تالکٹورہ اسٹیڈیم، نئی دہلی، بتاریخ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس کے تناظر میں ہمارے بعض مسلمان بھائی مسلکی اور ملی اتحاد پر بحث کررہے ہیں، میں ان سے اُوپر اُٹھ کر یہ عرض کروں گا کہ یہ وقت مسلکی اور ملی اتحاد کا نہیں بلکہ مذہبی ملکی اور انسانی اتحاد کا ہے۔ ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ نفرتوں کے کاروبار سے کوئی مذہب یا مسلک خطرے میں ہوگا ،اس سے اگر خطرہ ہے تو انسانیت کو ہے اور اگر خطرہ ہے تو ہندوستانیت کو ہے۔مختلف دھرموں اور آستھاؤں سے جڑے ودّوانوں، مہا جیو یوں اور مہاپُرشوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس ملک میں انسانیت ہندوستانیت، پریم اور بھائی چارے کی فضا ہموار کریں۔
داعی اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی
سجادہ نشیں خانقاہ عالیہ عارفیہ، سید سراواں، کوشامبی یوپی
عالی جناب مولانا محمود مدنی صاحب، اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مذاہب ومسالک کے نمائندگان، ارباب علم و دانش اورسامعین وناظرین!السلام علیکم ورحمۃ اللہ علیہ وربرکاتہ
یہ ہماری مشترکہ خوش نصیبی ہے کہ ہم اپنی ایک مشترکہ ذمہ داری کو نبھانے کے لیے ’’جمیعۃ علماء ہند‘‘ کی دعوت پریہاں حاضر ہیں۔ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ مختلف مذاہب ومسالک اور رنگ و نسل سے جڑے افراد و اقوام کی مشترکہ قدروں کی حفاظت کریں۔ صدیوں سے قائم اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی حفاظت کریں۔ آپس میں میل ملاپ اور محبت سے بھرے رشتوں کی حفاظت کریں جو رشتے ہمیں ہندوستانی اور انسانی سطح پر ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ اس کے بعد ہی ہم ہندستان کی حفاظت کرسکیں گے اور اس کی متحدہ قومیت کے حامل جمہوری اقدار پر مشتمل عظیم الشان دستور کی حفاظت کرسکیں گے۔
حضرات گرامی! یہ ملک ہندوستان آریاؤں کا ملک ہے جوآج سے تقریباً پانچ ہزار سال قبل اس ملک میں آئے اور ویدک لٹریچر پر مشتمل ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی ۔ یہ گوتم بدھ مہاویر جین کا ملک ہے جنھوں نے اس ملک میں اصلاحی تحریکیں چلائیں اور اخلاقی قدروں کی حفاظت پر خصوصی زور دیا۔ یہ مسلمانوں کا ملک ہے جوتیرہ سو سال قبل اس ملک میں آئے اور توحید اِلہ اور وحدت انسانیت کا درس دیا۔ ہندوستان میں جن کے نمائندے خواجہ غریب نواز، قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید، خواجہ نظام الدین اولیا اور اُن کے خلفا اور مریدین ہیں۔ خصوصاً حضرت امیر خسرو ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب کی خاص علامت ہیں جن کے باپ ترک تھے اور ماں ہندوستانی۔ اس کے علاوہ یہ ملک گرونانک اور سکھوں کا ملک ہے جنھوں نے آج سے پانچ سو سال قبل ہندوؤں اور مسلمانوں کے ملاپ سے ایک نئی مذہبی اور سماجی روایت کا آغاز کیا۔ یہ ملک اُن تمام لوگوں اور قوموں کا ملک ہے جو ایک زمانے سےاس ملک کاحصہ ہیں۔ اس میں پیدا ہوئے ،پلے اور بڑھے اور پھر خود کواس کی مٹی کے حوالے کردیا۔
