خانقاہ عالیہ عارفیہ کے صاحب سجادہ عارف باللہ داعی اسلام شیخ ابوسعیدشاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہ العالی نے قوم وملت کی رہنمائی اور شریعت وطریقت کے جامع افراد تیارکرنے کی غرض سے۱۹۹۳ء میں خانقاہ کے روحانی احاطے میں اس جامعہ کی بنیادرکھی اورــ’’الجامعۃ العارفیہ صفیۃ العلوم‘‘نام رکھا۔۲۰۰۶ء میں اس نام کومختصر کرکے’’جامعہ عارفیہ‘‘کردیاگیا۔جامعہ کا تعلیمی سفر اس وقت’’شاہ صفی میموریل ٹرسٹ‘‘کی ذیلی تنظیم ’’خانقاہ عارفیہ ویلفیئر سوسائٹی‘‘کے زیرنگرانی جاری ہے۔ اس مختصر سی مدت میں جامعہ اپنی دعوتی، تبلیغی اورعلمی خدمات کی بنیادپرملک وبیرون ملک میں متعارف ہوچکاہے۔اس وقت جامعہ اپنی ایک درجن سے زائد شاخوں کی نگرانی کے ساتھ سیکڑوں طلبہ کے قیام وطعام اورجدید طریقۂ تعلیم کے مطابق مفیدترتعلیم وتربیت کے انتظام وانصرام میں مصروف ہے۔ باصلاحیت، مخلص اورمتحرک وفعال اساتذہ کی ٹیم ان طالبان علوم نبویہ کواسلامی وعصری علوم وفنون اورنبوی اخلاق سے آراستہ کرنے میں لگی ہوئی ہے-جامعہ عارفیہ اپنی تمام ترتعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تعمیروتوسیع کے منازل بھی مسلسل طے کررہاہے۔۲۰۱۲ء میں جامعہ نے خانقاہ کےقریب ہی ۵؍ایکڑزمین حاصل کی جس پر ایک بڑی رقم کاصرفہ آیا۔ ۲۰ نومبر ۲۰۱۳ء میں جامعہ کے بانی و سربراہ داعی اسلام نے پانچ منزلہ’’مخدوم شاہ مینا ہاسٹل‘‘ کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر بفضلہ تعالیٰ مکمل ہو چکی ہے ۔ ۲۰ جنوری ۲۰۱۷ کومزید پانچ منزلہ’’ مخدوم شیخ سعد ہاسٹل ‘‘ کی بنیاد رکھی گئی جوبحمدہ تعالیٰ تکمیل آشنا ہو چکا ہے ۔ ساتھ ہی۹جنوری۲۰۱۸کو ’’ مخدوم شاہ صفی ہاسٹل ‘‘ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے جس کی تعمیر کا کام جاری ہے ۔
جامعہ عارفیہ کے قیام کے پس منظر میں کئی اہم مقاصد ہیں۔ان میں سب سے اہم جامعہ کے ذریعے ایسے افراد پیدا کرنا ہے جوموجودہ اصرافیت، مادیت،بے دینی ، بے عملی،مذہبی منافرت اوراصرارو تشدد پسندی کے ماحول میں اخلاص ، محبت اور عدم تشددکے ساتھ خود دین پر عامل ہوں اور دوسروں کو حکمت و موعظت کے ساتھ اس کی دعوت دیں۔ ایسے فقہا پیدا کرنا ہے جو ذوق تصوف کے آشنا اور فن حدیث سے واقف ہوں، اور ایسے ارباب تصوف پیدا کرنا ہے جن کی فقہی نزاکتوں اور کلامی باریکیوں پر نظر ہو ، جن کی عصر حاضر کو ضرورت ہے۔بانی ادارہ کی کوشش ہے کہ جامعہ کے فارغین میں دین کی معرفت کے ساتھ زمانے کی بصیرت پیدا ہوجس کا موجودہ زمانے میں بالعموم فقدان نظر آتا ہے۔جامعہ اپنے ان اہداف کے حصول کی طرف نہایت خاموشی اور مستعدی سے کوشاں ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔
تعلیمی شعبہ جات
جامعہ کے اندر درج ذیل تعلیمی شعبہ جات ہیں۔
(۱)شعبۂ پرائمری(۲)شعبۂ عالیہ (۳) شعبۂ دعوت و تحقیق و افتا(۴)شعبۂ حفظ وتجوید(۵)شعبۂ کمپیوٹر۔
