کسی بھی مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ مثبت اور منفی۔ اور دونوں کو نظر میں رکھنے کے بعد ہی اس کا درست تجزیہ ہوسکتا ہے۔اسی طرح کسی بھی فیصلے کے بھی دو رخ ہوتے ہیں۔ ایک انصاف اور صداقت کا رخ اور دوسرا امکان اور امن وامان کا رخ۔ دونوں پہلوؤں کا تجزیہ کرتے ہوئے کسی پر ایک پہلو غالب ہوتا ہے تو کسی پر دوسرا۔اسی لیے ایک ہی مسئلے کے تجزیہ میں عموماً ایک سے زائد نقطۂ نظر سامنے آتے ہیں اور ایک سے زائد آرا ہوتے ہوئے بھی بسا اوقات ان میں سے ہر رائے جزوی صداقت اور کلی اخلاص کی حامل ہوتی ہے۔
اس تمہیدی تناظر میں اس تازہ فیصلہ کے اوپر بھی دو جہت سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے اور کیا جابھی رہا ہے۔ اس فیصلے کا ایک رخ یہ ہے کہ یہ بظاہر سرا سر ناانصافی پر مبنی ہے اور اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس فیصلے نے اس عظیم فتنے کو روک دیا جو ہزار وں ہزار مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہا دیتا اور ان کے مال و اسباب اور عزت و آبرو کو تباہ کر دیتا۔یہ الگ بات ہے کہ ہندوستان جیسے دنیا کے عظیم جمہوریہ میں اس قسم کے غیر جمہوری اقدار کو کانگریس کی بےزبانی، دورنگی اور بزدلی اور بی جے پی کی تلخ بیانی، شدت پسندی اور جسارت نے گذشتہ ۷۰؍ سالوں میں پروان چڑھایا ہے۔
اس فیصلے کے بعد مسلمانوں نے جس پر امن ردعمل کا مظاہرہ کیا، وہ بھی تاریخ کا حصہ اور برادران وطن کے حضور خاموش پیغام امن و امان ہے۔ اس رد عمل نے اکثریتی طبقے کے ذہن میں فتح و ظفر اور مسلمانوں کے اندر شکست و ریخت کا وقتی احساس ضرور پیدا کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس واقعے سے مسلمانوں کی مظلومی، ان کی امن دوستی اور احترام عدالت و انسانیت کا جذبہ بھی بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے، جو صلح حدیبیہ کی طرح ظاہری شکست کے باوجود مآل کار کے لحاظ سے ’فتح مبین‘کی نوید جاں فزا ثابت ہوسکتا ہے، اگر مسلمان اپنی اسی دانش ورانہ روش پر قائم رہے اور ردعمل کی جگہ عمل پر یقین رکھا۔ کتاب اللہ اور سیرت پیمبر سے بھی ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ مخالف حالات میں ہمیں جاہلوں کی جہالت سے کلیۃً اعراض کرتے ہوئےاپنے ایمان و عمل کے استحکام پر توجہ دینی چاہیے اور حتی الامکان تصادم کی جگہ تسامح کی پالیسی اپنانی چاہیے ۔
نظری سطح پر چاہے جو کچھ بھی کہا جائے،لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ عملی سطح پر ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا سیاسی اصول ہر زمانے میں نافذ رہا ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ شری رام نے ست یُگ میں شمبوک کا ’بدہ‘ کیا اور خیر القرون میں واقعۂ کربلا پیش آیا۔ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی سے منع کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود جب ہندوستان پر نصایٰ غالب ہو گئے تو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ انگریزوں کی ملازمت کرنا اور ان کی طرف سے قضا قبول کرنا از راہ مصلحت جائز ہے۔ اس میں ان کی غلامی اور ان کے زیر اثر فیصلے کا امکان تو رہے گا لیکن اس کے سبب بہر حال بہت سے نقصانات سے مسلمان محفوظ رہیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ کے انکار کے باوجود امام ابو یوسف نے جو عباسیوں کا قضا قبول کیا تو کہیں نہ کہیں ان کی نظر میں بھی یہی اھون البلیتین کا اصول رہاہوگا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کے فتوے کو وقتی طور پر چاہے جتنے نقد و تبصرہ سے گزرنا پڑا ہو لیکن بالآخر یہی موقف عام مسلمانوں نے اپنالیا، اگرچہ ایک طبقہ ہمیشہ اس فکر کی تردید کرتا رہا جس سے جواز و میلان والا رجحان بھی بڑی حد تک معتدل رہا۔ سرسید کی تعلیمی وثقافتی تحریک کو خصوصیت کے ساتھ اس سیاق میں پیش کیا جاسکتا ہے، جنہیں وقتی طور پر انگریزوںکی غلامی کا طعنہ تو سہنا پڑا ، لیکن تاریخ نے ثابت کیا کہ یہی غلام، مستقبل میں ہندوستانی مسلمانوں کا معمار قرار پایا۔
بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ آزادی اور حقوق کی جو تحریک شروع ہوئی، اس میں انگریزوں کی مخالفت اور ہندؤں کی موافقت کی بات آئی۔ ہندؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جد و جہد کی اس تحریک کو بھی اسی مثبت و منفی تجزیہ سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک طبقہ نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر نصاریٰ تمہارے مذہبی دشمن ہیں تو مشرکین تمہارے مذہبی دوست کب سے ہو گئے؟اور جب دونوں مخالف ہیں تو پھر ان میں سے ایک کے ساتھ مل کر دوسرے کےخلاف لڑنے کا جواز کیا ہے؟ لیکن حالات کے بدلتے دھارے نے رفتہ رفتہ مسلم ذہن کو اس پر راضی کر لیا کہ ہم ہندؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جد و جہد کر سکتے ہیں۔ اس خصوص میں مولانا عبد الباری، مولانا آزاد،مولانا حسرت موہانی اور علی برادران کے نام بطور خاص لیے جاسکتے ہیں۔
اس وقت بھی بطور دلیل ”شر کے مقابل خیر کو اختیار کرنے کی بات“ نہیں تھی بلکہ مسلم اہل دانش کے پیش نظر ”ایک بڑے شر کے بالمقابل ایک چھوٹے شر کو قبول کرنا تھا۔“ پھر دونوں شر میں بڑا شر کیا ہے؟ اس پر بھی مسلمان مختلف الخیال رہے۔ یہی اختلاف متحدہ قومیت اوردوقومی نظریہ کی شکل میں سامنے آیا۔ دوقومی نظریہ کی اساس پر پاکستان کی تشکیل ہوئی اور وہاں مسلمان آج تک اس پر یقین رکھتا ہے، لیکن جو لوگ ہندوستان میں رہ گئے دیر یا سویر انہیں بھی متحدہ قومیت کی معنویت سمجھ میں آنے لگی۔ کانگریس کے جبر و ظلم، دو نظری،نا انصافی اور جانب داری کی طویل داستان کے باوجود رفتہ رفتہ مسلم ذہن نے اھون البلیتین کہہ کر اس کو قبول کر لیا۔ ستر سال سے زائد عرصہ اسی فکر میں گزرا۔ اسی فکر پر ہم نے ہزار تنقید کے باوجود کانگریس کو ووٹ دیا۔ اس سے تعلقات بنائے رکھا۔ اسی فکر نے بی جے پی اور کانگریس کے حوالے سے سوفٹ ہندوتوا اور ہارڈ ہندوتوا کا تصور بنایا اور ہارڈ کے بالمقابل سوفٹ کو ہم نے اھون البلیتین کہا۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد ایک طویل عرصے تک مسلمانوں کو کہیں نہ کہیں یہ امید لگی رہی کہ کانگریس ان کے حقوق کی پاسبانی کرے گی۔ مولانا آزاد نے ہمیشہ اسی بات پر زور دیا اورمسلمانوں کو الگ پارٹی بنانے یا الگ ملک مانگنے کی یہ کہہ کر مخالفت کرتے رہے کہ کانگریس ان کے حقوق کی حفاظت کرے گی،لیکن خود مولانا کو آخر آخر میں کانگریسی لیڈروں کی عصبیت،شدت پسندی اور دونظری کا شکوہ ہونے لگا تھا۔ اسی طرح کانگریسی صدر سونیا گاندھی نے اس وقت مسلمانوں کا رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا کہ ہم کو مسلم ٹیگ کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا ہے۔اس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو اس پالیسی پر عمل کرنا چاہیے جس میں حکمت اور دانائی کے ساتھ خاموش ایکشن ہو، جس کی تائید خود اللہ کے رسول ﷺ کے ارشاد سے ہوتی ہے۔’’حکمت مومن کا گم شدہ سرمایہ ہے۔‘‘
آج جب کہ کانگریس کی بساط بھی سمٹتی جا رہی ہے یا سمٹ چکی ہے، ایسی صورت حال میں ہمارے پاس دوآپشن ہیں۔ اب بھی بی جے پی سے جنگ کی صورت حال علی حالہ بنا ئے رکھا جائے یا دین و ملت کے تحفظ کی نیت سے ان سے تعلقات استوار کیے جائیں اور اچھی نیت اور اچھے مقاصد کے پیش نظر ان سے رابطے بنائے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ جن دلائل کے پیش نظر ہم نے انگریزوں اور کانگریسیوں سے تعلقات کو استوار رکھا، کیا اسی اھون البلیتین کی دلیل کے پیش نظر ’’بی جے پی کی کھلم کھلا دائمی واجتماعی مخالفت‘‘ یا ’’حکمت کے ساتھ ممکنہ استفادہ‘‘ میں سے کسی ایک کو اختیار کرسکتے ہیں؟
یقینی طور پر اس اصول کا انطباق گذشتہ ہر دور میں مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی طرف سے تنقید کا نشانہ رہا، بلکہ شروع میں اکثریت نے اس کو رد کر دیا، لیکن حالات سے مجبور ہو کر رفتہ رفتہ اکثریت نے اسے قبول کر لیا۔ بابری مسجد کے فیصلے پر بھی مسلمانوں کا جو رد عمل سامنے آیا ہے وہ اسی اصول کا عکاس ہے۔تاہم فیصلے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ ان کی اگلی سیاسی و سماجی پالیسی کیا ہوگی؟ شجر ممنوعہ سے قربت اگر اچھی نیت سے ہو تو وقتی طور پر جنت سے نکالا تو دیا جا تا ہے مگر مآل کار عبدیت اور قربت کے اعلیٰ منازل طے ہوتے ہیں اور خدا کے تخلیقی پلان کا نقشہ زمین پر استوار ہوتا ہے۔ نیۃ المومن خیر من عملہ کا فلسفہ بھی اس تناظر میں بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہمارا مسلم تھینک ٹینک یہ دیکھتے ہوئے کہ کانگریس کی بساط لپیٹی جا چکی ہے، یا لپیٹی جارہی ہے، مستقبل میں اپنے باوقار سیاسی اور سماجی زندگی کا لائحہ عمل طے کرے۔بی جے پی، کانگریس، علاقائی پارٹیاں، کمیونسٹ پارٹی، مسلم پارٹی، مسلم-دلت پارٹی، وغیرہ مختلف سیاسی ادارے مسلمانوں کے قیمتی ووٹ کے امیدوار ہیں، ان میں مسلمانوں کے ووٹ کا بہتر مستحق کون ہے؟ یہ سوال مسلم اہل دانش کے سامنے ایک چیلنج ہے۔ اس کے ساتھ اس سے بھی بڑا چیلنج یہ ہے کہ مسلمانوں کو دیگر قوموں کے ساتھ کلی انضمام، ثقافتی امتیاز سے کلی دست برداری، ہندو یا بی جے پی کی ملی واجتماعی مخالفت کے رجحان سے بچایا جائے۔ یہ کام بہت احتیاط، تدبیر اور حکمت بالغہ کا متقاضی ہے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی کا پورا نقشہ ہمیں بتاتا ہے کہ زمین پر سو فیصد عدل کا منظر کبھی نہیں رہاہے۔ اگر رہا ہے تو اس کے زمان و مکان کا دائرہ بہت محدود رہا ہے۔ عملی سطح پر ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ کا اصول ہی نافذ رہا ہے اور خود مسلم حکمراں بھی اس اصول سے مستثنیٰ نہیں رہے ہیں۔ محکوم اور اقلیتی طبقے کے لیے بھی ہمیشہ ان تین میں سے کوئی ایک آپشن ہی قابل عمل رہا ہے:
