Donate Now
ایک ربانی خانوادہ

ایک ربانی خانوادہ

یہ مقالہ  ۲۴؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کو سرکار ربانی سمینار منعقدہ خانقاہ ربانیہ، باندہ میں پڑھا گیا۔

خانوادۂ ربانیہ ، باندہ، ملک کے عظیم ان علمی وروحانی خانوادوں میں سے ایک ہے، جن کی علمی ودینی خدمات کا دائرہ صدیوں پر محیط ہے۔  یہ ان حسینی سادات کرام  کا ایک نورانی کارواں ہے، جن کے باشرف نسبی سلسلے سید السادات جہانیاں جہاں گشت حضرت سید جلال الدین بخاری (۱۴۰۴ء) قدس سرہ  کے چھوٹے بھائی حضرت صدر الدین راجو قتال سے جاملتے ہیں۔

حضرت راجو قتال (۱۴۲۴ء) کی  عظمت شان سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ حضرت جہانیاں جہاں گشت سید جلال الدین بخاری قدس سرہ نے اپنے صاحب زادگان کی موجودگی میں اپنی جانشینی آپ کو تفویض فرمائی اور پھر آپ نے بھی ھل جزاءُ الاحسانِ اِلا الاِحسان کے مطابق  اپنے صاحب زادگان کی موجودگی میں اپنے برادر معظم کے پوتے شیخ فضل الدین بن ناصر الدین محمود بن مخدوم جہانیاں کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔

حضرت راجو قتال کے پانچ صاحب زادگان تھے؛ سید روح اللہ، سید بندہ نواز ،سید  جلال الدین، سید ابوالخیرعبد العزیز اور سید ابواسحاق۔([1]) خانوادۂ ربانی کے شجرۂ نسب کے مطابق اس خانوادے کا  سلسلہ سید ابو اسحاق(۱۴۰۷ء)  رحمہ اللہ سے ملتا ہے۔([2])ایوب قادری نے لکھا ہے کہ شیخ ابواسحاق اپنے والد کے طریقے پر بچپن ہی سے تبلیغ اسلام میں مصروف تھے۔ مناقب الولایت میں  ہے کہ بچپن ہی میں ان کے دست حق پرست پر ۷۰ غیرمسلموں نے اسلام قبول کیا۔ ([3])

حضرت راجو قتال سے ایک قلبی تعلق یہ بھی  ہے کہ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ مینائیہ کی سلسبیل-جس کی ایک عظیم نہر شیریں خانقاہ عالیہ عارفیہ سیدسراواں  بھی ہے، جس کا ادنیٰ ٰ جرعہ نوش یہ فقیر ہے- آپ ہی کے منبع فیض سے قائم ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ مینا لکھنوی کے پیرومرشد شیخ سارنگ (۱۴۵۱ء) -قدِّس سرُّھم العزیز-کو آپ سے ہی اجازت وخلافت حاصل تھی۔

حضرت راجو قتال کا خانوادہ وقت گزرنے کے ساتھ پھلتا پھولتا رہا۔ اسی کی ایک شاخ  قصبہ شاہ پور ، ضلع فتح پور میں مقیم ہوئی۔  اس خانوادے کے ایک مقتدر عالم دین مفتی سید دائم علی فتح پوری نے نواب ذوالفقار باندوی کی گزارش پر باندہ میں سکونت اختیار کرلی۔ نواب صاحب نے آپ سے شرف بیعت حاصل کیا اور اپنے مدرسے میں مدرس مقرر کرلیا۔ یہ وہی زریں عہد تھا جب اس مدرسے میں مفتی سید دائم علی فتح پوری کے ساتھ نابغۂ عصر مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی اور مولانا قاری عبد الرحمٰن پانی پتی بھی زینت مسند تدریس تھے۔([4])

مولانا سید دائم علی فتح پوری کے صاحب زادے مولانا سیدامانت علی  محدث باندوی اپنے زمانے میں بہت ہی ممتاز تھے ۔ آپ کی پرشکوہ شخصیت نے خانوادے کی علمی وروحانی وجاہت میں اضافے کردیے۔ آپ کی ذات بابرکات میں روشنی کی ایک نئی رو صفوی سلسلے سے آئی۔ آپ اپنے وقت کی ایک مقبول انام  شخصیت حضرت شاہ قل ھو اللہ بارہ بنکوی (۱۹۰۶ء)کے دامن فیض سے وابستہ ہوئے اور یہی وہ مقام ہے جہاں باندہ کے ربانی خانوادے سے سید سراواں کا عارفی خانوادہ مربوط ہوتا ہے اور اس ربانی خانوادے سے اس حقیر کا تعلق خاطر مزید گہرا ہوجاتا ہے، کیوں کہ بانی خانقاہ وخانوادۂ عارفیہ حضرت مولانا شاہ امیر علی عرف عارف صفی قدس سرہ بھی حضرت شاہ قل ھو اللہ بارہ بنکوی کے ہی فیض یافتگان میں ہیں۔

