اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی معرفت اور پہچان کے لیے حضرت انسان کو دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ابتدائے زمانہ میں لوگ خالص عبادت الٰہی میں مصروف رہاکرتےتھے ۔لیکن مرور ایام کے ساتھ حضرت انسان، خداوند قدوس کے علاوہ کسی اور کی پرستش میں بھی مشغول ہوگئے۔ایسے ہی لوگوں کو ضلالت و گمرہی سے نکالنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ انبیائے کرام کو روئے زمین پر بھیجتا رہا ۔چناںچہ اس دنیا میں کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور رسلان عظام علیہم السلام یکے بعد دیگرے تشریف لاتے رہے ۔سب سے اخیر میں ہمارے پیارےنبی جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس خاک گیتی پر تشریف آوری ہوئی جوسیدالانبیاء اور خداوند قدوس کے محبوب ہیں ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو عظیم الشان کہا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات طیبہ کوپوری انسانی برادری کے لیے نمونۂ عمل قرار دیا ۔ارشاد ربانی ہے: "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ" (احزاب ۔٢١)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونۂ عمل ہے ۔
اس آیت سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل اور اُن سے منسوب ہر واقعہ، عالم انسانیت کےلیے نمونۂ عمل ہے ۔اُن ہی واقعات میں سےایک "معاہدۂ حلف الفضول" کاواقعہ ہے ۔یہ اُس وقت پیش آیا تھا جس وقت کہ آپ نو عمر تھے ۔انصاف کی نظر سے دیکھاجائے تو’’حلف الفضول معاہدہ‘‘ انسانی حقوق ،امن وامان اور سماج و معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لیے تاریخ انسانی کی اہم دستاویز ہے ۔اس معاہدے کی اہمیت و معنویت کا اندازہ اِس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اعلان نبوت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تھا :
شهِدتُ غُلامًا مع عُمومَتي حِلفَ المُطَيَّبينَ، فما أُحِبُّ أنّ لي حُمرَ النَّعَمِ، وأنِّي أنكُثُهُ.. (صحیح ابن حبان ،4373۔مسند احمد :1676)
ترجمہ : میں اپنے چچاؤں کے ساتھ -جب کہ ابھی میں نو عمر تھا- حلف الفضول میں شریک تھا۔ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میں اس معاہدے کو توڑ ڈالوں، اگر چہ مجھے اس کے بدلے میں سرخ اونٹ دیے جائیں ۔
اور ایک دوسری روایت ہے کہ اگر آج بھی اس جیسے معاہدے کی طرف مجھے بلایا جائے تو میں اُسے فوراً قبول کرلوں گا ۔(فتح الباری لابن حجر عسقلانی ۔ضیاء النبی ج 2 ص 123 )
اس معاہدے کے شرائط درج ذیل ہیں :
1 ۔سب متحد ہوکر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریں گے یہاں تک کہ ظالم،مظلوم کو اس کا حق ادا کردے ۔
2۔ملک میں امن و امان قائم کریں گے ۔
3 ۔مسافروں کی حفاظت اور غریبوں کی مدد کریں گے ۔
4۔کسی ظالم یا غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے ۔
اس معاہدے کے متعلق رومانیہ کے وزیر خارجہ ’’کونتانس جیور جیو ‘‘نے اپنی کتاب ’’نظرۃ جدیدۃ فی سیرۃ رسول اللہ ‘‘میں لکھا ہے کہ بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے’’ حلف الفضول‘‘ کے منصوبہ کی تجویز بڑی اہمیت کے حامل ہے۔ اس جدت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام لوگوں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس دلانے میں ایک انقلاب برپا کردیا اوراس تجویزکے ذریعے سارے قبیلے کو ہدف انتقام بنانے کے نظریہ کا قلع قمع کردیا ۔(ضیاء النبی ج ٢ ص ١٢٥ بحوالہ نظرۃ جدیدۃ ،ص ٤٠)
اس معاہدے کے شرائط کو بغور پڑھیں،سمجھیں اور اس پر آشوب دور کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ایک دوسرے کا حق مارنا، ایک دوسرے پر ظلم وجبر کرنا ،حقوق العباد کو پامال کرنا ،رشتےداروں ،ہمسایوں ،غریبوں،مفلسوں اور ضرورت مندوں کے دکھ درد کا نسیاًمنسیاً کرنا ہمارا پیشہ بن چکا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلف الفضول کی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی بے بسی اور کم مائیگی کا ثبوت فراہم کرنا ہماری عادت بن چکی ہے، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ ان سب کو دیکھنے ،سننے اور سمجھنے کے بعد کف لسان اور کف ید کے بجائے دل سے بُرا جان کر (اضعف ایمان ) باعث فخر سمجھنا ہمارا رویہ بن چکا ہے۔
ہم تو عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن ہمارا پڑوسی بھوکا پیاسا سو رہا ہے ، ہم فضول خرچیوں میں مبتلا ہیں لیکن ہمارا بھائی ایک روٹی اور دانے دانے کو ترس رہا ہے ،ہماری اولاد اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکولز اور کالجز کی طرف رخ کر رہی ہے تو دوسرے بھائی کی اولاد ضروری تعلیم کے لیے محتاج اور بے بس نظر آرہی ہے ،اپنی بیٹی کی شادی دھوم دھوم سے کرتے ہیں لیکن دوسری بیٹیاں نارمل شادی کے لیےبھی ترستی ہیں اور سالہا سال گھر میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ ہم ان لوگوں کو حقارت بھری نگاہ سے دیکھ کر لا اُبالی پن اور بے التفاتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔
ہمیں پھر سے ’’حلف الفضول‘‘ کے شرائط اور اُس کے لواحقات کے نفاذ کے لیے کوشاں اور متحد ہونا ہوگا۔جو کہ درج ذیل ہیں:
1۔غریبوں اور ناداروں کی پریشانیوں اور مصائب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا اور ان کی مصیبتوں اور پریشانیوں کو اپنی مصبیت جان کر معاونت کرنا ۔
2۔غریب بچیوں کی شادی کے لیے بھر پور تعاون کرنا ۔
3۔کسی مجبور کا علاج کروانا ۔
4۔لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کےراستے فراہم کرنا نیز اُسے آسان بنانا ۔
5۔ظالموں کے ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا حتی کہ مظلوموں کو اُس کا حق مل جائے ۔
اگر ان سب امور کو بشکل تنظیم اور کمیٹی انجام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے ورنہ انفرادی طور پر انجام دینا نہ صرف ہماری ذمے داری ہے بلکہ ہمارا فرض ہے۔ کل میدان محشر میں اس چیز کے متعلق اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سے پرسش فرمائے گا ۔
خلاصۂ کلام یہ کہ مذکورہ شرائط کا نفاذ دینی ،اسلامی اور ملکی فریضہ ہے ۔ان شرائط کی بنیاد پر انتشار و افتراق کو حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹاکر اتحاد و یگانگت کو فروغ دے سکتے ہیں ۔اس کے ذریعے نہ صرف سماج اور معاشرہ میں امن و امان قائم کرسکتے ہیں بلکہ پورے ملک کو امن و شانتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔یہ ایک ایسی دستاویز ہے جس کی بنیاد پر سیکولرزم کو مضبوط کیا جاسکتا ہے اور ایک نیا انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔
محمد شرافت حسین سعیدی
Leave your comment