Donate Now
الموسیقیٰ فی الاسلام : ایک تحقیقی شاہ کار

الموسیقیٰ فی الاسلام : ایک تحقیقی شاہ کار

علامہ ڈاکٹر ذیشان احمد مصباحی کا شمار ان محقق قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کی نگارشات کا اہل علم و دانش کو انتظار رہتا ہے، بل کہ وہ ان کی کتابوں کے مطالعہ سے اپنے خزانۂ معلومات میں نت نئے حیرت انگیز گوشوں کا اضافہ محسوس کرتے ہیں۔ جس پر  رویت ہلال اور مسئلۂ تکفیر سے متعلق ڈاکٹر صاحب موصوف کی کتابیں شاہد ہیں۔  عصری معروضی اصول  تحقیق پر لکھی  گئی  موصوف کی یہ کتاب ’’ الموسیقیٰ فی الاسلام : علمی، تحقیقی ، شرعی مطالعہ‘‘ مسئلۂ سماع کی درست تفہیم  کے لیے سیکڑوں کتابوں کی ورق گردانی سے بے نیاز کرنے والی ہے۔  اگر میں  یہ بات کہوں تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ موضوعِ بحث سے متعلق  جن وسیع اور مختلف الجہات  موضوعات و مضامین کو  جس حسنِ ترتیب کے ساتھ اس کتاب میں جمع کیا گیا ہے  شاید اس نوعیت و جامعیت کی اب تک کوئی دوسری کتاب وجود میں نہیں آئی ہے۔

۵۵۲/ صفحات  پر مشتمل  یہ کتاب تقریظ و پس منظر کو چھوڑ کر  سات ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب: جمالیات سماع، دوسرا باب: مبادیات سماع، تیسرا باب: تراث سماع، چوتھا باب: تاریخ سماع، پانچواں باب: فقہ نغمات، چھٹا باب: فقہ آلات اور ساتواں باب: سماع عارفاں۔

’’مضرابِ  الست‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی تقریظ میں مولانا ضیاء الرحمن علیمی نے سماع صوفیہ کے سامعین کو چھ قسموں میں تقسیم  کر کے بتایا کہ مجالس صوفیہ میں اکثریت اوپر کی پانچ قسموں کی ہوتی ہے۔ رہی چھٹی قسم  نرے عوام یا منکرین  سماع صوفیہ تو ممکن ہے کہ یہ لوگ ھم القوم لایشقی بھم جلیسھم  کے تحت  رحمت الٰہی سے  کچھ حصہ پا لیں۔  لیکن کوئی مجلس ایسی منعقد ہو رہی ہو جن کے سامعین ابتداءاً مذکورہ اوپر کی پانچ قسموں سے خالی ہوں تو وہ سرے سے مجالس صوفیہ کی بحث سے خارج ہیں۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص  خالص چھٹی قسم کے سامعین پر مشتمل مجلس پر قیاس کر کے  مجالس صوفیہ پر زبان درازی کرتا ہے تو ارباب حق صوفیہ اسے حافظ شیرازی کا یہ شعر  سنا کر  الست بربکم کے نغمۂ  سرمدی میں گم ہو جاتے ہیں:

شب تاریک و بیم موج و گرداب چنین ہایل  
کجا دانند حال ما سبک ساران ساحلہا


پہلے باب جمالیات سماع میں اسلام کے تصور جمالیات پر گفتگو کرنے کے بعد انسانی اور سماجی جمالیات میں نغمہ و موسیقی کا مقام پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے مصنف نے ایک جگہ بڑی جامع بات تحریر فرمائی ہے جسے نقطۂ لاریب کہنا بالیقین بجا ہوگا۔  لکھتے ہیں: 
’’ دین کے اندر بے شمار احکام ہیں۔ یہ سارے احکام چند اصولوں کے تابع ہیں  اور وہ سارے اصول پانچ مقاصد کے تابع ہیں اور پھر وہ پانچوں مقاصد  ایک اصل الاصول کے تابع ہیں ۔ وہ اصل الاصول کیا ہے؟  وہ اصل الاصول ہے: لہو۔ لہو کے دو پہلو ہیں: ۱- لہو عن الخلق ( خلق سے دور کر کے حق کی طرف لے جانے وا لا- رشک )  اور یہ مطلوب ہے۔ ۲- لہو عن الحق ( حق/ خدا سے دور کرنے والا-رشک)  اور یہ ممنوع ہے۔   ہر وہ چیز جو حق کی طرف لے جانے والی ہو وہ مطلوب ہے اور ہر وہ چیز جو حق سے پھیرنے والی ہو ممنوع ہے۔ ‘‘ (ص: ۳۶) 

