہ چوک نہیں ہوتی توجامعہ قطب الدین بختیار کاکی کا آفاقی منصوبہ یا تو بنتا نہیں یا بنتا تو بتدریج زمین پر ضرور اترتا۔
مولانا لفظوں کے بادشاہ تھے۔ جب بولنے پر آتے تو ان کی سانس تو ٹوٹ جاتی لیکن لفظوں کا تانتا نہیں ٹوٹا،یہی حال لکھنے کا تھا، وہ قلم برداشتہ لکھتےاور بے ساختہ لکھتے، خوب صورت الفاظ وتعبیرات، مترادفات ومحسنات لٹاتے چلے جاتے۔ اس سیاق میں وہ لفظوں کا ضیاع بھی خوب کرتے۔ بقول شہید بغدادمولانا اسید الحق بدایونی ان کی تحریر پڑھیے تو لگتا ہے کہ ان کے سامنے الفاظ وتعبیرات کا پہاڑ کھڑا ہو اور موصوف بلڈوزرسے اسے ڈھاتے اورلفظوں کو بکھیرتے چلے جا رہے ہوں۔اس کا شدید احساس مجھے اس وقت بھی ہوا جب میں نے ان کے آخری ایام میں دیکھا کہ وہ کسی حاجی صاحب کے سفر حج کی روانگی کی تقریب میں شریک ہوئےہیں تو کئی صفحات پر اس مجلس کی رپورٹنگ میں لکھتے چلے گئے ہیں۔
مولانا انتہائی درجے کے محنتی اور جفاکش واقع ہوئے تھے۔ جب کسی کام پر لگ جاتے تو پھر وہ یہ بھی بھول جاتے کہ آرام کس بلا کا نام ہے۔ آخری ملاقات 15 اگست 2023 کے موقع پر انہوں نے اپنی صحت کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح مختلف بیماریوں نے انہیںجکڑ رکھا ہے مگر بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ وہ دہلی پہنچ کر کسی علمی پروجیکٹ میں رات کا سونا اور دن کا کھانا سب کچھ بھول گئے تھے۔میں نے اس وقت بھی ادب کے ساتھ ان سے گزارش کی کہ آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ جان ہے تو جہان ہے۔ ہمیں گر نہ ہوں گے تو کیا رنگ محفل۔ اس موقع پر موصوف نے بتایا کہ کھانے کے اوقات اور کھانےکی چیزیں مناسبِ صحت نہیں ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ واقعی کامیاب مردوں کی زندگی میں عورتوں کا جو کردار ہے ، اس کا بدل نہیں ہوسکتا۔ میں اس موضوع پر حضرت مولانا سے بات نہیں کرسکتا تھا ، کیوں کہ مجھے معلوم تھا کہ مثالیت پسندی اور non-adjustment کے مزاج نے وقت کے قافلے کو بہت آگے بڑھا دیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ زمانے نے مولانا کی قدر نہیں کی مگر یہ بھی سچ ہے کہ دنیا سے غیر ضروری توقعات باندھنے ،من جانب اللہ حاصل مواقع کی قدر کرنے اور خود اپنے مقام ومرتبے کو سمجھنے میں مولانا سے تسامحات ہوئے ہیں۔ مولانا کی زندگی میں ہمارے لیے بہت سی باتیں سیکھنے کی ہیں ۔مولیٰ کریم مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اور ہم میں ان کے امثال پیدا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ اجمعین۔
تحریر- ذیشان احمد مصباحی
Leave your comment