ان کی قدرے تفصیل حسب ذیل ہے:
شعبۂ پرائمری
مختلف علاقوں میں جامعہ کی شاخیں قائم ہیں جہاں پرائمری تعلیم کا اہتمام ہے۔ ان اداروں میں جامعہ کا تیار کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے۔
شعبۂ عالیہ
شعبۂ عالیہ کے تحت فوقانیہ (Junior High School)، مولوی(High School) عالم(Intermediate) اورفاضل (Graduation)کی تعلیم ہو رہی ہے۔فاضل تین سالہ کورس پر مشتمل ہے جس کے آخری ایک سال میں فقہ، تصوف، حدیث وغیرہ میں سے کسی ایک میں اختصاص ہوتاہے۔
شعبۂ دعوت و تحقیق و افتا
تعلیمی سال۱۳ ۲۰۱۲- ء میں الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ(Advanced Diploma in Dawa & Islamic Studies) کے نام سےیک سالہ اڈوانس ڈپلوما کورس کا آغاز کیاگیا جس میں موجودہ زمانے کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دعوتی تربیت کے ساتھ حدیث، فقہ، تصوف، کمپیوٹر اور زبان و ادب کی ضروری تعلیم دی جارہی ہے جس سے طالب علم عصر حاضر میں علمی و عملی طریقے سے دعوتی عمل کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں ۔اس کورس میں داخلے کے لیےکسی معیاری مدرسے سے باضابطہ فاضل ہونا ضروری ہے۔اس کورس میں داخل طلبہ کو ماہانہ وظیفہ بھی دیا جارہا ہے ۔اب یہ کورس دو سالہ کر دیا گیا ہے۔ اس دو سالہ کورس میںہر ایک سال چار اکائیوں (Unit) پر مشتمل ہے ہر اکائی کا جدا گانہ امتحان بھی ہوتا ہے ۔دوسرے سال میں تحقیق و افتا کے عملی تجربے سے بھی گزارا جاتا ہے ۔
تربیت دعوت و امامت
(Diploma in Dawa & Imamat) کے نام سے ایک سال کاکورس ہے ، جس میں ۶ ماہ تک تو مستقل کلاسیز ہوں گی اور اس کے بعد ان سے عملی کام لیا جائے گا۔ان کی کلاس میں دیگر مضامین کے ساتھ تجوید وقراءت اور مسائل ومباحث کی خصوصی شمولیت ہوگی۔ ان کے علاوہ علوم قرآن،علوم حدیث،فقہ وفتاویٰ،تصوف وتزکیہ، دعوت و اصلاح، افکار ومذاہب اورزبان و ادب کے بھی بعض اہم مضامین شامل ہیں۔
شعبۂ حفظ و تجوید
اس شعبے میں حفظ مع تجوید کی عمدہ تعلیم کا اہتمام ہے۔ اس شعبے کے طلبہ حفظ کے ساتھ اردو، انگریزی ، حساب اور ضروری دینی مسائل کی تعلیم لازمی طور پر حاصل کرتے ہیں۔
شعبۂ کمپیوٹر
اس شعبے میں طلبہ کو کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔اسباب و وسائل کی کمی کے سبب یہ شعبہ ابھی بہت زیادہ فعال نہیں ہے۔
امتحانات
درجات عالیہ و حفظ کا امتحان سال میں دوبار منعقدہوتاہے،(۱) ششماہی اور (۲) سالانہ ۔ان کی قدرے تفصیل یہ ہے:
شش ماہی امتحان
۱۰ ربیع الاول کو شش ماہی چھٹی ہوتی ہے۔ اس سے قبل یہ تحریری امتحان منعقد ہوتا ہے۔اس کا مقصد گزشتہ ۶ مہینوں میں ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لینا اور تعلیمی رفتار کی اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ طلبہ کی تعلیمی صلاحیت اور پوزیشن کے تعین میں اس امتحان کا کلیدی رول ہوتا ہے۔
