’’تفہیم جہاد‘‘ نام سے ہی واضح ہے کہ مصنف نے اس کتا ب کی تصنیف فلسفۂ جہاد کی گتھیوں کو سلجھانے کےلیے کی ہے ؛کیوں کہ صاحب کتاب ،صاحب طرز ادیب اورصاحب الرائے دانشور بھی ہیں، جن کے قلم کی سیاہی ،دل و دماغ کی قوت اور زبان و بیان کا زور فقط ان سلگتے مسائل کے حل کے لیے صرف ہوتا ہے جن سے عصر حاضر میں قوم وملت جوجھ رہی ہوتی ہے، جیسا کہ سابقہ کتب(مسئلہ تکفیر ومتکلمین، الموسیقی فی الاسلام وغیرہ ) سے واضح ہے ۔اس لیے یہاں پر یہ سوال بہت ہی اہم ہوجاتا ہے کہ جہاد کی مشروعیت کے چودہ سو سال بعد جب کہ جہاد کے موضوع پر صرف اردو زبان میں ہی بے شمار کتابیں موجود ہیں، پھر بھی مصنف کو اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ضرورت کیوں پیش آگئی ؟
اس سوال کا جواب خود مصنف کے مندرجہ ذیل الگ الگ اقتباسات سے لے لینا بہتر ہے :
’’عہد طالب علمی سے ہی مسئلہ جہاد سے متعلق سوالات رہے ہیں ۔اس پر مختلف مضامین اور کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا لیکن تشفی نہیں ہوئی۔ اس موضوع پر لکھنے والے عام طور پر جہاد کی علت و غایت سے متعلق بنیادی سوالات سے صرف نظر کرتے ہوے سارا زور ضمنی اخلاقیات اور مباحث پر صرف کر دیتے ہیں ۔‘‘
آگے لکھتے ہیں :
’’مزید یہ کہ فقہا کی بعض تعبیرات نے بھی موجودہ عہد کے علما کی تفہیم جہاد میں مشکلات پیدا کردیں۔‘‘ (تفہیم جہادصفحہ ۱۰)
’’بر صغیر ہند و پاک میں مولانا مودودی کے بعد مولانا وحید الدین خان اور پھر جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اس مورچے کو سنبھالا اور جہاد کے بدلے ہوئے مفہوم کو صحیح سمت دینے کی کوشش کی ،مگر افسوس کہ ان کی توضیح بھی جدید ذہن کی تفہیم کے حوالے سے ہنوز نا مکمل ہے بلکہ ان کی بعض تشریحات ایسی ہیں جن سے معترضین کی باتوں کی مزید توثیق ہوتی ہے، پیش نظر تحریر در اصل اسی خلا کو پر کرنے کی ایک حقیر سی کوشش ہے۔‘‘ (تفہیم جہاد صفحہ ۱۶۸)
تفہیم جہاد کے ذریعے مصنف نے مندرجہ ذیل چیزیں قاری تک پہچانے کی کامیاب کوشش کی ہے :
✔ قرآن و سنت کے مطابق جہاد کا راست مفہوم
✔ جہاد کی مشروعیت کی حقیقی علت اور غایت
✔ جہاد کی ان تعبیرات اور تفہیمات کا علمی محاسبہ جن کے حامی سید مودودی اور سید قطب جیسے اصحاب قلم رہےہیں
✔ جہاد کے تعلق سے غلط فہمیوں کے اسباب کا جائزہ
✔ جہاد پر اٹھنے والے چند اہم شبہات کا ازالہ ۔
✔ ابتداے اسلام سے لےکر خلافت راشدہ تک کا تجزیہ کہ آخر وہ کیا مجبوریاں تھیں کہ ایک امن پرست اور سلام کی داعی قوم کو اپنے ہاتھوں میں تلوار اٹھانی پڑی پھر ان کے لڑنے کے اصول و ضوبط کیا طے تھے؟
زیر نظر مسئلے میں ڈاکٹر صاحب نے تقریبا بیس پچیس سال سے زیادہ ہی غور و فکر اور تدبر و تفکر فرمایا ہے، اس سے بڑا نفع ایک قاری کے لیے کیا ہو سکتا ہے کہ وہ فقط ایک کتاب کے مطالعے سے ہی بیس سے پچیس سال کا تجربہ اور تحقیق حاصل کر لے ۔
بعض جماعتیں اپنے نام کے ساتھ امن پسند کا لیبل لگاکر ساری دنیا کو دہشت گرد بناتی پھر رہی ہیں، خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ نے کے لیے قرآن و حدیث میں مذکور قربانی ،جہادا ورقتال کو غلط معنی و مفہوم کا جامہ پہناکر دنیا کے سامنے خود کو امن کا سفیر اور اسلام کو دہشت کا داعی باور کرنے کی کو شش میں لگے ہوئے ہیں اور بد قسمتی سے خود ہماری صفوں میں بھی بعض چیزیں ایسی در آئی ہیں جن سے ہمارے مخالفین کو ہی تقویت ملتی ہے، جس کے معاً بعد عام لوگوں کے ذہن میں (جو زیادہ تر اسباب و علل میں غور و فکر نہیں کرتے) یہ سوال عود کر آتا ہے کہ آیا اسلام کا فلسفۂ جہاد امن کا سفیر ہے یا دہشت کا داعی ؟ اس لیے ضرورت تھی ایک ایسی کتاب کی (خاص کر اردو دنیامیں ) جو موجودہ عہد کے پیدا کردہ شبہات اور اعتراضات کا قلع قمع کرے اور ساتھ ہی قرآن و سنت ، آثار صحابہ و تابعین اور تاریخ اسلام میں غور و فکر کے ذریعے آیات قتال ، غزوات رسول اور فتوحات خلفاے راشدین کی درست تفہیم اور موجودہ عہد سے ہم آہنگ تعبیر پیش کرسکے ۔الحمد للہ! ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی صاحب کی تازہ ترین تصنیف ’’تفہیم جہاد‘‘ اس ضرورت کی ایک بہترین تکمیل معلوم ہوتی ہے، جس کے لیے ہم ڈاکٹر صاحب کے تہِ دل سے شکر گزار ہیں ۔موصوف کی اس کاوش کو اور خسرو فاونڈیشن کی اس اشاعت کو امت کبھی فراموش نہیں کر پائے گی ۔ان شااللہ !