پھر اسی باب میں آگے چل کر  چار  طریقوں سے فقہا اور صوفیہ کے مزاج  و مذاق کا فرق بیان کرتے ہوئے  ایک اہم سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ سوال ہے: کیا فقہیات کے باب میں صوفیہ کی بات معتبر ہے؟  سوال در سوال  کے طریقے پر   اس کا جواب یوں دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ صوفیہ کی دو قسمیں ہیں۔ محققین صوفیہ اور غیر محققین صوفیہ۔ غیر محققین کا یہاں کوئی اعتبار نہیں۔ رہے محققین  ، تو ان کی باتیں ان کے مریدین کے حق میں ایسی ہی ہیں جیسے ایک مقلد کے حق میں امام مجتہد کی باتیں۔ مصنف نے یہاں پر اس امر  کی بھی خوب وضاحت کی ہے کہ   قول و فعل کی حجیت و اعتبار کا معاملہ صرف ظنیات تک ہی محدود ہے۔ رہے قطعیات و محکمات  تو  جس طرح وہاں کسی صوفی کا کوئی قول و فعل حجت نہیں، اسی طرح کسی امام مجتہد کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔ وہاں حجیت کا مقام صرف کتاب و سنت کو حاصل ہے۔

مزید اسی باب میں علامہ فخر الدین زرادی  کے اس قول کو بھی خوب نمایاں کیا گیا ہے کہ  فروایۃ الفقھاء علیھم لیس بحجۃ   یعنی فقہا کی روایت صوفیہ کے خلاف حجت نہیں ہے۔  اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ صوفیہ بھی فقہا کی طرح محقق ہوتے ہیں ، انھیں بھی شرعی باریکیوں کا ایسے ہی علم ہوتا ہے جیسے فقہا کو ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ احسان و سلوک کے غلبے کی وجہ  سے  وہ فقیہ کی بجائے صوفی کے نام سے متعارف ہوتے ہیں۔  اور یہ ایک واضح بات ہے کہ محقق محقق کا مقلد ہوتا ہے،  نہ اپنے علاوہ کسی دوسرے  کی تحقق کا پابند۔ لہذا، صوفیہ اپنی تحقیق و کشف پر عمل کرتے ہیں اور فقہا اپنی تحقیق و قیاس پر۔  یہ وہ مضبوط حصار ہے کہ اگر کوئی اس نقطے کو اچھی طرح سمجھ لے تو  وہ صوفی و ملا کی بے جا غلامی سے آزاد ہو کر  دونوں طبقوں کے حق میں حسنِ  ظن قائم کرنے میں جو کہ مطلوبِ شرع ہے، کامیاب ہو سکتا ہے۔

دوسرے باب مبادیات سماع کے تحت اچھی آواز اور بری آواز کا فرق ، غنا ، عناصر غنا، اقسام آلات نیز  معازف و مزامیر کے اطلاقات  اور لہو و سماع کے مفاہیم پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔  اور لہو کے مباح، مستحب، مکروہ اور حرام ہونے کے مقامات کا ذکر کیا گیا ہے۔  اس باب کے اخیر میں صوفیہ کا قول ’’ السماع مباح لاھلہ و حرام لغیرہ‘‘ کی اطلاقی منظر کشی بھی خوب کی ہے جو نگاہ فکر کو اعتدال کی راہ فراہم کرتی ہے۔ 

تیسرے باب:  تراث سماع کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلے حصے کے تحت باضابطہ سماع کے موضوع پر ۲۱/ کتابوں کا تلخیص و تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان میں وہ کتابیں بھی ہیں جو جواز پر لکھی گئی ہیں اور وہ کتابیں بھی ہیں جو عدم جواز و حرمت پر لکھی گئی ہیں۔  یہ  تمام کتابیں  اگر سامنے رکھی جائیں تو اتنا واضح ہو جاتا ہے کہ مسئلۂ سماع علما و محققین کے نزدیک اختلافی رہا ہے۔ نیز اس کے جواز و عدم جواز دونوں کا تعلق  خالص علمی اجتہادات سے ہے، قطعیات سے نہیں ۔ مزید یہ کہ دونوں جانب جید اور معتبر علما ہیں جن کی کاوشیں سراپا اخلاص پر مبنی ہیں، نہ کہ تعصب و عناد اور  حسد و کینہ پر۔ اس لیے آپ کا تعلق جواز  یا عدم جواز خواہ جس نقطۂ نظر سے ہو  اپنے مخالف پر طنز و تعریض  اور طعن و تشنیع سے بالکلیہ پرہیز کریں کہ  علما کے خلاف زبان درازی یا سوئے ظنی خاتمہ بالسوء کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ العیاذ باللہ۔ 