سالانہ امتحان
یہ امتحان تعلیمی سال کے اختتام پر ماہ شعبان کےابتدائی دنوں میں منعقد ہوتا ہے۔اس امتحان کے کچھ مضامین تقریری بھی ہوتے ہیں ۔ اس امتحان میں کامیاب ہونے پر ہی طلبہ کو اگلی جماعت میں ترقی دی جاتی ہے۔
الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ کا امتحان سال میں چار بار ہوتا ہے ۔
اصول امتحان
۱۔ سالانہ امتحان میں شرکت کے لیے طالب علم کی کلاس حاضری کا کم از کم ۷۵ فی صد ہونا ضروری ہے۔بصورت دیگر طالب علم امتحان میں شرکت کا مجاز نہ ہوگا۔
۲۔ہر طالب علم کے لیے مجموعی طور پر ۳۳؍ فی صد نمبرات حاصل کرنا ضروری ہے۔عالمیت یعنی (اگیارہویں و بارہویں )اور فضیلت کے طلبہ اگر مجموعی سے پاس ہیں اور کسی دو مضمون میں ۳۳ فی صد سے کم ،۲۵ فی صد تک نمبرات حاصل کرتے ہیں تو ان کوترقی دے دی جائے گی اور اگر دو سے زائد مضمون میں ۳۳ فی صد سے کم نمبرات حاصل کرتے ہیں تو ان کی ترقی موقوف قرار دی جائے گی اگرچہ مجموعی نمبرات سے پاس ہوں ۔
۳۔مولویت یعنی (نویں اوردسویں) اور اس سے نیچے کی جماعتوں کے (چھٹی تا دسویں)کسی طالب علم نے اگر مجموعی طور پر ۳۳ ؍فی صد نمبر حاصل کیا لیکن کسی ایک مضمون میں ۳۳ ؍فی صد سے کم ۲۵ ؍فی صد تک نمبر حاصل کیا تو ان کو بھی ترقی دے دی جائے گی اور اگر کسی دو مضمون میں ۳۳ ؍فی صد سے کم نمبر حاصل کیا تو ان کی ترقی موقوف قرار دی جائے گی اگر چہ وہ طالب علم مجموعی نمبرات سے پاس ہو۔
۴۔امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ کے لیے تین درجات متعین ہیںجن کے کم سے کم نمبروں کا معیار درج ذیل ہے۔
۵۔مولوی (High School) عالم (Intermediate)فاضل (Graguation)اور الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ(ADDIS)کے امتحان میں کامیاب ہونے والے طلبہ کے لیے سند اور مارک شیٹ ایشو کی جاتی ہیں۔
داخلہ
تعلیمی سال کے شروع میںیعنی ۱۰؍شوال المکرم سے داخلہ کی کاروائی شروع ہوجاتی ہے۔خواہش مند طلبہ جامعہ کے آفس سےجامعہ کا دستور العمل Prospectusحاصل کرتے ہیںاور اس میں دیے گئے داخلہ ٹیسٹ فارم پر کرکے آفس میں جمع کرتے ہیں فارم جمع کرتے وقت ہی آفس سے داخلہ ٹیسٹ میں شرکت کے لیے اجازت نامہ ایشو کردیا جاتا ہےجس میں داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ اور اس کا وقت مذکور ہوتا ہے، پھرمتعینہ تاریخ میں تحریری یاتقریری داخلہ امتحان منعقد کیاجاتاہے۔اس امتحان میں پاس ہونے والے طلبہ انٹرویو میں کامیاب ہونے کے بعد ہی جامعہ میں داخلے کے مجاز ہوتے ہیں۔(داخلہ کے حوالے سے تاریخوں کی تفصیلات اگلے صفحات میں داخلہ کارروائی کے ذیل میں ملاحظہ کیجیے ۔(
نصاب تعلیم