حضرات گرامی!ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی کثرت میں وحدت ہے۔ ہم اس بات کی کبھی اجازت نہیں دیں گےکہ یہاں صرف کثرت رہ جائے اور وحدت نہ رہے۔ مختلف زبانوں، تہذیبوں اور مذاہب سے وابستہ افراد علیحدگی اختیار کرلیں، ایک دوسرے سے دور ہوجائیں، ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں، سماج اور ملک کو بانٹیں، اور نہ ہم اس کی اجازت دیں گے کہ اُن کی کثرت ختم ہوجائے اور صرف وحدت کو باقی رکھا جائے۔ ایک مذہب ایک سنسکرتی اور ایک تہذیب کی بات کی جائے۔ یکساں سول کوڈ کے فریب میں آکر یہاں کی جو مذہبی تہذیبی ثقافتی اور لسانی جو بوقلمونی اوررنگا رنگی ہے اس کو ختم کردیا جائے۔ یہ ذہن رکھنے والے لوگ کبھی بھی اس ملک کے دوست نہیں ہوسکتے، اور نہ ہی انھیں کارخانہ قدرت کی رنگا رنگی جمالیات کا ادراک ہے۔ان کے اس نعرے سے ایک تہذیب کا خواب شرمندۂ تعبیر تو نہیں ہوسکےگا، البتہ! مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے بیچ تصادم پیدا ہوگا اور دوریاں بڑھتی چلی جائیں گی۔ ہم ان کی خدمت میں عرض گزار ہیں کہ
چمن میں اختلاط رنگ و بو سے بات بنتی ہے
ہم ہی ہم ہوں تو کیا ہم ہیں تم ہی تم ہو کیا تم ہو
حضرات گرامی!اس ملک کی تاریخ کو تین حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے:
۱۔ مذہبی تاریخ ۲۔ سیاسی تاریخ ۳۔ مذہبی سیاسی تاریخ
۱۔ اس ملک میں جو لوگ حقیقت میں مذہبی اور دھارمک تھے جن کی نمائندگی یہاں کےسادھو سنت ،صوفی درویش اور دھارمک وِدّوان کرتے رہےہیں، یہ ہمیشہ پُرامن تھے اور ہیں، ہمیشہ بھائی چارے کا درس دیا اور آج بھی دے رہے ہیں، اپنے ہم مذہبوں اور ہم مشربوں کے ساتھ خصوصی تعلق رکھنے کے ساتھ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ انسانیت اور مانوتا کے نام پر حسن سلوک کیا اور آج بھی کررہے ہیں، میرا تعلق بھی سلسلہ چشتیہ نظامیہ سے ہے،آج بھی سید سراواں الہ آباد میں قائم خانقاہ عارفیہ کا دروازہ ہر وقت ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کے لیے کھلا ہوا ہے۔جہاں روزانہ دوپہر اور شام میں لنگر چلتا ہے جس میں خانقاہ کےخدام ، اساتذہ اور طلبہ کسی بھی دھرم ،اور سنسکرتی سے جڑے ہوئے مہمان ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ یہ دراصل اسی قدیم سلسلے کی ایک کڑی ہے جس سلسلے کو خواجہ غریب نواز ،اُن کے خلفا اور مریدوں نے اپنی خانقاہوں اور آشرموں میں قائم کیا تھا۔ ہمارے مشرب میں ہرآنے والے کی خدمت میں دوروٹی پیش کی جاتی ہے، ہم اس کی ضرورت پوچھتے ہیں اس کا دھرم اور مسلک نہیں پوچھتے، مذہب عشق میں محبت کی حکمرانی ہے۔ اس میں نفرت میں کے لیے سرے سے کوئی جگہ ہی نہیںہے۔
۲۔ رہی بات ہندوستان کی سیاسی تاریخ کی ، تو سیاست کا مذہب ہمیشہ سے حکومت رہا ہے، راجکمار ہردیو جو خواجہ نظام اولیا کا ایک عاشق تھا ،اس نے علاؤ الدین خلجی کی شکایتیں کرتے ہوئے امیر خسرو سے پوچھاکہ آپ جب کہ خواجہ کے غلام ہیں اس بادشاہ کے دربار میں کیوں جاتے ہیںجس نے ہم پر ظلم کیا ہے؟ امیر خسرو نے کہاکہ بابا! بادشاہ کا دھرم اُس کی حکومت ہوا کرتی ہے، اس کے لیے وہ اسلام اور کفر کو نہیں دیکھتا، نہ خاندان اور نسل کو دیکھتا ہے، اگر بادشاہ کو اپنی حکومت کے لیے اپنے بھائی اورباپ سے خطرہ ہوتو اُنھیں بھی بلا تاخیر کنارے لگادیتا ہے۔ہر چند کہ ہر بادشاہ میں کچھ نہ کچھ خوبیاں بھی ہوا کرتی ہیں۔
پتا چلاکہ اکثر بادشاہ اورراجا مہا راجاچاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ مذہبی روایت کے نمائندے نہیں ہیں، وہ حکومت اور کرسی کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں اوریہی کام آج بھی بہت سے وزرا اور حکمراں کررہے ہیں، ان کا کام عام طور پر نفرت پھیلاکر حکومت پر براجمان ہونا ہوتاہے۔ وہ عوام کی لاشوں پر اپنا تخت سجاتے ہیں۔
