خانقاہِ عارفیہ میں محفلِ مولائے کائنات اور تصوف وفلسفے کے موضوع پر توسیعی خطبےکا انعقاد
موجودہ دورعصری علوم کے حوالے سے بڑا ترقی یافتہ دور کہلاتا ہے۔ وہ چیزیں جوپہلے لوگوں کے تصور سے باہر تھیں، آج کی دنیا میں قدم قدم پر ان کے عملی نمونے دیکھنے کو ملا کرتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ جہاں ان علوم کی بنیا دپر مادی چیزیں خوب ترقی یافتہ ہوچکی ہیں، وہیں ان کی بنا پر معاشرے میں اخلاقی، عائلی اور معاشرتی وہ بحران بھی پیدا ہوچکا ہے جس سے باہر نکلنا دنیا کے لیے ناممکن تو نہیں البتہ دشوار ضرور ہے۔ ایسےمیں اس بحران کا خاتمہ صرف اور صرف روایتی فلسفے کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ روایتی فلسفے سے مراد وہ فلسفہ ہے جو وحی والہام کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ اس فلسفےکا وجود تقریبا دنیا کی ہر روایتی تہذیب وثقافت میں موجود ہے۔ دنیا کا ایک بڑا حصہ اس بات کو مانتا ہے کہ وحی والہام کی بنیاد پر انسان کو چلنا چاہیے۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ روایتی فلسفے کے بغیر وحی والہام سے منظم رہنمائی نہیں حاصل ہوسکتی۔ وحی والہام سے حاصل ہونے والی ایک چیز تو یہ ہے کہ ہمیں اپنے عقائد کا علم ہوجائے، معبود حقیقی کے احکامات اجمالی طور پر ہمارے سامنے آجائیں، اس طرح کی چیزوں کا علم تو محض وحی والہام کے ذریعے ہوسکتا ہے، مگر منظم علمی رہنمائی کہ علوم کی تشکیل کس انداز کی ہو،علوم میں کن چیزوں کا مطالعہ کیا جائےاور ان کے مطالعے میں کون سا طریقہ اپنایا جائے، ہماری تہذیب کے مختلف اداروں کی بنیادیں کیا ہوں، ظاہر ہے کہ زندگی کے ان تمام پہلوؤں میں وحی والہام سے منظم رہنمائی پانے کے لیے روایتی فلسفے کا سہارا بہت ہی ضروری ہے۔
تمام روایتی فلسفوں کے درمیان ایک عظیم قدر مشترک ہے ۔ تمام روایتی فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ جہانِ رنگ وبو کسی ایک تنزیہی حقیقت کا پرتو ہے۔یوں ہی تمام روایتی فلسفے اس پر بھی متفق ہیں کہ حقیقت کا جو بالکل اصل الاصول ہوتا ہے وہاں تک انسان کی رسائی ہوتی ہے۔ انسان کے پاس ’’لاادری‘‘ کہنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اگر فرق ہے تو صرف مطابقت میں ہے۔
موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر انسان روایتی فلسفے سے استفادہ کیوں نہیں کرپارہا ہے؟ کیا قدما کا مرتب کردہ روایتی فلسفہ آج کے دور میں ناکافی ہے؛ اس لیےاس کی تدوین نو کی ضرورت ہے؟ یا پھر از سر نو اس کی تشریح وتوضیح لوگوں کے لیے کافی ہے؟ ایک بڑی جماعت کا یہی ماننا ہے کہ روایتی فلسفہ آج کے دور میں ناکافی ہے، اس لیے اس کی تدوین نو کی ضرورت ہے، مگر درست یہ ہے کہ تدوین نو نہیں، بلکہ بیان نو کی ضرورت ہے۔ اگر صحیح طور سے اس کی تشریح وتوضیح دنیا کے سامنے آجائے تو وہ اس سے استفادہ کرنے کے قابل ہوجائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ ہر روایتی فلسفے کی ابتدا ایک وحی سے ہوتی ہے، اگر تدوین نو ہونی ہے تو ایک نیا نبی چاہیے اور اب کوئی نبی نہیں آنے والا ہے، اس لیے موجودہ دور میں اس کی بیان نو کی ضرورت ہے۔
ان تمام خیالات کا اظہار جامعہ عارفیہ میں منعقدہ ’’توسیعی خطبہ‘‘ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ علم الادویہ کے پروفیسر کنور محمد یوسف امین نے کیا۔ جامعہ عارفیہ میں ہر ماہ دو ماہ پرحضور داعیِ اسلام کی صدارت میں توسیعی خطبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔ جس میں اساتذہ اور خامسہ سے فضیلت تک کے طلبہ شریک تھے۔ فلسفہ عام طور سے ایک خشک موضوع مانا جاتا ہے، مگر پروفیسر صاحب کی گفتگو سن کر اس کی خشکیت کا احساس جاتا رہا اور سبھی لوگ خوب محظوظ ہوتے رہے۔
مغرب بعد جامعہ عارفیہ کےفارغ مولانا شاہد رضا ازہری (متعلم جامعہ ازہر، قاہرہ ، مصر) کے تقریب نکاح کی مجلس سجائی گئی ۔ عشا بعد محفل مولائے کائنات کا انعقاد ہوا، جس میں خطیب الہند مولانا عبید اللہ خاں اعظمی بحیثیت خطیب شریک ہوئے ۔ آپ نے اپنے خطاب میں مولائے کائنات حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان اور اہل بیت اطہار کے فضائل پر بہترین گفتگو فرمائی ۔ دورانِ خطاب آپ نے فرمایا کہ کسی بھی شخصیت کے تعارف کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کا خاندان کیسا ہے، اس کی ولادت کہاں ہوئی، پرورش کس کے پاس ہوئی، تعلیم کا حصول کس جگہ سے ہوا، زندگی کے کارنامے کیا رہے؟ حضرت علی کا خاندان بنو ہاشم ہے جو عرب کا نہایت ہی شریف اور متواضع خاندان تھا، پرورش نبی آخر الزماں ﷺ کی بارگاہ میں ہوئی، تعلیم درس گاہِ مصطفوی میں ہوئی اور کارنامے اتنا زیادہ جن کے بیان سے زبان گنگ اور قلم عاجز ہے۔ خطیب الہند کی تقریر کے بعد صلاۃ وسلام اور حضور داعیِ اسلام کی دعائوں پر محفل کا اختتام ہوا۔
Leave your comment