دوسرے حصے میں صوفیائے کرام کی تحریر کردہ ۱۱/ کتابوں  کی روشنی میں  سماع مزامیر کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔  جس کا حاصل یہ ہے کہ  تیسری صدی ہجری تک  کی کتب تصوف سماع مزامیر کے ذکر سے خالی ہیں۔   ہاں! اس کے ذکر  کا آغاز چوتھی صدی کی بعض کتابوں سے ہوتا ہے۔ اور چھٹی صدی ہجری عہد سرکار بغداد شیخ عبد القادر جیلانی کے آتے آتے خانقاہوں میں سماع مزامیر کا رواج پڑ جاتا ہے۔یعنی آج جو خانقاہوں میں سماع بالمزامیر   دیکھتے ہیں  ، کوئی ۵۰- ۱۰۰/ سال پہلے سے  نہیں،  بل کہ ۹/ صدیاں پہلے  سے خانقاہوں  میں منعقد ہوتی آ رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعض جگہ آلات موسیقی کچھ زیادہ اور بعض جگہ کچھ کم ہوتے ہیں۔ 

چوتھے باب تاریخ سماع  : تاریخِ سماعِ مزامیر پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے ’’ مشائخ چشت اور  سماع بالمزامیر‘‘ کے تحت  پہلے ’’ ایک اہم فتویٰ‘‘  کے عنوان سے  اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی  کے سماع بالمزامیر   سے متعلق  ایک فتوے کا ذکر کیا ہے  اور پھر اس کا تفصیلی  تجزیاتی جائزہ پیش کرتے ہوئے  اس بات کا انکشاف کیا ہے  کہ اس فتوے میں جو  فوائد الفواد کا نام لے  کر  خواجہ نظام الدین اولیا کی طرف   ایک جملہ ’’ مزامیر حرام است‘‘ کا انتساب کیا گیا ہے  ، یہ جملہ فوائد الفواد میں سرے سے ہے ہی نہیں اور نہ یہ جملہ ہی سلطان جی کا ہے۔  یہ انتساب بالکلیہ بے بنیاد اور غلط ہے اور بے بنیاد چیز پر کسی چیز کی بنا رکھتے ہوئے جو فتوی دیا جائےگا اس کی کیا حیثیت ہوگی وہ کسی بھی ذی علم سے پوشیدہ نہیں۔  ہاں! اسی باب میں گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے مصنف نے اس بات کا  کھلے دل سے اعتراف بھی کیا ہے کہ  تاریخی شواہد کی بنیاد پر  سماع بالمزامیر کے حوالے سے سلطان جی کا موقف واضح نہیں ہے۔  یہ اور بات ہے کہ عملی رجحان عدم سماعِ مزامیر  کا رہا ہے،   اگرچہ بعض  روایات  سماع مزامیر کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ 

جن چشتی مشائخ سے عملاً سماع مزامیر ثابت ہے ان کا تذکرہ بھی اسی باب میں ہے اور خوب ہے  جن میں خصوصیت کے ساتھ خواجہ برہان الدین غریب، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، شیخ سعد الدین خیر آبادی، شیخ عبد القدوس گنگوہی ،  مخدوم شاہ صفی صفی پوری، مخدوم الہدیہ مولانا سید نظام الدین خیر آبادی، خواجہ نور محمد مہاروی،  مولانا عبد الرحمن لکھنوی، خواجہ سلیمان تونسوی،  علامہ فضل حق خیر آبادی، شاہ خادم صفی صفی پوری، خواجہ غلام فرید چشتی،  مولانا محمد حسین الہ آبادی،  اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی وغیرہم کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حالاں کہ مصنف نے صدی بہ صدی کئی ایک مشائخ کا ذکر کیا ہے، جو خاصہ معلوماتی گوشہ ہے۔

