Donate Now
ڈاکٹر ذیشان مصباحی کی کتاب  "تفہیم جہاد" پر تبصرہ

ڈاکٹر ذیشان مصباحی کی کتاب "تفہیم جہاد" پر تبصرہ

مولانا ذیشان احمد مصباحی سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں بی اے (اسلامک اسٹڈیز) میں ڈاخلے کے لئے امتحان دینے  دہلی آیا۔ تب سے اب تک ایک مربی کی حیثیت سے آپ میری رہنمائی فرماتے رہے۔ اس دوران آپ کی تحریروں کو پڑھنے اور آپ سے بالواسطہ استفادہ کرنے کے بے شمار مواقع مجھے میسر آتے رہے۔ مولانا مصباحی کی علمی کاوشوں سے واقف شخص اس بات کا اعتراف کرے گاکہ آپ کی روش میں فقہا ٫سی نکتہ سنجی اور صوفیاء سا اعتدال ہے۔ان کی یہ کوشش رہتی ہے کہ موجودہ مسلکی تشدد سے پرے جا کر اسلاف  کی علمی روشوں کو اجاگر کرکے ان کی تعبیر نو پیش کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں وسعت و گہرائی نظر آتی ہے۔ آپ نے منہج اسلاف  ( جس میں کلامی، فقہی، اور صوفی  روایات شامل ہوتی ہیں) پر عمل کرتے ہوئے بہت سے ایسے موضوعات مثلا تکفیر، موسیقی، اور اب جہاد،  پر قلم اٹھایا ہے جو امت میں زمانے سے باعث نزاع و الزام بنے ہوئے تھے۔ ان موضوعات  پر آپ کے محاکمات اور علمی و تحقیقی نتائج  قابل قدر و تحسین ہیں۔
زیر نظر "تفہیم جہاد-امن اسلامی کا الہی منشور" ذیشان مصباحی کی تازہ ترین کتاب ہے جس کی تصنیف پر صاحب کتاب اوراشاعت پر خسرو فاؤنڈیشن مبارک باد کے مستحق ہیں۔یہ کتاب دراصل جہاد کے حوالے سے پیدا شدہ غلط فہمیوں اورافراط و تفریط کے شکار نظریات کے ازالے کی ایک کوشش ہے۔ جہاد کو موضوع بنا کر اسلام کو مورد الزام ٹھرانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے۔ اس کے سرے دور استعمار میں جا کر ملتے ہیں ۔ یورپی ظلم و ستم کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمتوں کو   ناجائز اور بے بنیاد ثابت کرنے کے لئے استعماری طاقتیں ان مزاحمتوں کی بنیاد یعنی اسلام کو ہی نشانہ بناتی تھیں۔ اور ان مزاحمتوں کے سیاسی و معاشی اسباب کو نظر انداز کر دیتی تھیں۔ دور جدید میں 9/11 کے بعد جب اس مسئلے نے دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کی تب بھی اسی طرح کے رویے کو اپنایا گیا۔ 9/11 کے بعد دنیا کی مختلف زبانوں میں مسئلۂ جہاد پر جس طرح سے تحقیقی اور نیم تحقیقی تحریروں کی باڑھ سی آئی اس کو دیکھتے ہوئے اس موضوع پر قلم اٹھانا ایک بہت مشکل کام ہو جاتا ہے۔ تاہم مصنف نے داد ہمت دی اور اب یہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ 
 جہاد پر جتنی بھی تحریریں ملتی ہیں ان میں یا تو وہ معذرت خواہانہ ہوتی ہیں یا پھر سیاسی جذبات سے بھری ہوئی ہوتی ہیں، اور دونوں ہی صورتوں میں اسلام میں جہاد کے معنی کی صحیح تصویر نکل کر سامنے نہیں آپاتی ہے۔ مغربی طرز کی تحریروں میں نظریۂ جہاد و مسئلۂ جہاد کے تاریخی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں پر جدا جدا مطالعے کی بنیاد پر  جو تحقیقی نتائج پیش کئے جاتے ہیں ان میں بھی اس طرح کا نقص رہ جاتا ہے اور بعض دفعہ  اس حوالے سے غلط  فہمیاں بھی در آتی ہیں ۔ ذیشان مصباحی صاحب کی یہ کتاب اس حوالے سے زیادہ اہم ہے کہ یہ  اسلام میں جہاد کی معروضی حیثیت کو متعین کرنے کی کوشش کر تی ہے ۔ اس کام کے لئے مصنف جن اصول تحقیق  کو بروئے کار لاتے ہیں وہ مقاصد شریعت اوراسلام کی سیاسی و مذہبی اخلاقیات ہیں۔ اس موضوع کے لئے ان کے  ذریعہ اس منہج تحقیق  کا انتخاب اس لئے بھی اہم ہے کیوں کہ جہاد کا معنی و مفہوم اسلامی فکر میں مقاصد شریعت اور اسلامی اخلاقیات کے اصولوں پر ہی پروان چڑھا ہے۔ مصنف کا نتیجہ فکر جہاد کو ملک و معاشرے کے سیاسی انتظامات  و دفاع کے ایک شعبے کی  طرح دیکھتا ہے۔ یہ نظریہ دوسرے جنگی انتظامات سے اس طور پر بہتر ہے کیوں کہ اس کی حدیں اور اخلاقیات ایک ایسا مذہب متعین کرتا ہے جس کے نزدیک انسانی جان بلا تفریق مذہب محترم ہے۔ اور یہی مذہب، جہاد کا مقصد فتنے کو فرو کرنا اور امن قائم کرنا ٹھراتا ہے۔ اس کے علاوہ  اگر کچھ ہو تو وہ جہاد نہیں کہلائے گا۔
مختصراً ذیشان مصباحی کی کتاب مسئلۂ جہاد کی معروضی تفہیم کو پیش کرنے اور اسلامی و دنیاوی سیاسی اخلاقیات کے تناظر میں اس کی وسیع تفہیم کو ظاہر کرنے میں ایک اہم اور کامیاب کوشش ہے۔ کتاب کی افادیت کے پیش نظر اس کے دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی ترجمے ہونے چاہئے تاکہ مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے اس سے استفادہ کر سکیں۔

محمد علی
گیسٹ فیکلٹی، شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

Ad Image