جامعہ عارفیہ سید سراواں، الہ آباد کے شعبۂ دعوہ کے طلبہ نے فقہی سیمینار منعقد کیا میاں نذیر حسین دہلوی اور مفتی ارشاد حسین رام پوری کے افکار کا تقابلی جائزہ
۲۹؍ جنوری ۲۰۱۷ء کو ایک بار پھر جامعہ عارفیہ سید سراواں، الہ آباد کے شعبۂ دعوہ کے طلبہ نے فقہی سیمینار منعقد کیا۔ اس کا بار کا عنوان تھا ’’فقہ اسلامی میں تقلید کا وجوب‘‘۔ حضور داعیِ اسلامی شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کی سرپرستی میں منعقد ہونے والے اس سیمینار میں کل ساتھ مقالے پڑھے گئے۔افتتاحی کلمات کے لیے مولانا ذیشان احمد مصباحی تشریف لائے۔ آپ نے تقلید کی اہمیت وضرورت پر تفصیلی کلام کیا۔ پہلا مقالہ شاہد رضا نجمی نے پڑھا۔ جس میں انہوں نے تقلید کے حامیین اور منکرین کا ذکر کیا، پھر تقلید کے تعلق سے علمائے اہلِ سنت کا درست اور واضح موقف پیش کیا۔ اس کے بعد اشتیاق احمد سعیدی، گل بہار سعیدی، محمد فرحان مصباحی، تاج محمد سعیدی، فیض العزیز سعید، محمد رئیس نے بالترتیب اپنے مقالات پیش کیے۔ ان سبھی حضرات نے تقلید کے حوالے سے اپنا حاصلِ مطالعہ سامعین کے سامنے بیان کیا۔ اخیر میں مفتی کتاب الدین رضوی اور مولانا ارشاد عالم نعمانی صاحبان نے اپنے تأثرات پیش کیے۔ سیمینار میں جامعہ عارفیہ کے اساتذہ اور جماعتِ خامسہ سے فضیلت تک کے طلبہ شریک تھے۔ مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر معین الدین جینابڑے بھی موجود تھے، آپ طلبہ کے مقالات سن کر کافی محظوظ ہوئے اورسامعین کو اپنے تأثرات سے بھی نوازا۔ اخیر میں حضور داعیِ اسلامی کی دعاؤں پر اس سیمینار کا اختتام ہوا۔
تأثرات : تقلید امت مسلمہ کا ایک اجماعی موقف ہے۔ ہردور کے علما نے تقلید کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کیا ہے اور اہلِ زمانہ کو اس کا احساس بھی دلایا ہے۔ علمائے حق میں سے کوئی بھی تقلید سے منحرف نہیں ہوا اور نہ ہی کسی نے تقلیدی عمل کو خلافِ شرع گردانا۔تقلید کا انکار سب سے پہلے دوسری صدی میں داؤد ظاہری نے کیا، یہ کہہ کر کہ قرآن وحدیث کے ہوتے ہوئے ہم دوسروں کی تقلید و اتباع کیوں کریں، ہم صرف قرآن وحدیث کا اتباع کریں گے، دوسروں کی تقلید وہ کریں جن کے پاس قرآن وحدیث جیسا عظیم سرمایہ نہ ہو۔ داؤد ظاہری ہی کے دور میں غیر مقلدیت کی ابتدا ہوئی۔ تیسری صدی میں ابن حزم ظاہری نے بھی داؤد ظاہری کی روش اختیار کی اور غیر مقلدیت کا باضابطہ اعلان کردیا۔ ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے لوگ بھی اسی غلط فکر کے شکار ہوگئے اور ان کی بھی نظر میں تقلید ایک غیر ضروری اور خلافِ شرع امر بن کر کھٹکنے لگی۔ غیر مقلدیت کا ہندوستانی ایڈیشن شاہ اسماعیل دہلوی کے ذریعے عام ہوا۔ شاہ اسماعیل دہلوی نے تقلید کے معاملے میں اس قدر غلو اور شدت پسندی اختیار کی کہ ان کی نظر میں تقلید ایک شرک عظیم ٹھہرا اور مقلدین حضرات مشرکین کی صفوں میں آگئے۔ واضح رہے کہ مطلق تقلید کا وجوب نص کی بنا پر ہے، اور تقلید شخصی کا وجوب مصالحِ شرعیہ کی بنا پر ۔اقتضاء النص سے محض یہ ثابت ہوتا ہے کہ بالاختیار چاروں ائمہ میں سے ایک وقت میں ایک ہی کی پیروی کی جائے گی اور عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی امام کی پیروی ہو؛ کیوں کہ بیک وقت چاروں ائمہ کے مختلف اقوال پر عمل کرنا دشوار تر اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ لیکن اقتضاء النص سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمہ وقت صرف ایک ہی امام کی تقلیدواجب ہے۔اس کا وجوب شرعی مصلحت کی بنا پر ہے؛ کیوں کہ تقلید شخصی واجب ولازم نہ کرنے کی صورت میں خواہشاتِ نفس کی پیروی اور اتباعِ ہوا کے ہزاروں ابواب کھلنے کا قوی اندیشہ ہے۔ نفس وہوا آسانی چاہتی ہے، جس طرف آسانی ملے گی وہ مائل ہوجائے گی اور اس پر عمل کرے گی۔ کبھی آسانی کے لیے امام اعظم کے قول پر تو کبھی امام شافعی کے قول، کبھی امام مالک کے قول تو کبھی امام احمد کے قول پر۔ نتیجۃ شریعتِ مطہرہ تکمیلِ ہویٰ کا ذریعہ اور بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائےگی۔ (شاہد رضا نجمیؔ)
جب کوئی شخص باطنی سفر یعنی راہِ سلوک طے کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ توحید مطلب اختیار کرے۔ توحید مطلب سے مراد یہ ہے کہ مرید ایک ہی شیخ کا دامنِ رشد وہدایت مضبوطی سے تھامے رہے، اس کی رضامندی اور ناراضگی کو اللہ رب العزت کی رضامندی اور ناراضگی گمان کرے، صدق دل سے اسے اپنا ماویٰ وملجا تسلیم کرے، زنہار متعدد مشائخ کے دیار میں گردش نہ کرے۔ ایک شیخ سے بیعت کرنے کے بعد دوسرے شیوخ کے پاس چکر لگانا باطنی سفر یعنی راہِ سلوک میں ناکامی کی علامت ہے۔ اسی طرح ظاہری سفر طے کرنے کے لیے ایک ہی امام کا مذہب مضبوطی سے تھامے رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ بلاضرورت اپنے امام کا مذہب ترک کرکے کسی دوسرے امام کا مذہب اختیار کرنا گمرہی وضلالت ہے۔ (مفتی محمد کتاب الدین رضوی)
Leave your comment