چشتی مشائخ کے بعد  مصنف نے غیر چشتی علما و مشائخ اور سماع بالمزامیر  کا ذکر کیا ہے اور یہاں بھی صدی بہ صدی   مجوزین و سامعین سماع مزامیر علما و مشائخ کا تذکرہ کیا ہے جس سے یہ بات سرے سے مسترد ہو جاتی ہے کہ ’’ سماع مزامیر  چشتی مشائخ کے ساتھ خاص ہے ، جو  چشتی نہیں ہیں ، ان لیے جائز نہیں ہے‘‘۔ غیر چشتی مشائخ کے تحت  ابتدا ہی میں چند صحابہ اور تابعین کے اسما دیکھ کر  تھوڑی دیر کے لیے نگاہیں رک سی جاتی ہیں، کیوں کہ جب’ ’ غیر چشتی علما و مشائخ‘‘  بولا یا لکھا جائےگا تو  عموما اس سے  سلاسل تصوف میں متعارف  دیگر سلاسل  کے علما و مشائخ  ہی سمجھے جائیں گے خواہ قادری ہوں، نقش بندی ہوں ، سہروری  ہوں یا کسی اور دوسرے سلسلے سے ہوں۔  اس اعتبار سے کم از کم  صحابہ و تابعین کا ذکر  غیر چشتی علما و مشائخ   میں نہیں ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ ان کا زمانہ  سلاسل تصوف کی  پیدائش سے پہلے کا ہے۔  لہذا، ان کا ذکر مستقل طور پر ایک الگ عنوان کے تحت ہونا چاہیے تھا نہ کہ غیر چشتی علما و مشائخ کے تحت۔ 

 پانچواں باب  فقہ نغمات کا ہے جس کے تحت   سماع نغمہ کے شرعی پہلو کو  قرآن و احادیث اور مذاہب فقہا  کی روشنی میں تفصیل سے  بیان کیا گیا ہے۔  مزید یہ کہ مصنف نے  صرف مجوزین کے دلائل پیش کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے، بل کہ مانعین کے دلائل بھی درج کیے ہیں  اور پھر دونوں  جہت کا تجزیاتی  مطالعہ کرتے ہوئے  تطبیق کی راہ نکالی ہے۔ 
’’ سماع نغمہ : مذاہب فقہا کی روشنی میں ‘‘  کے  تحت  مصنف نے  فقہ حنفی پر تو   کھل کر اصل ماخذ سے  قدرے تفصیلی گفتگو کی ہے،اور لیکن دیگر مذاہب فقہیہ : شافعی، مالکی اور حنبلی پر اصل ماخذ  کی بجائے  نہایت اجمالی طور پر  الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ  کے خلاصے پر   اکتفا کر لیا ، جب کہ یہاں بھی فقہ حنفی کی طرح  دیگر مذاہب فقہیہ پر بھی اصل ماخذ سے گفتگو ہونی  تھی۔   ممکن ہے مصنف کے لیے  یہ ضروری نہ ہو، لیکن  ہم جیسے طالب علموں کے لیے اصل ماخد کی اپنی ہی اہمیت ہے۔ 

چھٹا باب: فقہ آلات،  اس میں مصنف نے وہی طرز اختیار کیا ہے جو پانویں باب کا ہے۔ لیکن اس باب میں مذاہب فقہیہ کے تحت چاروں مذاہب: احناف،  شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کا اصل ماخذ سے تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ پھر اخیر میں فاضل بریلوی کا سماع مزامیر و نغمات کے سلسلے میں اصل موقف کیا ہے اس کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ یہ حصہ خاصہ دل چسپ ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ 

فقہ آلات سے متعلق ۱۰۲/ صفحات پر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد اخیر میں لکھتے ہیں " اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہوئی کہ آلات موسیقی کے حوالے سے قائم اختلاف اجتہادی اختلاف ہے اور جس امر کی حلت و حرمت فقہا کے نزدیک مختلف فیہ ہو اس میں قطعیت ختم ہو جاتی ہے اور ظنیت قائم ہو جاتی ہے۔ اب جب کہ آلات موسیقی کی حلت یا حرمت ظنی ٹھہری تو طرفین میں سے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ  اپنے حریف کو نص کا منکر،  حرام کا مرتکب، فاجر کہے۔ ہاں! جن کے نزدیک آلات موسیقی کی حرمت اجتہادی ثابت ہے ان پر واجب ہے کہ وہ ان آلات سے کلی اجتناب کریں۔ اسی طرح فواحش،  منہیات اور لہو حرام کے اتصال کے ساتھ  آلات موسیقی  کا بجانا اور سننا اجماعی طور پر حرام ہے جس سے ہر دو فریق کا اجتناب واجب ہے۔ (ص: ۴۷۷) 