مولانا امانت علی باندوی کے پانچ صاحب زادگان تھے، جن میں سب سے فاضل شخصیت بانی خانوادۂ ربانی  سرکار ربانی اعلیٰ حضرت مولانا شاہ عبد الرب باندوی  (۱۹۵۸ء)کی ہے۔علامہ ارشد القادری کے یہ الفاظ بڑی حد تک ان کی شخصیت کے عکاس ہیں:

’’میں عشق رسول کہا اور سنا کرتا تھا، مگر چلتی پھرتی اور جیتی جاگتی تصویر عشق رسول آج نظر نواز ہوئی۔‘‘([5])

حضرت سرکار ربانی مولانا شاہ عبد الرب باندوی کے پانچ صاحب زادگان تھے اور سب ہی ممتاز عالم وفاضل تھے:

1- مولانا سید عبد المعبود غریب  باندوی
2- شہید ملت مولانا شاہ عبد الودود باندوی (سجادہ نشیں)
3- مولانا سید وجود القادری باندوی صدر آل انڈیا سنی جمعیۃ العلما ممبئی
4-  مولانا سید شاہ محمود القادری  
5- مولانا سید شاہ احسن ربانی

سرکار ربانی کے چھوٹے بھائی مولانا عبد السلام باندوی (۱۹۶۸ء)کا شمار اپنے عہد کے ملی قائدین میں ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے خلفا میں ہیں جو قیام پاکستان کے بعد کراچی چلے گئے اور جمعیت علماے پاکستان کے نائب صدر کے طور پر متحرک وفعال رہے، جب کہ منصب صدارت مولانا عبد الحامد بدایونی کے حوالے تھا۔ ظاہر ہے کہ تین واسطوں سے ہمارا سلسلۂ تلمذ بھی اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی تک پہنچتا ہے، لہٰذا یہ نسبت بھی انس وقرب کا ایک اہم ذریعہ ہے۔فاضل بریلوی تک ہمارے سلسلۂ تلمذ کی پہلی کڑی کے طور پر متعدد اساتذۂ اشرفیہ کے نام شامل ہیں جو حضور حافظ ملت کے فیض یافتگان ہیں، جن میں سرفہرست استاذ گرامی قدر علامہ محمد احمد مصباحی کو رکھا جاسکتا ہے، دیگر دو کڑیاں حضور حافظ ملت اور حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی  ہیں۔ رحمھم اللہ رحمۃً واسعۃً۔

اس خانوادے کی جو شخصیت ہمارے زمانے میں رہی اور ہمیں اس سے ملنے کا شدیداشتیاق رہا وہ سیاح ایشیا سے ملقب حضرت مولانا سید مظہر ربانی (۲۰۱۴ء)علیہ رحمۃ الباری کی ذات ستودہ صفات تھی۔ غالباً یہ اشتیاق شہید بغداد مولانا اسید الحق عاصم قادری رحمہ اللہ کی ان سے ملاقات کے بعد حضرت شہید بغداد کے تاثرات سن کر ہوئے تھے۔ ان کی  جوتصویر میرے ذہن میں بنی تھی وہ یہ تھی کہ حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی کے شاگرد رشید ہیں ، ذی علم اور صاحب تقویٰ ہیں، معاصر علماے اہل سنت میں تاریخی معرفت وبصیرت میں فائق ہیں، کشادہ فکر ہیں اور اس تنگنائے سے باہر ہیں جس میں عام طور پر علماے جماعت الجھے ہوئے ہیں۔ حضرت شہید بغداد نے اپنے دورۂ باندہ میں جو تاثرات لکھے ہیں، ان سے بھی ان باتوں کی بڑی حد تک تصدیق ہوتی ہے۔ رقم طراز ہیں:

’’بانی ادارہ بقیۃ السلف حضرت سید شاہ مظہر ربانی دامت برکاتہم کی بافیض صحبت میں کچھ دیر بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی، زیارت کے فوراً بعد جو تاثر ہوا وہ یہ تھا کہ :

’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘

اور جب حضرت کی گفتگو سن کر اور دعائیں لے کر رخصت ہوا تو کیفیت کچھ یہ تھی کہ:

اک پل میں کو تری بزم میں ہم بیٹھ کر واعظ
برسوں نہ رہے بزم خرابات کے قابل‘‘([6])

مولانا سید مظہر ربانی صاحب سرکار ربانی کے بڑے صاحب زادے مولانا سید عبد المعبود غریب باندوی کے صاحب زادے تھے، آپ کے دیگر برادران میں مولانا سید غازی ربانی، مولانا سید قیصر ربانی  اور مولانا سید جوہر ربانی کے اسماے گرامی شامل ہیں۔ حب زادے

