خانقاہ عارفیہ، سیدسراواں میں منعقدقومی یکجہتی کانفرنس میںعلما و دانشوران کا اظہار خیال ، الاحسان -۸ اور خضر راہ (ہندی) کی رونمائی
جامعہ عارفیہ، سید سراواں، الٰہ آباد
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب یہاں کے صوفیوں اور سنتوں کی دین ہے۔ انہوں نے ہی یہاں امن وامان اور محبت و ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا، جو ملک کی اجتماعی سالمیت اور ترقی کے لیے ضروری تھا۔ آج جب کہ فسطائی طاقتوں اور مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ملک کے اندر زہر پھیلارکھا ہے، ایسے میں ضروری ہوگیاہے کہ مذہب و روحانیت اور اخلاق و انسانیت کے حقیقی نمائندگان ایک بار پھر ملک میں بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کریں اور نفرتوں کو ختم کرکے محبتوں کا پیام عام کریں، جس کے بغیر ملک کی اجتماعی ترقی و سالمیت ناممکن ہے۔
ان خیالات کا اظہار خانقاہ عارفیہ، سید سراواں الہ آباد میں ۱۲ویں یوم غزالی کے موقع پر منعقد قومی یکجہتی کانفرنس میں شریک علما اور دانشوران نے کیا۔
اس محفل کے خصوصی مہمان خطیب سوامی لکشمی شنکر اچاریہ نے کہا کہ توحید ایک آفاقی سچائی ہے۔ تمام نبیوں، صوفیوں اور سنتوں نے اس کی دعوت دی ہے۔ یہ پیغام وید میں بھی ہے اور قرآن میں بھی ہے۔ شنکر اچاریہ جی نے مزید کہا کہ کوئی مذہب تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ بطور خاص اسلام میں فکر، قول اور عمل ہر سطح پر تشدد کو ختم کرنے کی تاکیدی تعلیمات موجود ہیں۔ رہا جہاد تو یہ حق کے دفاع اور حفاظت کے لیے جد و جہد کا نام ہے، جس کو بھاگوت گیتا میں موجود شری کرشن کی تعلیمات سے سمجھا جاسکتا ہے۔
ولایت فاؤنڈیشن دہلی کے نمائندے علامہ صادق حسینی نے کہا کہ اسلام کے فلسفۂ جہاد کو دہشت گردی سے جوڑنے والی عالمی سازش کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے اسلامی جہاد کے نام پر فساد برپا کر رکھا ہے، کیا واقعی ان کا اسلام سے کوئی تعلق بھی ہے، اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور بالفرض یہ دہشت گرد مسلمان ہوں بھی تو بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے کہ ان دہشت گردوں نے عالم انسانیت میں زیادہ تباہی مچائی ہے یا قیام امن کے نام پر بم برسانے والوں نے زیادہ تباہی مچائی ہے؟
واضح رہے کہ اسی پروگرام میں شاہ صفی اکیڈمی کی جانب سے تصوف پر علمی ، تحقیقی و دعوتی مجلہ کتابی سلسلہ الاحسان کے آٹھویں شمارہ کی رونمائی بھی عمل میں آئی ،ساتھ ہی ماہنامہ خضر راہ کی اردو زبان میں کامیاب اشاعتوں کے بعد اب ہندی زبان میں بھی اس کی رونمائی کی گئی ہے ۔
رات کے پروگرام میں مولانا عارف اقبال مصباحی نے اسلام میں خدمت خلق کے تصور پر جامع خطاب کیا اور مسلمانوں کو اور بطور خاص خانقاہیوں کو خدمت خلق کے جدید میدانوں میں قدم بڑھانے کی دعوت دی اور یہ بتایا کہ حدیث پاک کے مطابق لوگوں میں بہتر وہی ہے جو دوسروں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔مولانا سید قمر الاسلام ریسرچ اسکالر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اتحاد امت کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی اور اس کے لیے ہر مسلمان کو انفرادی طور پر ذمہ دار بتایا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو سوسائٹی تشکیل دی تھی وہ انفرادی و اجتماعی توبہ و انابت اور احتساب پر مبنی تھی۔ آخر میں محفل سماع منعقد ہوئی اور لنگر عام کی تقسیم کے بعد لوگ اپنے گھروں کو روانہ ہوئے۔
دوسرے روز بعد نماز ظہر درس عقیدہ کا خاص پروگرام منعقد ہوا۔ مفتی محمد کتاب الدین رضوی نائب پرنسپل جامعہ عارفیہ نے حسب سابق امسال بھی قدرت باری کے حوالے سے ایمان افروز گفتگو کی، جو اشکوں اور ہچکیوں کے جلو میں سنی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ رب العزت کی ذات قادر مطلق ہے۔ وہ اپنے ہر چاہے پر قادر ہے اور کائنات میں حقیقی فاعل و متصرف صرف اسی کی ذات ہے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ہم انبیا و اولیا کے توسل و تصرف کے قائل ہیں۔ لیکن ان کا تصرف بھی اللہ کی قدرت اور عطا کے نتیجے میں ہے اور مجازی ہے۔ لہٰذا اگر ہماری نگاہیں مجاز میں ہی اٹک کر رہ جائیں اور حقیقت سے غافل ہوجائیں تو ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا۔
خانقاہ عارفیہ، سید سراواں کے زیب سجادہ داعی اسلام حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی کی دعا پر تمام تقریبات کا اختتام ہوگیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل ایک ہفتے تک جامعہ عارفیہ کے طلبہ کی تعلیمی و ثقافتی تقریبات جاری تھیںاور یہ تمام تقریبات شاہ صفی میموریل ٹرسٹ کی جانب سے منعقد ہوئیں ۔
Leave your comment