آخری باب سماع عارفاں: صوفی سماع، مضامین سماع، اثرات سماع اور آداب و شرائط سماع پر مشتمل ہے۔ مصنف نے گزشتہ ۴۷۷/صفحات جو مختلف زاویے سے تفصیلی و تحقیقی گفتگو کی ہے اسے صوفی سماع سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا،  لیکن چوں کہ صوفی سماع اپنے کلام/ قول،  قوال، مجلسی کیف و سرور اور رقص  و وجد کی وجہ سے سوالات و شبہات کے نرغے میں رہتا ہے اس لیے ان ابحاث پر الگ سے خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ مضامین سماع کے تحت منظوم کلام کو شرعیات،  غزلیات، فحشیات اور کفریات  کے خانوں میں بانٹ کر اخیر کی دو قسموں کو بالکلیہ حرام،  جب کہ پہلی قسم کو بالیقین مباح و مستحب قرار دیتے ہوئے قسم دوم غزلیات کے حوالے سے قدرے تفصیل پیش کی ہے۔ مصنف کا ماننا ہے کہ صوفی سماع میں عموما اسی قسم دوم کی کثرت ہوتی ہے۔ آگے چل کر مصنف نے غزلیات کے مضامین کو نسائیات، عشقیات،  خمریات اور عرفانیات میں تقسیم کیا ہے۔ صاحب کتاب نے اگرچہ غزلیات کے چاروں مضامین کی تفہیم کرائی ہے،  مگر اسی کے ساتھ ہر مضمون کی مناسبت سے چند اشعار بطور تمثیل درج ہو جاتے تو تقریب فہم کے لیے زیادہ موزوں ہوتا، کیوں کہ نثری الفاظ و  ترکیبات سے شعری استعارات و تلمیحات کی تفہیم قدرے جدا ہے جس کی بہر حال یہاں ایک گونہ تشنگی معلوم ہوتی ہے۔

اثرات سماع کے تحت مبتدئین،  متوسطین اور کاملین سامعین کے بعد سماع طبعی، سماع نفسی، سماع عقلی اور سماع روحی پر مختصرا خامہ فرسائی کے بعد وجد و تواجد اور واجد و متواجد کے فرق کو بیان کیا ہے۔نیز اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ تواجد مذموم کیا ہے اور یہ کہ وجد میں حرکت افضل ہے یا سکون۔  اس کے بعد رقص، رقص کے اقسام اور  بعض مشائخ متقدمین کے رقص کے ساتھ  خانقاہ عارفیہ کے وجد و رقص پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔  ہند و پاک خصوصاً اور باقی تمام   بلاد اسلام  عموماً سماع و رقص کی محافل سے مستفیض ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اور یہ بات کسی ذی شعور سے پوشیدہ بھی نہیں کہ ہر جگہ کا عرف  و رواج اور توارث سماع  آلات  و رقص  بھی جدا گانہ ہے۔ ایسے میں مصنف کا صرف خانقاہ عارفیہ کے وجد و رقص  کے احوال  پر اکتفا کر لینا کافی معلوم نہیں  ہوتا، جب کہ مصنف کو اس بات کا اعتراف بھی ہے  کہ انھوں نے  یہ کتاب لکھ کر اہل خانقاہ کا ایک  بڑا قرض اتار دیا ہے  تو ایسے میں  انھیں  ہند و پاک اور دیگر  بلاد اسلامیہ کی محافل  سماع کے احوال و کوائف  کو بھی اختصار ہی سے سہی  درج ضرور کرنا چاہیے تھا۔

خیر، اثرات سماع کے تحت  مصنف نے اس سوال کا جواب  بھی خوب دیا ہے جو آج کل بعض نوجوان فضلا  کی طرف سے  کچھ زیادہ ہی اٹھایا جاتا ہے  کہ کیا وجہ ہے کہ  وجد سماع نغمہ سے تو آتا ہے  ، سماع قرآن سے نہیں آتا؟ حالاں کہ  اصول تجوید و ترتیل کے ساتھ اگر قرآن  پڑھا جائے  تو اس کی نغمگی سحر انگیز ہوتی ہے۔

