عام طور سے جب لفظ سلوک یا تصوف بولا جاتا ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی پر اسرار چیز ہے جس سے محبت تو رکھی جا سکتی ہے، البتہ اسے سمجھنے سے ہماری عقل قاصر اور فہم عاجز ہے۔حالاں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ دوسرے علوم کی طرح تصوف بھی ایک علم ہےجسے پڑھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس علم کا زیادہ تر تعلق عمل سے ہے۔
ایک متصوف جب تصوف پر عمل کرنا شروع کرتا ہے تو اس عمل کو ’’سلوک‘‘ اور عامل کو ’’سالک‘‘ کہتے ہیں۔ہم ذیل میں سلوک کے ان پانچ مراحل کو ترتیب وار ذکر کررہے جن سے ایک سالک دوران سلوک گذرتا ہے۔
۱۔علم: سالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ دین کا بنیادی علم حاصل کرے۔ حصول علم کے بغیر راہ سلوک میں قدم رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص منزل کا علم حاصل کرنے سے پہلے سفر کا آغاز کردے۔ظاہر ہے کہ ایسا شخص محنت تو بہت کرے گا، البتہ ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
۲۔شریعت: حصول علم کے بعد ضروری ہے کہ سالک ان تمام شرعی احکام پر عمل کرے جن کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے۔ نماز، روزہ، زکات اورحج وغیرہ پر عمل کرنا نیز آنکھ کان اور ہاتھ پاؤں کو گناہوں سے بچانا شریعت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔شریعت کو عمل میں لائے بغیر کوئی بھی انسان اپنے سلوک کو پختہ بنیادوں پر قائم نہیں کر سکتا۔
۳۔تزکیہ نفس: حصول کمال کے لیے صرف عمل بالشرع ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ برے اخلاق کو مٹاکر اچھے اورپاکیزہ اخلاق سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔اس سلسلہ میں شہوت وغضب کو اعتدال میں رکھنا سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس لیے کہ انہی دو قوتوں میں افراط وتفریط پیدا ہونے سے انسان بدخلقی کا شکار ہوجاتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے اپنی بےجا خواہشات کو مقہور کرکے خود کو نرم مزاج بنا لیا تو اس نے سلوک کا آدھا راستہ طے کرلیا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ھذا بحر غَرِقَ فیہ الاکثرون۔
۴۔تعلق باللہ:اخلاق درست کرنے کے بعد سب سے اہم مرحلہ تعمیرقلب کا ہے۔سالک سے مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ رکھے اور اللہ کے ساتھ اپنے قلبی تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرے۔اس مرحلہ میں تین چیزیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ اول محبت، دوم ذکر، سوم اخلاص۔اگر سالک نے اپنے سینے میں آتش عشق کو فروزاں کرلیا اور اللہ کے ذکر میں استغراق وفنائیت کے بعد ذکر دوامی ( حضور قلب) کی کیفیت حاصل کرلی نیز وہ اللہ کے لیے جینے مرنے والا بن گیا تو سمجھ لیجیے کہ ایسا شخص کافی حد تک پختہ اور کامل ہوگیا ہے۔اگر اس کے بعد اسے مشاہدے کی نعمت بھی حاصل ہوجائے تو یہ اس کے سلوک کا تکملہ کہلائے گا۔لیکن اگر بالفرض مشاہدہ حاصل نہ بھی ہوا تو مذکورہ چیزوں کے حصول کی وجہ سے ایسا شخص شبہ کامل یا شبہ واصل ضرور کہلائے گا۔
۵۔دعوت:مذکورہ بالا اوصاف حمیدہ پیدا کرنے کے بعد سالک خلق خدا کی ہدایت ورہنمائی کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور جو جیزیں اس نے طویل مجاہدہ وریاضت کے بعد حاصل کی ہیں، انہیں وہ بندگان خدا کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
طالبان علوم دینیہ کو چاہئے کہ وہ سلوک کے مذکورہ بالا پانچوں مراحل کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور مزید مطالعہ وتحقیق کے ساتھ انہیں عمل میں لانے کی کوشش کریں۔دنیا بھر کے نزاعات ومشاجرات سے قطع تعلق کرکے اگر ان چیزوں کو عمل میں لایا گیا تو ان شاء اللہ سعادت ونیک بختی دونوں جہان میں ہم رکاب ہوگی۔ لیکن واضح رہے کہ مذکورہ بالا مراحل لکھنے اور پڑھنے میں جس قدر آسان ہیں عملی سطح پر اسی قدر مشکل اور جاں گداز ہیں۔اس لئے اساطین سلوک کا ارشاد ہے کہ سالک کو تسہیل سلوک کی خاطر کسی شیخ کامل سے وابستگی اختیار کرنا ازحد ضروری ہے۔اس لیے کہ شیخ کامل کی تربیت اور فیض نظر راہ سلوک کی جملہ مشکلات کو آسان کرنے میں مثل اکسیر ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں:
مورِ مسکین ہوسے داشت کہ در کعبہ رسد
دست بر پائے کبوتر زد و ناگاہ رسید
Afzal Hossain
ماشاءاللہ بہت خوب
Leave your comment