۳۔ اس ملک کی تاریخ کا جو تیسرا حصہ ہے وہ اور بھی افسوسناک ہے،جب مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو پھر دھرم مافیاؤں کا وجود ہوتا ہے، دھرم مافیا اپنے دھرم پر بھی کلنک ہوتے ہیں اور اِنسانیت کے لیےبھی لعنت اور ملامت ہوتے ہیں، دھرم مافیا ؤں کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کا دھرم سنکٹ میں ہے، پھر وہ دھرم رکھشا کے نام پر مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں،کوئی مذہب جس کی اجازت نہیں دیتا۔دھرم کے نام پر حکومت کا کھیل سب سے زیادہ خطرناک ،شرمناک اور پُر فریب ہوتا ہے۔جس کے جھانسے میں سیدھے سادھے عوام بہت جلد آجاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں اس بات کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے کہ جو لوگ صحیح معنوں میں کسی مذہب سےجڑے ہوئے ہیں ، جوحضرات انسانیت اور مانوتا کے رشتے کے تقدس کے قائل ہیں، جنھیں حقیقت میں ہندوستان اور ہندوستانیت سے پیار ہے اُن سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ مل جل کر بیٹھیں ، سر جوڑ کر غور کریں اور انسانیت ، مانوتا اور ہندوستانیت کی حفاظت اور اُن کے لیے درپیش خطرات کے ازالے کی تدابیر کریں۔ہندوستانی عوام کے دلو ںمیں ایک دوسرے سےجو نفرتیں بڑھ رہی ہیں ان کا ازالہ کریں ۔ مختلف علاقوں میں مشترکہ پروگرام کا انعقاد کریں، ایک دوسرے سے ملیں ، ایک دوسرےکی خوشی اور غم میں شریک ہوں، اور ہندوستان کے سیدھے سادھے عوام کو یہ باور کرائیں کہ یہ سب ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں ، ان سب کے باہم ملکر رہنے سے ہی مضبوط بھارت کا نرمان ہوگا۔
رہے وہ مٹھی بھر لوگ جو نوے فیصد پُرامن اور محبتی بھارتیوں کے اندر نفرت کا زہر گھولنے کی کوشش کررہے ہیں ہم ان سے بھی ونتی اور گزارش کرتے ہیںکہ وہ محبت کی قیمت کوسمجھیں ، اپنے ذہنوں سے غلط فہمیاں دور کریں، ہماری زبان ، ثقافت اور مذہبی روایت الگ الگ ہوسکتی ہے لیکن ہندوستانی اور انسانی سطح پر ہم سب ایک ہیں۔
اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس کے تناظر میں ہمارے بعض مسلمان بھائی مسلکی اور ملی اتحاد پر بحث کررہے ہیں، میں ان سے اُوپر اُٹھ کر یہ عرض کروںگا کہ یہ وقت مسلکی اور ملی اتحاد کا نہیں بلکہ مذہبی ملکی اور انسانی اتحاد کا ہے۔ ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ نفرتوں کے کاروبار سے کوئی مذہب یا مسلک خطرے میں ہوگا ،اس سے اگر خطرہ ہے تو انسانیت کو ہے اور اگر خطرہ ہے تو ہندوستانیت کو ہے۔مختلف دھرموں اور آستھاؤں سے جڑے ودّوانوں، مہا جیو یوں اور مہاپُرشوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس ملک میں انسانیت ہندوستانیت، پریم اور بھائی چارے کی فضا ہموار کریں۔
امن اور ایکتاسمیلن کے انعقاد پر میں’’ جمیعۃ علماء ہند ‘‘کے صدر جناب محمود مدنی صاحب اور اُن کی دعوت پر آئے ہوئے تمام علما اور دانشوران کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم حکومت کے بھی شکرگزار ہیں جس کی اجازت سے آج یہ مہا سمیلن منعقد ہے۔ساتھ ہی ساتھ میں ملک کےپرائم منسٹر نریندر مودی کو اُنھیں کی بات اُنھیں یاد دلانا چاہوںگا جو اُنھوں نے اس نئی حکومت کے آغاز میں کہی تھی کہ اُنھیں سب کے وکاس کے ساتھ سب کے وشواس کی بھی ضرورت ہے۔عالی جناب گزشتہ چند مہینوں سے ماب لنچنگ اور منافرت کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں اُس سے مسلم سماج عدم تحفظ، خوف اوربےاعتمادی کی نفسیات میں چلاگیا ہے۔ جب کوئی سماج خود بےاعتمادی کی کیفیت میں مبتلا ہوگا تو بھلا حکومت کو اُس کا اعتماد کیوں کر حاصل ہوسکےگا۔حکومت ہند سےہماری خصوصی گزارش ہے کہ اس پہلوپر خصوصی توجہ دے کیوں کہ اس ماحول میں نہ سب کا وکاس ہوسکےگا اور نہ سب کا وشواس مل سکےگا اور نہ ایک نئے مضبوط بھارت کا نرمان ہوسکےگا۔
بہت بہت شکریہ
Leave your comment