Donate Now
علامہ ساحل شہسرامی: یادیں اور باتیں !

علامہ ساحل شہسرامی: یادیں اور باتیں !

استاذ گرامی قدر علامہ ارشاد احمد رضوی ساحل شہسرامی(۱۹۷۳- ۲۰۲۴ء(1) ایک وضع دار عالم دین تھے۔ چھوٹا قد، منہنی جسم، خوب صورت چہرہ، دبے ہوئے رخسار، گلابی لب، بڑی اور کچھ دبی ہوئی آنکھیں ، سیاہ بال، مخملی ٹوپی، سفید کرتا پاجامے پر علی گڑھ کی کالی شیروانی، سنجیدہ اور متین،تیز رفتار، نستعلیق گفتار، شستہ زبان، شائستہ لہجہ، دلکش خط اور ادیبانہ اسلوب، شکّیت کی حدوں کو چھوتی ہوئی حساسیت، ضد سی نظر آنے والی خود داری اور غیرت – یہ وہ الفاظ ہیں جن سے علامہ ساحل کا اسکیچ بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں کم ہوتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے ان کی قدر نہیں ہوتی اور جانے کے بعد ہر کوئی ان کے محاسن بیان کرتے نہیں تھکتا۔

علامہ ساحل شہسرامی نے ۱۹۹۳ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے فضیلت کی تکمیل کی اور پھر ۱۹۹۵ء میں اسی ادارے سے تخصص فی الفقہ کا کورس مکمل کیا۔ پھر وہیں استاد اور نائب مفتی کی خدمات انجام دینے لگے۔ ۱۹۹۹ء میں جب مَیں اشرفیہ حصول علم کے لیے حاضر ہوا تو پہلے سال ہی ان سے قربت پیدا ہو گئی ۔ ان کی تدریس کا انداز بہت منفرد ہوتا ۔ درس کی تقریر بہت ہی شائستگی اور جامعیت کے ساتھ نپے تلے الفاظ میں مخارج کی صحت اور جملوں کے حسن ترتیب کے ساتھ مکمل فرماتے ۔ پھر متن کے ترجمے اور ضمنی وضاحت کی طرف متوجہ ہوتے۔ پہلے سال سے ہی رجسٹر میں فتاوی نقل کرنے کی خدمت مجھ سے بھی لینے لگے تھے۔ سب سے پہلے ان کے زبان و بیان کی شائستگی نے مجھے متوجہ کیا ، پھر ان کے خط کی دل کشی نے دامن ِ دل کھینچا۔ ان کے فتاوی پڑھنا شروع کیا تو فتوے میں لسانی جمالیات دیکھ کر حد درجہ متأثر ہوا اور اس کے بعد ان کے ایک دو فتوے ایسے پڑھے جس کے بعد زاویۂ فکر ہی بدلنے لگا۔

بچپن میں سب سے پہلے جس فتوے کی کتاب پڑھی وہ’فتاوی برکاتیہ‘ تھی۔ اپنے سنی بریلوی علما کے دیگر فتوے، مقالات اور بیانات بھی پڑھےاور سنے جن میں ایک بات ہر جگہ گردش کرتی ہوئی محسوس ہوئی کہ دیوبندی گستاخیٔ رسالت اور انکار ختم نبوت کے سبب کافر ہیں اور ان کے وہی احکام ہیں جو کفار اور مرتدین کے احکام ہیں۔ یہاں علامہ ساحل کے فتوؤں میں پہلی بار دیوبندیوں کے تعلق سے دیے گئے فتوؤں میں ’اگر‘ لکھا ہوا پایا۔ مثلاً: ان سے پوچھا گیا کہ فلاں دیوبندی سے نکاح جائز ہے یا ناجائز؟ تو جواب میں لکھا کہ’ ’اگر‘ وہ تعظیم رسالت اور ختم نبوت کا منکر ہے تو اس سے نکاح قطعاً جائز نہیں۔‘‘ اس ایک ’اگر‘ نے میری سوچنے کی ڈگر ہی بدل ڈالی۔ انھیں کے فتوؤں کے مطالعےکے دوران مجھے معلوم ہوا کہ کچھ دیوبندی حقیقی ہوتے ہیں اور کچھ عرفی ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم بھی اسی ’اگر‘ کی تفریع تھی جس نے میری تفہیم کو ایک نئی سمت عطا کی۔

علامہ ساحل شہسرامی کو اپنے اساتذہ کی خدمت میں بیٹھے اور گفتگو کرتے بھی دیکھا ۔ شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی اور محقق مسائل جدیدہ مفتی محمدنظام الدین رضوی کی خدمت میں بیٹھنے کا سلیقہ اور عرض و معروض کا انداز حد درجہ متواضعانہ اور مؤدبانہ ہوتا۔ وہیں مشائخ کا بھی اسی طرح احترام کرتے۔ جس سال شیخ طریقت علامہ سید سبطین حیدر زیدی برکاتی کے سر پرسب سے پہلے خصوصیت کے ساتھ فضیلت کی دستار باندھی گئی، اس موقع پر میں نے دیکھا کہ نہایت شیفتگی اور والہانہ پن کے ساتھ سب سے پہلےکھڑے ہوئے اور ان کے پاس جا کر انھیں ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کیا۔

