جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں فلسفہ وتصوف: تعارف وتجزیہ کے موضوع پر توسیعی خطبہ
انسانی زندگی میں تہذیب وثقافت کی حیثیت ثانوی ہے۔ اصلی حیثیت کائنات کو وجود بخشنے والے رب کی معرفت ہے۔ جس کی وضاحت قرآن مقدس نے یوں فرمائی ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنَ۔ (الذٰرٰیت: 56) یہی انسانی حیات کا اصل مقصود ہے۔ اسی مقصود اصلی کی جانب تصوف وفلسفہ رہنمائی کرتے ہیں اور مادہ پرستی کے نرغے سے نکال کر انسان کو حیات واقعی میں لاکھڑا کرتے ہیں۔ مادہ پرستی کی بنا پر آج دنیا عائلی، معاشرتی، ثقافتی، تعلیمی بحران وانحطاط سے دو چار ہے۔ جس کا خاتمہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ لوگوں کے علم وفکر کی اصلاح کردی جائے اور انھیں صحیح سمت کی جانب گامزن کردیا جائے۔ عمل کا تعلق چوں کہ علم وفکر سے ہوتا ہے، اس لیے اگر علم وفکر کا زاویہ درست ہوجائے تو دنیا کے عملی اقدامات بھی درست ہوجائیں گے۔ اور یہ اصلاح ودرستگی محض صوفیانہ افکار وفلسفیانہ روایات کے ذریعے ہی ممکن ہے؛ کیوں کہ مادہ پرستی کا دار ومدار مادی اشیا پر ہوتا ہے اور فلسفہ وتصوف دونوں ہی اشیا کی حقیقتوں سے بحث کرتے ہیں۔
ان تمام خیالات کا اظہار جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الہ آباد میں منعقدہ تصوف وفلسفہ: تعارف وتجزیہ کے موضوع پر توسیعی خطبہ میں پروفیسر کنور محمد یوسف امین (شعبۂ علم الادویہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ) نے کیا۔
تصوف وفلسفہ کے مابین بنیادی فروق پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ ہرگز نہ خیال کیا جائے کہ تصوف وفلسفہ قرآن وحدیث کا بدل ہیں۔ نہ تصوف قرآن وحدیث کا بدل ہوسکتا ہے، نہ ہی فلسفہ۔ تصوف قرآن وحدیث کی ایک تسہیلی شکل ہے اور ان کے توضیحی بیان کی ایک سبیل ہے۔ یوں ہی فلسفہ تصوف کا بھی بدل نہیں ہے، بلکہ تصوف کی تسہیل وتشریح ہے۔ فلسفہ صرف ذہن سے خطاب کرتا ہے، جب کہ تصوف کا مبحث نصوص کی روشنی میں پورا وجود ہوتا ہے۔ تصوف کا مقصد اشیا کی تحقیق ہے، جب کہ فلسفہ کا مقصد انھیں تحقیق شدہ اشیا کی تفہیم وتوضیح ہے۔ تصوف ایک جامع وشارع اور مخدوم علم ہے، جب کہ فلسفہ محدود وخادم اور ثمرۂ شریعت ہے۔
پروفیسر صاحب نے مزید کہا: عام رائے یہ ہے کہ فلسفہ کو مذہب سے دور رکھا جائے، جب کہ حقیقت یہ ہے جہاں تصوف کی تفہیم فلسفہ پر موقوف ہو تو وہاں مذہب کے بغیر فلسفہ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ جیسے مسئلہ وحدۃ الوجود، کہ اس کی افہام وتفہیم کے لیے فلسفہ کا سہارا ناگزیر ہے۔
دور حاضر میں فلسفہ کی اہمیت وضرورت اور اس کی پیش کش کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ دور حاضر میں فلسفہ کے بیانِ نو سے بالکلیہ احتراز کیا جائے۔ قدیم روایتیں ہی دنیا کے سامنے پیش کی جائیں۔ مدارس واسکول میں فلسفہ کی وہی کتابیں پڑھائی جائیں جو آج سے سو یا دو سو سال پہلے لکھی گئی ہوں اور جن میں شعوری یا تحت الشعوری کسی بھی جہت سے مغربی فکر کی آمیزش نہ ہوئی ہو؛ کیوں کہ وہی قدیم فلسفہ حقیقی فلسفہ ہے، جس کے بغیر انسانی وجود کا تصور بھی ناقص ہے۔ رہا وہ فلسفہ جو مغربی افکار سے آلودہ ہوچکا ہے تو اس سے دوری ہی انسانی زندگی کے لیے ضروری ہے۔ کیوں کہ اس فلسفے سے مادی پرستی کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ مادہ پرستی خوب فروغ پائے گی۔ البتہ نفسِ بیانِ نو کا تعارف کرایا جائے، وقتا فوقتا اسے تسہیلی انداز میں استعمال کیا جائے، جدید مغربی فلسفہ کا ناقدانہ اور اسلامی فلسفہ کا تاریخی وتجزیاتی مطالعہ کرایا جائے۔
اس پروگرام کی سرپرستی داعی اسلام شیخ ابوسعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی فرمارہے تھے۔ جب کہ صدارت صاحب زادہ شیخ حسن سعید صفوی ازہری اور نظامت مولانا ذیشان احمد مصباحی کررہے تھے۔ جامعہ عارفیہ کے کثیر طلبہ کے علاوہ ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی، مولانا ارشاد عالم نعمانی، مفتی رحمت علی مصباحی، مولانا ذکی ازہری، مولانا اصغر علی مصباحی، مولانا شوکت علی سعیدی اور مولانا طارق رضا قادری وغیرہ بھی موجود تھے۔
Leave your comment