۔ تسلیم اور انضمام
۲۔ احتجاج اور بغاوت
۳۔ حکمت اور ایکشن
تسلیم اور انضمام، مردہ قوموں کا شعار ہے جو ہمیشہ حاکم طبقے کی ٹھوکروں میں امن وسکون تلاش کرتی رہی ہیں۔
احتجاج اور بغاوت، قومی تباہی اور انفس واموال کی بربادی کا شاخسانہ ہوتا ہے۔
حکمت اور ایکشن زندہ اقوام کا طریقہ ہے جواحتجاج پر اپنی پوری انرجی ضائع نہیں کرتیں اور بغاوت سے بچتے ہوئے ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے اپنی داخلی وخارجی قوتوں کو استحکام بخشتی ہیں۔ مسلمانوں کے یہاں اس کے ساتھ انابت حق اور توجہ الی اللہ مستزاد ہے۔
بابری مسجد کے خلاف آنے والا فیصلہ اور اس پر ظاہر ہونے والا مسلمانوں کا رد عمل بھی مذکورہ بالا اصولوں کا کامل مظہر ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے حق میں جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اس معاملے میں مسلمانوں نے کسی بھی دوسری قوم سے شکست نہیں کھائی ہے، البتہ اپنے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کو غیرمنصفانہ کہتے ہوئے بھی اسے قبول کیا ہے اور اپنے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کو قبول کرنا شکست یا بزدلی نہیں ، بلکہ مدنیت اور امن پسندی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے اس فیصلے کو عدل کے خلاف کہا جانا، یہ ان کی جرأت ہے،لیکن حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ان کا قبول کرنا، ان کی امن دوستی اور احترام عدالت ہے۔ اب ان کا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ حاکم قوم کے خلاف وقت اور بے وقت،احتجاج مسلسل کرتے رہنے کے بجائے اپنے اندر انابت الی اللہ پیدا کریں، ایک دوسرے کو کافر کہہ کر مسلمانوں کی تعداد کو مزید کم کرنے سے بچیں، داخلی سطح پر اپنی بکھری قوتوں کو مجتمع کریں، تعلیم و تجارت اور زبان و ثقافت کے لحاظ سے اپنے آپ کو ثروت مند کریں، حکومت وقت کے خلاف ملی چیخ وپکار کے بجائے مصالحت اور غلامی کے بجائے شراکت کی پالیسی بنائیں۔ دیگر اقوام کے ساتھ انضمام کے بجائے رواداری کا طریقہ اپنائیں۔ گذشتہ ۷۰؍ سالہ تجربات سے دوباتیں صاف ہوگئی ہیں؛ ایک یہ کہ ملک کی کوئی سیاسی پارٹی مسلمانوں کی ملی اور اجتماعی خیر خواہ نہیں ہے اور دوسری یہ کہ اسلام اور مسلمان کے نام پر سیاست خود کشی کے مترادف ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم گذشتہ ستر سالوں میں کسی ایک پارٹی کو بھی مسلم یا مسلم موافق پارٹی بنانے میں مکمل ناکام رہے ہیں، اب ایسے میں ہم پر فرض ہے کہ کم از کم اتنا تو ضرور کریں کہ ہم کسی بھی پارٹی کو کھلم کھلا مسلم دشمن بنانے یا اعلان کرنے کی حماقت نہ کریں، خصوصاً اس پارٹی کو جس کا سورج نصف النہار پر ہے۔یہ بڑے لطیف اور جاں گسل راستے ہیں اور انہی لطیف اور جاں گسل راہوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنا زندہ قوموں کا امتحان ہے۔
Rais Ahmad
Very nice Article
Leave your comment