جامعہ کے نصاب تعلیم میں قدیم علوم وفنون کے ساتھ جدید ضروری علوم وفنون کاخاطر خواہ حصہ شامل کیاگیاہے۔اس نصاب کے مطابق جامعہ اوراس کی ایک درجن سے زائدشاخیں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،جہاں ہزاروں کی تعدادمیں مقامی وبیرونی طلبہ زیورعلم سے آراستہ ہورہے ہیں ۔نصاب تعلیم کی چنداہم خصوصیات یہ ہیں:
(۱)جامعہ کانصاب قدیم صالح اورجدیدنافع کاسنگم ہے-جس میں متعین مقدا ر کتب سے زیادہ فن کے مواد پر توجہ ہے ۔
(۲)علوم اسلامیہ کے ساتھ عربی وانگریزی زبان وادب کاصحیح ذوق پیداکرنے کی کوشش کی جاتی ہے-
(۳)علوم اسلامیہ کے علاوہ NCERTکے نصاب کے مطابق انگریزی،سائنس،حساب اورہندی کا تعلیمی مواد بھی نصاب کا حصہ ہے۔
(۴)حفظ مع تجوید کی تعلیم کاالتزام ہے۔
(۵)روزانہ اکثر جماعتوں کی عربی وانگریزی بول چال کی بھی ایک گھنٹی ہوتی ہے-
(۶) پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تکNCERTکلاس 2+10کی انگریزی،ریاضی اورہندی کی باضابطہ تعلیم بھی ضروری ہے-
(۷)تیسری جماعت سے آٹھویں جماعت تک NCERTکلاس 10 کی سائنس کی تعلیم بھی نصاب میں شامل ہے۔
(۸)ہندی زبان بھی داخل نصاب ہے۔یہاں کے فارغین اخبار میں کام کرناچاہیں توآسانی ہوگی بلکہ الیکٹرانک میڈیا میں بھی کام کرسکتے ہیں،اردوزبان
اچھی ہونے کی وجہ سے ترجیح پائیں گے۔اردواخبار میں بھی ہندی جاننے کی وجہ سے ترجیح پانے کے حقد ار ہوں گے-
(۹) تصوف کی تعلیم جامعہ عارفیہ کے نصاب کا خاص امتیاز ہے۔علمی تصوف کے ساتھ عملی و اخلاقی تربیت بھی نصاب میں ملحوظ ہے۔
(۱۰)طلبہ کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کے علاوہ انہیں پیشہ وحرفت سے جوڑناجامعہ کے مقاصد میں شامل ہے۔کمپیوٹر کی تعلیم اسی کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید دیگر حرفت کے حوالے سے ابھی غور کیا جارہا ہے۔
الاحسان لائبریری
۲۰۰۵ ءمیں جامعہ کے ذمہ داروں نے اپنے طلبہ ،اساتذہ اوردیگر باذوق حضرات کے استفادے کی غرض سے جامعہ کے احاطے میں ’’الاحسان لائبریری‘‘قائم کی، جہاں اس وقت مختلف علوم وفنون سے متعلق ہزاروں کتابیں موجودہیں۔لائبریری باضابطگی کے ساتھ علمی آسودگی کاسامان فراہم کررہی ہے۔ اس میںجدید عمدہ کتابوں کی فراہمی کے ساتھ قدیم مصنفین کی کم یاب کتابوں اورمخطوطوں کوجمع کرنے کاکام مسلسل جاری ہے-علمی و دینی ذوق کے حاملین سے گزارش ہے کہ وہ لائبریری کے لیے کتابیں وقف کریں، اگر ان کے گھروں میں قدیم کتابیں ہوں تو وہ لائبریری کو عطا کریں یا نئی کتابوں کی فراہمی میں لائبریری کا تعاون کریں۔
سائنس لیب
جامعہ عارفیہ میں سائنس کی بھی باضابطہ تعلیم ہوتی ہے جس کے لیے سائنس لیب بھی ہے جس میں درجہ عالمیت (اگیارہویں و بارہویں )کے طلبہ سے ان کے سائنسی اسباق کا عملی تجربہ کرایا جاتا ہے ۔
طلبہ کی تنظیم ’’جمعیۃ الطلبۃ ‘‘