ڈاکٹر صاحب کی یہ خوبی مجھے بہت پسند آتی ہے کہ آپ کتاب قاری کے لیے لکھتے ہیں، اس لیے حتی الامکان اسے قاری کے ذہن و دماغ میں اتارنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، کبھی بھی آپ اپنےعلمی ،ادبی یا فکری بلندی کا رعب جمانے کے لیے اپنی تحریر کو غامض نہیں ہونے دیتے اور نا ہی کہیں غیر ضروری الفاظ وعبارات کی شکایت رہتی ہے۔ (البتہ اس بار کچھ مقامات پر پروف ریڈر کی عجلت کا احساس ضرورہوا ) آپ اتنا سادہ سلیس اور روانی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ہر درجے کا قاری مستفید ہو سکتا ہے ۔اس مرتبہ تو اپ نے اپنی کتاب کو سوالیہ پیرائے میں ڈھال کر قاری کو اصل مقصد سے گویا باندھ دیا ہے کہ قاری اس نازک مسئلے میں انہیں چیزوں پر فوکس رکھے جنہیں خود مصنف سمجھانا چاہتے ہیں، کہیں ایسا نا ہو کہ قاری دلائل کے کسی جزیے میں بال کی کھال نکالنے میں مصروف ہو کر اصل مقصد سے ہی منحرف ہو جائے ۔
زیر نظر کتاب سے پہلے جناب مشتاق صاحب کا ایک مضمون جہاد کے حوالے سے پڑھنے کا موقع ملا تھا جس میں آپ نے جمہور کے حوالے سے نقل فرمایا تھا کہ جہاد کی علت جمہور کے نزدیک محاربہ ہے، خود تفہیم جہاد کے اندر موجود ایک حوالہ بھی اسی موقف کو بیان کرتاہے جسے ڈاکٹر صاحب نے علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سےصفحہ ۵۲میں نقل فرمایا ہے، اس لیے مجھے امید تھی کہ ڈاکٹر صاحب خصوصیت کے ساتھ کسی ایک مقام پر ہی سہی جمہور کے موقف کو بیان فرمائیں گے مگر ڈاکٹر صاحب نے کسی مصلحت کے پیش نظر اپنی پوری توجہ اپنے مقصود پر ہی مرکوز کر رکھی ہے ۔
کتاب کے مطالعے کے بعد اس بات کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خالص کفر و شرک فساد فی الارض نہیں ہے، البتہ یہی بات اگر سوالیہ انداز میں زیر بحث لائی جاتی تو ان لوگوں کے لیے چشم کشا ثابت ہوتی جو اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے خالص کفر و شرک کوہی فساد فی الارض سے تعبیر کرتے ہیں ۔
آخر میں تبصرہ نگار کی تجویز ہے کہ جہاد اور فلسفہ جہاد کے حوالے سے قارئین کو اس کتاب کا مطالعہ لازمی کرنا چاہیے کیوں کہ کتاب اپنے موضوع پر بالکل مکمل ،معروضی اور معلومات افزا ہے۔ مصنف نے پورے مستحکم اور مضبوط دلائل سے اپنے موقف کو مزین فرمایا ہے ، اس لیے میری طرف سے مصنف اور ناشر کی خدمت میں خصوصی مبارک باد پیش ہے۔
کتاب :تفہیم جہاد
مصنف :ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی
کٹیگری : انسانیت ،مذہبی و معاشرتی سائنس
صفحات:۲۰۰
قیمت :۲۲۵
سال اشاعت:۲۰۲۴
ناشر:خسرو فاونڈیشن نئی دہلی
Leave your comment