سرکار ربانی کے وصال کے بعد ارباب حل وعقد نے ان کا جانشین ان کے چھوٹے بھائی مولانا عبد السلام باندوی  کو نام زد کیا، لیکن آپ نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شہید ملت مولانا سید عبد الودود باندوی (۱۹۸۴ء)کو یہ منصب تفویض فرمادیا۔  ([7]) ،  جن کے صاحب زادے مسیح ملت مولانا سید شاہ محمد داؤد القادری نشتر ربانی اور سید شاہ محمد خوشنود منظر ربانی ہوئے۔   شہید ملت نے اپنی حیات میں ہی اپنے بعد مسیح ملت کو اپنا جانشین مقرر فرما کر انہیں مسند سرکار ربانی کا وارث بنا دیا۔  

مسیح ملت مولانا سید شاہ محمد داؤد القادری نشتر ربانی  (۲۰۱۱ء) جناب  ڈاکٹر واحد نظیر صاحب کے بھی شیخ طریقت ہیں، جنہوں نے ’’مکارم مسیح ملت‘‘ کے نام سے ایک تذکرہ رقم کردیا ہے، جس میں مسیح ملت اور ربانی خانوادے سے متعلق اہم معلومات موجود ہیں۔  ڈاکٹر واحد نظیر ہمارے کرم فرما ہیں، ان کی نگاہ عقیدت سے خانوادۂ ربانی کا تذکرہ پڑھنا ہمارے لیے بھی عقیدت افزا ثابت ہوا۔

مسیح ملت مولانا سید شاہ محمد داؤد القادری نشتر ربانی بیک وقت تین آستانوں کے مہتمم ومنتظم تھے، جن کی ذمہ داریاں اپنے بعد اپنے تینوں صاحب زادگان میں تقسیم فرما دیں:

1-                     آستانۂ سرکار ربانی، باندہ- اپنا ولی عہد وجانشین اور آستانہ سرکار ربانی کے مہتمم وجانشین اپنے بڑے بیٹے مولاناسید شاہ ارشد ربانی حفظہ اللہ کو نامزد کیا، جن کی دعوت ومحبت میں یہ مقالہ لکھا گیا۔

2-                     آستانۂ شہید ملت، جبل پور- اس کی سجادگی اور اس کا انتظام وانصرام اپنے تیسرے بیٹے مولانا سید امجد ربانی کو تفویض کیا، جو اپنے عہد طالب علمی میں دار العلوم علیمیہ جمداشاہی کے  اندر میرے رفیق وخواجہ تاش مولانا ضیاء الرحمٰن علیمی کے ہم عصر رہے ہیں، مولانا ضیا ان کی خوبیوں کے معترف اور ان کے اخلاق کے مداح رہے ہیں۔ اشرفیہ مبارک پور کے آخری سال میں غالباً وہ میرے ہم درس بھی رہے۔

3-                     آستانۂ  بابا عبد الشکور گوٹے گاؤں، وندھیاچل، اس  کی گدنی نشینی اور نگرانی اپنے دوسرے صاحب زادے سید شاہ احمد ربانی کو عطا فرمائی۔([8])

یہ خانوادہ بڑا وسیع اور یہ گھرانا بڑا بافیض ہےاور یہ تحریر ہنوز تشنۂٔ تکمیل ہے۔یہ ایسا موضوع ہے جس پر باضابطہ پی ایچ ڈی کی ضرورت ہے۔ سردست جناب واحد نظیر کے ان کلمات پر گفتگو ختم کرتا ہوں:

’’[سرکار ربانی] نے  احیاء دین کا فریضہ خود بھی انجام دیا اور آج آپ کی تیسری نسل میں چالیس سے زائد علماے دین اور مشائخ طریقت اس فریضے کی انجام دہی میں ہمہ تن مصروف ہیں۔‘‘([9])



([1])یادگار سہروردیہ، ص:۲۳۱/ شجرہ شریف، حضرت مولانا سید مظہر ربانی رحمہ اللہ

([2]) پروفیسر ایوب قادری نے لکھا ہے کہ سید ابواسحاق صاحب کا انتقال والد کی موجودگی میں ہی ہوگیا تھا۔ یادگارسہروردیہ کے مصنف نے سید ابواسحاق صاحب  کے اکلوتے صاحبزادے سید نعمت اللہ کا ذکر کیا ہے۔ خانوادۂ ربانی کے  شجرے کے مطابق  شیخ ابواسحا ق کے صاحب زادے  کے طور پر سید بندگی معروف کا ذکر ہے جن کے صاحب زادے سید ناصر الدین ملتانی کو بتایا گیا ہے۔اب یہ دونوں ایک ہی ہیں، یا الگ الگ ہیں؟، ہنوز تشنۂ تحقیق ہے۔

([3]) مخدوم جہانیاں جہاں گشت، ۱۸۶

([4]) مخدوم جہانیاں جہاں گشت، ۱۸۶

([5])مکارم مسیح ملت، ۱۲

([6])سیاح ایشیا: حیات وخدمات، آخری صفحہ

([7])مکارم مسیح ملت، ص: ۲۵

([8])مکارم مسیح ملت، ص: ۲۷

([9])مکارم مسیح ملت، ص: ۱۲

Ad Image