بعض اسباب کے تحت انھوں نے جلد ہی اشرفیہ کو خیرباد کہا اور ان سے اخذ و استفادے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اشرفیہ چھوڑنے کے بعد وہ علی گڑھ پہنچے جہاں ایک طرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنا تعلیمی سلسلہ آگے بڑھایا تو دوسری طرف شیخ طریقت پروفیسر سید محمد امین میاں قادری برکاتی کے زیر سایہ علمی و تحقیقی سلسلہ بھی جاری رکھا۔ جب ۲۰۰۳ء میں حضرت امین ملت کے اشتراک کے ساتھ ان کی کتاب ’ شاہ حقانی کا اردو ترجمہ و تفسیر قرآن: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘ چھپ کر سامنے آئی اور میں نے پڑھنا شروع کیا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ اردو کی معدودے چند کتب جن سے میں نے اردو سیکھنے کی کوشش کی ہے ان میں ایک یہ بھی ہے۔ اس کتاب میں علامہ شہسرامی کی زبان کی جمالیات اور اسلوب کا حسن اپنے کمال پر ہے۔ لفظوں اور جملوں کی بندش نے مجھے اپنا ایسا اسیر بنالیا کہ اکثر و بیشتر میں معنی سے بے نیاز لفظوں کے سحرمیں ہی مسحور و مسرور رہ کر ورق پلٹتا چلا گیا۔

علامہ شہسرامی نے کاشف الاسرار، فتاوی ملک العلما، منبع الانساب ، وجود العاشقین، سلاسل صوفیہ جیسی درجنوں کتابوں کے ترجمے، تدوین اور شرح و بیان کا کام کیا۔ ان کے علاوہ سالنامہ اہل سنت کی آواز علی گڑھ اور دیگر رسائل و جرائد کی ادارت یا ان میں مقالات لکھنے کا سلسلہ بھی ہمیشہ جاری رہا۔ مجموعی طور پر علامہ شہسرامی نے ایک علمی اور عالمانہ زندگی گزاری۔ رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔

منبع النساب کی ایڈیٹنگ کے دوران دو بار ان کا خانقاہِ عارفیہ بھی آنا ہوا جہاں شیخ خانقاہ اور دیگر اساتذہ سے مل کر بہت خوش ہوئے۔۲۰۱۳ء یا ۲۰۱۴ء میں جب ان کا دوبارہ آنا ہوا اس وقت میں بھی خانقاہ میں موجود تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علامہ فضل حق خیرآبادی پر ان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ کسی مغربی یا یوروپی ملک کے سفر کی تیاری میں تھے۔ میں ان سے قدرے بے تکلف ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کی: حضور! اب آپ آکسفورڈ جانے کی تیاری میں ہیں ، امی کی تو کچھ فکر کیجیے۔ امی کب تشریف لائیں گی؟ ہنستے ہوئے گویا ہوئے: بیٹے! پریشان نہ ہو، تمہاری امی بھی آکسفورڈ سے ہی آئیں گی۔ سوشل میڈیا کے توسل سے ان کا ایک تعارف میرے پیش نظر ہے جس میں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ انھوں نے ۲۰۱۸ء میں زیارت حرمین کا شرف حاصل کیا اور اسی سال جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، فرانس ، لِگزمبر جیسے ممالک کا سفر بھی طے کر لیا۔ حاصلاتِ سفر کیا رہے، ان سے ہنوز بے خبر ہوں ۔

علامہ ساحل اپنی ان تمام خوبیوں کے ساتھ حیران و پریشان بھی بہت رہتے ۔ انھوں نے کئی بار مجھے اپنے حاسدین کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح حاسدین کی طرف سے مجھ پر پے در پے سحر کے وار کیے جا رہے ہیں ۔ خود بھی بہت زیادہ اوراد و وظائف کرتے اور دیگر طلبہ سے بھی اپنے کمرے میں سورہ بقرہ یا دیگر آیات کی تلاوت کراتے ۔ طبیعت کی حساسیت ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ اگر کسی نے کھانس دیا یا ہنس دیا تو اسے بھی اپنے اوپر ہی محمول کر لیا کرتے تھے۔ جامعہ اشرفیہ اور خانقاہ برکاتیہ دو بڑے مراکز ان کو کام کے لیے میسر آئے ، ایسے مواقع بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن، یکے بعد دیگر اُن دونوں مراکز سے جدا ہونا اور پھر اس سطح کا کوئی ادارہ نہ پانا یقیناً ان کے لیے سوہان روح ہوگا۔

۲۴/ جولائی ۲۰۲۴ء کی صبح سوشل میڈیا پر اچانک ان کی رحلت کی خبر پڑھ کر شدید رنجور ہوا۔ ماضی کی یہ ساری تصویریں نگاہوں میں پھر گئیں اور آنکھیں نمناک ہو اٹھیں۔

اس میں شک نہیں کہ وہ ایک مرد کار تھا، اس نے اپنے حصے کا کام بھی ٹھیک ٹھاک کیا، لیکن ذات وکائنات کی ستم ظریفیوں نے ایک جگہ ٹھہرنے نہ دیا، پیک اجل بھی جلد آن پہنچا، ورنہ ان کا فیض مزید عام وتام ہوتا۔ اللھم اغفرلہ وأدخلہ فسیح جناتک یارب!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 - شہسرامی میں نے استاذ کی تقلید میں لکھا ہے، ویسے سارے لوگ اس لفظ کو سہسرامی ہی لکھتے ہیں، لیکن چوں کہ استاذ نے قدیم دستاویزات میں شہسرام لکھا ہوا پایا تھا، جس کے بعد اس لفظ میں کسی بھی تجدید وبدعت کو قبول کرنا ان کے اصول تحقیق کے خلاف تھا۔

Ad Image