آداب و شرائط کے تحت زمان، مکان اور اخوان کے ساتھ دیگر آداب کا بھی خوب ذکر کیا ہے۔ اسی ضمن میں جاء الحق کے حوالے سے مفتی احمد یار خان نعیمی   نے جو شرائط  لکھی ہیں ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ مفتی خان صاحب کے الفاظ ہیں: 

قوالی کا اہل  وہ ہے  کہ اس کو  وجد کی حالت میں کوئی تلوار مارے  تو خبر نہ ہو۔ بعض صوفیہ فرماتے ہیں  کہ اہل وہ ہے  کہ اگر  سات روز تک  اس کو کھانا نہ دیا جائے ، پھر ایک طرف کھانا ہو اور دوسری طرف گانا تو کھانا چھوڑ کر گانا اختیار کرے۔ ( ص: ۵۲۹- بحوالہ جاء الحق ، ص: ۲۶۴) 

مصنف نے مفتی صاحب کی اس شرط کو آسمانی شرط قرار دیتے ہوئے  اس کا خوب صورت تجزیہ پیش کیا ہے اور  اس بات سے پردہ بھی اٹھایا ہے کہ علامہ شامی  کی عبارت سے اکتساب کرتے ہوئے مفتی صاحب نے  ان کی یعنی علامہ شامی کی ’’ شرط وجد‘‘ کو اپنی طرف سے بدل کر ’’ شرط اہلیت سماع‘‘ بنا دیا۔  مفتی صاحب کی  اپنی طرف سے کی جانے والی یہ تبدیلی کوئی حیرت کی بات بھی  نہیں ہے   ۔ کیوں کہ گزشتہ صدی بھر کا اردو فقہی ذخیرہ اگر گھنگالا جائے  تو  درجنوں ایسی  مثالیں مل جائیں گی  جہاں متقدمین کی عبارات سے اکتساب کرتے ہوئے    اور ان کا نام لے کر کچھ کا کچھ کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کوشش ہونی چاہیے کہ ہر چیز کی اس کے اصل ماخذ اور منتہائے مقام تک پہنچ کر تحقیق کی جائے ۔ چناں چہ مصنف  بھی یہاں علامہ شامی تک نہ رکے ، بل کہ مزید تحقیق  سے اس بات کی تہہ تک کمال میں کامیابی حاصل کر لی کہ  اسے   صاحب عوارف المعارف  نے ’’ شرط ‘‘ کی بجائے ’’ کمال وجد ‘‘ کی علامت   کے طور پر بیان کیا ہے، جو علامہ شامی   تک آتے آتے  ’’ کمال وجد‘‘ سے  ’’ شرط وجد‘‘  ہو گیا اور مفتی احمد یار خان نعیمی  تک پہنچتے پہنچتے ’’ شرط وجد ‘‘ سے ’’ شرط اہلیت سماع‘‘   میں بدل گیا۔ 

بہر حال یہ کتاب جسے مصنف نے اپنا ۱۶/ سالہ  علمی و تحقیقی سفر نامہ قرار دیا ہے، اپنے موضوع  پر ایک مدلل ، مبرہن اور جامع ترین کتاب ہے۔ ممکنہ حد تک  جملہ ابحاث و مضامین پر  علمی، عقلی اور شرعی  ہر سہ جہات سے بھرپور گفتگو کی گئی ہے۔ اس کتاب کی زبان اتنی صاف ستھری اور سلیس ہے کہ   پڑھیے اور پڑھتے جائیے،  اکتاہٹ دور دور تک منہ نہیں دکھائےگی۔مزید  مضامین کی ترتیب  اس قدر موزوں  اور تہہ دار ہے کہ   ایک کے بعد ایک خود بخود نظریں آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ یوں تو مصنف کی گزشتہ تمام کتابیں ان کی مضبوط علمی شناخت کے لیے کافی ہیں، مگر یہ وہ کتاب ہے جو انھیں آئندہ صدیوں زندہ رکھےگی۔ 

۵۵۲/ صفحات کی یہ کتاب شاہ صفی اکیڈمی سید سراواں کوشامبی یوپی سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے،  جس کی قیمت 700/= ہے۔ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی سے +919910865854 رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔

آفتاب رشک مصباحی
القدس لائبریری داراپٹی، مظفرپور بہار

Ad Image