جامعہ کے تمام طلبہ کی ایک مشترکہ تنظیم جمعیۃ الطلبۃ کے نام سے قائم ہے،جس کے تحت سال میں ایک بار حجۃ الاسلام امام غزالی قدس سرہٗ سے منسوب ایک علمی و ادبی مسابقہ کا انعقاد بنام’’جشن یوم غزالی‘‘ہوتا ہے ،جس میں مختلف زبانوں میں تحریری و تقریری مقابلے منعقدکیے جاتے ہیں۔ساتھ ہی یہ طلبہ کی ایسی تنظیم ہےجو جامعہ اور خانقاہ کی خدمات بھی انجام دیتی ہے ۔ جامعہ کی صفائی وغیرہ کا خیال رکھنا ، طلبہ کے درمیان اتحاد کو بحال رکھنے کی کوشش اورطلبہ کی تبلیغی مشق کی خاطر قرب و جوار کے علاقوں میں انہیں تبلیغ و اشاعت کے لیے روانہ کرنا ، طلبہ کی مالی ضرورتوں کی تکمیل اور فرسٹ ایڈ جیسی سہولیتوں کی انجام دہی تنظٰیم کے قابل ذکر اقدامات ہیں ۔
طلبہ کےوظائف
دو سالہ ڈپلومہ(الدبلوم العالی فی الدعوۃوالعلوم الاسلامیۃ) اور یک سالہ تربیت دعوت و امامت(الدورۃ التدریبیۃ فی الدعوۃ و الإمامۃ ) کے تحت داخل طلبہ کو ۱۰۰۰ ؍روپئے ماہانہ بطور وظیفہ دیا جاتا ہے ۔
تقریری اورتحریری مقابلوں میں شریک ہونے والے طلبہ کوانعامات سے نوازاجاتاہے۔اس کے علاوہ غریب ونادارطلبہ کوبھی ضرورت کے مطابق نقدروپیےاور دیگر ضروری اشیا ادارے کی طرف سے دیے جاتے ہیں۔
جامعات سے الحاق
یہ دور علمی انقلاب کا ہے۔ ایسے میں جامعہ اپنے طلبہ کو قدیم و جدید علوم و فنون سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔اس سلسلے میں جامعہ کے اصحاب حل و عقد ملک و بیرون ملک کی مختلف جامعات سے عالمیت (ثانویہ )کی سند کےمعادلے کے لیے کوشاں ہیں۔جامعہ ازہر مصر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدرآباد سے جامعہ عارفیہ کی ثانویہ یعنی عالمیت کی شہادت کا معادلہ مکمل ہو چکا ہے جس کی بنیاد پر جامعہ عارفیہ کے طلبہ جامعہ ازہر کے اسلامیات اور لسانیا ت کے تمام شعبہ جات اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مولانا آزاد کے بیچلر ڈگری کے مختلف کورسیز میں داخلے کے مجاز ہیں۔جواہر لال نہرو یونی ورسٹی ، دہلی ، جامعہ ہمدرد ، دہلی ،AYUSH (BUMS) اور دیگر جامعات سے معادلے کی کارروائی کی کوشش بھی جاری ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جامعہ ازہر مصر نے تعلیمی تعاون کرتے ہوئے ۲۰۱۳ءمیں تین سالوں کے لیے استاذ شیخ عبد اللطیف فرغلی ازہری کو جامعہ عارفیہ میں تعلیمی خدمات انجام دینے کے لیے ہندوستان بھیجا جنہوں نے اپنی خدمات انجام دی ، پھر ۲۰۱۷ۓء کے تعلیمی سال میں جامعہ ازہر مصر نے جامعہ عارفیہ کو دو مہمان استاذ دیے ،شیخ عبد اللہ البنا جو ایک سال تک تجوید و قرأت کی تعلیم دی اور معاہدے کے مطابق واپس جاچکے جبکہ دوسرےاستاد ڈاکٹر مصباح الیمانی جو ادب و بلاغت کی تعلیم سے طلبہ جامعہ کو آراستہ کر رہے ہیں ۔
جامعہ عارفیہ ایک تحریک ہے جو اپنے طلبہ کے علاوہ ہر شخص کو دینی ، اخلاقی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ کرنا چاہتاہے۔
Leave your comment